میرا بہترین افسانہ
عسکری صاحب نے افسانہ نگاروں سے کہاکہ وہ اپنا مختصر حال لکھیں اور بتائیں کہ ان کا بچپن کہاں اورکیسے گزرا،کیا پڑھا لکھا۔
برسوں پہلے محمد حسن عسکری نے اس وقت کے ممتاز افسانہ نگاروں سے پوچھا کہ ان کا بہترین افسانہ کون سا ہے، پھر ان منتخب افسانوں کو ''میرا بہترین افسانہ '' کے عنوان سے ایک کتاب میں مرتب کیا۔ ان افسانہ نگاروں سے ان کے مختصر حالات زندگی بھی لکھوائے، خود اپنا بہترین افسانہ اور اپنے حالات بھی لکھے اور اس مجموعے میں شامل کیے۔
اس کتاب میں جو سنگ میل پبلی کیشنز نے شایع کی ہے چودہ افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اوپندر ناتھ اشک کا افسانہ ''بینگن کا پودا'' اختر اورینوی کا ''انارکلی اور بھول بھلیاں'' اختر حسین رائے پوری کا ''مجھے جانے دو'' چوہدری محمد علی کا ''تیسری جنس'' دیوندر ستیارتھی کا ''کنگ پوش'' راجندر سنگھ بیدی کا ''دس منٹ بارش میں'' رشید جہاں کا ''نئی مصیبتیں'' سعادت حسن منٹوکا ''کالی شلوار'' عصمت شاہد لطیف کا ''تل'' علی حسین حسنی کا ''ہار جیت''غلام عباس کا ''آنندی'' کرشن چندر کا ''جھیل سے پہلے جھیل کے بعد'' ممتاز مفتی کا ''ماتھے کا تل'' اور محمد حسن عسکری کا افسانہ ''حرام جادی''
عسکری صاحب نے افسانہ نگاروں سے کہاکہ وہ اپنا مختصر حال لکھیں اور بتائیں کہ ان کا بچپن کہاں اور کیسے گزرا، کیا پڑھا لکھا، اپنے ادبی سفر کا حال بھی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ انھوں نے جو افسانہ منتخب کیا ہے وہ اسے اپنا بہترین افسانہ کیوں سمجھتے ہیں۔ افسانہ نگاروں نے ان کے یہ مطالبے بھی پورے کیے۔
اوپندر ناتھ اشک نے لکھا ''نثرکی بجائے شروع شروع میں مجھے نظم کا زیادہ شوق تھا، بچپن میں دادا سے سنی ہوئی کہانیوں کو میں نے نثر میں بند کرنے کی کوشش کی، آرسین لوپن کے قصے پڑھ کر ایک جاسوسی ناول بھی لکھا لیکن میرا زیادہ وقت پشتانچلی کی طرز بھجن بنانے یا پنجابی کے بیت بنانے میں گزرتا تھا۔ کالج تک جاتے جاتے اردو شاعری کا شوق خبط کی حد تک پہنچ گیا۔ لکھنے کا اتنا شوق تھا کہ دن میں دو دو تین تین غزلیں ہوجاتیں لیکن میرا ہی شوق شاید مجھے نظم چھوڑکر نثر کی طرف شدت سے مائل کرنے کا سبب ہوا''
اختر اورینوی لکھتے ہیں ''منتخب افسانہ پسند کرنے کی وجہ دل کے بس کی بات نہیں، لیکن پاسبان عقل سے یہ کام سرانجام پاسکتا ہے پھر بھی دل پر گزرجاتی ہے۔ فن عمر کے تجربے کے ساتھ پختہ ہوجاتا ہے۔ پر ابھی میں اس منزل تک پہنچا کہاں، میرے ابتدائی افسانے اپنے دور کے نمایندے ہیں۔ میں نے ابتدا میں بھی جذبی اور ذہنی زندگی کے دونوں پہلوؤں کو منعکس کرنے کی سعی کی ہے۔ ''انارکلی اور بھول بھلیاں'' بھی کلید محراب کی ایک اینٹ ہے، یہ میرا اب تک کا آخری افسانہ ہے اور مجھے بہت عزیز ہے، میرے کئی افسانے ایسے ہیں جن میں خود میں بھی چھپا بیٹھا ہوں اور میرے دوستوں کے نزدیک میں نے ان افسانوں میں خود اپنی رسوائی کی ہے۔''
چوہدری محمد علی لکھتے ہیں ''شبلی نعمانی کی پیروی میں نثر میں فارسی ترکیبیں استعمال کیں، ٹھوکریں کھائیں، پھر یہ کوشش کی کہ جو بولا جائے وہی لکھا جائے، اسی سے زبان ترقی کرے گی۔ میں اپنا مختصر افسانہ ''تیسری جنس'' بہترین کوشش سمجھتاہوں، موضوع عام راہ سے کچھ علیحدہ ہے اور ادبی دنیا کے ایڈیٹر نے بہت تعریفیں لکھی ہیں۔ دوسرے حضرات نے بھی مجھ سے اس کی تعریف کی ہے، میں نے دو شادیاں کیں اور بہت سی کرنے کی آرزو رہ گئی۔''
دیوندر ستیارتھی نے لکھا ''اپنے حالات کیسے لکھوںگا ''کنگ پوش'' افسانہ دے رہاہوں تو حالات کی ضرورت ہی نہ پڑے گی کیونکہ یہ میری آپ بیتی کا ایک جیتا جاگتا ورق ہے۔''
راجندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں ''مجھ میں جو اپنی ذات کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اس کے تمام تر قصور وار آپ ہی ہیں یہ جان کر ہمارے جیتے جی ہماری زندگی کے حالات پوچھے جارہے ہیں اپنی عظمت کا تعین ہونے لگتا ہے، میں نے انگریزی اور پنجابی میں لکھنا شروع کیا لیکن اپنے پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع کرنے کی غرض سے اردو میں لکھنے لگا۔ میں انقلاب و تبدیلی کو زندگی کا قانون سمجھتاہوں، طبیعت بھی تکون ہے۔ افسانہ ''دس منٹ بارش میں'' مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں طبقاتی کش مکش اور سرمایہ دار کی ہوس رانی اور غریب کی بے چارگی اور بے بسی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے''
رشید جہاں نے اس سوال کا کہ انھیں اپنا افسانہ ''نئی مصیبتیں'' کیوں پسند ہے یہ جواب دیا کہ ''معلوم نہیں، ایک ماں کو سب بچے یکساں پیارے نہیں ہوتے اسی طرح ایک مصنف کو بعض چیزیں زیادہ اچھی لگتی ہیں'' وہ لکھتی ہیں ''لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری پاس کی اور غالباً میری آیندہ کی زندگی اسی ڈاکٹری کی وجہ سے ایسی ہے۔ میری طبیعت میں کھوج ہمیشہ سے ہے اس سائنس نے جستجو کو اور بڑھا دیا۔ 1932ء میں پہلی بار سمجھ میں آیا کہ ہندوستان کے لیے کمیونزم ہی ایک نجات کا راستہ ہے اور اسی سال میری سجاد ظہیر سے ملاقات ہوئی''
سعادت حسن منٹو کا اپنے افسانہ ''کالی شلوار'' کے بارے میں سوال کا جواب یہ ہے ''یہ خاص افسانہ پسند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسے پسند نہیں کیا بلکہ خود مرتب نے کیا ہے۔ میرے تشخص اور میرے ادب کے تشکیلی اثرات میں صرف ایک چیز کار فرما ہے۔ وہ گالی جو کبھی سلیقے سے نہیں دی گئی۔''
عصمت شاہد لطیف لکھتی ہیں ''بھائی میرے حالات زندگی قطعی اس قابل نہیں کہ فخریہ بتائے جائیں۔ بچپن بھرے گھر میں پٹتے پٹاتے گزرا، تعلیم نہایت بے ڈھنگے طریقے سے ہوئی استاد ہمیشہ مکدر خاطر رہے، علی گڑھ اور لکھنو میں تعلیم مکمل کی سب سے پہلے مضمون بچپن میں لکھا تھا جو تہذیب نسواں کو بھیجا۔''
اس سوال کے جواب میں کہ ان کا بہترین افسانہ کون سا ہے، عصمت کہتی ہیں ''یہ سوال ذرا ٹیڑھا ہے۔ جیسے دیکھتی ہوں جی چاہتا ہے کلیجے سے لگالوں۔ آخر یہ کالے، نیلے، پیلے سب میرے ہی دماغ کے ٹکڑے ہیں نا۔ پھر میرا تو دل نہیں چاہتا ان میں سے کسی ایک کو چن لوں اور دوسروں کو دھکیل دوں۔ مگر خیر لوگ تو اپنی اولاد کے ساتھ اونچ نیچ کرتے ہیں، یہ تو کاغذی غبارے ہیں۔ تو مجھے یہ آپ کے پیش نظر کہانی تل زیادہ پسند ہے۔''
علی عباس حسینی لکھتے ہیں ''میں آرٹسٹ کا کام مصوری اور دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھ دینا سمجھتاہوں، نظریات کا پرچار مبلغ کا کام ہے۔ مجھے ہار جیت اس لیے پسند ہے کہ وہ میری تصنیف ہے، میرے ہی دماغ کی کاوش و تخلیق ہے وہ مجھے ایسی فضا یاد دلاتی ہے جس میں میرا بچپن گزرا ہے''
غلام عباس لکھتے ہیں ''افسانہ 'انندی'' پسند کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کی تکنیک عام افسانوں سے مختلف ہے یعنی اس میں ایک دو یا چند کرداروں کی کردار نگاری نہیں کی گئی ہے بلکہ شہر کے شہر کو اپنی پوری دلچسپیوں اور گہما گہمیوں کے ساتھ عدم سے وجود میں آتے اور بتدریج رستا بستا دکھایا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں طنز کے پیرائے میں زندگی کا ایک فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔
کرشن چندر نے اپنے حالات یوں لکھے ہیں ''1937 تک انگریزی میں ادبی معاشی مسائل پر مضامین لکھے۔ 1936ء سے اردو میں لکھنا شروع کیا،1942ء میں ترقی پسند مصنفین کی نمایندہ کتاب ''نئے زاویے'' مرتب کا پہلا ناول شکست 1943ء میں شایع ہوا۔
ممتاز مفتی لکھتے ہیں ''ن۔ م راشد نے مجھے لکھنے پر مائل کیا۔ 1936ء میں میری پہلی کہانی ''جھکی جھکی آنکھیں'' کے عنوان سے ادبی دنیا میں چھپی اور پسند کی گئی، میرا مصنف ہونے کا جواز یا بہانہ صرف یہ ہے کہ میں نفس غیر شاعر کے رجحانات پر لکھتاہوں اگرچہ آج تک زیادہ تر میری وہ کہانیاں پسند کی گئی ہیں جو میرے موضوع سے ہٹ کر ہیں۔ ''ماتھے کا تل'' کے چناؤ کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ کہانی میرے موضوع نفس شاعر سے تعلق رکھتا ہے۔''
آخر میں محمد حسن عسکری اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محمد حسن عسکری کون ہے، لیکن جس بدن کو لوگ محمد حسن عسکری کہتے ہیں اس میں ہر انسانی جسم کی طرح ایک آدمی نہیں بلکہ کئی ہیں جو اپنے رجحانات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ میں نے ''حرام جادی'' کا انتخاب اس وجہ سے کیا ہے کہ اور افسانوں میں تو سارے کے سارے کردار ایک دوسرے سے کھینچ تان میں رہتے تھے مگر نسبتاً یہاں ان کی زیادہ تعداد کو میں نے افیون دے کر سلا دیا تھا۔''
اس کتاب میں جو سنگ میل پبلی کیشنز نے شایع کی ہے چودہ افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں۔ اوپندر ناتھ اشک کا افسانہ ''بینگن کا پودا'' اختر اورینوی کا ''انارکلی اور بھول بھلیاں'' اختر حسین رائے پوری کا ''مجھے جانے دو'' چوہدری محمد علی کا ''تیسری جنس'' دیوندر ستیارتھی کا ''کنگ پوش'' راجندر سنگھ بیدی کا ''دس منٹ بارش میں'' رشید جہاں کا ''نئی مصیبتیں'' سعادت حسن منٹوکا ''کالی شلوار'' عصمت شاہد لطیف کا ''تل'' علی حسین حسنی کا ''ہار جیت''غلام عباس کا ''آنندی'' کرشن چندر کا ''جھیل سے پہلے جھیل کے بعد'' ممتاز مفتی کا ''ماتھے کا تل'' اور محمد حسن عسکری کا افسانہ ''حرام جادی''
عسکری صاحب نے افسانہ نگاروں سے کہاکہ وہ اپنا مختصر حال لکھیں اور بتائیں کہ ان کا بچپن کہاں اور کیسے گزرا، کیا پڑھا لکھا، اپنے ادبی سفر کا حال بھی بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ انھوں نے جو افسانہ منتخب کیا ہے وہ اسے اپنا بہترین افسانہ کیوں سمجھتے ہیں۔ افسانہ نگاروں نے ان کے یہ مطالبے بھی پورے کیے۔
اوپندر ناتھ اشک نے لکھا ''نثرکی بجائے شروع شروع میں مجھے نظم کا زیادہ شوق تھا، بچپن میں دادا سے سنی ہوئی کہانیوں کو میں نے نثر میں بند کرنے کی کوشش کی، آرسین لوپن کے قصے پڑھ کر ایک جاسوسی ناول بھی لکھا لیکن میرا زیادہ وقت پشتانچلی کی طرز بھجن بنانے یا پنجابی کے بیت بنانے میں گزرتا تھا۔ کالج تک جاتے جاتے اردو شاعری کا شوق خبط کی حد تک پہنچ گیا۔ لکھنے کا اتنا شوق تھا کہ دن میں دو دو تین تین غزلیں ہوجاتیں لیکن میرا ہی شوق شاید مجھے نظم چھوڑکر نثر کی طرف شدت سے مائل کرنے کا سبب ہوا''
اختر اورینوی لکھتے ہیں ''منتخب افسانہ پسند کرنے کی وجہ دل کے بس کی بات نہیں، لیکن پاسبان عقل سے یہ کام سرانجام پاسکتا ہے پھر بھی دل پر گزرجاتی ہے۔ فن عمر کے تجربے کے ساتھ پختہ ہوجاتا ہے۔ پر ابھی میں اس منزل تک پہنچا کہاں، میرے ابتدائی افسانے اپنے دور کے نمایندے ہیں۔ میں نے ابتدا میں بھی جذبی اور ذہنی زندگی کے دونوں پہلوؤں کو منعکس کرنے کی سعی کی ہے۔ ''انارکلی اور بھول بھلیاں'' بھی کلید محراب کی ایک اینٹ ہے، یہ میرا اب تک کا آخری افسانہ ہے اور مجھے بہت عزیز ہے، میرے کئی افسانے ایسے ہیں جن میں خود میں بھی چھپا بیٹھا ہوں اور میرے دوستوں کے نزدیک میں نے ان افسانوں میں خود اپنی رسوائی کی ہے۔''
چوہدری محمد علی لکھتے ہیں ''شبلی نعمانی کی پیروی میں نثر میں فارسی ترکیبیں استعمال کیں، ٹھوکریں کھائیں، پھر یہ کوشش کی کہ جو بولا جائے وہی لکھا جائے، اسی سے زبان ترقی کرے گی۔ میں اپنا مختصر افسانہ ''تیسری جنس'' بہترین کوشش سمجھتاہوں، موضوع عام راہ سے کچھ علیحدہ ہے اور ادبی دنیا کے ایڈیٹر نے بہت تعریفیں لکھی ہیں۔ دوسرے حضرات نے بھی مجھ سے اس کی تعریف کی ہے، میں نے دو شادیاں کیں اور بہت سی کرنے کی آرزو رہ گئی۔''
دیوندر ستیارتھی نے لکھا ''اپنے حالات کیسے لکھوںگا ''کنگ پوش'' افسانہ دے رہاہوں تو حالات کی ضرورت ہی نہ پڑے گی کیونکہ یہ میری آپ بیتی کا ایک جیتا جاگتا ورق ہے۔''
راجندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں ''مجھ میں جو اپنی ذات کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں اس کے تمام تر قصور وار آپ ہی ہیں یہ جان کر ہمارے جیتے جی ہماری زندگی کے حالات پوچھے جارہے ہیں اپنی عظمت کا تعین ہونے لگتا ہے، میں نے انگریزی اور پنجابی میں لکھنا شروع کیا لیکن اپنے پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع کرنے کی غرض سے اردو میں لکھنے لگا۔ میں انقلاب و تبدیلی کو زندگی کا قانون سمجھتاہوں، طبیعت بھی تکون ہے۔ افسانہ ''دس منٹ بارش میں'' مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں طبقاتی کش مکش اور سرمایہ دار کی ہوس رانی اور غریب کی بے چارگی اور بے بسی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے''
رشید جہاں نے اس سوال کا کہ انھیں اپنا افسانہ ''نئی مصیبتیں'' کیوں پسند ہے یہ جواب دیا کہ ''معلوم نہیں، ایک ماں کو سب بچے یکساں پیارے نہیں ہوتے اسی طرح ایک مصنف کو بعض چیزیں زیادہ اچھی لگتی ہیں'' وہ لکھتی ہیں ''لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج سے ڈاکٹری پاس کی اور غالباً میری آیندہ کی زندگی اسی ڈاکٹری کی وجہ سے ایسی ہے۔ میری طبیعت میں کھوج ہمیشہ سے ہے اس سائنس نے جستجو کو اور بڑھا دیا۔ 1932ء میں پہلی بار سمجھ میں آیا کہ ہندوستان کے لیے کمیونزم ہی ایک نجات کا راستہ ہے اور اسی سال میری سجاد ظہیر سے ملاقات ہوئی''
سعادت حسن منٹو کا اپنے افسانہ ''کالی شلوار'' کے بارے میں سوال کا جواب یہ ہے ''یہ خاص افسانہ پسند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسے پسند نہیں کیا بلکہ خود مرتب نے کیا ہے۔ میرے تشخص اور میرے ادب کے تشکیلی اثرات میں صرف ایک چیز کار فرما ہے۔ وہ گالی جو کبھی سلیقے سے نہیں دی گئی۔''
عصمت شاہد لطیف لکھتی ہیں ''بھائی میرے حالات زندگی قطعی اس قابل نہیں کہ فخریہ بتائے جائیں۔ بچپن بھرے گھر میں پٹتے پٹاتے گزرا، تعلیم نہایت بے ڈھنگے طریقے سے ہوئی استاد ہمیشہ مکدر خاطر رہے، علی گڑھ اور لکھنو میں تعلیم مکمل کی سب سے پہلے مضمون بچپن میں لکھا تھا جو تہذیب نسواں کو بھیجا۔''
اس سوال کے جواب میں کہ ان کا بہترین افسانہ کون سا ہے، عصمت کہتی ہیں ''یہ سوال ذرا ٹیڑھا ہے۔ جیسے دیکھتی ہوں جی چاہتا ہے کلیجے سے لگالوں۔ آخر یہ کالے، نیلے، پیلے سب میرے ہی دماغ کے ٹکڑے ہیں نا۔ پھر میرا تو دل نہیں چاہتا ان میں سے کسی ایک کو چن لوں اور دوسروں کو دھکیل دوں۔ مگر خیر لوگ تو اپنی اولاد کے ساتھ اونچ نیچ کرتے ہیں، یہ تو کاغذی غبارے ہیں۔ تو مجھے یہ آپ کے پیش نظر کہانی تل زیادہ پسند ہے۔''
علی عباس حسینی لکھتے ہیں ''میں آرٹسٹ کا کام مصوری اور دکھتی رگوں پر انگلیاں رکھ دینا سمجھتاہوں، نظریات کا پرچار مبلغ کا کام ہے۔ مجھے ہار جیت اس لیے پسند ہے کہ وہ میری تصنیف ہے، میرے ہی دماغ کی کاوش و تخلیق ہے وہ مجھے ایسی فضا یاد دلاتی ہے جس میں میرا بچپن گزرا ہے''
غلام عباس لکھتے ہیں ''افسانہ 'انندی'' پسند کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس کی تکنیک عام افسانوں سے مختلف ہے یعنی اس میں ایک دو یا چند کرداروں کی کردار نگاری نہیں کی گئی ہے بلکہ شہر کے شہر کو اپنی پوری دلچسپیوں اور گہما گہمیوں کے ساتھ عدم سے وجود میں آتے اور بتدریج رستا بستا دکھایا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں طنز کے پیرائے میں زندگی کا ایک فلسفہ پیش کیا گیا ہے۔
کرشن چندر نے اپنے حالات یوں لکھے ہیں ''1937 تک انگریزی میں ادبی معاشی مسائل پر مضامین لکھے۔ 1936ء سے اردو میں لکھنا شروع کیا،1942ء میں ترقی پسند مصنفین کی نمایندہ کتاب ''نئے زاویے'' مرتب کا پہلا ناول شکست 1943ء میں شایع ہوا۔
ممتاز مفتی لکھتے ہیں ''ن۔ م راشد نے مجھے لکھنے پر مائل کیا۔ 1936ء میں میری پہلی کہانی ''جھکی جھکی آنکھیں'' کے عنوان سے ادبی دنیا میں چھپی اور پسند کی گئی، میرا مصنف ہونے کا جواز یا بہانہ صرف یہ ہے کہ میں نفس غیر شاعر کے رجحانات پر لکھتاہوں اگرچہ آج تک زیادہ تر میری وہ کہانیاں پسند کی گئی ہیں جو میرے موضوع سے ہٹ کر ہیں۔ ''ماتھے کا تل'' کے چناؤ کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ کہانی میرے موضوع نفس شاعر سے تعلق رکھتا ہے۔''
آخر میں محمد حسن عسکری اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ''پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ محمد حسن عسکری کون ہے، لیکن جس بدن کو لوگ محمد حسن عسکری کہتے ہیں اس میں ہر انسانی جسم کی طرح ایک آدمی نہیں بلکہ کئی ہیں جو اپنے رجحانات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ میں نے ''حرام جادی'' کا انتخاب اس وجہ سے کیا ہے کہ اور افسانوں میں تو سارے کے سارے کردار ایک دوسرے سے کھینچ تان میں رہتے تھے مگر نسبتاً یہاں ان کی زیادہ تعداد کو میں نے افیون دے کر سلا دیا تھا۔''