شفاف انتخابات کی خاطر
انتخابات ایک ریاست کا نظام درست چلانے کے لیے سب سے مقدس عمل ہے۔
2018ء کے انتخابات شفاف ہونے چاہئیں۔ اس بات پر تمام ریاستی ستون اور تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ میڈیا پر دباؤ اور بعض اداروں کی سرگرمیوں سے عوام کے ذہنوں میں شک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سیاسی تنظیموں کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر انتخابی عمل میں حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔ 25 جولائی کے انتخابات میں دنوں کا فاصلہ رہ گیا ہے۔
آئین پاکستان کے تحت عبوری حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں بڑے پیمانے پر تطہیرکا عمل مکمل اور ضلع کی سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تبدیل ہوگئے ۔ پولیس کے نظام میں تھانے کے ایس ایچ او تک تبدیل کر دیے گئے۔ حتیٰ کہ سول خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی تبدیل ہوئے مگر قومی احتساب بیوروکی کارروائیاں جاری ہیں ۔
نیب نے مسلم لیگ ن کے راولپنڈی سے امیدوار قمر السلام کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ دیا، پھر وہ اچانک گرفتارکر لیے گئے۔ ایسی ہی صورتحال کئی اور رہنماؤں کے ساتھ ہوئی ۔ بعض امیدواروں کو بار بار احتساب بیورو میں بلایا جارہا ہے، یوں ایسا تاثر قائم ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ 25 جولائی کے لیے ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ عسکری قوتوں سے حرارت حاصل کرنے والے بعض تجزیہ نگار بھی یہی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے ۔
جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں عام انتخابات کا فیصلہ کیا تو ملک میں شہری آزادیوں پر پابندیاں تھیں ۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ نیپ کے رہنماؤں ولی خان ، غوث بخش بزنجو ، سردار خیربخش مری اور عطاء اﷲ مینگل کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ حیدرآباد سازش کیس میں نظر بند تھے۔ مسلم لیگ کے چوہدری ظہور الٰہی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما اورکارکن مختلف جیلوں میں بند تھے۔
اخبارات پریس ایڈوائس کا شکار تھے، یوں پاکستان قومی اتحاد والوں نے انتخابات کے شفاف ہونے کا سوال اٹھایا۔ پھر اس ماحول میں انتخابات ہوئے اور پی این اے نے احتجاجی تحریک شروع کردی۔ اگرچہ پی این اے کی انتخابی دھاندلیوں کی شکایت صرف چند حلقوں کے لیے تھی مگر تاثر یہ پھیلا کہ سب کچھ دھاندلی سے طے ہوا ہے، یوں جنرل ضیاء الحق کو انتخابات کو منسوخ کرنے اور مارشل لاء نافذ کرنے کا جواز مل گیا۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دباؤ پر جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات منعقد کرائے تو بے نظیر بھٹو سمیت ایم آر ڈی کی ساری قیادت ملک کے مختلف جیلوں میں نظربند تھی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں موجود تھے۔ پولیس ایم آر ڈی میں شامل جماعت کے کارکنوں کو فوری طور پر گرفتار کررہی تھی، یوں ان مخدوش حالات میں انتخابات ہوئے۔ پہلی دفعہ برادری کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں نام نہاد الیکٹ ایبل (Electable) کا طبقہ وجود میں آیا۔
1992ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے اوران کے قریبی ساتھیوں کوگرفتارکر کے انتخابات منعقد ہوئے اور انتخابات کے نتائج مشکوک رہے۔ یہی صورتحال 2002ء کے انتخابات میں ہوئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں انتخابات کا انعقاد کیا تو ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو ملک میں آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔
جنرل مشرف کو اس اسمبلی میں اپنی پسند کے وزیراعظم کو منتخب کرانے کے لیے پیپلزپارٹی کے ایک دھڑے کو الگ کرنا پڑا اور دیگر جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کرائی۔ اس وقت بھی یہ الزامات لگائے گئے کہ احتساب کا وفاقی ادارہ اس پولیٹیکل انجنیئرنگ کے پس منظر میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے۔
2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کو سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن نے قبول نہیں کیا، مگر سابق صدر آصف زرداری کی یہ بات صد فی صد درست ہے کہ حکیم اﷲ کی قیادت میں طالبان کی دہشت گردی کی کارروائیوں نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بہت سے کارکن اس دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ حتیٰ کہ متحدہ قومی موومنٹ بھی اس دہشت گردی کی زد میں آئیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک خودکش حملے میں بال بال بچ گئے۔ صرف نواز شریف،عمران خان اور جماعت اسلامی کو آزادی سے ووٹروں سے رابطے کے مواقعے ملے تھے۔
2010ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے 18ویں ترمیم کے مسودے پرکام کا آغاز کیا تو رضا ربانی اور اسحاق ڈارکی کوششوں سے پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں بھی اس مسودے کی تیاری میں شریک ہوئیں تو صوبائی خود مختاری کے مسئلے کے علاوہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر بھی غور ہوا۔ عبوری حکومتوں اورخود مختار الیکشن کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے ہوا۔
اس ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور کمیشن کے اراکین کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے مشروط ہوا۔ اسی طرح وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار بھی طے ہوا۔ پہلی دفعہ الیکشن کمیشن کو لامتناعی اختیارات حاصل ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ انتخابات سے ایک ماہ قبل پورے ملک میں ملازمتوں پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح تبادلے اور تقرریوں کے معاملات بھی کمیشن کی اجازت سے مشروط ہوئے۔
گزشتہ دنوں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے تبادلوں کے فیصلوں کی توثیق الیکشن کمیشن نے کی تھی مگر قومی احتساب بیورو کو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا۔ اب احتساب بیوروکی تحقیقات کا طریقہ کار ملک کی دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں سے مختلف ہے۔ بیورو میں آنے والی شکایات کی کئی مراحل پر جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ پہلے کسی شکایت پر اندرونی طور پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ نیب کے افسران اس شکایت کی تصدیق کو جانچنے کے لیے دستاویزی ثبوت حاصل کرتے ہیں۔
متعلقہ افراد سے ان کا مؤقف معلوم کیا جاتا ہے، اس معاملے پر سفارشات بیورو کے بورڈ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ بورڈ کے اراکین جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شمار ہوتے ہیں ان دستاویزات کا عرق ریزی سے جائزہ لیتے ہیں اور تحقیقاتی افسروں سے مختلف نوعیت کے سوالات کیے جاتے ہیں ۔ ان تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد بورڈ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ کرتا ہے۔
متعلقہ افسران ملوث افراد کو طلب کرتے ہیں۔ ان کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، اگر جوابات غیر واضح ہوں تو پھر مقدمہ قائم کرنے اور گرفتاری کا فیصلہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات 6ماہ سے ایک ایک سال ان تمام مراحل میں گزرجاتا ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اس پورے طریقہ کار کو بہتر کیا ہے اور اب شکایات کو فوری طور پر نمٹایا جارہا ہے مگر اس کے ساتھ ایک نئی صورتحال بھی ظاہر ہورہی ہے۔
نیب نے سندھ میں جب وزراء اور افسروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے تھے ان میں کچھ گرفتار ہوئے۔ سندھ حکومت کے اس وقت کے چیف سیکریٹری سمیت دیگر سیکریٹریوں کو عدالتوں سے ضمانتیں کرانی پڑی تھیں۔ کچھ افسران کو موقع ملا اور وہ ملک سے فرار ہوگئے تھے مگر اب یہ افسران اپنے عہدوں پر واپس آرہے ہیں۔ کچھ عدالتوں نے ان کی ضمانتوں کی توثیق کردی ہے۔
کچھ کے تو اخبارات میں بیانات شایع ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف نیب کے اقدامات قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تھے اور انھوں نے اپنے ادارے کی ترقی کے لیے دن رات ایک کردیے تھے۔ انھیں محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ملک میں سیاسی بنیادوں پر احتساب کی روایت بہت پرانی ہے۔ یہ روایت سندھ کے پریمیئر ایوب کھوڑو، بنگال کے حسین شہید سہروردی سے شروع ہوئی اور بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور میاں نواز شریف تک پہنچی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے احتساب کے پیچھے دیگر مقاصد تھے۔
انتخابات ایک ریاست کا نظام درست چلانے کے لیے سب سے مقدس عمل ہے۔ انتخابات کی شفافیت سے متوقع حکومت کی اتھارٹی کا تعین ہوتا ہے۔ اگر ماضی کی طرح عوام محسوس کرے کہ ریاستی ادارے کسی بھی طرح انتخابی عمل میں مداخلت کررہے ہیں تو ان کا پورے عمل پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ نگراں وزیر اعظم شفاف انتخابات کے امین ہیں۔ انھیں نیب کے چیئرمین کو یہ باور کرانا چاہیے کہ کسی بھی امیدوارکے خلاف نیب تحقیقات ضرور مکمل کرے مگرگرفتاری کا معاملہ 25 جولائی تک مؤخر کیا جائے۔ نیب 26 جولائی سے ہر اس شخص کوگرفتارکرلے جس نے اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور غیر قانونی اثاثے بنائے ہیں۔
آئین پاکستان کے تحت عبوری حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں بڑے پیمانے پر تطہیرکا عمل مکمل اور ضلع کی سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تبدیل ہوگئے ۔ پولیس کے نظام میں تھانے کے ایس ایچ او تک تبدیل کر دیے گئے۔ حتیٰ کہ سول خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی تبدیل ہوئے مگر قومی احتساب بیوروکی کارروائیاں جاری ہیں ۔
نیب نے مسلم لیگ ن کے راولپنڈی سے امیدوار قمر السلام کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ دیا، پھر وہ اچانک گرفتارکر لیے گئے۔ ایسی ہی صورتحال کئی اور رہنماؤں کے ساتھ ہوئی ۔ بعض امیدواروں کو بار بار احتساب بیورو میں بلایا جارہا ہے، یوں ایسا تاثر قائم ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ 25 جولائی کے لیے ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ عسکری قوتوں سے حرارت حاصل کرنے والے بعض تجزیہ نگار بھی یہی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے ۔
جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں عام انتخابات کا فیصلہ کیا تو ملک میں شہری آزادیوں پر پابندیاں تھیں ۔ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ نیپ کے رہنماؤں ولی خان ، غوث بخش بزنجو ، سردار خیربخش مری اور عطاء اﷲ مینگل کے علاوہ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ حیدرآباد سازش کیس میں نظر بند تھے۔ مسلم لیگ کے چوہدری ظہور الٰہی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما اورکارکن مختلف جیلوں میں بند تھے۔
اخبارات پریس ایڈوائس کا شکار تھے، یوں پاکستان قومی اتحاد والوں نے انتخابات کے شفاف ہونے کا سوال اٹھایا۔ پھر اس ماحول میں انتخابات ہوئے اور پی این اے نے احتجاجی تحریک شروع کردی۔ اگرچہ پی این اے کی انتخابی دھاندلیوں کی شکایت صرف چند حلقوں کے لیے تھی مگر تاثر یہ پھیلا کہ سب کچھ دھاندلی سے طے ہوا ہے، یوں جنرل ضیاء الحق کو انتخابات کو منسوخ کرنے اور مارشل لاء نافذ کرنے کا جواز مل گیا۔
ایم آر ڈی کی تحریک کے دباؤ پر جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات منعقد کرائے تو بے نظیر بھٹو سمیت ایم آر ڈی کی ساری قیادت ملک کے مختلف جیلوں میں نظربند تھی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں موجود تھے۔ پولیس ایم آر ڈی میں شامل جماعت کے کارکنوں کو فوری طور پر گرفتار کررہی تھی، یوں ان مخدوش حالات میں انتخابات ہوئے۔ پہلی دفعہ برادری کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں نام نہاد الیکٹ ایبل (Electable) کا طبقہ وجود میں آیا۔
1992ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے اوران کے قریبی ساتھیوں کوگرفتارکر کے انتخابات منعقد ہوئے اور انتخابات کے نتائج مشکوک رہے۔ یہی صورتحال 2002ء کے انتخابات میں ہوئی۔ جب جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں انتخابات کا انعقاد کیا تو ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو ملک میں آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی۔
جنرل مشرف کو اس اسمبلی میں اپنی پسند کے وزیراعظم کو منتخب کرانے کے لیے پیپلزپارٹی کے ایک دھڑے کو الگ کرنا پڑا اور دیگر جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کرائی۔ اس وقت بھی یہ الزامات لگائے گئے کہ احتساب کا وفاقی ادارہ اس پولیٹیکل انجنیئرنگ کے پس منظر میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے۔
2013ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کو سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن نے قبول نہیں کیا، مگر سابق صدر آصف زرداری کی یہ بات صد فی صد درست ہے کہ حکیم اﷲ کی قیادت میں طالبان کی دہشت گردی کی کارروائیوں نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے بہت سے کارکن اس دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ حتیٰ کہ متحدہ قومی موومنٹ بھی اس دہشت گردی کی زد میں آئیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک خودکش حملے میں بال بال بچ گئے۔ صرف نواز شریف،عمران خان اور جماعت اسلامی کو آزادی سے ووٹروں سے رابطے کے مواقعے ملے تھے۔
2010ء میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرتے ہوئے 18ویں ترمیم کے مسودے پرکام کا آغاز کیا تو رضا ربانی اور اسحاق ڈارکی کوششوں سے پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں بھی اس مسودے کی تیاری میں شریک ہوئیں تو صوبائی خود مختاری کے مسئلے کے علاوہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر بھی غور ہوا۔ عبوری حکومتوں اورخود مختار الیکشن کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے ہوا۔
اس ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے سربراہ اور کمیشن کے اراکین کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے مشروط ہوا۔ اسی طرح وفاق اور صوبوں میں عبوری حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار بھی طے ہوا۔ پہلی دفعہ الیکشن کمیشن کو لامتناعی اختیارات حاصل ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے پہلی دفعہ انتخابات سے ایک ماہ قبل پورے ملک میں ملازمتوں پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح تبادلے اور تقرریوں کے معاملات بھی کمیشن کی اجازت سے مشروط ہوئے۔
گزشتہ دنوں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے تبادلوں کے فیصلوں کی توثیق الیکشن کمیشن نے کی تھی مگر قومی احتساب بیورو کو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا۔ اب احتساب بیوروکی تحقیقات کا طریقہ کار ملک کی دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں سے مختلف ہے۔ بیورو میں آنے والی شکایات کی کئی مراحل پر جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ پہلے کسی شکایت پر اندرونی طور پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ نیب کے افسران اس شکایت کی تصدیق کو جانچنے کے لیے دستاویزی ثبوت حاصل کرتے ہیں۔
متعلقہ افراد سے ان کا مؤقف معلوم کیا جاتا ہے، اس معاملے پر سفارشات بیورو کے بورڈ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ بورڈ کے اراکین جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین شمار ہوتے ہیں ان دستاویزات کا عرق ریزی سے جائزہ لیتے ہیں اور تحقیقاتی افسروں سے مختلف نوعیت کے سوالات کیے جاتے ہیں ۔ ان تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد بورڈ اس معاملے میں ملوث افراد کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ کرتا ہے۔
متعلقہ افسران ملوث افراد کو طلب کرتے ہیں۔ ان کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، اگر جوابات غیر واضح ہوں تو پھر مقدمہ قائم کرنے اور گرفتاری کا فیصلہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ ایک طویل عمل ہوتا ہے۔ بعض اوقات 6ماہ سے ایک ایک سال ان تمام مراحل میں گزرجاتا ہے۔ نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اس پورے طریقہ کار کو بہتر کیا ہے اور اب شکایات کو فوری طور پر نمٹایا جارہا ہے مگر اس کے ساتھ ایک نئی صورتحال بھی ظاہر ہورہی ہے۔
نیب نے سندھ میں جب وزراء اور افسروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے تھے ان میں کچھ گرفتار ہوئے۔ سندھ حکومت کے اس وقت کے چیف سیکریٹری سمیت دیگر سیکریٹریوں کو عدالتوں سے ضمانتیں کرانی پڑی تھیں۔ کچھ افسران کو موقع ملا اور وہ ملک سے فرار ہوگئے تھے مگر اب یہ افسران اپنے عہدوں پر واپس آرہے ہیں۔ کچھ عدالتوں نے ان کی ضمانتوں کی توثیق کردی ہے۔
کچھ کے تو اخبارات میں بیانات شایع ہوئے ہیں کہ ان کے خلاف نیب کے اقدامات قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تھے اور انھوں نے اپنے ادارے کی ترقی کے لیے دن رات ایک کردیے تھے۔ انھیں محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ملک میں سیاسی بنیادوں پر احتساب کی روایت بہت پرانی ہے۔ یہ روایت سندھ کے پریمیئر ایوب کھوڑو، بنگال کے حسین شہید سہروردی سے شروع ہوئی اور بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور میاں نواز شریف تک پہنچی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے احتساب کے پیچھے دیگر مقاصد تھے۔
انتخابات ایک ریاست کا نظام درست چلانے کے لیے سب سے مقدس عمل ہے۔ انتخابات کی شفافیت سے متوقع حکومت کی اتھارٹی کا تعین ہوتا ہے۔ اگر ماضی کی طرح عوام محسوس کرے کہ ریاستی ادارے کسی بھی طرح انتخابی عمل میں مداخلت کررہے ہیں تو ان کا پورے عمل پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ نگراں وزیر اعظم شفاف انتخابات کے امین ہیں۔ انھیں نیب کے چیئرمین کو یہ باور کرانا چاہیے کہ کسی بھی امیدوارکے خلاف نیب تحقیقات ضرور مکمل کرے مگرگرفتاری کا معاملہ 25 جولائی تک مؤخر کیا جائے۔ نیب 26 جولائی سے ہر اس شخص کوگرفتارکرلے جس نے اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور غیر قانونی اثاثے بنائے ہیں۔