اور کہاں کہاں انتخابات کا موسم
دنیا کے مختلف ممالک جہاں اس سال الیکشن ہوئے یا ہونا ہیں،رواں برس ہونے والے عام انتخابات
گیارہ مئی 2013کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہوگا جس کا انتظار پاکستان کے جمہوریت پسندوں کو گذشتہ پینسٹھ سال سے تھا۔
یہ پہلا موقع ہوگا جب کسی منتخب جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد عام انتخابات منعقد ہوں گے اور عوام سیاسی جماعتوں کی گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ تاہم انتخابات کے لیے صرف پاکستان ہی میں رواں برس میدان نہیں سجے گا، بل کہ دنیا کے بہت سے کچھ اور ممالک میں بھی انتخابات کی بساط بچھائی جائے گی یا بچھائی جاچکی ہے۔ ان میں سے کچھ اہم ممالک کے حوالے سے تفصیلات زیر نظر تحریر میں پیش کی جارہی ہیں۔
٭اٹلی
براعظم یورپ کے جنوب میں واقع ملک اٹلی میں 24اور 25 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور اٹلی کے جمہوریہ میں تبدیل ہونے کے بعد سترھویں انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں 630اراکین کا انتخاب کیا گیا۔ منتخب اراکین کی اسمبلی کو ''چیمبر آف ڈیپٹیز '' Chamber of Deputie) ( کہا جاتا ہے، جب کہ مجموعی طور پر 322 منتخب اراکین سینیٹ کے ممبر ہوتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں کے Italy Common Goodاتحاد نے کام یابی حاصل کی ہے۔ اس اتحاد کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی ہے، جس کے سربراہ 62سالہ Pier Luigi Bersani ہیں۔ اس اتحاد میں علاقائی سطح کی چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ چار بڑی جماعتیں شامل ہیں، جن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ ''لیفٹ ایکولوجی فریڈم، اٹالین سوشلسٹ پارٹی اور ڈیموکریٹک سینٹر'' پارٹی شامل ہیں۔
معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کے باوجود اٹلی کی وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 75.19فی صد رہی۔ تاہم ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود پارلیمانی نظام حکومت رکھنے والا جمہوریہ اٹلی ابھی تک سیاسی بحران کا شکار ہے اور تادم تحریر وہاں نئی حکومت نہیں قائم ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ اٹلی کے آئین کے مطابق صدر اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعظم کو نام زد کرتا ہے، جسے پارلیمنٹ کی توثیق حاصل کرنا ہوتی ہے۔ حالیہ انتخابات ''ٹیکنو کریٹ حکومت '' کے وزیر اعظم ماہر معاشیات ''ماریو مونٹی'' کی سربراہی میں منعقد ہوئے تھے اور وہی ابھی تک ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں 70سالہ ماریو مونٹی کی پارٹیCivic Choiceنے چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے۔
٭کینیا
براعظم افریقہ کے اہم ملک کینیا میں انتخابات کی کہانی خون سے رنگی نظر آتی ہے۔ ماضی میں منعقد ہونے والے بیشتر انتخابات ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کسی باقاعدہ جمہوری حکومت کے قیام سے عاری رہے ہیں۔ اس تناظر میں گذشتہ دس سال سے کینیا کی صدارت پر فائزMwai Kibabiنے انتخابات کا جب مارچ کے مہینے میں اعلان کیا تو تقریباً چودہ ملین کینیائی ووٹروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
واضح رہے کہ کینیا کے یہ الیکشن 2010 میں ریفرنڈم کے بعد تشکیل دیے گئے نئے آئین کے تحت منعقد کیے گئے ہیں۔ اس آئین کے تحت کینیا کی عام انتخابات کی تاریخ میں الیکشن کے انعقاد کے لیے پہلی مرتبہ ''انڈیپنڈنٹ الیکٹوریل اینڈ بائونڈریز کمیشن (IEBC)'' تشکیل دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اگرچہ یہ انتخابات گذشتہ سال اگست یا دسمبر میں متوقع تھے۔ تاہم ایک عدالتی فیصلے کے تحت انتخابات کی تاریخ چار مارچ 2013تجویز کی گئی۔
کینیا کی قومی اسمبلی مجموعی طور پر 349اراکین پر مشتمل ہے، جو 290 عوام کے منتخب کیے گئے براہ راست نمائندے ، ملک کی 47کائونٹیوں سے منتخب کردہ 47خواتین اور 12نام زد نمائندوں پر مشتمل ہے۔ چوں کہ کینیا کافی عرصے تک خانہ جنگی اور معاشی بدحالی کا شکار رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے کینیائی شہری افریقہ کے مختلف ملکوں میں منتقل ہوچکے ہیں، چناں چہ پہلی مرتبہIEBCنے دیگر ممالک میں مقیم کینیائی باشندوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ تاہم یہ حق صرف ان شہریوں کو حاصل تھا جو مشرقی افریقی ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
ان انتخابات کی ایک اور اہم بات ووٹروں کے اندراج کے لیے ''بائیو میٹرک '' ٹیکنالوجی کا استعمال تھا، جس کے لیے ''بائیومیٹرک ووٹر رجسٹریشن کٹس'' (BVR Kits)استعمال کی گئیں۔ کینیا کے ان اہم اور تاریخی انتخابات میں عوام نے صدر، ارکان پارلیمان، کائونٹیوں کے گورنروں سمیت کائونٹیوں کے اراکین اسمبلی کا چنائو کیا۔ صدر کا انتخاب دو مرحلوں پر مشتمل تھا، جس کے تحت جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کے پچاس فی صد سے زاید ووٹ حاصل کرنا ضروری تھے۔ مطلوبہ ووٹ حاصل کرکے ''نیشنل الائنس پارٹی'' کے ''اوہورو کینیاٹا'' (Uhuru Kenyatta) ملک کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔
51سالہ اوہورو کینیاٹا جو یہ ذمہ داری سنبھالنے سے قبل وزیر بلدیات اور وزیرخزانہ کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ وہ کینیا کے چوتھے صدر ہیں۔ انہوں نے مجموعی ووٹوں کے 50.03 فی صد لے کر یہ کام یابی حاصل کی ہے۔
٭اردن
مشرق وسطیٰ کا اہم ملک اردن عرصۂ دراز سے بادشاہت کے زیرنگیں ہے اور عملی طور پر بادشاہ ہی تمام معاملات پر حاوی ہے۔ تاہم 1952کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام بھی کام کرتا ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے دو ایوان ہیں جن میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ایوان کو ''چیمبر آف ڈپیٹیز'' کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد 120ہوتی ہے، جب کہ دوسرا ایوان 60 رکنی سینیٹ کا ہوتا ہے۔ ان سینیٹرز کو بادشاہ منتخب کرتا ہے۔ دونوں ایوانوں کی مدت چار سال ہوتی ہے۔
اس حوالے سے پہلی مرتبہ آزاد لیکشن کمیشن کی زیر نگرانی اردن میں 23 جنوری 2013کو عام انتخابات منعقد کیے گئے، جس میں ''حزب الوسطی اسلامی'' جماعت تین سیٹوں کے ساتھ سرفہرست رہی جب کہ 123آزاد رکن کام یاب ہوئے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ووٹر ٹرن آئوٹ56.6 فی صد رہا۔ واضح رہے کہ اردن میں تقریباً31لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ یہ تعداد اردن کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہے۔
شاہ عبداﷲ دوئم نے گذشتہ سال اکتوبر میں پارلیمان کو تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے انہوں نے نہ صرف فرانس سے تعلیم حاصل کرنے والے ماہر معاشیات اور ماضی میں عالمی مالیاتی اداروں کے لیے خدمات انجام دینے والے 74سالہ عبداﷲ نصر کو نگراں وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا، بل کہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات کے بعد9مارچ کو نصر عبداﷲ کو مستقل وزیراعظم بھی بنادیا۔
ان کے اس فیصلے پر پورے اردن میں اخوان المسلمین اور دیگر اسلام پسند جماعتیں شدید احتجاج کررہی ہیں، جس میں ان کا سب سے اہم مطالبہ بادشاہ کا وزیراعظم کے چنائو کا اختیار ختم کر کے یہ اختیار عوامی نمائندوں کے حوالے کرنا ہے اور ان نئی حلقہ بندیوں کا خاتمہ ہے جو انتخابات سے قبل اخوان المسلمین کے حمایت یافتہ شہری علاقوں میں ان کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لئے کی گئیں تھیں۔
٭اسرائیل
اسرائیل کی 33ویں حکومت کی تشکیل کے لیے 22 جنوری 2013 کو الیکشن منعقد کیے گئے۔ یہ الیکشن سابق اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد منعقد کیے گئے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ جسے ''کینسٹ'' کہا جاتا ہے 120 اراکین پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر یہ الیکشن اکتوبر2013 میں منعقد ہونے تھے۔ تاہم بجٹ بحران کے باعث ان انتخابات کو قبل ازوقت منعقد کیا گیا ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں Likud Yisrael Beitenuپارٹی اور اس کے اتحادی Yesh Atidجماعت دی جیوش ہوم پارٹی اور Hatnuah پارٹی نے حکومت بنائی ہے۔
اتحادیوں نے لیکوڈ پارٹی کے نیتن یاہو کو وزیراعظم منتخب کیا ہے جو اس سے قبل بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے اور انتخابات کے لیے نگراں سیٹ اپ میں بھی وہی نگراں وزیراعظم کا فریضہ انجام دے رہے تھے نیتن یاہو کی جماعت نے24فیصد ووٹوں کے ساتھ 31اور ان کے اتحادیوں نے 68سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔
اسرائیل میں مجموعی طور پر تقریباً 56 لاکھ ووٹروں کا اندراج ہے، جس میں تقریباً 38لاکھ ووٹروں نے الیکشن کے دوران دس ہزار سے زاید پولنگ اسٹیشنوں پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ وہ ووٹر جن کے گھر پولنگ اسٹیشنوں سے 20کلومیٹر کی دوری پر تھے انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی تھی۔ ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ 67.78 فی صد رہا۔ذیل میں کچھ اہم ممالک کی تفصیلات درج ہیں جہاں اگلے چھے ماہ میں انتخابات کا انعقاد متوقع ہے۔
٭ایران
2005 سے مسلسل دو مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران کے منصب صدارت پر فائز ''ایتلاف آبادگاران ایران اسلامی'' یا مختصراً ''آبادگاران'' جماعت کے احمدی نژاد کی مدت صدارت پانچ اگست2013کو اختتام پذیر ہورہی ہے۔ ایران میں صدارتی انتخاب میں امیدوار اگر پہلے مرحلے میں مقررہ پچاس فی صد ووٹ لینے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دوسرے مرحلے میں اول اور دوئم آنے والے امیدوار کے مابین براہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔
14جون2013کو ہونے والے متوقع انتخابات ایران کی تاریخ کے گیارہویں صدارتی انتخابات (پہلادور) ہوں گے۔ واضح رہے کہ صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔
صدارتی امیدوار کی توثیق ایران کا سب سے بااثر ادارہ ''شوریٰ نگہبان'' کرتی ہے، جس میں چھے مذہبی راہ نما یا فقیہہ ہوتے ہیں، جن کا چنائو ایران کے رہبر معظم یا سپریم لیڈر کرتے ہیں، جب کہ دیگر چھے نمائندوں کا تعلق عدلیہ سے ہوتا ہے، جنہیں ایران کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ منتخب کرتے ہیں۔ گذشتہ صدارتی انتخابات کے لیے 476 مرد وخواتین نے اپنے نام پیش کیے تھے۔
جن میں سے صرف چار افراد کو شوریٰ نگہبان نے الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا تھا۔ ایرانی قوانین کے مطابق ووٹر ملک کے کسی بھی حصے میں اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے۔ یعنی ضروری نہیں کہ جہاں اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہے وہ اس ہی علاقے میں ووٹ ڈالنے کا پابند ہو۔
ایران میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 46.2 ملین ہے۔ گذشتہ 2009کے الیکشن میں ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ 85 فی صد رہا تھا، جس میں احمدی نژاد نے 24.5ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جو مجموعی ووٹوں کا62 فیصد تھا، جب کہ ان کے قریب ترین امیدوار ''جنبش سبز ایران'' (Iranian Green Movement)کے میر حسین موسوی نے 34 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے پُرامن احتجاج کیا تھا جو بعد میں پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوگیا تھا۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ 14جون2013کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں، چوں کہ آئین کے تحت احمدی نژاد تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ احمدی نژاد اپنے دست راست اور چیف آف اسٹاف ''اسفند یار رحیم'' کی بھر پور حمایت کریں گے۔
اسی طرح احمدی نژاد کے دور حکومت میں2005 سے 2008 تک وزیرداخلہ کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفے پور محمدی بھی صدارت کے عہدے کے امیدوار ہیں جب کہ احمدی نژاد کے مخالف کیمپ سے ایران کے جوہری معاملات میں مذاکرات کار کی حیثیت سے معروف حسن روحانی بھی صدارتی امیدوار ہیں حسن روحانی کو سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کے اصلاح پسند گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تہران کے موجودہ میئر اور سابق فوجی51سالہ محمد باقر قالیباف بھی قابل ذکر امید وار ہیں۔ یاد رہے کہ مجلس ایران یا ''اسلامی مجلس شوریٰ'' جسے ایرانی پارلیمان بھی کہا جاتا ہے ایران کا قانون ساز ادارہ ہے، جس کے نمائندوں کی تعداد 290 ہے۔
٭جرمنی
22ستمبر کو جرمنی کے شہری اپنے ملک کے چانسلر کا چنائو کریں گے۔ یاد رہے کہ جرمنی میں چانسلر، وزیراعظم کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہی حکومت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق جرمنی کے وفاقی پارلیمنٹ کے یہ انتخابات براعظم یورپ کے موجودہ بگڑتے معاشی اور سیاسی منظر نامے کا اہم ترین مرحلہ ہیں 2005سے جرمنی کے چانسلر کے عہدے پر فائز 59 سالہ ''انجیلا مرکل'' تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گی اور توقع کی جارہی ہے وہ ایک مرتبہ پھر منتخب ہوجائیں گی۔
جائزہ رپورٹوں کے مطابق ان کی مقبولیت کا گراف جرمن عوام میں 80 فی صد تک جاپہنچا ہے، جس کی بنیادی وجہ ان کی بہتر معاشی پالیسیاں اور فیصلے ہیں۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU)پارٹی سے تعلق رکھنے والی انجیلا مرکل کے قریبی حریف سابق وزیر مالیات چھیاسٹھ سالہ Peer Steinbruck ہیں، جو 2005 میں انجیلا مرکل کی کیبنٹ میں 2009 تک وزیرمالیات کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ پیر اسٹائن برک کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)سے ہے۔
انجیلا مرکل کی پارٹی CDUکا انتخابی اتحاد کرسچین سوشل یونین سے ہے رائے عامہ کے اداروں کے تجزیے کے مطابق پورے ملک میں پارٹی کی سطح پر انجیلا مرکل کے اتحاد کو 41 فی صد اور ان کے حریف پیر اسٹائن کی پارٹی SDP کو 40 فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ اس صورت حال کی پیش نظر مبصرین کا خیال ہے کہ اگر انجیلا مرکل اور ان کا اتحاد فتح حاصل کرلیتا ہے تو اسے حکومت بنانے کے لیے فری ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر اعتدال پسند جماعتوں کے ساتھ نیا اتحاد بنانا پڑے گا۔
واضح رہے کہ اگر انجیلا مرکل ان انتخابات میں کام یاب ہوجاتی ہیں تو وہ 2005 میں یورپ میں وقوع پذیر ہونے والے جاری مالیاتی بحران کے منفی اثرات کے باوجود دوسری مرتبہ مسلسل منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرلیں گی۔ اس صورت حال میں فی الحال یہ اعزاز صرف امریکا کے صدر بارک اوباما کو حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اس مالیاتی بحران کے باعث برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن برائون، فرانس کے سابق صدر نکولس سارکوزی، اسپین کے دو مرتبہ کے وزیراعظم Jose Zapatero اور اٹلی کے سابق ارب پتی وزیر اعظم سلویوبرلسکونی اپنے اپنے الیکشن ہار چکے ہیں۔ واضح رہے کہ جرمنی کا مرکزی قانون ساز ادارہ جسے Bundestag کہا جاتا ہے، 622 نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے۔ ووٹر حضرات بیک وقت دو ووٹ ڈالتے ہیں، جس میں ایک ووٹ اپنے حلقے کے پسندیدہ نمائندے کو دیا جاتا ہے، جب کہ دوسرا ووٹ پسندیدہ پارٹی کا ہوتا ہے تاہم اسمبلی پارٹی ووٹوں کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے۔
٭جمہوریہ گِنی
مغربی افریقہ میں واقع چھوٹے سے ملک جمہوریہ گنی میں پارلیمانی انتخابات 30 جون کو متوقع ہیں۔ انتخابات کی اصل تاریخ جون 2007تھی جسے توسیع دے کر 8جولائی 2012 کردیا گیا۔ تاہم اپریل 2012میں صدر Alpha Conde نے انتخابات کو ایک مرتبہ پھر غیرمعینہ مدت کے لیے موخر کردیا، جس کے بعد انہوں نے انتخابات کو شفاف طریقے سے منعقد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن میں تبدیلیاں کیں اور انتخابات کے لیے12مئی2013کی تاریخ کا اعلان کیا۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق الیکشن 30 جون 2013 کو متوقع ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے عطیات سے منعقد ہونے والے یہ الیکشن مغربی افریقہ کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کریں گے۔
کیوں کہ جمہوریہ گنی میں یہ پہلے الیکشن ہوں گے جن کا کسی بھی سیاسی جماعت نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے، جسے براعظم افریقہ کی سیاست کا منفرد واقعہ کہا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جمہوریہ گنی کی قومی اسمبلی 114اراکین پر مشتمل ہے، جس میں 38 ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے اپنے اپنے حلقوں سے اور 76ممبر متناسب پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب کیے جاتے ہیں، جب کہ صدر عوام کے ووٹوں سے پانچ سال کے لیے اور قومی اسمبلی چار سال کے لیے منتخب کی جاتی ہے۔
٭تیونس
تیونس ایک عوامی جمہوریہ ہے۔ عوامی انقلاب کے باعث 14 جنوری 2011 کو صدر ''زین العابدین بن علی'' کو جب معزول کیا گیا تو نئی عبوری حکومت نے 2014 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب انتخابات کی قبل ازوقت تاریخ 15 اکتوبر2013 سے15 دسمبر 2013 کے درمیان مقرر کی گئی ہے، جس میں تقریبا70جماعتیں 217سیٹوں کے حصول کے لئے انتخابات میں حصہ لیں گی۔
٭قطر
قطر کے بادشاہ اور سربراہ مملکت شیخ حماد بن خلیفہ بن تہانی کہ اس اعلان کے بعد کہ جون2013 میں پارلیمانی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد کیے جائیں گ تیل کی دولت سے مالامال ملک قطر کے شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
شیخ حماد کی جانب سے یہ فیصلہ 2003 میں بنائے گئے آئین کی روشنی میں کیا گیا ہے، جس کے تحت ملک کے 18سال سے زاید عمر کے شہری 45 اراکین پر مشتمل اسمبلی کے 30 ارکان کو اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے۔ سیاسی مبصرین قطر میں قانون ساز اسمبلی کے تعین کے لیے منعقد کیے جانے والے ان اولین انتخابات کو خطے میں نہایت اہم اور دوررس نتائج کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ 1.6ملین آبادی پر مشتمل قطر میں اس سے قبل حکومت بلدیاتی الیکشن کام یابی سے منعقد کر چکی ہے۔
٭ملائیشیا
جنوب مشرقی ایشیا میں واقع اسلامی ملک ملائیشیا کی تاریخ کی بارہویں پارلیمنٹ اپنی مدت 28 اپریل2013 کو مکمل کرچکی ہے جس کے ساتھ ہی ملائیشیا کے آئین کے تحت 60دن کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہوگئے ہیں۔ اس لحاظ سے ملائیشیا میں27جون سے قبل الیکشن کا انعقاد لازمی تھا چناں چہ ملائیشین الیکشن کمیشن کے چیئرمین عزیز یوسف نے اعلان کیا ہے کہ پانچ مئی2013کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔
اسمبلی کے اختتام کا اعلان Barisan Nasional پارٹی کے پانچ سال سے برسراقتدار وزیراعظم ''نجیب بن تن حاجی عبدالرزاق'' نے ٹیلی ویژن پر کیا ملائیشیا کی پارلیمنٹ 222 اراکین پر مشتمل ہے، جسے ''دیوان ریکیت '' کہا جاتا ہے۔ یہ نمائندے 12ریاستوں سے منتخب کیے جاتے ہیں، جب کہ سینیٹ کی مجموعی تعداد 70نمائندگان پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں سے 44 نمائندے بادشاہ نامزد کرتا ہے۔ لگ بھگ ایک کروڑ تین لاکھ اہل ووٹروں والے اس ملک میں حکومت سازی کے لیے 112سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مبصرین کے مطابق انتخابات میں حکم راں اتحاد نیشنل فرنٹ (Barisan Nasional)کے نجیب بن تن حاجی عبدالرزاق اور حزب اختلاف کے تین جماعتی اتحاد کے اہم راہ نما اور پیپلز جسٹس پارٹی کے انور ابراہیم کے درمیان سخت معرکہ آرائی متوقع ہے۔
٭نیپال
نیپالی عوام طویل عرصے تک بادشاہت کے خلاف مصروف جنگ رہے ہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں 2008 میں ''یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی (مائونواز)'' کی حکومت وجود میں آئی اور اس کی جانب سے ماضی کے گوریلا لیڈر ''پشپا کمال دہل'' جن کا معروف نام ''پراچندا'' ہے کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ تاہم انہوں نے صدر ''رام باران یادیو'' سے آرمی چیف کی تقرری پر اختلاف کے بعد 25 مئی 2009 کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا، جس کے بعد سے نیپال میں سیاسی خلفشار موجود ہے۔
اس دوران اسمبلی نے چار وزرائے اعظم منتخب کیے تاہم یہ اسمبلی آئین کی تشکیل میں ناکامی کے بعد 28 مئی 2012 کو تحلیل کردی گئی، جس کے بعد نیپال کے موجودہ چیف جسٹس Khil Raj Regmiنے14مارچ 2013 کو عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے انتظام مملکت سنبھال لیے اس حوالے سے ان کا اہم ترین ہدف دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہے۔
نیپال کے الیکشن کمیشن کی جانب سے مہیا کردہ معلومات کے مطابق نیپال کی دستورساز اسمبلی کے لیے 21 جون 2013 میں الیکشن متوقع ہیں۔ نیپال کی دستور ساز اسمبلی491 اراکین پر مشتمل ہے، جب کہ حکومت سازی کے لیے 246 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیپال میں 17.5ملین ووٹرز ہیں۔ عوامی رائے کے مطابق یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی (مائو نواز)، نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی (لیننسٹ اور مارکسٹ) کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔
٭آذربائیجان
مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان آذربائیجان ایک اہم اسلامی ریاست ہے، جہاں 16اکتوبر 2013 کو صدارتی الیکشن منعقد ہوں گے۔ آذربائیجان کی قومی اسمبلی جسے ''مجلس ملی'' کہا جاتا ہے۔ 125اراکین پر مشتمل ہے۔ مملکت کا صدر براہ راست ووٹوں کی بنیاد پر منتخب ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق الیکشن میں 24 سیاسی جماعتوں کے نمائندے حصہ لیں گے۔ لگ بھگ 90 لاکھ نفوس پر مشتمل آذربائیجان کے موجودہ صدر ''نیو آذربائیجان پارٹی'' کے ''الہام علیوف'' ہیں۔ 2012 میں مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی صحافیوں کی تنظیم ''آرگنائزڈ کرائم اور کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ'' کی جانب سے ''کرپشن پرسن آف دی ایئر'' کا منفی اعزاز پانے کے باوجود ''الہا م علیوف'' آنے والے انتخابات میں فتح کے حوالے سے بہت پرامید ہیں۔
2013ء کے متوقع صدارتی اور پارلیمانی انتخابات
مذکورہ ممالک کے علاوہ 2013میں دنیا کے جن ممالک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات متوقع ہیں۔
ان میں ممالک میں جمہوریہ البانیہ 23جون (پارلیمانی)، ارجنٹائن27 اکتوبر (قانون ساز اسمبلی)، آسٹریلیا 14ستمبر (وفاقی)، آسٹریا 23 ستمبر (قانون ساز اسمبلی)، بھوٹان 23 اپریل (پارلیمانی)، بلغاریہ 12مئی (پارلیمانی)، کیمرون 14جولائی (پارلیمانی)، کمبوڈیا 28 جولائی (پارلیمانی)، چلی17نومبر (قانون ساز اسمبلی اور صدارتی)۔
جارجیا اکتوبر (صدارتی)، ہونڈراس 24 نومبر (صدارتی، پارلیمانی، بلدیاتی)، آئس لینڈ 27 اپریل (پارلیمانی)، جاپان11جولائی (پارلیمانی/کونسلرز)، منگولیا 26 جون (صدارتی)، مڈغاسکر 24 جولائی (صدارتی )، ناروے 9 ستمبر (پارلیمانی)، فلپائن13مئی (قانون ساز اسمبلی)، تاجکستان نومبر (صدارتی)، ترکمانستان دسمبر (پارلیمانی)، زمبابوے 29جون (صدارتی اور پارلیمانی) انتخابات متوقع ہیں۔
یہ پہلا موقع ہوگا جب کسی منتخب جمہوری حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد عام انتخابات منعقد ہوں گے اور عوام سیاسی جماعتوں کی گذشتہ پانچ سال کی کارکردگی کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ تاہم انتخابات کے لیے صرف پاکستان ہی میں رواں برس میدان نہیں سجے گا، بل کہ دنیا کے بہت سے کچھ اور ممالک میں بھی انتخابات کی بساط بچھائی جائے گی یا بچھائی جاچکی ہے۔ ان میں سے کچھ اہم ممالک کے حوالے سے تفصیلات زیر نظر تحریر میں پیش کی جارہی ہیں۔
٭اٹلی
براعظم یورپ کے جنوب میں واقع ملک اٹلی میں 24اور 25 فروری کو انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور اٹلی کے جمہوریہ میں تبدیل ہونے کے بعد سترھویں انتخابات ہیں۔ ان انتخابات میں 630اراکین کا انتخاب کیا گیا۔ منتخب اراکین کی اسمبلی کو ''چیمبر آف ڈیپٹیز '' Chamber of Deputie) ( کہا جاتا ہے، جب کہ مجموعی طور پر 322 منتخب اراکین سینیٹ کے ممبر ہوتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں کے Italy Common Goodاتحاد نے کام یابی حاصل کی ہے۔ اس اتحاد کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی ہے، جس کے سربراہ 62سالہ Pier Luigi Bersani ہیں۔ اس اتحاد میں علاقائی سطح کی چھوٹی پارٹیوں کے علاوہ چار بڑی جماعتیں شامل ہیں، جن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ ''لیفٹ ایکولوجی فریڈم، اٹالین سوشلسٹ پارٹی اور ڈیموکریٹک سینٹر'' پارٹی شامل ہیں۔
معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کے باوجود اٹلی کی وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 75.19فی صد رہی۔ تاہم ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہونے کے باوجود پارلیمانی نظام حکومت رکھنے والا جمہوریہ اٹلی ابھی تک سیاسی بحران کا شکار ہے اور تادم تحریر وہاں نئی حکومت نہیں قائم ہوسکی ہے۔
واضح رہے کہ اٹلی کے آئین کے مطابق صدر اپنے انتخاب کے بعد وزیر اعظم کو نام زد کرتا ہے، جسے پارلیمنٹ کی توثیق حاصل کرنا ہوتی ہے۔ حالیہ انتخابات ''ٹیکنو کریٹ حکومت '' کے وزیر اعظم ماہر معاشیات ''ماریو مونٹی'' کی سربراہی میں منعقد ہوئے تھے اور وہی ابھی تک ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں 70سالہ ماریو مونٹی کی پارٹیCivic Choiceنے چوتھی پوزیشن حاصل کی ہے۔
٭کینیا
براعظم افریقہ کے اہم ملک کینیا میں انتخابات کی کہانی خون سے رنگی نظر آتی ہے۔ ماضی میں منعقد ہونے والے بیشتر انتخابات ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کسی باقاعدہ جمہوری حکومت کے قیام سے عاری رہے ہیں۔ اس تناظر میں گذشتہ دس سال سے کینیا کی صدارت پر فائزMwai Kibabiنے انتخابات کا جب مارچ کے مہینے میں اعلان کیا تو تقریباً چودہ ملین کینیائی ووٹروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
واضح رہے کہ کینیا کے یہ الیکشن 2010 میں ریفرنڈم کے بعد تشکیل دیے گئے نئے آئین کے تحت منعقد کیے گئے ہیں۔ اس آئین کے تحت کینیا کی عام انتخابات کی تاریخ میں الیکشن کے انعقاد کے لیے پہلی مرتبہ ''انڈیپنڈنٹ الیکٹوریل اینڈ بائونڈریز کمیشن (IEBC)'' تشکیل دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اگرچہ یہ انتخابات گذشتہ سال اگست یا دسمبر میں متوقع تھے۔ تاہم ایک عدالتی فیصلے کے تحت انتخابات کی تاریخ چار مارچ 2013تجویز کی گئی۔
کینیا کی قومی اسمبلی مجموعی طور پر 349اراکین پر مشتمل ہے، جو 290 عوام کے منتخب کیے گئے براہ راست نمائندے ، ملک کی 47کائونٹیوں سے منتخب کردہ 47خواتین اور 12نام زد نمائندوں پر مشتمل ہے۔ چوں کہ کینیا کافی عرصے تک خانہ جنگی اور معاشی بدحالی کا شکار رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے کینیائی شہری افریقہ کے مختلف ملکوں میں منتقل ہوچکے ہیں، چناں چہ پہلی مرتبہIEBCنے دیگر ممالک میں مقیم کینیائی باشندوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق دیا۔ تاہم یہ حق صرف ان شہریوں کو حاصل تھا جو مشرقی افریقی ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
ان انتخابات کی ایک اور اہم بات ووٹروں کے اندراج کے لیے ''بائیو میٹرک '' ٹیکنالوجی کا استعمال تھا، جس کے لیے ''بائیومیٹرک ووٹر رجسٹریشن کٹس'' (BVR Kits)استعمال کی گئیں۔ کینیا کے ان اہم اور تاریخی انتخابات میں عوام نے صدر، ارکان پارلیمان، کائونٹیوں کے گورنروں سمیت کائونٹیوں کے اراکین اسمبلی کا چنائو کیا۔ صدر کا انتخاب دو مرحلوں پر مشتمل تھا، جس کے تحت جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کے پچاس فی صد سے زاید ووٹ حاصل کرنا ضروری تھے۔ مطلوبہ ووٹ حاصل کرکے ''نیشنل الائنس پارٹی'' کے ''اوہورو کینیاٹا'' (Uhuru Kenyatta) ملک کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔
51سالہ اوہورو کینیاٹا جو یہ ذمہ داری سنبھالنے سے قبل وزیر بلدیات اور وزیرخزانہ کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں۔ وہ کینیا کے چوتھے صدر ہیں۔ انہوں نے مجموعی ووٹوں کے 50.03 فی صد لے کر یہ کام یابی حاصل کی ہے۔
٭اردن
مشرق وسطیٰ کا اہم ملک اردن عرصۂ دراز سے بادشاہت کے زیرنگیں ہے اور عملی طور پر بادشاہ ہی تمام معاملات پر حاوی ہے۔ تاہم 1952کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام بھی کام کرتا ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے دو ایوان ہیں جن میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ایوان کو ''چیمبر آف ڈپیٹیز'' کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد 120ہوتی ہے، جب کہ دوسرا ایوان 60 رکنی سینیٹ کا ہوتا ہے۔ ان سینیٹرز کو بادشاہ منتخب کرتا ہے۔ دونوں ایوانوں کی مدت چار سال ہوتی ہے۔
اس حوالے سے پہلی مرتبہ آزاد لیکشن کمیشن کی زیر نگرانی اردن میں 23 جنوری 2013کو عام انتخابات منعقد کیے گئے، جس میں ''حزب الوسطی اسلامی'' جماعت تین سیٹوں کے ساتھ سرفہرست رہی جب کہ 123آزاد رکن کام یاب ہوئے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق ووٹر ٹرن آئوٹ56.6 فی صد رہا۔ واضح رہے کہ اردن میں تقریباً31لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ یہ تعداد اردن کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف بنتی ہے۔
شاہ عبداﷲ دوئم نے گذشتہ سال اکتوبر میں پارلیمان کو تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے انہوں نے نہ صرف فرانس سے تعلیم حاصل کرنے والے ماہر معاشیات اور ماضی میں عالمی مالیاتی اداروں کے لیے خدمات انجام دینے والے 74سالہ عبداﷲ نصر کو نگراں وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا، بل کہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات کے بعد9مارچ کو نصر عبداﷲ کو مستقل وزیراعظم بھی بنادیا۔
ان کے اس فیصلے پر پورے اردن میں اخوان المسلمین اور دیگر اسلام پسند جماعتیں شدید احتجاج کررہی ہیں، جس میں ان کا سب سے اہم مطالبہ بادشاہ کا وزیراعظم کے چنائو کا اختیار ختم کر کے یہ اختیار عوامی نمائندوں کے حوالے کرنا ہے اور ان نئی حلقہ بندیوں کا خاتمہ ہے جو انتخابات سے قبل اخوان المسلمین کے حمایت یافتہ شہری علاقوں میں ان کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کے لئے کی گئیں تھیں۔
٭اسرائیل
اسرائیل کی 33ویں حکومت کی تشکیل کے لیے 22 جنوری 2013 کو الیکشن منعقد کیے گئے۔ یہ الیکشن سابق اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بعد منعقد کیے گئے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ جسے ''کینسٹ'' کہا جاتا ہے 120 اراکین پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر یہ الیکشن اکتوبر2013 میں منعقد ہونے تھے۔ تاہم بجٹ بحران کے باعث ان انتخابات کو قبل ازوقت منعقد کیا گیا ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں Likud Yisrael Beitenuپارٹی اور اس کے اتحادی Yesh Atidجماعت دی جیوش ہوم پارٹی اور Hatnuah پارٹی نے حکومت بنائی ہے۔
اتحادیوں نے لیکوڈ پارٹی کے نیتن یاہو کو وزیراعظم منتخب کیا ہے جو اس سے قبل بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے اور انتخابات کے لیے نگراں سیٹ اپ میں بھی وہی نگراں وزیراعظم کا فریضہ انجام دے رہے تھے نیتن یاہو کی جماعت نے24فیصد ووٹوں کے ساتھ 31اور ان کے اتحادیوں نے 68سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔
اسرائیل میں مجموعی طور پر تقریباً 56 لاکھ ووٹروں کا اندراج ہے، جس میں تقریباً 38لاکھ ووٹروں نے الیکشن کے دوران دس ہزار سے زاید پولنگ اسٹیشنوں پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ وہ ووٹر جن کے گھر پولنگ اسٹیشنوں سے 20کلومیٹر کی دوری پر تھے انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی گئی تھی۔ ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ 67.78 فی صد رہا۔ذیل میں کچھ اہم ممالک کی تفصیلات درج ہیں جہاں اگلے چھے ماہ میں انتخابات کا انعقاد متوقع ہے۔
٭ایران
2005 سے مسلسل دو مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران کے منصب صدارت پر فائز ''ایتلاف آبادگاران ایران اسلامی'' یا مختصراً ''آبادگاران'' جماعت کے احمدی نژاد کی مدت صدارت پانچ اگست2013کو اختتام پذیر ہورہی ہے۔ ایران میں صدارتی انتخاب میں امیدوار اگر پہلے مرحلے میں مقررہ پچاس فی صد ووٹ لینے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دوسرے مرحلے میں اول اور دوئم آنے والے امیدوار کے مابین براہ راست مقابلہ ہوتا ہے۔
14جون2013کو ہونے والے متوقع انتخابات ایران کی تاریخ کے گیارہویں صدارتی انتخابات (پہلادور) ہوں گے۔ واضح رہے کہ صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔
صدارتی امیدوار کی توثیق ایران کا سب سے بااثر ادارہ ''شوریٰ نگہبان'' کرتی ہے، جس میں چھے مذہبی راہ نما یا فقیہہ ہوتے ہیں، جن کا چنائو ایران کے رہبر معظم یا سپریم لیڈر کرتے ہیں، جب کہ دیگر چھے نمائندوں کا تعلق عدلیہ سے ہوتا ہے، جنہیں ایران کی اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ منتخب کرتے ہیں۔ گذشتہ صدارتی انتخابات کے لیے 476 مرد وخواتین نے اپنے نام پیش کیے تھے۔
جن میں سے صرف چار افراد کو شوریٰ نگہبان نے الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا تھا۔ ایرانی قوانین کے مطابق ووٹر ملک کے کسی بھی حصے میں اپنا ووٹ ڈال سکتا ہے۔ یعنی ضروری نہیں کہ جہاں اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہے وہ اس ہی علاقے میں ووٹ ڈالنے کا پابند ہو۔
ایران میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 46.2 ملین ہے۔ گذشتہ 2009کے الیکشن میں ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ 85 فی صد رہا تھا، جس میں احمدی نژاد نے 24.5ملین ووٹ حاصل کیے تھے، جو مجموعی ووٹوں کا62 فیصد تھا، جب کہ ان کے قریب ترین امیدوار ''جنبش سبز ایران'' (Iranian Green Movement)کے میر حسین موسوی نے 34 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔ تاہم انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے پُرامن احتجاج کیا تھا جو بعد میں پرتشدد احتجاج میں تبدیل ہوگیا تھا۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ 14جون2013کو منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں، چوں کہ آئین کے تحت احمدی نژاد تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے، لہٰذا خیال کیا جاتا ہے کہ احمدی نژاد اپنے دست راست اور چیف آف اسٹاف ''اسفند یار رحیم'' کی بھر پور حمایت کریں گے۔
اسی طرح احمدی نژاد کے دور حکومت میں2005 سے 2008 تک وزیرداخلہ کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفے پور محمدی بھی صدارت کے عہدے کے امیدوار ہیں جب کہ احمدی نژاد کے مخالف کیمپ سے ایران کے جوہری معاملات میں مذاکرات کار کی حیثیت سے معروف حسن روحانی بھی صدارتی امیدوار ہیں حسن روحانی کو سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کے اصلاح پسند گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ تہران کے موجودہ میئر اور سابق فوجی51سالہ محمد باقر قالیباف بھی قابل ذکر امید وار ہیں۔ یاد رہے کہ مجلس ایران یا ''اسلامی مجلس شوریٰ'' جسے ایرانی پارلیمان بھی کہا جاتا ہے ایران کا قانون ساز ادارہ ہے، جس کے نمائندوں کی تعداد 290 ہے۔
٭جرمنی
22ستمبر کو جرمنی کے شہری اپنے ملک کے چانسلر کا چنائو کریں گے۔ یاد رہے کہ جرمنی میں چانسلر، وزیراعظم کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہی حکومت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق جرمنی کے وفاقی پارلیمنٹ کے یہ انتخابات براعظم یورپ کے موجودہ بگڑتے معاشی اور سیاسی منظر نامے کا اہم ترین مرحلہ ہیں 2005سے جرمنی کے چانسلر کے عہدے پر فائز 59 سالہ ''انجیلا مرکل'' تیسری مدت کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گی اور توقع کی جارہی ہے وہ ایک مرتبہ پھر منتخب ہوجائیں گی۔
جائزہ رپورٹوں کے مطابق ان کی مقبولیت کا گراف جرمن عوام میں 80 فی صد تک جاپہنچا ہے، جس کی بنیادی وجہ ان کی بہتر معاشی پالیسیاں اور فیصلے ہیں۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU)پارٹی سے تعلق رکھنے والی انجیلا مرکل کے قریبی حریف سابق وزیر مالیات چھیاسٹھ سالہ Peer Steinbruck ہیں، جو 2005 میں انجیلا مرکل کی کیبنٹ میں 2009 تک وزیرمالیات کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ پیر اسٹائن برک کا تعلق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SDP)سے ہے۔
انجیلا مرکل کی پارٹی CDUکا انتخابی اتحاد کرسچین سوشل یونین سے ہے رائے عامہ کے اداروں کے تجزیے کے مطابق پورے ملک میں پارٹی کی سطح پر انجیلا مرکل کے اتحاد کو 41 فی صد اور ان کے حریف پیر اسٹائن کی پارٹی SDP کو 40 فی صد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ اس صورت حال کی پیش نظر مبصرین کا خیال ہے کہ اگر انجیلا مرکل اور ان کا اتحاد فتح حاصل کرلیتا ہے تو اسے حکومت بنانے کے لیے فری ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر اعتدال پسند جماعتوں کے ساتھ نیا اتحاد بنانا پڑے گا۔
واضح رہے کہ اگر انجیلا مرکل ان انتخابات میں کام یاب ہوجاتی ہیں تو وہ 2005 میں یورپ میں وقوع پذیر ہونے والے جاری مالیاتی بحران کے منفی اثرات کے باوجود دوسری مرتبہ مسلسل منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرلیں گی۔ اس صورت حال میں فی الحال یہ اعزاز صرف امریکا کے صدر بارک اوباما کو حاصل ہے۔ یاد رہے کہ اس مالیاتی بحران کے باعث برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن برائون، فرانس کے سابق صدر نکولس سارکوزی، اسپین کے دو مرتبہ کے وزیراعظم Jose Zapatero اور اٹلی کے سابق ارب پتی وزیر اعظم سلویوبرلسکونی اپنے اپنے الیکشن ہار چکے ہیں۔ واضح رہے کہ جرمنی کا مرکزی قانون ساز ادارہ جسے Bundestag کہا جاتا ہے، 622 نمائندگان پر مشتمل ہوتا ہے۔ ووٹر حضرات بیک وقت دو ووٹ ڈالتے ہیں، جس میں ایک ووٹ اپنے حلقے کے پسندیدہ نمائندے کو دیا جاتا ہے، جب کہ دوسرا ووٹ پسندیدہ پارٹی کا ہوتا ہے تاہم اسمبلی پارٹی ووٹوں کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے۔
٭جمہوریہ گِنی
مغربی افریقہ میں واقع چھوٹے سے ملک جمہوریہ گنی میں پارلیمانی انتخابات 30 جون کو متوقع ہیں۔ انتخابات کی اصل تاریخ جون 2007تھی جسے توسیع دے کر 8جولائی 2012 کردیا گیا۔ تاہم اپریل 2012میں صدر Alpha Conde نے انتخابات کو ایک مرتبہ پھر غیرمعینہ مدت کے لیے موخر کردیا، جس کے بعد انہوں نے انتخابات کو شفاف طریقے سے منعقد کروانے کے لیے الیکشن کمیشن میں تبدیلیاں کیں اور انتخابات کے لیے12مئی2013کی تاریخ کا اعلان کیا۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق الیکشن 30 جون 2013 کو متوقع ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے عطیات سے منعقد ہونے والے یہ الیکشن مغربی افریقہ کی سیاست پر اہم اثرات مرتب کریں گے۔
کیوں کہ جمہوریہ گنی میں یہ پہلے الیکشن ہوں گے جن کا کسی بھی سیاسی جماعت نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے، جسے براعظم افریقہ کی سیاست کا منفرد واقعہ کہا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ جمہوریہ گنی کی قومی اسمبلی 114اراکین پر مشتمل ہے، جس میں 38 ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے اپنے اپنے حلقوں سے اور 76ممبر متناسب پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب کیے جاتے ہیں، جب کہ صدر عوام کے ووٹوں سے پانچ سال کے لیے اور قومی اسمبلی چار سال کے لیے منتخب کی جاتی ہے۔
٭تیونس
تیونس ایک عوامی جمہوریہ ہے۔ عوامی انقلاب کے باعث 14 جنوری 2011 کو صدر ''زین العابدین بن علی'' کو جب معزول کیا گیا تو نئی عبوری حکومت نے 2014 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب انتخابات کی قبل ازوقت تاریخ 15 اکتوبر2013 سے15 دسمبر 2013 کے درمیان مقرر کی گئی ہے، جس میں تقریبا70جماعتیں 217سیٹوں کے حصول کے لئے انتخابات میں حصہ لیں گی۔
٭قطر
قطر کے بادشاہ اور سربراہ مملکت شیخ حماد بن خلیفہ بن تہانی کہ اس اعلان کے بعد کہ جون2013 میں پارلیمانی اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد کیے جائیں گ تیل کی دولت سے مالامال ملک قطر کے شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
شیخ حماد کی جانب سے یہ فیصلہ 2003 میں بنائے گئے آئین کی روشنی میں کیا گیا ہے، جس کے تحت ملک کے 18سال سے زاید عمر کے شہری 45 اراکین پر مشتمل اسمبلی کے 30 ارکان کو اپنے ووٹوں سے منتخب کریں گے۔ سیاسی مبصرین قطر میں قانون ساز اسمبلی کے تعین کے لیے منعقد کیے جانے والے ان اولین انتخابات کو خطے میں نہایت اہم اور دوررس نتائج کا حامل قرار دے رہے ہیں۔ 1.6ملین آبادی پر مشتمل قطر میں اس سے قبل حکومت بلدیاتی الیکشن کام یابی سے منعقد کر چکی ہے۔
٭ملائیشیا
جنوب مشرقی ایشیا میں واقع اسلامی ملک ملائیشیا کی تاریخ کی بارہویں پارلیمنٹ اپنی مدت 28 اپریل2013 کو مکمل کرچکی ہے جس کے ساتھ ہی ملائیشیا کے آئین کے تحت 60دن کے اندر الیکشن کرانا ضروری ہوگئے ہیں۔ اس لحاظ سے ملائیشیا میں27جون سے قبل الیکشن کا انعقاد لازمی تھا چناں چہ ملائیشین الیکشن کمیشن کے چیئرمین عزیز یوسف نے اعلان کیا ہے کہ پانچ مئی2013کو عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔
اسمبلی کے اختتام کا اعلان Barisan Nasional پارٹی کے پانچ سال سے برسراقتدار وزیراعظم ''نجیب بن تن حاجی عبدالرزاق'' نے ٹیلی ویژن پر کیا ملائیشیا کی پارلیمنٹ 222 اراکین پر مشتمل ہے، جسے ''دیوان ریکیت '' کہا جاتا ہے۔ یہ نمائندے 12ریاستوں سے منتخب کیے جاتے ہیں، جب کہ سینیٹ کی مجموعی تعداد 70نمائندگان پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں سے 44 نمائندے بادشاہ نامزد کرتا ہے۔ لگ بھگ ایک کروڑ تین لاکھ اہل ووٹروں والے اس ملک میں حکومت سازی کے لیے 112سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مبصرین کے مطابق انتخابات میں حکم راں اتحاد نیشنل فرنٹ (Barisan Nasional)کے نجیب بن تن حاجی عبدالرزاق اور حزب اختلاف کے تین جماعتی اتحاد کے اہم راہ نما اور پیپلز جسٹس پارٹی کے انور ابراہیم کے درمیان سخت معرکہ آرائی متوقع ہے۔
٭نیپال
نیپالی عوام طویل عرصے تک بادشاہت کے خلاف مصروف جنگ رہے ہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں 2008 میں ''یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی (مائونواز)'' کی حکومت وجود میں آئی اور اس کی جانب سے ماضی کے گوریلا لیڈر ''پشپا کمال دہل'' جن کا معروف نام ''پراچندا'' ہے کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ تاہم انہوں نے صدر ''رام باران یادیو'' سے آرمی چیف کی تقرری پر اختلاف کے بعد 25 مئی 2009 کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا، جس کے بعد سے نیپال میں سیاسی خلفشار موجود ہے۔
اس دوران اسمبلی نے چار وزرائے اعظم منتخب کیے تاہم یہ اسمبلی آئین کی تشکیل میں ناکامی کے بعد 28 مئی 2012 کو تحلیل کردی گئی، جس کے بعد نیپال کے موجودہ چیف جسٹس Khil Raj Regmiنے14مارچ 2013 کو عبوری وزیراعظم کی حیثیت سے انتظام مملکت سنبھال لیے اس حوالے سے ان کا اہم ترین ہدف دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہے۔
نیپال کے الیکشن کمیشن کی جانب سے مہیا کردہ معلومات کے مطابق نیپال کی دستورساز اسمبلی کے لیے 21 جون 2013 میں الیکشن متوقع ہیں۔ نیپال کی دستور ساز اسمبلی491 اراکین پر مشتمل ہے، جب کہ حکومت سازی کے لیے 246 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیپال میں 17.5ملین ووٹرز ہیں۔ عوامی رائے کے مطابق یونیفائیڈ کمیونسٹ پارٹی (مائو نواز)، نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی (لیننسٹ اور مارکسٹ) کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔
٭آذربائیجان
مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان آذربائیجان ایک اہم اسلامی ریاست ہے، جہاں 16اکتوبر 2013 کو صدارتی الیکشن منعقد ہوں گے۔ آذربائیجان کی قومی اسمبلی جسے ''مجلس ملی'' کہا جاتا ہے۔ 125اراکین پر مشتمل ہے۔ مملکت کا صدر براہ راست ووٹوں کی بنیاد پر منتخب ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق الیکشن میں 24 سیاسی جماعتوں کے نمائندے حصہ لیں گے۔ لگ بھگ 90 لاکھ نفوس پر مشتمل آذربائیجان کے موجودہ صدر ''نیو آذربائیجان پارٹی'' کے ''الہام علیوف'' ہیں۔ 2012 میں مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی صحافیوں کی تنظیم ''آرگنائزڈ کرائم اور کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ'' کی جانب سے ''کرپشن پرسن آف دی ایئر'' کا منفی اعزاز پانے کے باوجود ''الہا م علیوف'' آنے والے انتخابات میں فتح کے حوالے سے بہت پرامید ہیں۔
2013ء کے متوقع صدارتی اور پارلیمانی انتخابات
مذکورہ ممالک کے علاوہ 2013میں دنیا کے جن ممالک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات متوقع ہیں۔
ان میں ممالک میں جمہوریہ البانیہ 23جون (پارلیمانی)، ارجنٹائن27 اکتوبر (قانون ساز اسمبلی)، آسٹریلیا 14ستمبر (وفاقی)، آسٹریا 23 ستمبر (قانون ساز اسمبلی)، بھوٹان 23 اپریل (پارلیمانی)، بلغاریہ 12مئی (پارلیمانی)، کیمرون 14جولائی (پارلیمانی)، کمبوڈیا 28 جولائی (پارلیمانی)، چلی17نومبر (قانون ساز اسمبلی اور صدارتی)۔
جارجیا اکتوبر (صدارتی)، ہونڈراس 24 نومبر (صدارتی، پارلیمانی، بلدیاتی)، آئس لینڈ 27 اپریل (پارلیمانی)، جاپان11جولائی (پارلیمانی/کونسلرز)، منگولیا 26 جون (صدارتی)، مڈغاسکر 24 جولائی (صدارتی )، ناروے 9 ستمبر (پارلیمانی)، فلپائن13مئی (قانون ساز اسمبلی)، تاجکستان نومبر (صدارتی)، ترکمانستان دسمبر (پارلیمانی)، زمبابوے 29جون (صدارتی اور پارلیمانی) انتخابات متوقع ہیں۔