الیکشن ہوں گے ۔۔۔۔۔ نہیں ہوں گے

قومی اور عالمی میڈیا کی روشنی میں ایک تجزیہ

فوٹو : فائل

پاکستان میں عام انتخابات ملتوی کروانے کے لیے عالمی قوتیں کیا حکمت عملی وضع کر رہی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ابھی تک پاکستانی عوام کی سوچوں سے چمٹا ہوا ہے جب کہ دوسری جانب، چند دن بعد پوری قوم الیکشن کے ذریعے نئی قیادت کو منتخب کرنے کی تیاریاں مکمل کیے بیٹھی ہے۔

قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی رپورٹوں اور تجزیوں سے مسلسل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پاکستان کے حالات نئے انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہیں اور اسی سے یہ ابہام پیدا ہو رہاہے ۔ اگر اس ابہام کو سامنے رکھ کر محسوس کیا جائے تو الیکشن کے انعقاد یا ملتوی ہونے سے متعلق سوال کو ہم بے جا بھی نہیں قرار نہیں دے سکتے۔

ان رپورٹوں اور تجزیوں کا مختصر خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے ''امریکا اور برطانیہ سال 2013 میں ہونے والے پاکستانی انتخابات کو سال 2014 کے آخر تک مؤخر کرانے کے لیے سرگرم ہیں اور دونوں ہی ان کوششوں کو مخفی رکھنے کے بھی خواہاں ہیں۔
معتبر ذرائع کے مطابق ان ممالک نے جنوری 2013 کے شروع میں ہی انتخابات کے حوالے سے ہر طرح کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا اور روزانہ کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی میں تبدیلیوں کا آغاز بھی کردیا تھا۔ بعض ذرائع تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ نئے انتخابات کے حوالے سے جو بھی اہم واقعات اب تک رونما ہوئے ہیں ان میں ان دونوں عالمی قوتوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہے اور آئندہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس کے ڈانڈے بھی اسی تناظر میں ملائے جا سکتے ہیں لیکن ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟

پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ''امریکا کو جب تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے لیے اس کی اپنی شرائط پر آسان راہ داری میسر نہیں آجاتی وہ اُس وقت تک حالیہ نگران حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اِس سارے عمل میں برطانیہ معاون اداکار کی حیثیت سے سرگرم ہے۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا خطے میں اِس وقت کئی محاذوں پر سرگرم ہے اور اُس نے بہ ظاہر دفاعی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے تاکہ نیٹو افواج کی نکاسی کے لیے محفوظ راہ داری کو ممکن بنایا جا سکے۔

اِس وقت وہ افغانستان کے اندر اور باہر طالبان سے مذاکرات، پاک فوج سے تعاون کے حصول، کرزئی حکومت کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے جوڑتوڑ، نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں بھارت کے کردار کو کم یا زیادہ کرنے پر غور و خوض اور خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی کوششوں میں الجھا ہوا ہے لیکن سرِدست امریکا کے لیے پاکستان کا کردار نہایت اہمیت اختیار کرچکا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی بھی سطح پر اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی وضع کر ے جو اُس کے مفادات میں دیوار کھڑی کر دے ۔ تجزیہ نگاروں کی ان باتوں کو جھٹلانا یا ماننا ایک مشکل امر ہے کیوںکہ امریکا ابھی تک اِس حوالے سے کھل کر سامنے نہیں آیا لیکن وہ پاکستانی انتخابات کے عمل اور سرگرمیوں سے بہت دور بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں میں تو یہ باتیں بھی اب کھل کر کہی جا رہی ہے کہ سب سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری کو میدان میں اتار گیا ، اُس کے بعد عمران خان کو بہلانے پھسلانے کی کوششیں کی گئیں جب کچھ بن نہ پایا تو جنرل (ر) پرویز مشرف کوعالمی طاقتوں نے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، اس دوران ملک میں تخریب کاری کو ہوا دینے کے لیے طالبان کو بھی ہلاشیری دینے کی حکمت عملی جاری رکھی گئی تاکہ الیکشن کے لیے فضاسازگار نہ ہو سکے۔

تاحال کوئی بھی مہرہ کامیاب دکھائی نہیں دے رہا جس کے بعد اچانک ۲۲ اپریل سے کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مخصوص جماعتوں کو بم دھماکوں سے ڈرانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور اب تک درجنوں بے گناہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی حالت میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب پرویز مشرف کی آمد کے بعد ان کو ملک سے باہر لے جانے کے لیے دبائو بھی بڑھایا جا رہا ہے تاکہ مشرف کے بعد پیدا ہونے والی اشتعال انگیز صورت حال کو کیش کرایا جا سکے مگر واپسی میں ناکامی کو دیکھنے کے بعد ایک بار پھر یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ پرویز مشرف نے ملک سے بھاگنے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔

جب شہید بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور بھٹو کی جانب سے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے یہ کہا گیا کہ پرویز مشرف کو اپنی بیمار ماں سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے تو ملک بھر میں دوبارہ سے چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ الیکشن ہوں گے یا مؤخر کر دیے جائیں گے؟ یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ذہنوں میں سوالیہ نشان سر اٹھا رہے ہیں۔

اس سے قبل خزانے میں زرِمبادلہ میں کمی اور آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے حصول میں ناکامی کو بھی موضوع بنایا گیا تھا اور بہت سے معاشی تجزیہ نگاروں نے دبے دبے لفظوں میں پہلے ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور پھر انتخابات کرانے کا مشورہ دینا شروع کیا تھا۔ اِن تجزیوں کے بعد کاروباری حلقوں کی طرف سے بھی بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ پہلے ملک کو معاشی استحکام ملنا چاہیے، انتخابات اگر ایک سال بعد بھی ہوگئے تو قیامت نہیں آجائے گی۔

کاروباری حلقوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے متعدد سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا کہ نئے انتخابات اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوں گے جب تک قوم کسی ایک سیاسی پارٹی کو واضح مینڈیٹ نہیں دے دیتی۔ اگر ان انتخابات کے بعد بھی کم زور اور مخلوط حکومت ہی بننی ہے تو پھر بہتر ہے کہ انتخابات کو سال دو سال کے لیے مؤخر کر دیا جائے۔

تازہ ترین خبروں کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر سے کم ہو کر 4 ارب ڈالر کی خطرناک حد تک گر گئے ہیں، جس پر معاشی تجزیہ نگاروں نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ زرمبادلہ کی یہ حد ملک کو دیوالیہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس غیر ممالک سے تجارت کے لیے اب صرف ڈیڑھ ماہ کے مالی اثاثے باقی رہ گئے ہیں۔

انتخابات کے التواء کے حوالے سے سب سے زیادہ خوف ناک بات جو اب کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ 11 مئی 2013 سے چند روز پہلے کسی بڑی اور اہم شخصیت کا قتل ہو سکتا ہے جس کو جواز بنا کر انتخابات کو عین موقع پر ملتوی کیا جا سکتا ہے جب کہ اس سازشی تھیوری کے مخالفین بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ خدا نہ خواستہ ایسا ہو گیا تو الیکشن زیادہ سے زیادہ ایک سے دو ہفتے آگے جا سکتے ہیں، ملتوی نہیں ہونے دیں گے۔

اِس حوالے سے پریشاں لوگ استفسار کرتے ہیں کہ وہ کون سی شخصیت ہو سکتی ہے؟ پہلے تو جواب کسی کے پاس نہیں تھا لیکن جب سے پرویز مشرف واپس ملک میں آئے ہیں تو یہ کہنا شروع کر دیا گیا ہے کہ مشرف یا کسی بڑے سیاسی رہنماء کو قربانی کا بکرا بنا کر نادیدہ قوتیں اپنے مفادات حاصل کرسکتی ہیں۔ سازشی اور غیر سازشی نظریات، جن کو بنیاد بنا کر حالیہ انتخابات کے التواء کو زیر بحث لایا جا رہا ہے، وہ ہی ابہام پیدا کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ دوسری جانب جب ملک میں عملی سطح پر الیکشن کے انعقاد کی تیاریوں کو سامنے رکھا جائے تو دل نہیں مانتا کہ انتخابات امریکا کی خواہشات کے مطابق لمبے عرصے کے لیے مؤخر ہو جائیں گے۔

خدانہ خواستہ اگر کسی بھی بڑی وجہ سے ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی اور خاص طور پر بلوچستان کی بدنصیبی ہو گی جہاں پہلے ہی حالات قابو سے باہر نظر آتے ہیں۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی بڑھکوں اور رنجشوں کو ایک طرف رکھ کر اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ حالات چاہے کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہوں الیکشن وقت پر ہونے چاہییں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور افواج پاکستان نے اس ضمن میں بار ہا بھرپور عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی بہ تدریج انتخابی عمل کو آگے بڑھا رہا ہے لیکن ابھی تک نگرانوں کی جانب سے قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔


دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ امریکا اور برطانیہ کی آشیرباد کے بعد اس عہدے کے لیے منتخب ہوئے لیکن نجم سیٹھی ہی نگرانوں میں وہ واحد ہیں جو کھل کر کہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوئے تو وہ اپنا عہدہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ اِس طرح کی بات ابھی تک کسی دوسرے نگران عہدے دار کے منہ سے بھول کر بھی نہیں نکلی۔ اِس ضمن میں نگران وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ وہ قوم سے خطاب کرتے تاکہ یہ ابہام دور ہوتا جو ووٹرز کے ذہنوں میں خنّاس کی طرح بیٹھا ہوا ہے اور اِس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ امریکی کوششیں کہیں نہ کہیں رنگ جما رہی ہیں۔

میڈیا رپورٹوں میں یہ بات بھی آ رہی ہے کہ امریکا کے سفارتی اور غیر سفارتی عہدے داروں نے کراچی اوردوسرے شہروں میں حالیہ بم دھماکوں کے تناظر میں ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو الیکشن مؤخر کرنے پر راضی کر لیا ہے۔ 28 اپریل 2013 کو ایم کیو ایم کے سینیئر رہ نما رضا ہارون نے ملتان میں ایک نجی چینل پر بات چیت کرتے ہوئے برملا کہا کہ وہ الیکشن مؤخر کرنے کی حمایت کرتے ہیں کیوں کہ تخریب کار ہمیں خاص طور پر مخصوص جماعتوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں لبرل جماعتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، ایسے میں منصفانہ الیکشن کیسے ممکن ہیں؟ یاد رہے کہ 5 مارچ کو ایم کیو ایم کے رہ نما بابر غوری نے بھی الیکشن ایک سال تک ملتوی کرنے کی تجویز دی تھی جس پر ڈاکٹر فاروق ستار نے اُس بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا تھا۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ اس وقت الیکشن مؤخر کرنا انتہائی خطرناک ہو گا، ہم الیکشن کے بائیکاٹ اور التواء کے حق میں نہیں بل کہ ایک ہفتہ کی تاخیر بھی نہیں چاہتے، انتخابات اگر ملتوی ہوئے تو ملک کے حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ معتبر ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بارے میں رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں سے کسی ایک کو راضی کر لیا جائے تو الیکشن ملتوی کرنے کی وہ بھی تائید کر دے گی۔ اسی طرح پشاور میں بشیر بلور کے جلسے پر حملے کے بعد اے این پی کو بھی الیکشن کے بائیکاٹ پر راضی کرلینے کی خبریں سامنے آ چکی ہیں لیکن جب اے این پی کے ساتھ قومی سطح پر یک جہتی کا اظہار ہوا تو اس نے بھی ارادہ یہ کہتے ہوئے بدل دیا تھا کہ اگر کوئی دو بڑی جماعتیں راضی ہو جائیں تو وہ بھی اعلان کر دیں گے۔

الیکشن کے بائیکاٹ کے لیے ایک دفعہ پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کو متحرک کرنے کی باتیں سننے میں آ رہی تھیں لیکن جب انہوں نے خود فرمایا کہ الیکشن والے دن ہم احتجاجی دھرنا دیں گے تو بات کھل کر سامنے آگئی لیکن دوسری جانب سیاسی جلسوں میں عوام کے ہجوم دیکھ کر الیکشن ملتوی کرانے کی حامی قوتوں کا زور ٹوٹتا ہوا بھی نظر آ رہا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق اگرالیکشن کے التواء کے تمام حربے ناکام ہو گئے اور انتخابات مقررہ تاریخ پر ہوگئے تو دوسری حکمت عملی کے تحت یہ قوتیں آئندہ حکومت میں جوڑ توڑ کے عمل میں اپنا کردار اداکریں گی۔ کوشش یہ ہو گی کہ جو بھی حکومت بنے وہ زیادہ سے زیادہ مخلوط ہو اور کم زور بھی تاکہ خطے میں امریکی مفادات کی راہ میں روڑے اٹکانے کے عمل کو تقویت نہ مل سکے۔

حالیہ انتخابات اللّٰہ کرے بروقت ہوں اور قوم اپنے سیاسی شعور کابھرپور استعمال کرے تاکہ جو بھی نئی حکومت بنے وہ اس قابل ہو کہ ملکی مفادات پر غیروں کے مفادات کو ترجیح نہ دے سکے۔ قوم کے سیاسی شعور میں پختگی ہی اب اس سوال کا واحد جواب ہے۔

عوام امریکا کی مرضی نہیں چلنے دیں گے

11 مئی 2013 اب دور نہیں۔ انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔
خاص و عام میں حالیہ انتخابات موضوع بحث ہیں۔ جمہوریت دشمن عناصر انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے میں سرگرم عمل ہیں جو اس تاثر بل کہ خدشہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا، کو تقویت دے رہے ہیں کہ انتخابات التواء کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دراصل پاکستان کی سیاسی تاریخ کچھ ایسی رہی ہے کہ جس میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونا نئی بات نہیں۔

ہمارے ہاں جمہوریت پر ہمیشہ شب خون مارا گیا۔ ضیاء الحق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1985 کے انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر منعقد ہوئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ تغیر برپا ہوتے آئے ہیں۔ چوں کہ پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی منتخب حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے اور اب 2013 کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ امریکا کی یقیناً خواہش ہو گی کہ پاکستان میں اُس کی مرضی کی حکومت ہو جس سے وہ اپنی منشاء کے مطابق کام لے سکے۔ شنید ہے کہ وہ اپنی فوجوں کا انخلاء چاہتا ہے لیکن ایسا ابھی ممکن نہیں اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ 2020 تک امریکی فوجیں افغانستان میں رہیں گی۔

تمام خدشات جو الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے سر اٹھا رہے ہیں اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں انتخابی مہم کا وہ جوش و خروش دکھائی نہیں دے رہا جس کا اظہار دیہی علاقوں میں ہو رہا ہے۔

پھر جس طرح انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے انتخابی جلسوں میں دہشت گردی کی گئی۔ تحریک طالبان دراصل جمہوری نظام کے خلاف ہے۔ ملک میں بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت، منہگائی کا عفریت اور بدامنی کی فضا اپنے عروج پر ہے، جس کی وجہ سے خدشات کو تقویت مل رہی ہے لیکن ان تمام خدشات کو ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ ملک کے چاروں بڑے ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے بارہا اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں الیکشن التوا کا شکار بالکل نہیں ہوں گے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پہلی بار ووٹر لسٹیں درست کی گئی ہیں اور ووٹر کی شناخت یقینی بناتے ہوئے جعلی ووٹروں کی روک تھام کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ حکام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ تمام امیدوار اور سیاست دان صبر و تحمل کے ساتھ انتخابی مہم کو اپنے انجام کی طرف لے جائیں۔

نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی اس بات کی یقین دہانی بارہا کروائی ہے کہ الیکشن میں تاخیر کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ملک دشمن عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان میں بدامنی کا دور ختم ہو، اس لیے وہ مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ انتخابات 2013 کو ملتوی کروانے میں ایک سے زیادہ قوتیں سرگرم عمل ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام جمہوری اور سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی اِس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن بروقت ہونے چاہئییں اور انتخابات کے التواء کے خواہش مند گروپوں کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتے ہیں اور یہ امر یقیناً باعثِ اطمینان ہے۔

میڈیا کو اپنا کردار سنجیدگی سے ادا کر رہا ہے۔ 18 کروڑ عوام کو الیکشن کے التواء کے خطرات کو ذہن سے نکال کر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنا قومی فریضہ ادا کریں تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چل سکے۔

(ارم ظفر)
Load Next Story