15فیصد ووٹ لو۔۔۔۔۔حکومت آپ کی

’’لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکّا اپنے منہ پر مارلینا زیادہ بہتر ہے۔‘‘

فوٹو : فائل

انگریزی کے ایک محاورے کا ترجمہ ہے کہ ''لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکّا اپنے منہ پر مارلینا زیادہ بہتر ہے۔''

عام انتخابات کی گہما گہمی میں مصروف پاکستان کے تقریباً 55 فی صد ووٹرز پر یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چار جمہوری ممالک میں شامل ہے، جہاں ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح انتہائی کم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ووٹنگ کی شرح کے اعتبار سے پاکستان سے نیچے صرف تین افریقی ممالک یعنی مصر، آئیوری کوسٹ اور مالی ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

بھارت میں ووٹنگ کی اوسط شرح 59.04 اور بنگلہ دیش میں58.02 فی صد ہے جبکہ پاکستان میں ووٹنگ کی اوسط شرح محض 45.03 فی صد ہے جبکہ غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق یہ شرح تقریباً43 ہے۔ یوں پاکستان کے55 فی صد ووٹر کبھی جمہوری عمل کا حصہ ہی نہیں بنتے۔ سو میں سے پینتالیس ووٹ، پھر ان میں سے بھی جو جماعت اٹھائیس سے اڑتیس فی صد ووٹ حاصل کر لے وہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ سکتی ہے۔

اگر ان حاصل شدہ ووٹوں کو رجسٹرڈ ووٹوں پر تقسیم کیا جائے تو کُل رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف بارہ سے پندرہ فی صد جیت کر کوئی بھی جماعت سب سے بڑی اکثریتی پارٹی بن کے ابھر سکتی ہے اور سو فی صد ووٹروں کی قسمت کے فیصلے پانچ برس تک کرسکتی ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ پھر یہی 55 فی صد ووٹر برسرِ اقتدار جماعت یا اتحاد کو سب سے زیادہ کوستے ہیں، جنہیں اتنا بھی گوارہ نہیں کہ پولنگ کے دن اپنے فراغت کی طویل لمحات میں سے صرف دویا تین گھنٹے نکال کر ووٹ کاسٹ کر دیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ پر گھنٹوں صرف کرنے والے یہ نام نہاد تجزیہ نگار ووٹ کے لئے لائن میں لگنے کو اپنی انا کو ٹھیس پہنچانا یا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

سرکار، سیاسی جماعتیں، میڈیا اور ووٹر خود ملک میںکم ٹرن آئوٹ کے ذمہ دار ہیں۔ ان کا یہ قومی فریضہ ہے کہ لوگوں میں ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کریں، انہیں یہ شعور دیں کہ یہ ایک چھوٹی سے پرچی ہمارے ملک اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ لیکن یہاں تو کوئی فرائض سے غفلت برتا رہا ہے تو کسی کو اس کی مجبوریوں نے باندھ دیا ہے۔

سیاسی جماعتیں جلسوں کی دوڑ، پوسٹروں اور بینروں کی چھپائی اور مخالفین کو نیچا دکھانے میں اس قدر مگن ہوتی ہیں کہ انہیں شرح ووٹ سے نہیں صرف اپنے ووٹروں کی فکر کھائے جاتی ہے۔ میڈیا یہ قومی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھاتا تو ضرور ہے مگر اشتہارات کی شکل میں۔ آگے پیچھے پبلک ٹرانسپورٹ پر دھکے کھانے والے ووٹر(استثنیٰ کے ساتھ) الیکشن کے روز امیدوار یا ان کے کارندوں کی طرف سے عزت کے ساتھ اپنی سواری پر ہی ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔


ووٹنگ کی شرح بڑھانے کا ایک سادہ سا طریقہ تو یہ ہے کہ ہر شہری کو قانوناً ووٹ دینے پر مجبور کیا جائے، اور قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ یا کوئی اور کارروائی کی جائے۔ لیکن ہمارے متعلقہ سرکاری اداروں کی اتنی استعداد کار ہی نہیں رہی کہ وہ اپنے ضابطوں پر عملدرآمد کروا سکیں۔ اس لئے ملک میںکمزور جمہوری عمل، اسٹیبلشمنٹ کی کارستانیوں اور عوام دشمن وڈیروں کا راستہ روکنے کے لئے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن کا رخ کرنا ہوگا۔ کیوں کے بعد میں لکیر کو پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

پاکستان میں ٹرن آؤٹ شرح کیا رہی؟

پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970ء میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے کروائے۔

اس وقت حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح بہت بلند تھی اور 63 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ تب یہ انتخابات پاکستان کے دونوں حصوں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بیک وقت منعقد ہوئے تھے اور ان انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے حالات مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک نئے ملک کے قیام پر منتج ہوئے تھے۔ اس وقت ملک میں کُل ووٹرز 5کروڑ 69لاکھ 41ہزار 500تھے، جن میں سے 3کروڑ 21لاکھ ایک ہزار 220 مشرقی پاکستان اور 2کروڑ 57لاکھ 30ہزار 280مغربی پاکستان کے تھے۔

پاکستان کے دوسرے عام انتخابات 7مارچ 1977ء میں ہوئے جن میں ووٹروں کی کُل تعداد 3کروڑ 89 لاکھ 9ہزار 52 تھی۔11جنوری 1977ء کو ملک کی تمام بڑی پارٹیوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جس کا نام پاکستان نیشنل الائنس رکھا گیا۔ ان انتخابات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٹرن آؤٹ 63 فی صد رہا۔ انتخابی نتائج پر پی این اے نے بائیکاٹ کیا اور یہ انتخابات ایک اور مارشل لاء کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ 16نومبر 1988ء کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز 4کروڑ 62لاکھ 6ہزار 55 تھی جبکہ ٹرن آؤٹ 43.07 بیان کیا جاتا ہے۔

1990ء کے انتخابات میں 4کروڑ 70لاکھ 65ہزار 330 رجسٹرڈ ووٹرز کے ساتھ انتخابات ہوئے اور ٹرن آؤٹ 45.46 رہا۔ اس کے بعد 93ء کے انتخابات آئے جن میں ٹرن آؤٹ 40.28 فی صد تھا۔جلد ہی 1997ء میں ایک مرتبہ پھر قوم کو انتخابات میں جانا پڑا جن میں ٹرن آؤٹ 35.17رہا۔ 1999ء میں ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لاء لگا اور اگلے انتخابات 2002ء میں ہوئے، جن میں ٹرن آؤٹ 41.80 تھا۔آخری انتخابی معرکہ 2008ء میں ہوا تھا جس میں ووٹر ٹرن آؤٹ 44.55 فی صد رہا۔
Load Next Story