پاکستان آرمی چیف سے امریکی نائب وزیر خارجہ کی ملاقات
وقت آگیا ہے کہ امریکا اور دیگر ریاستیں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں۔
پاک امریکا تعلقات اور افغانستان صورتحال کے تناظر میں امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا دورۂ پاکستان نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق منگل کو آرمی چیف سے امریکی نائب وزیر خارجہ کی ملاقات میں دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور، خطے کی سیکیورٹی صورتحال اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک نے خطے میں امن و سلامتی کے قیام اور مختلف سطحوں پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
بلاشبہ ایسے وقت جب کہ پاکستان میں آیندہ عام انتخابات قریب تر ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو مستقل گرے لسٹ میں رکھے جانے کی شکایت ہے، اس دورہ کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ 15 جون کو ملا فضل اﷲ پر حملے کے بعد امریکی نائب وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے اور وہ کابل میں ایک روزہ قیام کے بعد اسلام آباد آئی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر عہدیدار برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز پیر کو کابل سے اسلام آباد پہنچی تھیں اور طے شدہ شیڈول کے مطابق ان کا یہ دو روزہ دورہ تھا۔ ان کی مصروفیات کے شیڈول میں سیاسی اور عسکری قیادت سمیت وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔
خبر کے مطابق ملاقات کے دوران امریکی نائب وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو سراہنے کے ساتھ اس کی قربانیوں کا اعتراف اور نقصانات کی تلافی کی بھی کوشش کی جائے جب کہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ پاکستان دورہ سے قبل ہی ایلس ویلز نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے پاکستان سے 'ڈو مور'' کا روایتی مطالبہ دہرایا تھا، اور ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ''اگر پاکستان ہمارے ساتھ کام نہیں کرتا تو ہمارے لیے اہداف کا حصول بہت مشکل ہوگا''۔
امریکا کا یہ رویہ عجب ہے کہ ایک جانب اس کے سفرا پاکستان کی تعریف بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارروائیوں کو ناکافی قرار دے کر ''گرے لسٹ'' میں شامل اور بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف صائب کارروائیوں اور اس جنگ میں فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی ایک دنیا معترف ہے۔ پاکستان نے بلاشبہ امن عالم کی خاطر دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے اور اپنی سرزمین پر ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد جیسی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں دے رہا۔
وقت آگیا ہے کہ امریکا اور دیگر ریاستیں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور اپنی ناقص حکمت عملی اور غلطیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانے کے بجائے برابری کی سطح پر برتاؤ رکھیں۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا حامی ہے اور اس سلسلے میں اپنی بے لوث خدمات پیش کرچکا ہے، افغان مسئلے کا حل صرف اور صرف مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا نام گرے لسٹ میں رکھنے کا اقدام بھی غلط ہے۔
جب امریکی نائب وزیر خارجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار، مسلح افواج اور عوام کے عزم کو سراہ رہی ہیں تو ساتھ ہی وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی بھی سفارش کریں۔ امریکا کو اپنا دہرا رویہ ترک کرنا ہوگا۔
بلاشبہ ایسے وقت جب کہ پاکستان میں آیندہ عام انتخابات قریب تر ہیں اور ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو مستقل گرے لسٹ میں رکھے جانے کی شکایت ہے، اس دورہ کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ 15 جون کو ملا فضل اﷲ پر حملے کے بعد امریکی نائب وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے اور وہ کابل میں ایک روزہ قیام کے بعد اسلام آباد آئی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی سینئر عہدیدار برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز پیر کو کابل سے اسلام آباد پہنچی تھیں اور طے شدہ شیڈول کے مطابق ان کا یہ دو روزہ دورہ تھا۔ ان کی مصروفیات کے شیڈول میں سیاسی اور عسکری قیادت سمیت وزارت خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔
خبر کے مطابق ملاقات کے دوران امریکی نائب وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو سراہنے کے ساتھ اس کی قربانیوں کا اعتراف اور نقصانات کی تلافی کی بھی کوشش کی جائے جب کہ حقیقت حال تو یہ ہے کہ پاکستان دورہ سے قبل ہی ایلس ویلز نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے پاکستان سے 'ڈو مور'' کا روایتی مطالبہ دہرایا تھا، اور ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ''اگر پاکستان ہمارے ساتھ کام نہیں کرتا تو ہمارے لیے اہداف کا حصول بہت مشکل ہوگا''۔
امریکا کا یہ رویہ عجب ہے کہ ایک جانب اس کے سفرا پاکستان کی تعریف بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارروائیوں کو ناکافی قرار دے کر ''گرے لسٹ'' میں شامل اور بلیک لسٹ میں ڈالنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف صائب کارروائیوں اور اس جنگ میں فرنٹ اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی ایک دنیا معترف ہے۔ پاکستان نے بلاشبہ امن عالم کی خاطر دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے اور اپنی سرزمین پر ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد جیسی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں دے رہا۔
وقت آگیا ہے کہ امریکا اور دیگر ریاستیں پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور اپنی ناقص حکمت عملی اور غلطیوں کا ملبہ پاکستان پر گرانے کے بجائے برابری کی سطح پر برتاؤ رکھیں۔ پاکستان افغانستان میں قیام امن کا حامی ہے اور اس سلسلے میں اپنی بے لوث خدمات پیش کرچکا ہے، افغان مسئلے کا حل صرف اور صرف مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا نام گرے لسٹ میں رکھنے کا اقدام بھی غلط ہے۔
جب امریکی نائب وزیر خارجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار، مسلح افواج اور عوام کے عزم کو سراہ رہی ہیں تو ساتھ ہی وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے کی بھی سفارش کریں۔ امریکا کو اپنا دہرا رویہ ترک کرنا ہوگا۔