11 مئی کے عام انتخابات میں سندھ سے پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل ہوگی اویس مظفر
مجھے جھوٹ بولنا نہیں آتا، لوگوں نے میرے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا مگر وہ ناکام ہوگئے، اویس مظفر
اویس مظفر نے کراچی یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں 1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید) نے اویس مظفر کی سیاسی ترتیب کی۔
1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) جب وزیراعظم منتخب ہوئیں تو انھوں نے پہلے پرسنل اسسٹنٹ سیکریٹری کے لیے 19 سال کے اویس مظفر کا انتخاب کیا ۔ 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) نے 1997 میں جلا وطنی کی زندگی گذاری تو اویس مظفر نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ 2007 تک جلا وطنی کی زندگی گذاری اور اسی دوران سیاسی تربیت حاصل کرتے رہے ۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) کے یہ انتہائی قابل اعتماد کارکن ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ایکسپریس گروپ آف پبلیکیشن کودیا جانے والا ان کا پہلا انٹرویو ۔
٭ آپ سیاست میں تو بہت پہلے سے سرگرم ہیں ، الیکشن لڑنے کا خیال آپ کے دل میں کیسے آیا ؟
اویس مظفر: کسی بھی سیاست دان کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ایک بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا تو بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ الیکشن کا مقصد کسی بھی سیاست دان اور عوام کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنا ہے۔ الیکشن میں جاکر ہی پتہ چلتا ہے کہ زمینی حقائق اور لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں ۔ حقیقی سیاست عوام سے تعلق کا دوسرا نام ہے ۔ الیکشن ایک چیلنج ہے اور الیکشن ایک احتساب ہے ۔
٭ آپ نے ٹھٹھہ کے علاقے گھوڑا باری سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اویس مظفر: اس کے کئی اسباب ہیں ۔ ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ میری فیملی کے ڈومیسائل ٹھٹھہ کے ہیں یہ حلقہ کراچی کے قریب ہے اور میرے لیے اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطے میں رہنا بہت آسان ہوگا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ سندھ کے ساحلی علاقے انتہائی غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں ۔ ان علاقوں میں جو بھی ترقی اس وقت نظرآتی ہے ، وہ پیپلزپارٹی کے مختلف ادوار میں ہوئی ہے ان ساحلی علاقوں کو دیگر حکومتوں نے نظرانداز کیا ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر آصف علی زراری کا ان ساحلی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک خصوصی ''وژن'' ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ان ساحلی علاقوں میں ترقی پاکستان میں انقلاب برپا کرسکتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ساحلی علاقوں میں شاہراہیں اور سڑکیں تعمیر کرائیں ۔ انھوں نے ماہی گیروں کو پوری ساحلی پٹی میں کئی جیٹیز بناکر دیں ۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کا پہلا کول پاور پلانٹ کیٹی بندر میں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ، جسے بعدازاں میاں نوازشریف کی حکومت نے ختم کردیا ۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ساحلی علاقوں کی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے اور ان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے دعوت دی ۔ ہماری پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت نے صدر آصف کی قیادت میں ساحلی علاقوں میں غربت کے خاتمے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی منصوبے مکمل کیے ۔ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو جتنا بجٹ ہماری حکومت نے دیا کسی دوسری حکومت نے نہیں دیا ۔ ساحلی علاقوں میں غریب لوگوں خصوصاً ماہی گیروں کو ہزاروں مکانات بناکر دیئے گئے۔ ماہی گیروں کو کشتیاں فراہم کی گئیں اور انھیں چھوٹے قرضے بھی دیئے گئے ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس نصب کیے گئے۔
بجلی کے لیے سولر پینلز اور چھوٹی ونڈ ملزم مہیا کی گئیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے منصوبے کو بہت زیادہ آگے بڑھایا ۔ میرا یہ خواب ہے کہ ان ساحلی علاقوں کو دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایاجائے ۔ یہاں بے پناہ مواقع اور وسائل موجود ہیں ۔ میری یہ کوشش ہوگی کہ یہاں کچھ عرصے کے بعد یہاں کچھ عرصے کے بعد تبدیلی محسوس ہو ۔
٭ عام انتخابات کے بعد آپ سندھ میں کیا سیاسی منظر دیکھ رہے ہیں؟
اویس مظفر : ویسے تو پاکستان کے عوام کا سیاسی شعور بہت بلند ہے لیکن سندھ کے عوام زیادہ سیاسی آزمائشوں سے گزرے ہیں ۔ اپنے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے ، قیام پاکستان سے پہلے برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کی یہ رائے تھی کہ سندھ کے عوام مزاحمت پسند اور مزاجاً سامراج دشمن ہیں ۔ انھیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والی پاکستان کی واحد سیاست جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔ یہ پارٹی ان کے مزاج اور مزاحمتی روایات پر پورا اترتی ہے ، گڑھی خدا بخش میں بھٹو شہید کا مقبرہ پوری وادی سندھ کی مزاحمت کا عظیم نشان ہے اور وادی سندھ کی تہذیب کی علامت ہے، جس کی بنیاد امن ، محبت اور قربانی ہے۔
سندھ کے عوام اور پیپلز پارٹی کا اٹوٹ رشتہ ہے ۔ یہ روح اور جسم کا رشتہ ہے ۔ یہ رشتہ ٹی وی چینلز یا اخبارات کے ذریعے پروپیگنڈہ نہیں بنا اور نہ ہی بندوق اور طاقت سے یہ تعلق قائم ہوا ہے ۔ یہ رشتہ جانوں کی قربانیاں دے کر بنا ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ 11مئی کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے کیونکہ اس مرتبہ ماضی کی طرح سندھ کے عوام کا مینڈیٹ چرانے نہیں دیا جائے گا ۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اگر کامیاب ہوئے ہیں تو وہ دھاندلی والے انتخابات میں ہوئے ہیں لیکن اب دھاندلی نہیں ہونے دی جائے گی اور لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ سندھ کے عوام کا حقیقی مینڈیٹ کیا ہے۔
٭ بعض حلقے یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ اس لیے سندھ میں اس کی سیاسی حمایت کم ہوئی ہے ۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
اویس مظفر: یہ حلقے محض غلط فہمی کا شکار ہیں ، کوئی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے ۔ انھیں پتہ چل جائے گا ۔ یہ وہ حلقے ہیں ، جو عوام دشمن اور آمرانہ قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنے ہی غلط اندازوں کا شکار ہو جاتے ہیں ، سندھ سمیت پورے پاکستان کے عوام کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا ہے۔ آج اگر سندھ کے لوگ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف ادوار ، وزارتوں اور محکموں میں نظر آتے ہیں تو یہ پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہے۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حالیہ حکومت نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔
2008 میں جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین داخلی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار تھا ۔ دہشت گردوں نے پاکستانی سماج کے تانے بانے بکھیر دیئے تھے۔ سیاسی پولرائزیشن عروج پر تھی ، جس میں انتہا پسند قوتیں پروان چڑھ رہی تھیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحہ کے بعد پاکستان کی سلامتی کے لیے کئی چیلنجز پیدا ہوگئے۔ صدر آصف علی زرداری کی رہنمائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ سے پہلے پاکستان کی سلامتی اور ریاستی عمل داری پر توجہ دی ۔
مفاہمت کے ذریعے سیاسی پولرائزیشن کو کم کیا اور انتہا پسند اور جمہوریت دشمن قوتوں کے لیے سازشوں کے مواقع بھی بہت حد تک ختم کر دیئے ۔ پوری پاکستانی قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد اور یکجا کیا اور پہلی دفعہ قومی اتفاق رائے سے دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی اپنی جنگ شروع ہوئی اور پاکستان عالمی سازشوں کے حال سے نکلنا شروع ہوا ۔ اب دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو ایک سمت مل گئی ہے اور انشا اللہ پاکستان کے پرامن عوام فتحیاب ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئینی اصلاحات کیں اور 1973 کا آئین نہ صرف بحال کیا بلکہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی ۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر پاکستان کو وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست بنایا اور وفاق پاکستان کو خطرات سے نکالا۔
بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ۔ سرحد کے عوام کو شناخت دی اور صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھا ۔ پیپلز پارٹی نے متفقہ این ایف سی ایوارڈ دیا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق کو درپیش خطرات اور پاکستانی سیاست کو بحرانوں سے نکالنے کے بعد پاکستان کے اکثریتی عوام کی حالت بدلنے کے لیے بھی انقلابی اقدامات کیے۔ جب پوری دنیا میں معاشی بحران تھا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری اور نجی شعبوں سے لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا تھا ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے لاکھوں بیرزگار نوجوانوں کو روزگار دے کر پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔ شہید بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ کئی لاکھ غریب خاندانوں کی ماہانہ کفالت کی اور اس پروگرام کو دنیا بھر میں سراہا گیا ۔
٭ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بھلائی کے لیے کیا اقدامات کیے؟
اویس مظفر: پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے عوام کی خدمت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ پانچ سال کے عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری شعبے میں براہ راست ملازمتیں فراہم کی گئیں ، جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا گیا ۔ یہ حکومت کی طرف سے روزگار فراہم کرنے کا شاید اس عرصے کا عالمی ریکارڈ ہوگا ۔ ملازمتیں غریب نوجوانوں کو میرٹ اور استحقاق کی بنیاد پر فراہم کی گئیں ۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو شہید بینظیر بھٹو یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی گئی، جس کے ذریعہ وہ نجی اور سرکاری شعبے میں ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔
سندھ مسلسل دو سال تک یعنی 2010 اور 2011 میں سو سالہ تاریخ کی بدترین بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار رہا ۔ 2010 میں 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 2011 میں 65 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ۔ حکومت نے ان افراد کو نہ صرف سنبھالا بلکہ انہیں دوبارہ بحال کیا ۔ لوگوں کی مالی امداد کی ، انہیں مفت کھاد اور بیج فراہم کیے تاکہ وہ دوبارہ اپنی فصلیں اگا کر اپنا روزگار بحال کرسکیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں متاثرین سیلاب کو مکانات بناکر دیے گئے ۔ اس عرصے میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور منتخب نمائندے دن رات عوام کی خدمت کرتے رہے۔
اتنی بڑی قدرتی آفت میں پیپلز پارٹی نے اپنی خدمت سے عوام کو یہ احساس دلایا کہ ان کی اپنی حکومت ہے ، جو دکھ کے اس مرحلے میں ان کے ساتھ ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 35 ہزار نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں ۔ ہزاروں بے زمین ہاریوں خصوصاً خواتین ہاریوں کو زمینیں اور کاشت کے لیے کھاد ، بیج اور زرعی آلات فراہم کیے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کی مد یں 470 ارب روپے خرچ کیے۔ اتنی رقم مجموعی طور پر پہلے والے 60 سالوں میں خرچ نہیں ہوئی ہوگی۔
وفاقی حکومت کے اتنی ہی رقم کے ترقیاتی منصوبے اس کے علاوہ تھے ۔ تعلیم ، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ریکارڈ بجٹ خرچ کیا گیا ۔ شہروں اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے خصوصی پیکیجز دیئے گئے ۔ یونین کونسل کی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کئی پروگرامز شروع کیے گئے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کو ان کے گھر پر ماہانہ رقم فراہم کی گئی ، سیکڑوں دیہاتوں میں بجلی اور گیس کی لائنیں فراہم کی گئیں ، سڑکوں کا جال بچھایا گیا ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق سے مالیاتی وسائل کا رخ صوبوں کی طرف موڑا اور صوبوں نے ان وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑا اور اس حوالے سے سندھ ایک رول ماڈل ہے ۔
٭ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعض فیصلے سندھ کے عوام کے حق میں نہیں تھے ان میں سے ایک فیصلہ سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 ء کا نفاذ بھی ہے اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
اویس مظفر : جو لوگ پرویز مشرف کی ضلعی حکومتوں کے نظام کا حصہ رہے اور آمرانہ حکومتوں میں شامل رہے وہ پیپلزپارٹی کے دور میں زیادہ قوم پرست بن جاتے ہیں ۔ انھیں سندھ دشمن قوتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں بھی شرم نہیں آتی لیکن سندھ کے عوام ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ وہ سندھ کے عوام کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ سندھ کے عوام کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی ان کی امنگوں اور امیدوں کی ترجمان ہے ۔ آج سندھ میں کون سا نظام نافذ ہے ۔ یہ 1979کا بلدیاتی نظام ہے جو سندھ کے عوام کی مرضی کے مطابق ہے ۔ یہ کام صرف پیپلز پارٹی کر سکتی تھی ، کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تھا۔ جو لوگ سندھ کے بڑے چیمپئن بنتے ہیں ۔ اگر ان کی حکومت ہوتی تو وہ یہ کام نہیں کرسکتے تھے۔
پیپلزپارٹی سے زیادہ سندھ کے عوام کے مفادات اور حقوق کا محافظ کوئی اور نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے پرویز مشرف کے دور میں کالاباغ ڈیم کے حق میں ریلیاں نکالیں اور سندھ کو تباہ کرنے والے منصوبے کے ساتھ جڑے رہے آج وہ پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں لیکن عوام انہیں جانتے ہیں اور 11 مئی کو سندھ کے عوام کالاباغ ڈیم کے حق میں ریلیاں نکالنے والوں کو سیاسی طور پر دفن کردیں گے۔
٭ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ اتحاد پیپلزپارٹی کے لیے کوئی مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔
اویس مظفر : اس طرح کے اتحاد ماضی میں بنتے رہے ہیں جنرل ضیاء الحق نے اتحاد بنوایا لیکن عوام نے مسترد کردیا ، آئی جے آئی بنایا گیا لیکن عوام میں پذیرائی نہیں ملی ، اصغر خان کیس میں تمام لوگ بے نقاب ہوچکے ہیں اور عوام ان کو پہلے سے زیادہ جان چکے ہیں ، بحرحال میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں کوئی سیاسی مشکلات پیدا ہوں گی ۔ جن دوستوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنایا ہے ، وہ غلط سیاسی اندازوں کی بنیاد پر بنایا ہے ۔ سیاست کرنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے لیکن یہ بات تو پیپلزپارٹی کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جتنا بھی زور لگائیں ، پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں حکومت نہیں بنا سکتے ۔
٭ کیا انتخابات کے بعد بھی مفاہمت کی پالیسی جاری رہے گی ؟
اویس مظفر : مفاہمیت ایک فلسفہ ہے ، جو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخی اور عالمی تناظر میں پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے دیا اور اس فلسفے کو صدرآصف علی زرداری نے عملی جامعہ پہنایا اور یہ ثابت کیا کہ یہ فلسفہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے ۔ اس فلسفے پر عمل جاری رہے گا ۔ سندھ کی سیاسی قوتوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس صوبے اور ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں ۔ انتخابا ت کے بعد بھی مفاہمت کی سیاست جاری رہے گی لیکن ایسے لوگ جنھوں نے بار بار پیپلز پارٹی کو دھوکہ دیا ، ذاتی مفادات کی سیاست کی اور پیپلز پارٹی کو اچانک دھوکہ دے کر چلے گئے ایسے لوگوں کے لیے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سید قائم علی شاہ نے واضح طور پر پارٹی کے دورازے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔
٭ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے ٹھٹھہ میں جلسہ کیا آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں
اویس مظفر : میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری فتح ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے ٹھٹھہ میں عوامی رابطہ مہم شروع کی جس طرح ٹھٹھہ کے عوام نے میرا استقبال کیا اس کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ٹھٹھہ کی اہم گدی نشین شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا اس سے مخالفین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور صرف الزام تراشی کی سیاست کر رہے ہیں ۔ مجھے جھوٹ بولنے نہیں آتا لوگوں نے میرے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا لیکن وہ ناکام ہوگئے ۔ ٹھٹھہ کے عوام کی محبت دیکھ کر میرے سیاسی جذبے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اسی لیے نوازشریف کو بھی ٹھٹھہ یاد آگیا ہے ۔ نوازشریف نے ٹھٹھہ کے عوام کو یہ بتانا بھی پسند نہیں کیا کہ کیٹی بندر منصوبہ کیوں بند کیا تھا ، کیا وہ سندھ کے پسماندہ علاقے ٹھٹھہ میں قائم کیا گیا تھا یہ پیپلز پارٹی کا جرم تھا جس کی سزا سندھ کے غیور عوام کو دی گئی۔
٭ ٹھٹھہ کے گدی نشین اور اہم شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے کیا اسباب ہیں ؟
اویس مظفر : سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے اور پیپلز پارٹی صوفیوں کی دھرتی کی حفاظت کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور سندھ کے صوفیوں کے گدی نشین یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوام کی بہتر انداز میں خدمت کرسکتی ہے اسی لیے ہمیں عزت دی جا رہی ہے مجھے ٹھٹھہ کے دوروں کے دوران دکھ پہنچا ہے کہ ایک زمانھے میں ٹھٹھہ سندھ کا دارالخلافہ تھا یہاں ساڑھے چار سو یونیورسٹیاں تھیں لیکن اب تعلیم کو تباہ و برباد کردیا گیا ، لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں جو لوگ ہر حکومت کا حصہ رہے انھوں نے ٹھٹھہ کو تباہ و برباد کردیا ہے لیکن انشاء اللہ ہم ٹھٹھہ کو دوبارہ بنائیں گے عوام کو ہر سہولت ان کی دہلیز پر پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے ہمیں امید ہے کہ ٹھٹھہ کے عوام 11 مئی کو پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر کو ووٹ دے کر ٹھٹھہ کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا قلعہ بنائیں گے اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کا سیاسی کردار ہمیشہ کے لیے ٹھٹھہ سے ختم ہوجائے گا۔
1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) جب وزیراعظم منتخب ہوئیں تو انھوں نے پہلے پرسنل اسسٹنٹ سیکریٹری کے لیے 19 سال کے اویس مظفر کا انتخاب کیا ۔ 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) نے 1997 میں جلا وطنی کی زندگی گذاری تو اویس مظفر نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ 2007 تک جلا وطنی کی زندگی گذاری اور اسی دوران سیاسی تربیت حاصل کرتے رہے ۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید ) کے یہ انتہائی قابل اعتماد کارکن ٹھٹھہ کے حلقہ پی ایس 88 گھوڑا باڑی سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ایکسپریس گروپ آف پبلیکیشن کودیا جانے والا ان کا پہلا انٹرویو ۔
٭ آپ سیاست میں تو بہت پہلے سے سرگرم ہیں ، الیکشن لڑنے کا خیال آپ کے دل میں کیسے آیا ؟
اویس مظفر: کسی بھی سیاست دان کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ایک بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کا تو بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔ الیکشن کا مقصد کسی بھی سیاست دان اور عوام کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنا ہے۔ الیکشن میں جاکر ہی پتہ چلتا ہے کہ زمینی حقائق اور لوگوں کے اصل مسائل کیا ہیں ۔ حقیقی سیاست عوام سے تعلق کا دوسرا نام ہے ۔ الیکشن ایک چیلنج ہے اور الیکشن ایک احتساب ہے ۔
٭ آپ نے ٹھٹھہ کے علاقے گھوڑا باری سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اویس مظفر: اس کے کئی اسباب ہیں ۔ ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ میری فیملی کے ڈومیسائل ٹھٹھہ کے ہیں یہ حلقہ کراچی کے قریب ہے اور میرے لیے اپنے حلقے کے لوگوں سے رابطے میں رہنا بہت آسان ہوگا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ سندھ کے ساحلی علاقے انتہائی غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں ۔ ان علاقوں میں جو بھی ترقی اس وقت نظرآتی ہے ، وہ پیپلزپارٹی کے مختلف ادوار میں ہوئی ہے ان ساحلی علاقوں کو دیگر حکومتوں نے نظرانداز کیا ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر آصف علی زراری کا ان ساحلی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک خصوصی ''وژن'' ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ان ساحلی علاقوں میں ترقی پاکستان میں انقلاب برپا کرسکتی ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ساحلی علاقوں میں شاہراہیں اور سڑکیں تعمیر کرائیں ۔ انھوں نے ماہی گیروں کو پوری ساحلی پٹی میں کئی جیٹیز بناکر دیں ۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کا پہلا کول پاور پلانٹ کیٹی بندر میں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ، جسے بعدازاں میاں نوازشریف کی حکومت نے ختم کردیا ۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ساحلی علاقوں کی ترقی کے لیے کئی منصوبے بنائے اور ان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے دعوت دی ۔ ہماری پیپلزپارٹی کی حالیہ حکومت نے صدر آصف کی قیادت میں ساحلی علاقوں میں غربت کے خاتمے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کئی منصوبے مکمل کیے ۔ کوسٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو جتنا بجٹ ہماری حکومت نے دیا کسی دوسری حکومت نے نہیں دیا ۔ ساحلی علاقوں میں غریب لوگوں خصوصاً ماہی گیروں کو ہزاروں مکانات بناکر دیئے گئے۔ ماہی گیروں کو کشتیاں فراہم کی گئیں اور انھیں چھوٹے قرضے بھی دیئے گئے ۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس نصب کیے گئے۔
بجلی کے لیے سولر پینلز اور چھوٹی ونڈ ملزم مہیا کی گئیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے منصوبے کو بہت زیادہ آگے بڑھایا ۔ میرا یہ خواب ہے کہ ان ساحلی علاقوں کو دنیا کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایاجائے ۔ یہاں بے پناہ مواقع اور وسائل موجود ہیں ۔ میری یہ کوشش ہوگی کہ یہاں کچھ عرصے کے بعد یہاں کچھ عرصے کے بعد تبدیلی محسوس ہو ۔
٭ عام انتخابات کے بعد آپ سندھ میں کیا سیاسی منظر دیکھ رہے ہیں؟
اویس مظفر : ویسے تو پاکستان کے عوام کا سیاسی شعور بہت بلند ہے لیکن سندھ کے عوام زیادہ سیاسی آزمائشوں سے گزرے ہیں ۔ اپنے حقوق کے لیے ان کی جدوجہد کی تاریخ بہت پرانی ہے ، قیام پاکستان سے پہلے برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کی یہ رائے تھی کہ سندھ کے عوام مزاحمت پسند اور مزاجاً سامراج دشمن ہیں ۔ انھیں اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والی پاکستان کی واحد سیاست جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔ یہ پارٹی ان کے مزاج اور مزاحمتی روایات پر پورا اترتی ہے ، گڑھی خدا بخش میں بھٹو شہید کا مقبرہ پوری وادی سندھ کی مزاحمت کا عظیم نشان ہے اور وادی سندھ کی تہذیب کی علامت ہے، جس کی بنیاد امن ، محبت اور قربانی ہے۔
سندھ کے عوام اور پیپلز پارٹی کا اٹوٹ رشتہ ہے ۔ یہ روح اور جسم کا رشتہ ہے ۔ یہ رشتہ ٹی وی چینلز یا اخبارات کے ذریعے پروپیگنڈہ نہیں بنا اور نہ ہی بندوق اور طاقت سے یہ تعلق قائم ہوا ہے ۔ یہ رشتہ جانوں کی قربانیاں دے کر بنا ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ 11مئی کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام پاکستان پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ کامیابی سے ہمکنار کریں گے کیونکہ اس مرتبہ ماضی کی طرح سندھ کے عوام کا مینڈیٹ چرانے نہیں دیا جائے گا ۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اگر کامیاب ہوئے ہیں تو وہ دھاندلی والے انتخابات میں ہوئے ہیں لیکن اب دھاندلی نہیں ہونے دی جائے گی اور لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ سندھ کے عوام کا حقیقی مینڈیٹ کیا ہے۔
٭ بعض حلقے یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ اس لیے سندھ میں اس کی سیاسی حمایت کم ہوئی ہے ۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
اویس مظفر: یہ حلقے محض غلط فہمی کا شکار ہیں ، کوئی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے ۔ انھیں پتہ چل جائے گا ۔ یہ وہ حلقے ہیں ، جو عوام دشمن اور آمرانہ قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنے ہی غلط اندازوں کا شکار ہو جاتے ہیں ، سندھ سمیت پورے پاکستان کے عوام کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا ہے۔ آج اگر سندھ کے لوگ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف ادوار ، وزارتوں اور محکموں میں نظر آتے ہیں تو یہ پیپلز پارٹی کی وجہ سے ہے۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حالیہ حکومت نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔
2008 میں جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین داخلی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار تھا ۔ دہشت گردوں نے پاکستانی سماج کے تانے بانے بکھیر دیئے تھے۔ سیاسی پولرائزیشن عروج پر تھی ، جس میں انتہا پسند قوتیں پروان چڑھ رہی تھیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحہ کے بعد پاکستان کی سلامتی کے لیے کئی چیلنجز پیدا ہوگئے۔ صدر آصف علی زرداری کی رہنمائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ سے پہلے پاکستان کی سلامتی اور ریاستی عمل داری پر توجہ دی ۔
مفاہمت کے ذریعے سیاسی پولرائزیشن کو کم کیا اور انتہا پسند اور جمہوریت دشمن قوتوں کے لیے سازشوں کے مواقع بھی بہت حد تک ختم کر دیئے ۔ پوری پاکستانی قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد اور یکجا کیا اور پہلی دفعہ قومی اتفاق رائے سے دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی اپنی جنگ شروع ہوئی اور پاکستان عالمی سازشوں کے حال سے نکلنا شروع ہوا ۔ اب دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو ایک سمت مل گئی ہے اور انشا اللہ پاکستان کے پرامن عوام فتحیاب ہوں گے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئینی اصلاحات کیں اور 1973 کا آئین نہ صرف بحال کیا بلکہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی ۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر پاکستان کو وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست بنایا اور وفاق پاکستان کو خطرات سے نکالا۔
بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ۔ سرحد کے عوام کو شناخت دی اور صوبے کا نام خیبر پختونخوا رکھا ۔ پیپلز پارٹی نے متفقہ این ایف سی ایوارڈ دیا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق کو درپیش خطرات اور پاکستانی سیاست کو بحرانوں سے نکالنے کے بعد پاکستان کے اکثریتی عوام کی حالت بدلنے کے لیے بھی انقلابی اقدامات کیے۔ جب پوری دنیا میں معاشی بحران تھا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سرکاری اور نجی شعبوں سے لاکھوں افراد کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا تھا ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے لاکھوں بیرزگار نوجوانوں کو روزگار دے کر پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔ شہید بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ کئی لاکھ غریب خاندانوں کی ماہانہ کفالت کی اور اس پروگرام کو دنیا بھر میں سراہا گیا ۔
٭ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کی بھلائی کے لیے کیا اقدامات کیے؟
اویس مظفر: پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے عوام کی خدمت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ پانچ سال کے عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری شعبے میں براہ راست ملازمتیں فراہم کی گئیں ، جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا گیا ۔ یہ حکومت کی طرف سے روزگار فراہم کرنے کا شاید اس عرصے کا عالمی ریکارڈ ہوگا ۔ ملازمتیں غریب نوجوانوں کو میرٹ اور استحقاق کی بنیاد پر فراہم کی گئیں ۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو شہید بینظیر بھٹو یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی گئی، جس کے ذریعہ وہ نجی اور سرکاری شعبے میں ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔
سندھ مسلسل دو سال تک یعنی 2010 اور 2011 میں سو سالہ تاریخ کی بدترین بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار رہا ۔ 2010 میں 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور 2011 میں 65 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ۔ حکومت نے ان افراد کو نہ صرف سنبھالا بلکہ انہیں دوبارہ بحال کیا ۔ لوگوں کی مالی امداد کی ، انہیں مفت کھاد اور بیج فراہم کیے تاکہ وہ دوبارہ اپنی فصلیں اگا کر اپنا روزگار بحال کرسکیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں متاثرین سیلاب کو مکانات بناکر دیے گئے ۔ اس عرصے میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور منتخب نمائندے دن رات عوام کی خدمت کرتے رہے۔
اتنی بڑی قدرتی آفت میں پیپلز پارٹی نے اپنی خدمت سے عوام کو یہ احساس دلایا کہ ان کی اپنی حکومت ہے ، جو دکھ کے اس مرحلے میں ان کے ساتھ ہے ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 35 ہزار نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں ۔ ہزاروں بے زمین ہاریوں خصوصاً خواتین ہاریوں کو زمینیں اور کاشت کے لیے کھاد ، بیج اور زرعی آلات فراہم کیے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گزشتہ پانچ سال میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) کی مد یں 470 ارب روپے خرچ کیے۔ اتنی رقم مجموعی طور پر پہلے والے 60 سالوں میں خرچ نہیں ہوئی ہوگی۔
وفاقی حکومت کے اتنی ہی رقم کے ترقیاتی منصوبے اس کے علاوہ تھے ۔ تعلیم ، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ریکارڈ بجٹ خرچ کیا گیا ۔ شہروں اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے خصوصی پیکیجز دیئے گئے ۔ یونین کونسل کی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کئی پروگرامز شروع کیے گئے ۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کو ان کے گھر پر ماہانہ رقم فراہم کی گئی ، سیکڑوں دیہاتوں میں بجلی اور گیس کی لائنیں فراہم کی گئیں ، سڑکوں کا جال بچھایا گیا ، پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق سے مالیاتی وسائل کا رخ صوبوں کی طرف موڑا اور صوبوں نے ان وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑا اور اس حوالے سے سندھ ایک رول ماڈل ہے ۔
٭ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے بعض فیصلے سندھ کے عوام کے حق میں نہیں تھے ان میں سے ایک فیصلہ سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 ء کا نفاذ بھی ہے اس بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟
اویس مظفر : جو لوگ پرویز مشرف کی ضلعی حکومتوں کے نظام کا حصہ رہے اور آمرانہ حکومتوں میں شامل رہے وہ پیپلزپارٹی کے دور میں زیادہ قوم پرست بن جاتے ہیں ۔ انھیں سندھ دشمن قوتوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں بھی شرم نہیں آتی لیکن سندھ کے عوام ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔ وہ سندھ کے عوام کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ سندھ کے عوام کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی ان کی امنگوں اور امیدوں کی ترجمان ہے ۔ آج سندھ میں کون سا نظام نافذ ہے ۔ یہ 1979کا بلدیاتی نظام ہے جو سندھ کے عوام کی مرضی کے مطابق ہے ۔ یہ کام صرف پیپلز پارٹی کر سکتی تھی ، کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تھا۔ جو لوگ سندھ کے بڑے چیمپئن بنتے ہیں ۔ اگر ان کی حکومت ہوتی تو وہ یہ کام نہیں کرسکتے تھے۔
پیپلزپارٹی سے زیادہ سندھ کے عوام کے مفادات اور حقوق کا محافظ کوئی اور نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے پرویز مشرف کے دور میں کالاباغ ڈیم کے حق میں ریلیاں نکالیں اور سندھ کو تباہ کرنے والے منصوبے کے ساتھ جڑے رہے آج وہ پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے ہیں لیکن عوام انہیں جانتے ہیں اور 11 مئی کو سندھ کے عوام کالاباغ ڈیم کے حق میں ریلیاں نکالنے والوں کو سیاسی طور پر دفن کردیں گے۔
٭ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک سیاسی اور انتخابی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ اتحاد پیپلزپارٹی کے لیے کوئی مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔
اویس مظفر : اس طرح کے اتحاد ماضی میں بنتے رہے ہیں جنرل ضیاء الحق نے اتحاد بنوایا لیکن عوام نے مسترد کردیا ، آئی جے آئی بنایا گیا لیکن عوام میں پذیرائی نہیں ملی ، اصغر خان کیس میں تمام لوگ بے نقاب ہوچکے ہیں اور عوام ان کو پہلے سے زیادہ جان چکے ہیں ، بحرحال میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کے اتحاد سے پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں کوئی سیاسی مشکلات پیدا ہوں گی ۔ جن دوستوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد بنایا ہے ، وہ غلط سیاسی اندازوں کی بنیاد پر بنایا ہے ۔ سیاست کرنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے لیکن یہ بات تو پیپلزپارٹی کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جتنا بھی زور لگائیں ، پیپلز پارٹی کے مقابلے میں سندھ میں حکومت نہیں بنا سکتے ۔
٭ کیا انتخابات کے بعد بھی مفاہمت کی پالیسی جاری رہے گی ؟
اویس مظفر : مفاہمیت ایک فلسفہ ہے ، جو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تاریخی اور عالمی تناظر میں پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے دیا اور اس فلسفے کو صدرآصف علی زرداری نے عملی جامعہ پہنایا اور یہ ثابت کیا کہ یہ فلسفہ پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری ہے ۔ اس فلسفے پر عمل جاری رہے گا ۔ سندھ کی سیاسی قوتوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس صوبے اور ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں ۔ انتخابا ت کے بعد بھی مفاہمت کی سیاست جاری رہے گی لیکن ایسے لوگ جنھوں نے بار بار پیپلز پارٹی کو دھوکہ دیا ، ذاتی مفادات کی سیاست کی اور پیپلز پارٹی کو اچانک دھوکہ دے کر چلے گئے ایسے لوگوں کے لیے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سید قائم علی شاہ نے واضح طور پر پارٹی کے دورازے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔
٭ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے ٹھٹھہ میں جلسہ کیا آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں
اویس مظفر : میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری فتح ہے ۔ پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کی حیثیت سے ٹھٹھہ میں عوامی رابطہ مہم شروع کی جس طرح ٹھٹھہ کے عوام نے میرا استقبال کیا اس کو کبھی نہیں بھول سکتا ۔ ٹھٹھہ کی اہم گدی نشین شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا اس سے مخالفین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور صرف الزام تراشی کی سیاست کر رہے ہیں ۔ مجھے جھوٹ بولنے نہیں آتا لوگوں نے میرے بارے میں غلط پروپیگنڈا کیا لیکن وہ ناکام ہوگئے ۔ ٹھٹھہ کے عوام کی محبت دیکھ کر میرے سیاسی جذبے میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اسی لیے نوازشریف کو بھی ٹھٹھہ یاد آگیا ہے ۔ نوازشریف نے ٹھٹھہ کے عوام کو یہ بتانا بھی پسند نہیں کیا کہ کیٹی بندر منصوبہ کیوں بند کیا تھا ، کیا وہ سندھ کے پسماندہ علاقے ٹھٹھہ میں قائم کیا گیا تھا یہ پیپلز پارٹی کا جرم تھا جس کی سزا سندھ کے غیور عوام کو دی گئی۔
٭ ٹھٹھہ کے گدی نشین اور اہم شخصیات کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے کیا اسباب ہیں ؟
اویس مظفر : سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے اور پیپلز پارٹی صوفیوں کی دھرتی کی حفاظت کے لیے ہراول دستے کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور سندھ کے صوفیوں کے گدی نشین یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی عوام کی بہتر انداز میں خدمت کرسکتی ہے اسی لیے ہمیں عزت دی جا رہی ہے مجھے ٹھٹھہ کے دوروں کے دوران دکھ پہنچا ہے کہ ایک زمانھے میں ٹھٹھہ سندھ کا دارالخلافہ تھا یہاں ساڑھے چار سو یونیورسٹیاں تھیں لیکن اب تعلیم کو تباہ و برباد کردیا گیا ، لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں جو لوگ ہر حکومت کا حصہ رہے انھوں نے ٹھٹھہ کو تباہ و برباد کردیا ہے لیکن انشاء اللہ ہم ٹھٹھہ کو دوبارہ بنائیں گے عوام کو ہر سہولت ان کی دہلیز پر پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے ہمیں امید ہے کہ ٹھٹھہ کے عوام 11 مئی کو پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر کو ووٹ دے کر ٹھٹھہ کو ایک بار پھر پیپلز پارٹی کا قلعہ بنائیں گے اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کا سیاسی کردار ہمیشہ کے لیے ٹھٹھہ سے ختم ہوجائے گا۔