پناہ گزینوں کا آنا منع ہے
دکھ وتکلیف کا نشانہ بنے بیکس انسانوں کیلئے اب دنیائے مغرب جائے پناہ نہیں رہی
پچھلے ماہ جون کے آخری ہفتے مسلسل چھ دن تک ایک بحری جہاز اٹلی کے قریب سمندر میں بے یارومددگار کھڑا رہا مگر اطالوی حکومت نے اسے اپنی بندرگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔
یہ بحری جہاز ایک جرمن فلاحی تنظیم، لائف لائن کی ملکیت تھا۔ یہ تنظیم خانہ جنگی اور جنگوں کا شکار ممالک سے خطرات میں گھرے مرد، عورتوں اور بچوں کو بچا کر محفوظ مقامات تک پہنچاتی ہے۔ اس بحری جہاز میں بھی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ مردوزن سوار تھے جن کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ لہٰذا لائف لائن انہیں بحری جہاز میں سوار کرا اٹلی لے آئی۔ ایسے لوگ عرف عام میں ''پناہ گزین'' کہلاتے ہیں۔
اطالوی حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ اٹلی میں پناہ گزینوں کی کثرت ہوچکی اور اب ان کی مزید تعداد نہیں قبول کی جاسکتی۔ جرمن تنظیم نے اطالوی حکمرانوں کو رام کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر وہ بیکار ثابت ہوئیں۔ اس دوران بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں پھنسا کھڑا رہا۔ اس پر سوار پناہ گزین شدید پریشانی میں یہی سوچتے رہے کہ نجانے کیسی آفتوں سے پُر مستقبل ان کا منتظر ہے۔
مغربی میڈیا نے آخر اس خبر کو کوریج دی کہ 230 پناہ گزین بحری جہاز میں لاوارث پڑے ہیں اور ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ تب یورپی دارالحکومتوں میں سرگرمی دکھائی دی اور سفارتی بحث مباحثے کے بعد اٹلی کے علاوہ مالٹا، لکسمبرگ، ہالینڈ، پرتگال، آئرلینڈ، بیلجیئم اور فرانس نے بحری جہاز پر سوار مردوزن کو پناہ دینے کا اعلان کردیا۔
یورپی یونین کا قانون ہے کہ تارکین وطن پہلی بار جس ملک میں قدم دھریں، وہی انہیں پناہ دے گا۔ مگر اٹلی اور یونان نے یہ قانون قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہی کہ دونوں ممالک میں کثرت سے پناہ گزیں موجود ہیں اور یہ ملک مزید قبول کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔ انہوں نے دیگر یورپی ملکوں پر شدید دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ بھی پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ نیز تمام یورپی ممالک میں مساوی تعداد پناہ گزین آباد کرنے کا کوئی میکنزم بنایا جائے۔
آج مغربی دنیا میں امریکا سے لے کر آسٹریلیا اور فن لینڈ تک پناہ گزینوں، تارکین وطن اور مہاجرین وغیرہ کے خلاف مقامی آبادی میں مخالفانہ جذبات جنم لے چکے ہیں۔ یہ مقامی آبادی اب خصوصاً غیر ملکی مسلمانوں کو اپنے ممالک میں آباد ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس مخالفت کی کئی وجوہ ہیں۔دنیا بھر میں بہت سے ملک جنگ، خانہ جنگی، قحط، غربت اور بیروزگاری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں آباد عام لوگوں پر ہر وقت موت کے خوف ڈراؤنا خواب بن کر منڈلاتا رہتا ہے۔ آخر جان بچانے کی خاطر انہیں ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اب تقریباً سبھی یورپی ممالک اور امریکی ٹرمپ حکومت ان مجبور و بیکس انسانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
مغربی حکومتوں کا موقف یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی کثرت کے باعث اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اب ان میں اتنی مالی سکت نہیں رہی کہ وہ مزید پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھاسکیں۔ جبکہ مقامی آبادی سمجھتی ہے کہ یہ پناہ گزینان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ نیز ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے پلتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ مسلمان یورپ میں اسلام پھیلا رہے ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت کو مقامی آبادی پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
درج بالا وجوہ کی بنا پر اب یورپی ممالک میں خصوصاً افریقہ، ایشیا اور وسطی امریکا سے تعلق رکھنے والے باشندوں کا داخل ہونا آسان نہیں رہا۔حال ہی میں امریکی ٹرمپ حکومت نے ہزارہا غیر قانونی مہاجرین گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس ڈالے۔شقاوت کی انتہا یہ کہ بچے والدین سے جدا کر دئیے گئے۔جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے شور مچایا تبھی ٹرمپ حکومت نے پسپائی اختیار کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بطور خاص اسلامی ممالک میں جنگیں اور خانہ جنگیاں یورپی استعمار کے باعث ہی سامنے آئیں۔ شام، عراق، افغانستان، پاکستان، یمن، لیبیا، صومالیہ، مالی، نائیجیریا، مالی، مراکش وغیرہ غرض جنگوں کا شکار ہر اسلامی ملک میں ہمیں یورپی یا امریکی حکمرانوں کی سازشیں کارفرما نظر آتی ہیں۔ گویا پناہ گزینوں اور مہاجرین کا مسئلہ بنیادی طور پر مغربی ممالک ہی کا پیدا کردا ہے۔
اس مسئلے کی آڑ لے کر یورپی ممالک میں قوم پرست، قدامت پسند اور انتہا پسند اپنے مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پناہ گزینوں اور مسلم مہاجرین کی مخالفت کرنا معمول بنا لیا ہے۔ وہ دراصل مقامی آبادی کے جذبات مشتعل کرکے اپنا ہمنوا بنانا چاہتے ہیں تاکہ الیکشن کے موقع پر ان کے ووٹ حاصل کریں اور اقتدار پالیں۔ گویا پناہ گزینوں اور مسلم مہاجرین کی مخالفت اقتدار حاصل کرنے کی چال بھی بن چکی ہے۔اب مغربی حکمرانوں کے لیے پناہ گزیں گوشت پوست کے انسان نہیں رہے بلکہ نفرت انگیز سیاسی مہم چلانے کا ہتھیار بن چکے۔
حقائق سے عیاں ہے کہ بیشتر یورپی ممالک اور امریکا میں بھی نفرت و دشمنی کے فرستادہ سیاسی لیڈروں کی کوششوں سے عوام و خواص میں پناہ گزینوں ،مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ اسی بنا پر انہیں یورپی معاشروں میں مذہب، نسل یا رنگ کی وجہ سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً یورپی قوم پرست مردو زن اکثر کھلے عام پناہ گزینوں، اقلیتوں اور مسلمانوں پر برس پڑتے اور نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں۔ ان پر حملے بھی معمول بنتے جارہے ہیں۔
پناہ گزینوں کو امریکا و یورپ سے دور رکھنے کی خاطر اب مغربی حکومتیں انہیں میسر سہولیات بھی ختم کررہی ہیں۔ پہلے پناہ گزینوں کو مفت علاج، تعلیم اور خوراک دستیاب تھی مگر اب کئی مغربی ممالک میں پناہ گزینوں کو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں۔ زبان سے عدم واقفیت، تعلیم و ہنر کی کمی اور کلچر سے آگاہی نہ ہونے کے باعث اکثر پناہ گزینوں کو ملازمت ڈھونڈتے اور کرتے ہوئے خاصی پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
2015ء میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کثیر تعداد میں شامی پناہ گزینوں نے پڑوسی ممالک، ترکی اور یورپ کا رخ کرنا شروع کیا۔ شروع میں تو یورپی حکومتوں اور عوام نے شامی پناہ گزینوں کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں ہر ممکن سہولتیں دیں۔ مگر جب ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی، تو پھر یورپی حکومتیں اور عام لوگ بھی ان سے متنفر ہوگئے۔ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ شامی پناہ گزینوں کے ساتھ افریقی اور ایشیائی ممالک سے بھی ہزارہا لوگ یورپ پہنچ گئے۔ ان میں سے اکثر حقیقی پناہ گزین نہیں تھے۔ وہ بس روزگار کی تلاش میں کسی یورپی ملک میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ شروع میں پناہ گزینوں کے ساتھ وہ بھی کسی نہ کسی یورپی ملک داخل ہونے میں کامیاب رہے۔
بعدازاں یورپی ممالک پناہ گزینوں کے کاغذات کی پڑتال کرنے لگے۔ تب انہی مردوزن کو داخلے کی اجازت ملنے لگی جو حقیقی پناہ گزین تھے اور اپنے ملک میں ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ بقیہ مردوزن کو یورپ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے، بہت سے لوگ ترکی، یونان، اٹلی اور لیبیا میں پھنس گئے۔ افریقا اور ایشیا سے آنے والے لوگ انہی ممالک تک پہنچ کر معاشی طور پر مستحکم کسی یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے۔
ترکی میں پھنسے ہزارہا غیر ملکیوں کو خاص طور پر بے انتہا تکالیف اٹھانا پڑیں۔ ترکی میں روزگار نہ تھا اور حکومت بھی برائے نام مدد ہی کرتی ہے۔ بہت سے غیر ملکی ترک جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ انہیں تاوان ادا کردینے کے بعد ہی رہائی ملتی۔ کیمپوں میں صفائی کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ کھانا بھی اتنا ہی ملتا کہ انسان زندہ رہ سکے۔مزید یہ ہوا کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں خصوصاً نوجوان انسانی اسمگلروں کو بھاری رقم دے کر ترکی، یونان وغیرہ پہنچنے لگے۔
یونان اور ترکی میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان گھٹیا ملازمتیں مثلاً غسل خانوں کی صفائی کرنے لگے۔ ایک کمرے میں کئی نوجوان قیام کرتے تاکہ رقم بچائی جاسکے۔ پھر اجنبی معاشرے میں انہیں ذلت بھی برداشت کرنا پڑتی۔پاکستان میں جب جرائم پیشہ گروہوں نے دیکھا کہ ہزارہا نوجوان یورپ پہنچنے کی خاطر کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہیں، تو وہ سرگرم ہوگئے۔ جان پہچان والوں کو تو وہ کسی نہ کسی طرح یونان، ترکی اور اٹلی پہنچا دیتے مگر اجنبیوں کو ٹھگ لیا جاتا۔ وہ ان سے بھاری بھرکم رقم بٹور لیتے اور پھر کسی سنسان جگہ چھوڑ کر رفوچکر ہوجاتے۔
31 جنوری کو لیبیا کے ساحل پر ایک کشتی الٹ گئی۔ اس پر نوے سے زائد مردوزن سوار تھے جو سبھی ڈوب مرے۔ تفتیش سے انکشاف ہوا کہ یہ انسانی سمگلروں کی کشتی تھی۔ وہ اس کے ذریعے غیر قانونی طور پر مردوزن کو اٹلی لے جارہے تھے۔ مسافروں میں 31 پاکستانی بھی شامل تھے جو سبھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان میں ایف بی آئی ان سمگلروں کی تلاش کرنے لگی جنہوں نے پاکستانی لیبیا بھجوائے تھے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ اس سمگلنگ نیٹ ورک کا سربراہ گجرات میں واقع ایک مزار کا سجادہ نشین، محبوب شاہ ہے۔ اس کا ایک بھائی لیبیا اور بیٹا اٹلی میں تھا۔ وہ انہی دونوں کی مدد سے انسانی سمگلنگ کا اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ پاکستانی نوجوان لاکھوں روپے انسانی سمگلروں کو بخوشی دے دیتے ہیں مگر اس رقم سے اپنے وطن میں رہ کر کوئی کاروبار نہیں کرتے۔ جتنی جدوجہد اور محنت وہ دیار غیر جاکر کرتے ہیں، اسی کوشش و سعی سے وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی باعزت روزگار پاسکتے ہیں۔ اپنے پیاروں میں رہ کر زندگی گزارنے کا کچھ اور ہی لطف ہے۔ صرف مادی خواہشات کے جال میں پھنس کر اجنبی دیس چلے جانے سے بعض اوقات زندگی جیتے جی جہنم بن جاتی ہے۔
پاکستان ہی نہیں انسانی سمگلنگ پوری دنیا میں بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ کچھ ماہرین کا تو کہنا ہے کہ یورپ و امریکا غیر قانونی طور پر جانے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے منشیات سے بھی زیادہ قیمتی ہوچکے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور بھاری رقم لے کر مرد، عورتوں اور بچوں کو یورپ سمگل کرتے ہیں۔ تاہم یورپی حکومتوں کے سخت اقدامات کی وجہ سے انسانی سمگلنگ اب آسان نہیں رہی۔n
بنیادی اصلاحات
٭... پناہ گزین(refugee):۔ وہ انسان جس کے ملک میں جنگ یا خانہ جنگی جاری ہو۔ سیاسی حالات خراب ہوں۔ لہٰذا وہ زندگی بچانے اور پناہ کی تلاش میں دوسرے ملک چلا جاتا ہے۔ جب حالات بہتر ہوجائیں تو وہ اپنے ملک چلا آتا ہے۔
٭... طالب پناہ(asylum seeker):۔ ایسا انسان جسے کسی نہ کسی وجہ سے اپنے ملک میں جان جانے کا خطرہ ہو۔ ایسے انسان کو کسی ملک میں پناہ لینے کی خاطر درخواست دینا پڑتی ہے۔
٭... مہاجر(immigrant):۔ وہ انسان جو بہتر روزگار کی تلاش میں یا اعلیٰ تعلیم پانے کے لیے دوسرے ملک میں جاتا ہے۔ یہ اس ملک کا شہری نہیں بنتا۔
٭... تارک وطن(migrant):۔ وہ شخص یا گھرانا جو اپنا ملک مستقل چھوڑ کر دوسرے دیس میں منتقل ہوجائے۔
٭... غیر قانونی تارک وطن(illegal migrant):۔ وہ مرد یا عورت جو دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہو اور وہاں رہائش اختیار کرلے۔
یہ بحری جہاز ایک جرمن فلاحی تنظیم، لائف لائن کی ملکیت تھا۔ یہ تنظیم خانہ جنگی اور جنگوں کا شکار ممالک سے خطرات میں گھرے مرد، عورتوں اور بچوں کو بچا کر محفوظ مقامات تک پہنچاتی ہے۔ اس بحری جہاز میں بھی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ مردوزن سوار تھے جن کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ لہٰذا لائف لائن انہیں بحری جہاز میں سوار کرا اٹلی لے آئی۔ ایسے لوگ عرف عام میں ''پناہ گزین'' کہلاتے ہیں۔
اطالوی حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ اٹلی میں پناہ گزینوں کی کثرت ہوچکی اور اب ان کی مزید تعداد نہیں قبول کی جاسکتی۔ جرمن تنظیم نے اطالوی حکمرانوں کو رام کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر وہ بیکار ثابت ہوئیں۔ اس دوران بحری جہاز بین الاقوامی پانیوں میں پھنسا کھڑا رہا۔ اس پر سوار پناہ گزین شدید پریشانی میں یہی سوچتے رہے کہ نجانے کیسی آفتوں سے پُر مستقبل ان کا منتظر ہے۔
مغربی میڈیا نے آخر اس خبر کو کوریج دی کہ 230 پناہ گزین بحری جہاز میں لاوارث پڑے ہیں اور ان کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ تب یورپی دارالحکومتوں میں سرگرمی دکھائی دی اور سفارتی بحث مباحثے کے بعد اٹلی کے علاوہ مالٹا، لکسمبرگ، ہالینڈ، پرتگال، آئرلینڈ، بیلجیئم اور فرانس نے بحری جہاز پر سوار مردوزن کو پناہ دینے کا اعلان کردیا۔
یورپی یونین کا قانون ہے کہ تارکین وطن پہلی بار جس ملک میں قدم دھریں، وہی انہیں پناہ دے گا۔ مگر اٹلی اور یونان نے یہ قانون قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہی کہ دونوں ممالک میں کثرت سے پناہ گزیں موجود ہیں اور یہ ملک مزید قبول کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔ انہوں نے دیگر یورپی ملکوں پر شدید دباؤ ڈال رکھا ہے کہ وہ بھی پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ نیز تمام یورپی ممالک میں مساوی تعداد پناہ گزین آباد کرنے کا کوئی میکنزم بنایا جائے۔
آج مغربی دنیا میں امریکا سے لے کر آسٹریلیا اور فن لینڈ تک پناہ گزینوں، تارکین وطن اور مہاجرین وغیرہ کے خلاف مقامی آبادی میں مخالفانہ جذبات جنم لے چکے ہیں۔ یہ مقامی آبادی اب خصوصاً غیر ملکی مسلمانوں کو اپنے ممالک میں آباد ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ اس مخالفت کی کئی وجوہ ہیں۔دنیا بھر میں بہت سے ملک جنگ، خانہ جنگی، قحط، غربت اور بیروزگاری کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان ملکوں میں آباد عام لوگوں پر ہر وقت موت کے خوف ڈراؤنا خواب بن کر منڈلاتا رہتا ہے۔ آخر جان بچانے کی خاطر انہیں ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اب تقریباً سبھی یورپی ممالک اور امریکی ٹرمپ حکومت ان مجبور و بیکس انسانوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
مغربی حکومتوں کا موقف یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی کثرت کے باعث اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اب ان میں اتنی مالی سکت نہیں رہی کہ وہ مزید پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھاسکیں۔ جبکہ مقامی آبادی سمجھتی ہے کہ یہ پناہ گزینان سے ملازمتیں چھین رہے ہیں۔ نیز ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم سے پلتے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ مسلمان یورپ میں اسلام پھیلا رہے ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت کو مقامی آبادی پر تھوپنا چاہتے ہیں۔
درج بالا وجوہ کی بنا پر اب یورپی ممالک میں خصوصاً افریقہ، ایشیا اور وسطی امریکا سے تعلق رکھنے والے باشندوں کا داخل ہونا آسان نہیں رہا۔حال ہی میں امریکی ٹرمپ حکومت نے ہزارہا غیر قانونی مہاجرین گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس ڈالے۔شقاوت کی انتہا یہ کہ بچے والدین سے جدا کر دئیے گئے۔جب انسانی حقوق کی تنظیموں نے شور مچایا تبھی ٹرمپ حکومت نے پسپائی اختیار کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بطور خاص اسلامی ممالک میں جنگیں اور خانہ جنگیاں یورپی استعمار کے باعث ہی سامنے آئیں۔ شام، عراق، افغانستان، پاکستان، یمن، لیبیا، صومالیہ، مالی، نائیجیریا، مالی، مراکش وغیرہ غرض جنگوں کا شکار ہر اسلامی ملک میں ہمیں یورپی یا امریکی حکمرانوں کی سازشیں کارفرما نظر آتی ہیں۔ گویا پناہ گزینوں اور مہاجرین کا مسئلہ بنیادی طور پر مغربی ممالک ہی کا پیدا کردا ہے۔
اس مسئلے کی آڑ لے کر یورپی ممالک میں قوم پرست، قدامت پسند اور انتہا پسند اپنے مفادات حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پناہ گزینوں اور مسلم مہاجرین کی مخالفت کرنا معمول بنا لیا ہے۔ وہ دراصل مقامی آبادی کے جذبات مشتعل کرکے اپنا ہمنوا بنانا چاہتے ہیں تاکہ الیکشن کے موقع پر ان کے ووٹ حاصل کریں اور اقتدار پالیں۔ گویا پناہ گزینوں اور مسلم مہاجرین کی مخالفت اقتدار حاصل کرنے کی چال بھی بن چکی ہے۔اب مغربی حکمرانوں کے لیے پناہ گزیں گوشت پوست کے انسان نہیں رہے بلکہ نفرت انگیز سیاسی مہم چلانے کا ہتھیار بن چکے۔
حقائق سے عیاں ہے کہ بیشتر یورپی ممالک اور امریکا میں بھی نفرت و دشمنی کے فرستادہ سیاسی لیڈروں کی کوششوں سے عوام و خواص میں پناہ گزینوں ،مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ اسی بنا پر انہیں یورپی معاشروں میں مذہب، نسل یا رنگ کی وجہ سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً یورپی قوم پرست مردو زن اکثر کھلے عام پناہ گزینوں، اقلیتوں اور مسلمانوں پر برس پڑتے اور نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں۔ ان پر حملے بھی معمول بنتے جارہے ہیں۔
پناہ گزینوں کو امریکا و یورپ سے دور رکھنے کی خاطر اب مغربی حکومتیں انہیں میسر سہولیات بھی ختم کررہی ہیں۔ پہلے پناہ گزینوں کو مفت علاج، تعلیم اور خوراک دستیاب تھی مگر اب کئی مغربی ممالک میں پناہ گزینوں کو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں۔ زبان سے عدم واقفیت، تعلیم و ہنر کی کمی اور کلچر سے آگاہی نہ ہونے کے باعث اکثر پناہ گزینوں کو ملازمت ڈھونڈتے اور کرتے ہوئے خاصی پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
2015ء میں شام کی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کثیر تعداد میں شامی پناہ گزینوں نے پڑوسی ممالک، ترکی اور یورپ کا رخ کرنا شروع کیا۔ شروع میں تو یورپی حکومتوں اور عوام نے شامی پناہ گزینوں کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں ہر ممکن سہولتیں دیں۔ مگر جب ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی، تو پھر یورپی حکومتیں اور عام لوگ بھی ان سے متنفر ہوگئے۔ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ شامی پناہ گزینوں کے ساتھ افریقی اور ایشیائی ممالک سے بھی ہزارہا لوگ یورپ پہنچ گئے۔ ان میں سے اکثر حقیقی پناہ گزین نہیں تھے۔ وہ بس روزگار کی تلاش میں کسی یورپی ملک میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ شروع میں پناہ گزینوں کے ساتھ وہ بھی کسی نہ کسی یورپی ملک داخل ہونے میں کامیاب رہے۔
بعدازاں یورپی ممالک پناہ گزینوں کے کاغذات کی پڑتال کرنے لگے۔ تب انہی مردوزن کو داخلے کی اجازت ملنے لگی جو حقیقی پناہ گزین تھے اور اپنے ملک میں ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ بقیہ مردوزن کو یورپ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے، بہت سے لوگ ترکی، یونان، اٹلی اور لیبیا میں پھنس گئے۔ افریقا اور ایشیا سے آنے والے لوگ انہی ممالک تک پہنچ کر معاشی طور پر مستحکم کسی یورپی ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تھے۔
ترکی میں پھنسے ہزارہا غیر ملکیوں کو خاص طور پر بے انتہا تکالیف اٹھانا پڑیں۔ ترکی میں روزگار نہ تھا اور حکومت بھی برائے نام مدد ہی کرتی ہے۔ بہت سے غیر ملکی ترک جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ انہیں تاوان ادا کردینے کے بعد ہی رہائی ملتی۔ کیمپوں میں صفائی کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ کھانا بھی اتنا ہی ملتا کہ انسان زندہ رہ سکے۔مزید یہ ہوا کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں خصوصاً نوجوان انسانی اسمگلروں کو بھاری رقم دے کر ترکی، یونان وغیرہ پہنچنے لگے۔
یونان اور ترکی میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان گھٹیا ملازمتیں مثلاً غسل خانوں کی صفائی کرنے لگے۔ ایک کمرے میں کئی نوجوان قیام کرتے تاکہ رقم بچائی جاسکے۔ پھر اجنبی معاشرے میں انہیں ذلت بھی برداشت کرنا پڑتی۔پاکستان میں جب جرائم پیشہ گروہوں نے دیکھا کہ ہزارہا نوجوان یورپ پہنچنے کی خاطر کوئی بھی قیمت دینے کو تیار ہیں، تو وہ سرگرم ہوگئے۔ جان پہچان والوں کو تو وہ کسی نہ کسی طرح یونان، ترکی اور اٹلی پہنچا دیتے مگر اجنبیوں کو ٹھگ لیا جاتا۔ وہ ان سے بھاری بھرکم رقم بٹور لیتے اور پھر کسی سنسان جگہ چھوڑ کر رفوچکر ہوجاتے۔
31 جنوری کو لیبیا کے ساحل پر ایک کشتی الٹ گئی۔ اس پر نوے سے زائد مردوزن سوار تھے جو سبھی ڈوب مرے۔ تفتیش سے انکشاف ہوا کہ یہ انسانی سمگلروں کی کشتی تھی۔ وہ اس کے ذریعے غیر قانونی طور پر مردوزن کو اٹلی لے جارہے تھے۔ مسافروں میں 31 پاکستانی بھی شامل تھے جو سبھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاکستان میں ایف بی آئی ان سمگلروں کی تلاش کرنے لگی جنہوں نے پاکستانی لیبیا بھجوائے تھے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ اس سمگلنگ نیٹ ورک کا سربراہ گجرات میں واقع ایک مزار کا سجادہ نشین، محبوب شاہ ہے۔ اس کا ایک بھائی لیبیا اور بیٹا اٹلی میں تھا۔ وہ انہی دونوں کی مدد سے انسانی سمگلنگ کا اپنا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ پاکستانی نوجوان لاکھوں روپے انسانی سمگلروں کو بخوشی دے دیتے ہیں مگر اس رقم سے اپنے وطن میں رہ کر کوئی کاروبار نہیں کرتے۔ جتنی جدوجہد اور محنت وہ دیار غیر جاکر کرتے ہیں، اسی کوشش و سعی سے وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی باعزت روزگار پاسکتے ہیں۔ اپنے پیاروں میں رہ کر زندگی گزارنے کا کچھ اور ہی لطف ہے۔ صرف مادی خواہشات کے جال میں پھنس کر اجنبی دیس چلے جانے سے بعض اوقات زندگی جیتے جی جہنم بن جاتی ہے۔
پاکستان ہی نہیں انسانی سمگلنگ پوری دنیا میں بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا۔ کچھ ماہرین کا تو کہنا ہے کہ یورپ و امریکا غیر قانونی طور پر جانے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے منشیات سے بھی زیادہ قیمتی ہوچکے۔ یہ جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور بھاری رقم لے کر مرد، عورتوں اور بچوں کو یورپ سمگل کرتے ہیں۔ تاہم یورپی حکومتوں کے سخت اقدامات کی وجہ سے انسانی سمگلنگ اب آسان نہیں رہی۔n
بنیادی اصلاحات
٭... پناہ گزین(refugee):۔ وہ انسان جس کے ملک میں جنگ یا خانہ جنگی جاری ہو۔ سیاسی حالات خراب ہوں۔ لہٰذا وہ زندگی بچانے اور پناہ کی تلاش میں دوسرے ملک چلا جاتا ہے۔ جب حالات بہتر ہوجائیں تو وہ اپنے ملک چلا آتا ہے۔
٭... طالب پناہ(asylum seeker):۔ ایسا انسان جسے کسی نہ کسی وجہ سے اپنے ملک میں جان جانے کا خطرہ ہو۔ ایسے انسان کو کسی ملک میں پناہ لینے کی خاطر درخواست دینا پڑتی ہے۔
٭... مہاجر(immigrant):۔ وہ انسان جو بہتر روزگار کی تلاش میں یا اعلیٰ تعلیم پانے کے لیے دوسرے ملک میں جاتا ہے۔ یہ اس ملک کا شہری نہیں بنتا۔
٭... تارک وطن(migrant):۔ وہ شخص یا گھرانا جو اپنا ملک مستقل چھوڑ کر دوسرے دیس میں منتقل ہوجائے۔
٭... غیر قانونی تارک وطن(illegal migrant):۔ وہ مرد یا عورت جو دوسرے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہو اور وہاں رہائش اختیار کرلے۔