مون سون اور ممکنہ سیلاب ادارے الرٹ رہیں
ملک میں اتنے برسوں سے آنے والے سیلابوں اور نقصانات کے باوجود بھی انفرااسٹرکچر کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔
ہر سال پاکستان میں انتظامی غفلت اور ناقص انفرااسٹرکچر کے باعث تیز بارشوں کے بعد سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جس کے باعث نہ صرف جانی و مالی نقصان بلکہ نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں بارش کے بعد جن حالات کا سامنا کرنا پڑا اس کو دیکھتے ہوئے لازم ہوگیا ہے کہ پیش بندی کے تحت احتیاطی انتظامات کیے اور الرٹ رہا جائے۔
اسی تناظر میں نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے مون سون اور ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے اداروں کو الرٹ رہنے اور کابینہ کمیٹی برائے فلڈ کو ضروری ہدایات جاری کی ہیں۔ بلاشبہ اس پیشگی منصوبہ بندی کی حد درجہ ضرورت ہے۔
نگراں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ موسم کی صورتحال کے ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو بھی 24 گھنٹے مانیٹر کیا جائے اور کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام تر انتظامات مکمل رکھے جائیں۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہمی مدد کی بنیاد پر حکومتی اداروں سے تعاون کریں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے مضر اثرات سے قوم بخوبی واقف ہے۔
گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں سے پاکستان کی معیشت اور سیاست دونوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مختلف اداروں کے تخمینہ کے مطابق ملکی معیشت جس میں زراعت، انفرااسٹرکچر، لائیو اسٹاک وغیرہ قابل ذکر ہیں، اس کا نقصان کھربوں میں لگایا گیا ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ اتنے زیادہ وسائل نہ تو ہماری حکومت کے پاس ہیں اور نہ ہی عالمی اداروں کی طرف سے اتنے وسائل کی امداد کی توقع کی جاسکتی ہے، اس لیے لازم ہوگا کہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ابھی سے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیلابی پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کو صاف رکھا جائے نیز انفرااسٹرکچر پر بھی توجہ مرکوز کرنا لازم ہے۔
قوم کو یاد ہے کہ گزشتہ عشرے سے ہر سال ملک میں سیلاب کس قدر تباہی برپا کررہا ہے، 2010ء میں آنے والے سیلاب نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ سیلاب متاثرین اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بارش کے پانی کے بہاؤ کو اپنی زمینیں اور املاک کو نقصان سے بچانے کے لیے غریب آبادیوں کی جانب موڑ دیا گیا جس کے باعث نقصانات اور ہلاکتیں دوچند ہوگئیں۔
یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد بھی خوردبرد اور کرپشن کی نذر ہوگئی۔ ملک میں اتنے برسوں سے آنے والے سیلابوں اور نقصانات کے باوجود بھی انفرااسٹرکچر کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔
اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں خوب بارشیں ہورہی ہیں، پنجاب میں خوب مینہ برس رہا ہے، کراچی میں بے شک ابھی بارشوں کی ابتدا نہیں ہوئی لیکن پورے ملک میں بارش کے تناظر میں پیشگی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے مون سون اور ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کے لیے اداروں کو الرٹ رہنے اور کابینہ کمیٹی برائے فلڈ کو ضروری ہدایات جاری کی ہیں۔ بلاشبہ اس پیشگی منصوبہ بندی کی حد درجہ ضرورت ہے۔
نگراں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ موسم کی صورتحال کے ساتھ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو بھی 24 گھنٹے مانیٹر کیا جائے اور کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام تر انتظامات مکمل رکھے جائیں۔ انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہمی مدد کی بنیاد پر حکومتی اداروں سے تعاون کریں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے مضر اثرات سے قوم بخوبی واقف ہے۔
گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلابوں سے پاکستان کی معیشت اور سیاست دونوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مختلف اداروں کے تخمینہ کے مطابق ملکی معیشت جس میں زراعت، انفرااسٹرکچر، لائیو اسٹاک وغیرہ قابل ذکر ہیں، اس کا نقصان کھربوں میں لگایا گیا ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ اتنے زیادہ وسائل نہ تو ہماری حکومت کے پاس ہیں اور نہ ہی عالمی اداروں کی طرف سے اتنے وسائل کی امداد کی توقع کی جاسکتی ہے، اس لیے لازم ہوگا کہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ابھی سے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیلابی پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کو صاف رکھا جائے نیز انفرااسٹرکچر پر بھی توجہ مرکوز کرنا لازم ہے۔
قوم کو یاد ہے کہ گزشتہ عشرے سے ہر سال ملک میں سیلاب کس قدر تباہی برپا کررہا ہے، 2010ء میں آنے والے سیلاب نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ سیلاب متاثرین اب تک سنبھل نہیں پائے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ بارش کے پانی کے بہاؤ کو اپنی زمینیں اور املاک کو نقصان سے بچانے کے لیے غریب آبادیوں کی جانب موڑ دیا گیا جس کے باعث نقصانات اور ہلاکتیں دوچند ہوگئیں۔
یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ غیر ملکی اداروں اور این جی اوز کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے دی گئی امداد بھی خوردبرد اور کرپشن کی نذر ہوگئی۔ ملک میں اتنے برسوں سے آنے والے سیلابوں اور نقصانات کے باوجود بھی انفرااسٹرکچر کی طرف دھیان نہیں دیا گیا۔
اس وقت ملک کے بیشتر علاقوں میں خوب بارشیں ہورہی ہیں، پنجاب میں خوب مینہ برس رہا ہے، کراچی میں بے شک ابھی بارشوں کی ابتدا نہیں ہوئی لیکن پورے ملک میں بارش کے تناظر میں پیشگی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔