ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
ہندوستان کی گلی گلی میں، نگر نگر میں اس قوالی کو کیا بچے کیا بڑے بلکہ بوڑھے بھی مزہ لے لے کر گاتے تھے۔
ابھی ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا۔ فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے 1945ء میں ایک فلم بنائی تھی ''زینت''، جس کے مرکزی کرداروں میں نورجہاں، ببو اور کرن دیوان تھے، اس فلم کے یوں تو سارے ہی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے مگر نورجہاں کی آواز میں اور اسی پر فلمایا ہوا ایک گیت سارے ہندوستان میں سپر ہٹ ہوا تھا اور اس گیت کے بول تھے:
آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا
سمجھے تھے آسرا جسے وہ بھی بچھڑ کے رہ گیا
اس گیت کے موسیقار تھے حفیظ خان اور شاعر تھے شیون رضوی، پھر جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان عالم وجود میں آیا تو اس گیت کی حقیقت عیاں ہوتی چلی گئی اور فسادات کی آندھیاں ایسی چلیں کہ زندگی کے ہزاروں باغ اجڑ گئے، لاکھوں لوگوں کے سہارے بچھڑ گئے، شہروں میں، گاؤں میں خون کے دریا بہتے چلے گئے۔ اس گیت نے پھر ایک حقیقت کا روپ دھار لیا تھا اور یہ گیت برسوں تک درد و غم کی پکار بنا رہا تھا۔ فلم زینت میں شیون رضوی کے علاوہ شاعر نخشب جارچوی نے بھی گیت لکھے تھے اور شیون رضوی کی یہ پہلی فلم تھی جس نے انھیں شہرت کی بلندی تک پہنچایا تھا۔ 1947ء کے شروع میں شیون رضوی نے ایک اور فلم ''میرے بھگوان'' کے لیے گیت لکھے تھے مگر وہ فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ شیون رضوی نے 1954ء میں بنائی گئی ایک فلم ''لکیرے'' کے لیے بھی گیت لکھے تھے جس میں ایک گیت گلوکارہ گیتا رائے (بعد کی گیتا دت) اور شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ گیت کے بول تھے:
نبوا پہ پپیہا بولے
امبوا پہ کوئل گائے
یہ فلم بھی کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ 1957ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ''خدا کا بندہ'' اس میں بھی شیون رضوی کے گیت تھے اور اس فلم میں مناڈے اور گیتا دت کا گایا ہوا ایک دوگانا تھوڑا بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
نیا نیا چاند ہے نئی نئی رات ہے
نیا نیا پیار ہے نیا نیا ساتھ ہے
اس گیت کے موسیقار ایس این ترپاٹھی تھے، ان چند فلموں کے گیتوں سے شیون رضوی کو زیادہ شہرت تو نہ مل سکی مگر ان کے گیتوں کا سفر جاری رہا تھا، 1958ء میں ہدایت کار رام کمار نے ایک مسلم سوشل فلم ''الہلال'' کے نام سے بنائی، اس فلم میں شیون رضوی نے ایک قوالی لکھی تھی، جس قوالی نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں ایک دھوم مچادی تھی۔ اس قوالی کو بمبئی کے اس دور کے ایک قوال اسماعیل آزاد نے گایا تھا اور قوالی کے بول تھے:
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے
اس قوالی کا نشہ ایسا چڑھا تھا کہ ہندوستان کی گلی گلی میں، نگر نگر میں اس قوالی کو کیا بچے کیا بڑے بلکہ بوڑھے بھی مزہ لے لے کر گاتے تھے اور شیون رضوی ایک بار پھر شہرت کی بلندیوں پر آگئے تھے۔ شیون رضوی پر بمبئی کی فلم انڈسٹری پھر سے پھول نچھاور کرنے لگی تھی۔ اس قوالی کے موسیقار او پی نیئر تھے اور فلم کے دیگر گیت بھی موسیقی اور شاعری کے اعتبار سے پسند کیے گئے تھے مگر فلم کی مذکورہ قوالی نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور اس قوالی سے بمبئی کا اسماعیل آزاد قوال موتیوں میں تولا جانے لگا تھا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں اس کی قوالی کی دھوم تھی۔ اس قوالی سے گرامو فون کمپنی نے جہاں بے شمار دولت سمیٹی، وہاں اسماعیل آزاد قوال بھی نوٹوں میں کھیل رہا تھا اور اس ایک قوال نے اس وقت بڑے گلوکاروں کو کچھ عرصے کے لیے اپنے اپنے گھروں پر بٹھا دیا تھا۔ اسی زمانے میں فلم ''عالم آرا'' میں قوالی کے انداز سے ہٹ کر شیون رضوی نے ایک دلکش نعت بھی لکھی تھی جس کے بول تھے:
محبت کے جلوؤں سے روشن ہے سینہ
محبت میں یہ دل بنا ہے مدینہ
اس فلم کے موسیقار اے آر قریشی اور یہ نعت گلوکارہ آشا بھوسلے نے گائی تھی، جس کو اس دور میں بڑی شہرت ملی تھی، اسی فلم میں گلوکار محمد رفیع نے بھی ایک قوالی گائی تھی جو اجمیر شریف کے شہرۂ آفاق بزرگ اور ولی خواجہ معین الدین چشتی کی محبت کو اجاگر کرتی تھی۔ قوالی کے بول تھے:
بگڑی میری بنا دے اجمیر والے خواجہ
غم سے مجھے چھڑا دے اجمیر والے خواجہ
اس قوالی کو ان دنوں پھر خواجہ صاحب کے عرس کے موقع پر بہت گایا جاتا تھا، اس قوالی کی شہرت آج بھی جوں کی توں ہے۔ شیون رضوی اب باکمال شاعروں کی صف میں آچکے تھے، ہر دوسری تیسری فلم میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو پذیرائی ملتی جا رہی تھی۔ اس دوران ہندوستان کے ایک اور لیجنڈ ہدایت کار فلمساز ایس مکرجی نے ایک فلم کا آغاز کیا جس کا نام تھا ''ایک مسافر ایک حسینہ'' اس فلم کے موسیقار بھی او پی نیئر تھے، او پی نیئر بھی اب بطور موسیقار فلمی دنیا میں چھائے جا رہے تھے۔
شیون رضوی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز موسیقار حفیظ خان اور پھر اے آر قریشی کے ساتھ کیا تھا اور موسیقار او پی نیئر کے ساتھ بھی کچھ گیت لکھے، شیون رضوی اب بمبئی انڈسٹری میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکے تھے، پچیس سال کا ایک طویل عرصہ بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا اور بہت سی فلموں کے لیے خوبصورت اور بے مثال گیت لکھے، ان کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ دیگر جو فلمیں ہٹ ہوئی تھیں ان میں عرب کا ستارہ، میرا سلام، عبداﷲ، مہربانی، دھرم، بھیدی دشمن، جمنا پار، حقدار، خونی لاش، قاتل دادا، سینہ ور، ایکڑ اور ایک فلم ''ٹیکسی ڈرائیور'' کے نام سے بھی تھی۔
بعد میں ٹیکسی ڈرائیور کے نام سے اداکار دیو آنند اور کلپنا کارتک کی فلم کو بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں مسلم فنکاروں، مسلم ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ پھر کافی تعصب برتا جانے لگا تھا اور یہ وہ دور آگیا تھا کہ ہندوستانی فلمساز مسلمان فنکاروںکو، شاعروں کو، موسیقاروں کو نظر انداز کررہے تھے، اسی دوران شاعر فلمساز نخشب جارچوی، ہدایت کار بابو رفیق رضوی، ہدایت کار ولی صاحب، موسیقار ناشاد، موسیقار نثار بزمی، اداکار نذیر، سورن لتا اور دیگر فنکار بمبئی کی فلم کی انڈسٹری سے مایوس ہوکر اور بڑی بے سرو سامانی کے ساتھ ہندوستان کی فلم انڈسٹری چھوڑنے پر مجبور تھے۔
شاعر شیون رضوی اور نغمہ نگار و فلمساز نخشب جارچوی بھی ہندوستان سے جب ہجرت کر کے پاکستان آئے تو انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔ فلمساز نخشب جارچوی مالی طور پر کافی مضبوط تھے، انھوں نے اپنا ذاتی فلمساز ادارہ بھی کراچی میں قائم کرلیا تھا۔ انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری میں بڑا جم کر کام کیا تھا۔ شاعر شیون رضوی جب کراچی آئے تو کراچی کی فلم انڈسٹری اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی تگ ودو کر رہی تھی، یہاں فلمسازی کی رفتار بڑی سست تھی، صرف ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہی تھوڑی بہت فلمی ہلچل نظر آتی تھی۔ میری شیون رضوی سے پہلی ملاقات کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ہی ہوئی تھی۔
آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا
سمجھے تھے آسرا جسے وہ بھی بچھڑ کے رہ گیا
اس گیت کے موسیقار تھے حفیظ خان اور شاعر تھے شیون رضوی، پھر جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان عالم وجود میں آیا تو اس گیت کی حقیقت عیاں ہوتی چلی گئی اور فسادات کی آندھیاں ایسی چلیں کہ زندگی کے ہزاروں باغ اجڑ گئے، لاکھوں لوگوں کے سہارے بچھڑ گئے، شہروں میں، گاؤں میں خون کے دریا بہتے چلے گئے۔ اس گیت نے پھر ایک حقیقت کا روپ دھار لیا تھا اور یہ گیت برسوں تک درد و غم کی پکار بنا رہا تھا۔ فلم زینت میں شیون رضوی کے علاوہ شاعر نخشب جارچوی نے بھی گیت لکھے تھے اور شیون رضوی کی یہ پہلی فلم تھی جس نے انھیں شہرت کی بلندی تک پہنچایا تھا۔ 1947ء کے شروع میں شیون رضوی نے ایک اور فلم ''میرے بھگوان'' کے لیے گیت لکھے تھے مگر وہ فلم فلاپ ہوگئی تھی۔ شیون رضوی نے 1954ء میں بنائی گئی ایک فلم ''لکیرے'' کے لیے بھی گیت لکھے تھے جس میں ایک گیت گلوکارہ گیتا رائے (بعد کی گیتا دت) اور شمشاد بیگم نے گایا تھا۔ گیت کے بول تھے:
نبوا پہ پپیہا بولے
امبوا پہ کوئل گائے
یہ فلم بھی کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ 1957ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ''خدا کا بندہ'' اس میں بھی شیون رضوی کے گیت تھے اور اس فلم میں مناڈے اور گیتا دت کا گایا ہوا ایک دوگانا تھوڑا بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
نیا نیا چاند ہے نئی نئی رات ہے
نیا نیا پیار ہے نیا نیا ساتھ ہے
اس گیت کے موسیقار ایس این ترپاٹھی تھے، ان چند فلموں کے گیتوں سے شیون رضوی کو زیادہ شہرت تو نہ مل سکی مگر ان کے گیتوں کا سفر جاری رہا تھا، 1958ء میں ہدایت کار رام کمار نے ایک مسلم سوشل فلم ''الہلال'' کے نام سے بنائی، اس فلم میں شیون رضوی نے ایک قوالی لکھی تھی، جس قوالی نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں ایک دھوم مچادی تھی۔ اس قوالی کو بمبئی کے اس دور کے ایک قوال اسماعیل آزاد نے گایا تھا اور قوالی کے بول تھے:
ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے
کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے
اس قوالی کا نشہ ایسا چڑھا تھا کہ ہندوستان کی گلی گلی میں، نگر نگر میں اس قوالی کو کیا بچے کیا بڑے بلکہ بوڑھے بھی مزہ لے لے کر گاتے تھے اور شیون رضوی ایک بار پھر شہرت کی بلندیوں پر آگئے تھے۔ شیون رضوی پر بمبئی کی فلم انڈسٹری پھر سے پھول نچھاور کرنے لگی تھی۔ اس قوالی کے موسیقار او پی نیئر تھے اور فلم کے دیگر گیت بھی موسیقی اور شاعری کے اعتبار سے پسند کیے گئے تھے مگر فلم کی مذکورہ قوالی نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیے تھے اور اس قوالی سے بمبئی کا اسماعیل آزاد قوال موتیوں میں تولا جانے لگا تھا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں اس کی قوالی کی دھوم تھی۔ اس قوالی سے گرامو فون کمپنی نے جہاں بے شمار دولت سمیٹی، وہاں اسماعیل آزاد قوال بھی نوٹوں میں کھیل رہا تھا اور اس ایک قوال نے اس وقت بڑے گلوکاروں کو کچھ عرصے کے لیے اپنے اپنے گھروں پر بٹھا دیا تھا۔ اسی زمانے میں فلم ''عالم آرا'' میں قوالی کے انداز سے ہٹ کر شیون رضوی نے ایک دلکش نعت بھی لکھی تھی جس کے بول تھے:
محبت کے جلوؤں سے روشن ہے سینہ
محبت میں یہ دل بنا ہے مدینہ
اس فلم کے موسیقار اے آر قریشی اور یہ نعت گلوکارہ آشا بھوسلے نے گائی تھی، جس کو اس دور میں بڑی شہرت ملی تھی، اسی فلم میں گلوکار محمد رفیع نے بھی ایک قوالی گائی تھی جو اجمیر شریف کے شہرۂ آفاق بزرگ اور ولی خواجہ معین الدین چشتی کی محبت کو اجاگر کرتی تھی۔ قوالی کے بول تھے:
بگڑی میری بنا دے اجمیر والے خواجہ
غم سے مجھے چھڑا دے اجمیر والے خواجہ
اس قوالی کو ان دنوں پھر خواجہ صاحب کے عرس کے موقع پر بہت گایا جاتا تھا، اس قوالی کی شہرت آج بھی جوں کی توں ہے۔ شیون رضوی اب باکمال شاعروں کی صف میں آچکے تھے، ہر دوسری تیسری فلم میں ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو پذیرائی ملتی جا رہی تھی۔ اس دوران ہندوستان کے ایک اور لیجنڈ ہدایت کار فلمساز ایس مکرجی نے ایک فلم کا آغاز کیا جس کا نام تھا ''ایک مسافر ایک حسینہ'' اس فلم کے موسیقار بھی او پی نیئر تھے، او پی نیئر بھی اب بطور موسیقار فلمی دنیا میں چھائے جا رہے تھے۔
شیون رضوی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز موسیقار حفیظ خان اور پھر اے آر قریشی کے ساتھ کیا تھا اور موسیقار او پی نیئر کے ساتھ بھی کچھ گیت لکھے، شیون رضوی اب بمبئی انڈسٹری میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکے تھے، پچیس سال کا ایک طویل عرصہ بمبئی کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا اور بہت سی فلموں کے لیے خوبصورت اور بے مثال گیت لکھے، ان کے لکھے ہوئے گیتوں کے ساتھ دیگر جو فلمیں ہٹ ہوئی تھیں ان میں عرب کا ستارہ، میرا سلام، عبداﷲ، مہربانی، دھرم، بھیدی دشمن، جمنا پار، حقدار، خونی لاش، قاتل دادا، سینہ ور، ایکڑ اور ایک فلم ''ٹیکسی ڈرائیور'' کے نام سے بھی تھی۔
بعد میں ٹیکسی ڈرائیور کے نام سے اداکار دیو آنند اور کلپنا کارتک کی فلم کو بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں مسلم فنکاروں، مسلم ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ پھر کافی تعصب برتا جانے لگا تھا اور یہ وہ دور آگیا تھا کہ ہندوستانی فلمساز مسلمان فنکاروںکو، شاعروں کو، موسیقاروں کو نظر انداز کررہے تھے، اسی دوران شاعر فلمساز نخشب جارچوی، ہدایت کار بابو رفیق رضوی، ہدایت کار ولی صاحب، موسیقار ناشاد، موسیقار نثار بزمی، اداکار نذیر، سورن لتا اور دیگر فنکار بمبئی کی فلم کی انڈسٹری سے مایوس ہوکر اور بڑی بے سرو سامانی کے ساتھ ہندوستان کی فلم انڈسٹری چھوڑنے پر مجبور تھے۔
شاعر شیون رضوی اور نغمہ نگار و فلمساز نخشب جارچوی بھی ہندوستان سے جب ہجرت کر کے پاکستان آئے تو انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔ فلمساز نخشب جارچوی مالی طور پر کافی مضبوط تھے، انھوں نے اپنا ذاتی فلمساز ادارہ بھی کراچی میں قائم کرلیا تھا۔ انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری میں بڑا جم کر کام کیا تھا۔ شاعر شیون رضوی جب کراچی آئے تو کراچی کی فلم انڈسٹری اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بڑی تگ ودو کر رہی تھی، یہاں فلمسازی کی رفتار بڑی سست تھی، صرف ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہی تھوڑی بہت فلمی ہلچل نظر آتی تھی۔ میری شیون رضوی سے پہلی ملاقات کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ہی ہوئی تھی۔