پیسے میں بہت طاقت ہے
عزت دارافسرتو ویسے ہی صرف عزت بچانے کے لیے غیراہم مقامات پر جاچکے ہیں۔
چاردہائیوں سے مکمل اقتدارپرقابض لوگوں کی گرفت پہلی بارکمزورہوتی نظرآرہی ہے۔1985ء کے بعدپہلی بار ہورہاہے کہ الیکشن اوراس سے پہلے دورانیہ میں آنکھ کااشارہ سمجھنے والی انتظامیہ قدرے کم ہے۔قدرے کالفظ بے حداہم ہے۔اسلیے کہ نگران حکومت مکمل طورپرغیرجانبدارافسروں کی تعیناتی میں یکسرناکام رہی ہے۔
بہرحال جورَتی بھربھی نیوٹرل سیٹ اَپ لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پربھی چیخ وپکاربلکہ آہ وزاری ہورہی ہے۔دعویٰ سے عرض کرتاہوںکہ اگرمکمل طورپرغیرمتعصب افسر،دوسرے صوبوں سے پنجاب میںتعینات کیے جاتے توالیکشن حددرجہ مختلف ہونا تھا۔ عسکری صاحب ایک صاحبِ علم انسان ہیں مگرانتظامی باریکیوں سے آگاہ کرنے والے لوگ ان کے پاس قطعاً موجود نہیں ہیں۔ بہرحال جو ہے، اس پراکتفا کرنا ہوگا۔ شائد آئیڈیل صورتحال اس بدقسمت ملک کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔
پانچ برس سے کالم لکھنے کاکم ازکم مجھے ایک عجیب سا نقصان ہواہے۔جن لکھاریوں کوپڑھناخوش قسمتی سمجھتا تھا۔ دنیاکے جس بھی کونے میں ہوتا،انھیں پڑھے بغیرچین نہ آتا تھا۔اکثریت کوجب قریب سے دیکھنے کاموقع ملا، تو انکو بھی ان تمام علتوں میں غرقاب پایا جومعاشرے یاعام آدمی میں پائی جاتی ہیں۔غالب اکثریت اپنے معاشی حالات بہتر سے بہترین کرنے کی مہم پرہے۔لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے بھی،ہروقت مسنداقتدارکے قرب میں رہنا فرض سمجھتے ہیں۔دونوں ہاتھوں سے پیسہ بٹورناشائداب ان کی سرشت میں رس بس چکاہے۔
حدتویہ ہے کہ تھوڑے سے منافع کے لیے،اپنی تحریراوربیان کو مقتدر گروہ کے لیے اس بے شرمی سے استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے بلکہ سمجھنے والے کوشرم آتی ہے۔لازم ہے کہ تمام دانشورایسے نہیں ہیں۔مگراکثریت اب وہی کچھ کررہی ہے جوسکہ رائج الوقت ہے۔عرض کرتا چلوں کہ اس شعبے میں درویش صفت انسانوں کی بھی کمی نہیں ہے جوہرمنفعت سے اوپراُٹھ کرقلم سے نہیں بلکہ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔مگران کی تعدادبے حدکم ہے۔بہت ہی کم۔
تیس برس بذات خودملک کوبربادہوتے دیکھا ہے۔ دل دکھتاہے۔ویسے اب مجھے جمہوریت یاجمہوریت کے نام پرسویلین ڈکٹیٹرنگ سے کوئی دلچسپی نہیں ۔صرف یہ کہہ دینا کہ جنرل پرویزمشرف نے ہمارے ساتھ بڑاظلم کیا۔ ترقی کا پہیہ جبراًروک دیا۔اس بیانیے میں کسی قسم کاوزن نہیں رہا۔ دلیل سے لکھ رہاہوں کہ مشرف دورمیں ہمارے ملک کی صورتحال ہرطریقے سے بہترتھی۔مہنگائی سے لے کر اقتصادی ترقی کے تمام اہداف،دس سال کے ادنیٰ دورسے بہتر تھے۔ سوچیے،کیا اس جمہوریت کوچاٹناہے جس نے پاکستان کو اقتصادی قبرستان بناکررکھ دیا ہے۔
بین الاقوامی ساکھ رکھنے والے تمام ادارے شورمچارہے ہیں کہ پاکستان کوایک رقیق منصوبہ بندی کے تحت کمزور کیا جا رہا ہے۔ مگر ہمارے سیاستدان، سفیدجھوٹ بول کرمعاشی طور پر تباہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے جیسے میٹرو،اورنج ٹرین،موٹرویز،کارپیٹڈسڑکیں بننی چاہیے، مگر سوال یہ ہے کہ کب۔پوری دنیامیں مسلمہ اُصول ہے کہ پہلے اپنے اپنے ملک کی معاشی صورتحال درست کرو۔لوگوں کو صحت اوربنیادی ضروریات مہیا کرو۔ اس کے بعد،مہنگے اورنظر کوخیرہ کرنے والے ترقیاتی منصوبہ شروع کرو۔
مگرہمارے ملک میں ان دس برسوں میں آل شریف اورزرداری نے اس ترتیب کومکمل طورپراُلٹ کر دیا۔یعنی عوام کی بنیادی ضروریات جائیں جہنم میں۔ صحت، پانی،روزگاراورمہنگائی کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کوبالائے طاق رکھتے ہوئے، صرف اورصرف مہیب منصوبے شروع کیے گئے۔کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیرچین اور دیگر مالیاتی اداروں سے پاگلوں کی طرح قرض لے کروہ چیزیں بنانی شروع کردیں، جو بنیادی ترجیحات سے بہت بعدمیں آتی ہیں۔مقصدصاف ظاہرہے۔جتنابڑامنصوبہ تھا،اتنی بڑی کمیشن کی رقم۔ابھی تو لوگوں کواندازہ ہی نہیں کہ اس دس برس میں ملک میں کتنی کرپشن ہوئی ہے۔
کیااورنج ٹرین ضروری ہے یاپانی کو ضایع ہونے سے بچانے والے ڈیم۔کیامیٹروضروری تھی یا سستی بجلی پیداکرنے کے لیے آبی ذخائرکو بنانا۔ کیا موٹرویز کا جال بچھاناضروری تھایاملک کی پیداواری صلاحیت کوبڑھاوا دینا۔ان غلط ترجیحات کی اصل وجہ صرف ایک تھی۔اَل شریف کے ذہن میں پختہ یقین تھاکہ پاکستان ان کی ذاتی جاگیرہے۔عوام مکمل طورپر بیوقوف ہیں۔اپنے آپکو ہر طریقے کے احتساب سے بالاتر تصورکرنے والے ان لوگوں نے سرکاری بابوؤں کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دی۔
جن کا کام چوہدری کے میراثی سے بڑھ کرنہیں تھا۔ہروقت میرٹ اورشفافیت کاڈھول اتنابجایا گیاکہ اب معلوم ہواکہ ڈھول تو عرصے سے پھٹ چکا تھا۔ تمام اہل اورایماندارافسروں کو منصوبہ بندی کے تحت عضو معطل بنادیاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ نہ ترقی ہوسکی اورنہ سیاسی فائدہ۔ان افسروں نے اپنی سطح پراتنی لوٹ مارکی کہ ان کی سات نسلیں سنورگئیں۔اس مخصوص گروپ کی کرپشن پراَل شریف نے کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔بلکہ ہرطریقے سے حوصلہ افزائی کی گئی۔چنانچہ ایک ایساخطرناک نظام بنادیا گیا،جس سے ملک کی جڑیں ہل گئیں۔نام نہیں لے سکتا۔
ایک ریٹائرڈسینئرافسربڑے اہتمام سے لوگوں کو بتاتے تھے کہ میرابھانجاآج کل پنجاب حکومت میں اعلی عہدے پر ہے۔وہ توپاکستانی ملبوسات کوہاتھ نہیں لگاتا۔ اس کے تمام سوٹ اٹلی کے ہیں۔اس کی گھڑی تیس لاکھ سے زیادہ کی ہے۔جوتے بھی پچاس ہزارسے اوپر کے ہیں۔اس ریٹائرڈافسرنے کبھی یہ نہیں کہاکہ انکابھانجا مسند اقتدار کے سامنے سجدہ ریزہے اورہرغلط کام کرنے میں پیش پیش ہے۔اب ان لاکھوں روپے کے سوٹ پہننے والے بھانجے کو صوبہ بدرکیاگیاہے۔تواس ریٹائرڈسرکاری بابے نے کہرام مچارکھاہے۔ہروقت گالیاں دیتا رہتا ہے۔دس برس میں ہر کامیاب سرکاری بابوکی اسی طرح کی کہانی ہے۔جب انھوں نے اپنے ہاتھ سے اوپرپیسے پہنچانے ہیں توپھررشوت لینے میں کیاحرج ہے۔
ذراتصورکیجیے کہ"صاف پانی سکینڈل"میں ہر منظوری دینے کے بعد،یہ کہاجارہاہے کہ تمام فیصلے میرٹ پر کیے گئے ہیں۔خداکی پناہ۔پچاس لاکھ کی رقم سے لگنے والا پانی کاپلانٹ ڈیڑھ کروڑمیں لگایاگیا۔جب نیب یہ پوچھتی ہے کہ ایک کروڑسے زائدرقم ٹھیکیدارکوکیوں دی گئی،توسینہ کوبی شروع ہوجاتی ہے کہ سیاسی انتقام لیاجارہا ہے۔ آواز اُٹھائی جارہی ہے کہ ہمارے کام پرپوچھ گچھ کیوں۔ہم تو احتساب سے بالاترمخلوق ہیں۔چلیے نیب کو چھوڑیے۔ جب پاکستان کاچیف جسٹس،سابقہ وزیراعلیٰ سے پوچھتا ہے کہ افسروں کی تنخواہیں بیس لاکھ بلکہ پچیس لاکھ کس قانون کے تحت بڑھائی گئیں۔
توجواب ملتا ہے کہ میں نے تواربوں روپے کی بچت کی ہے۔کسی سوال کاسنجیدہ اور معقول جواب نہیں دیاجاتا۔سندھ میں بھی یہی صورتحال ہے۔فرق صرف یہ کہ وہاں پارسائی کاکوئی دعوی نہیں کیا جاتا۔بے ایمانی کے نظام کوانتہائی ایمانداری سے چلایا جارہا ہے۔گزشتہ دس برس میں ہرپوسٹ باقاعدہ ایک خاص مدت کے لیے نیلام ہوتی رہی ہے۔جوبھی اہلکارپیسے دیکر تعینات ہوتاتھا،اسے اپنے دیے گئے پیسے پورے کرنے کی پوری آزادی تھی۔شائداب بھی ہو۔کیونکہ سندھ کے نگران وزیراعلیٰ،زرداری کے گھریلو سطح کے ملازم ہیں۔ان کی مجال ہی نہیں کہ زرداری صاحب کے خاندان کی اجازت کے بغیرسانس بھی لے سکیں۔ چنانچہ کراچی اوراندرون سندھ کوکھوکھلاکردیاگیاہے۔
سوال اُٹھائیے توجواب ملتاہے کہ ہم نے آئین میں ایسی تبدیلی کی کہ تمام اختیارات مرکز سے لے کرصوبوں کودے ڈالے۔ کیا واقعی،یہ ایک مستندجواب ہے۔پوچھایہ جارہاہے کہ صاحب،آپکے نوکرکی تنخواہ پندرہ ہزارروپے ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں دس یابارہ ارب روپے کیسے آئے اور کیونکرغیرممالک میں منتقل ہوگئے۔جواب یہ دیاجاتاہے کہ خاندان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ درست ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ظلم ہوا۔بی بی شہیدکوبے گناہ مارا گیا۔
مگر یہاں سے یہ نکتہ کیسے منسلک ہوگیا،کہ ہمارے خاندان کوپیسے کمانے کی مکمل اجازت ہے۔کیاپنجاب اور سندھ کایہ بیانیہ،لندن، نیویارک یاسویڈن میں اپنایا جاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ قطعاًنہیں۔مگریہاں جمہوریت کے نام پر شخصی حکمرانی اورہولناک رشوت کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اگرعدلیہ یانیب پوچھے تو مرثیہ گوئی شروع ہوجاتی ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔یہ صرف ہمارے ملک میں ہوسکتاہے اور ہوتا رہیگا۔
بالکل اسی طرح،دنیاکی مہنگی ترین بجلی مہیاکی جارہی ہے۔کوئلے کے دونمبرکارخانے،شمسی توانائی کے ناکام منصوبے،تیل سے چلنے والے بجلی بنانے والے کارخانے صرف اسلیے لگائے گئے کہ ہرطریقے سے لوٹ مارکی جاسکے۔ "سرکلرڈیٹ"کی ادائیگی میں سے اربوں روپے بڑے قرینے سے بیرونی اکاؤنٹس میں لے لیے گئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کوقانونی طورپر اس سرکاری ڈیوٹی سے ہی محروم کردیاجائے کہ وہ سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کوقانون کے مطابق چیک کر سکے۔ ذرابات کریں۔توپھروہی ڈھنڈورا، شفافیت،میرٹ اور جمہوریت۔اگرکوئی آڈیٹر جنرل حکم کی تعمیل نہ کرے توادنیٰ الزامات لگاکرجیل بھجوانے کی حکمتِ عملی پرعمل کیا جاتا رہا۔
عزت دارافسرتو ویسے ہی صرف عزت بچانے کے لیے غیراہم مقامات پر جاچکے ہیں۔ ان دس سالوں میں جو معاشی کرپشن اور مظالم کیے گئے ہیں، اس کی چھان بین ہونی چاہیے۔ پوچھ گچھ کاراستہ کھلا رہنا چاہیے۔ عدلیہ اور نیب کو مزیدفعال ہونا چاہیے۔ یہ جعلی جمہوریت ہمیں برباد کرگئی ہے۔اتنی مہنگی جمہوریت سے دامن بچانا چاہیے۔ جمہوریت کے نام پرہونے والے فراڈ کوختم کرنا چاہیے۔ پر شائد یہ ممکن نہ ہوپائے۔ اسلیے کہ پیسے میں بہت طاقت ہے؟
بہرحال جورَتی بھربھی نیوٹرل سیٹ اَپ لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پربھی چیخ وپکاربلکہ آہ وزاری ہورہی ہے۔دعویٰ سے عرض کرتاہوںکہ اگرمکمل طورپرغیرمتعصب افسر،دوسرے صوبوں سے پنجاب میںتعینات کیے جاتے توالیکشن حددرجہ مختلف ہونا تھا۔ عسکری صاحب ایک صاحبِ علم انسان ہیں مگرانتظامی باریکیوں سے آگاہ کرنے والے لوگ ان کے پاس قطعاً موجود نہیں ہیں۔ بہرحال جو ہے، اس پراکتفا کرنا ہوگا۔ شائد آئیڈیل صورتحال اس بدقسمت ملک کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔
پانچ برس سے کالم لکھنے کاکم ازکم مجھے ایک عجیب سا نقصان ہواہے۔جن لکھاریوں کوپڑھناخوش قسمتی سمجھتا تھا۔ دنیاکے جس بھی کونے میں ہوتا،انھیں پڑھے بغیرچین نہ آتا تھا۔اکثریت کوجب قریب سے دیکھنے کاموقع ملا، تو انکو بھی ان تمام علتوں میں غرقاب پایا جومعاشرے یاعام آدمی میں پائی جاتی ہیں۔غالب اکثریت اپنے معاشی حالات بہتر سے بہترین کرنے کی مہم پرہے۔لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے بھی،ہروقت مسنداقتدارکے قرب میں رہنا فرض سمجھتے ہیں۔دونوں ہاتھوں سے پیسہ بٹورناشائداب ان کی سرشت میں رس بس چکاہے۔
حدتویہ ہے کہ تھوڑے سے منافع کے لیے،اپنی تحریراوربیان کو مقتدر گروہ کے لیے اس بے شرمی سے استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے بلکہ سمجھنے والے کوشرم آتی ہے۔لازم ہے کہ تمام دانشورایسے نہیں ہیں۔مگراکثریت اب وہی کچھ کررہی ہے جوسکہ رائج الوقت ہے۔عرض کرتا چلوں کہ اس شعبے میں درویش صفت انسانوں کی بھی کمی نہیں ہے جوہرمنفعت سے اوپراُٹھ کرقلم سے نہیں بلکہ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔مگران کی تعدادبے حدکم ہے۔بہت ہی کم۔
تیس برس بذات خودملک کوبربادہوتے دیکھا ہے۔ دل دکھتاہے۔ویسے اب مجھے جمہوریت یاجمہوریت کے نام پرسویلین ڈکٹیٹرنگ سے کوئی دلچسپی نہیں ۔صرف یہ کہہ دینا کہ جنرل پرویزمشرف نے ہمارے ساتھ بڑاظلم کیا۔ ترقی کا پہیہ جبراًروک دیا۔اس بیانیے میں کسی قسم کاوزن نہیں رہا۔ دلیل سے لکھ رہاہوں کہ مشرف دورمیں ہمارے ملک کی صورتحال ہرطریقے سے بہترتھی۔مہنگائی سے لے کر اقتصادی ترقی کے تمام اہداف،دس سال کے ادنیٰ دورسے بہتر تھے۔ سوچیے،کیا اس جمہوریت کوچاٹناہے جس نے پاکستان کو اقتصادی قبرستان بناکررکھ دیا ہے۔
بین الاقوامی ساکھ رکھنے والے تمام ادارے شورمچارہے ہیں کہ پاکستان کوایک رقیق منصوبہ بندی کے تحت کمزور کیا جا رہا ہے۔ مگر ہمارے سیاستدان، سفیدجھوٹ بول کرمعاشی طور پر تباہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے جیسے میٹرو،اورنج ٹرین،موٹرویز،کارپیٹڈسڑکیں بننی چاہیے، مگر سوال یہ ہے کہ کب۔پوری دنیامیں مسلمہ اُصول ہے کہ پہلے اپنے اپنے ملک کی معاشی صورتحال درست کرو۔لوگوں کو صحت اوربنیادی ضروریات مہیا کرو۔ اس کے بعد،مہنگے اورنظر کوخیرہ کرنے والے ترقیاتی منصوبہ شروع کرو۔
مگرہمارے ملک میں ان دس برسوں میں آل شریف اورزرداری نے اس ترتیب کومکمل طورپراُلٹ کر دیا۔یعنی عوام کی بنیادی ضروریات جائیں جہنم میں۔ صحت، پانی،روزگاراورمہنگائی کو کم کرنے کی منصوبہ بندی کوبالائے طاق رکھتے ہوئے، صرف اورصرف مہیب منصوبے شروع کیے گئے۔کسی قسم کی منصوبہ بندی کے بغیرچین اور دیگر مالیاتی اداروں سے پاگلوں کی طرح قرض لے کروہ چیزیں بنانی شروع کردیں، جو بنیادی ترجیحات سے بہت بعدمیں آتی ہیں۔مقصدصاف ظاہرہے۔جتنابڑامنصوبہ تھا،اتنی بڑی کمیشن کی رقم۔ابھی تو لوگوں کواندازہ ہی نہیں کہ اس دس برس میں ملک میں کتنی کرپشن ہوئی ہے۔
کیااورنج ٹرین ضروری ہے یاپانی کو ضایع ہونے سے بچانے والے ڈیم۔کیامیٹروضروری تھی یا سستی بجلی پیداکرنے کے لیے آبی ذخائرکو بنانا۔ کیا موٹرویز کا جال بچھاناضروری تھایاملک کی پیداواری صلاحیت کوبڑھاوا دینا۔ان غلط ترجیحات کی اصل وجہ صرف ایک تھی۔اَل شریف کے ذہن میں پختہ یقین تھاکہ پاکستان ان کی ذاتی جاگیرہے۔عوام مکمل طورپر بیوقوف ہیں۔اپنے آپکو ہر طریقے کے احتساب سے بالاتر تصورکرنے والے ان لوگوں نے سرکاری بابوؤں کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دی۔
جن کا کام چوہدری کے میراثی سے بڑھ کرنہیں تھا۔ہروقت میرٹ اورشفافیت کاڈھول اتنابجایا گیاکہ اب معلوم ہواکہ ڈھول تو عرصے سے پھٹ چکا تھا۔ تمام اہل اورایماندارافسروں کو منصوبہ بندی کے تحت عضو معطل بنادیاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ نہ ترقی ہوسکی اورنہ سیاسی فائدہ۔ان افسروں نے اپنی سطح پراتنی لوٹ مارکی کہ ان کی سات نسلیں سنورگئیں۔اس مخصوص گروپ کی کرپشن پراَل شریف نے کبھی کوئی قدغن نہیں لگائی۔بلکہ ہرطریقے سے حوصلہ افزائی کی گئی۔چنانچہ ایک ایساخطرناک نظام بنادیا گیا،جس سے ملک کی جڑیں ہل گئیں۔نام نہیں لے سکتا۔
ایک ریٹائرڈسینئرافسربڑے اہتمام سے لوگوں کو بتاتے تھے کہ میرابھانجاآج کل پنجاب حکومت میں اعلی عہدے پر ہے۔وہ توپاکستانی ملبوسات کوہاتھ نہیں لگاتا۔ اس کے تمام سوٹ اٹلی کے ہیں۔اس کی گھڑی تیس لاکھ سے زیادہ کی ہے۔جوتے بھی پچاس ہزارسے اوپر کے ہیں۔اس ریٹائرڈافسرنے کبھی یہ نہیں کہاکہ انکابھانجا مسند اقتدار کے سامنے سجدہ ریزہے اورہرغلط کام کرنے میں پیش پیش ہے۔اب ان لاکھوں روپے کے سوٹ پہننے والے بھانجے کو صوبہ بدرکیاگیاہے۔تواس ریٹائرڈسرکاری بابے نے کہرام مچارکھاہے۔ہروقت گالیاں دیتا رہتا ہے۔دس برس میں ہر کامیاب سرکاری بابوکی اسی طرح کی کہانی ہے۔جب انھوں نے اپنے ہاتھ سے اوپرپیسے پہنچانے ہیں توپھررشوت لینے میں کیاحرج ہے۔
ذراتصورکیجیے کہ"صاف پانی سکینڈل"میں ہر منظوری دینے کے بعد،یہ کہاجارہاہے کہ تمام فیصلے میرٹ پر کیے گئے ہیں۔خداکی پناہ۔پچاس لاکھ کی رقم سے لگنے والا پانی کاپلانٹ ڈیڑھ کروڑمیں لگایاگیا۔جب نیب یہ پوچھتی ہے کہ ایک کروڑسے زائدرقم ٹھیکیدارکوکیوں دی گئی،توسینہ کوبی شروع ہوجاتی ہے کہ سیاسی انتقام لیاجارہا ہے۔ آواز اُٹھائی جارہی ہے کہ ہمارے کام پرپوچھ گچھ کیوں۔ہم تو احتساب سے بالاترمخلوق ہیں۔چلیے نیب کو چھوڑیے۔ جب پاکستان کاچیف جسٹس،سابقہ وزیراعلیٰ سے پوچھتا ہے کہ افسروں کی تنخواہیں بیس لاکھ بلکہ پچیس لاکھ کس قانون کے تحت بڑھائی گئیں۔
توجواب ملتا ہے کہ میں نے تواربوں روپے کی بچت کی ہے۔کسی سوال کاسنجیدہ اور معقول جواب نہیں دیاجاتا۔سندھ میں بھی یہی صورتحال ہے۔فرق صرف یہ کہ وہاں پارسائی کاکوئی دعوی نہیں کیا جاتا۔بے ایمانی کے نظام کوانتہائی ایمانداری سے چلایا جارہا ہے۔گزشتہ دس برس میں ہرپوسٹ باقاعدہ ایک خاص مدت کے لیے نیلام ہوتی رہی ہے۔جوبھی اہلکارپیسے دیکر تعینات ہوتاتھا،اسے اپنے دیے گئے پیسے پورے کرنے کی پوری آزادی تھی۔شائداب بھی ہو۔کیونکہ سندھ کے نگران وزیراعلیٰ،زرداری کے گھریلو سطح کے ملازم ہیں۔ان کی مجال ہی نہیں کہ زرداری صاحب کے خاندان کی اجازت کے بغیرسانس بھی لے سکیں۔ چنانچہ کراچی اوراندرون سندھ کوکھوکھلاکردیاگیاہے۔
سوال اُٹھائیے توجواب ملتاہے کہ ہم نے آئین میں ایسی تبدیلی کی کہ تمام اختیارات مرکز سے لے کرصوبوں کودے ڈالے۔ کیا واقعی،یہ ایک مستندجواب ہے۔پوچھایہ جارہاہے کہ صاحب،آپکے نوکرکی تنخواہ پندرہ ہزارروپے ہے۔ اس کے بینک اکاؤنٹ میں دس یابارہ ارب روپے کیسے آئے اور کیونکرغیرممالک میں منتقل ہوگئے۔جواب یہ دیاجاتاہے کہ خاندان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ درست ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ظلم ہوا۔بی بی شہیدکوبے گناہ مارا گیا۔
مگر یہاں سے یہ نکتہ کیسے منسلک ہوگیا،کہ ہمارے خاندان کوپیسے کمانے کی مکمل اجازت ہے۔کیاپنجاب اور سندھ کایہ بیانیہ،لندن، نیویارک یاسویڈن میں اپنایا جاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ قطعاًنہیں۔مگریہاں جمہوریت کے نام پر شخصی حکمرانی اورہولناک رشوت کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔اگرعدلیہ یانیب پوچھے تو مرثیہ گوئی شروع ہوجاتی ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔یہ صرف ہمارے ملک میں ہوسکتاہے اور ہوتا رہیگا۔
بالکل اسی طرح،دنیاکی مہنگی ترین بجلی مہیاکی جارہی ہے۔کوئلے کے دونمبرکارخانے،شمسی توانائی کے ناکام منصوبے،تیل سے چلنے والے بجلی بنانے والے کارخانے صرف اسلیے لگائے گئے کہ ہرطریقے سے لوٹ مارکی جاسکے۔ "سرکلرڈیٹ"کی ادائیگی میں سے اربوں روپے بڑے قرینے سے بیرونی اکاؤنٹس میں لے لیے گئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کوقانونی طورپر اس سرکاری ڈیوٹی سے ہی محروم کردیاجائے کہ وہ سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کوقانون کے مطابق چیک کر سکے۔ ذرابات کریں۔توپھروہی ڈھنڈورا، شفافیت،میرٹ اور جمہوریت۔اگرکوئی آڈیٹر جنرل حکم کی تعمیل نہ کرے توادنیٰ الزامات لگاکرجیل بھجوانے کی حکمتِ عملی پرعمل کیا جاتا رہا۔
عزت دارافسرتو ویسے ہی صرف عزت بچانے کے لیے غیراہم مقامات پر جاچکے ہیں۔ ان دس سالوں میں جو معاشی کرپشن اور مظالم کیے گئے ہیں، اس کی چھان بین ہونی چاہیے۔ پوچھ گچھ کاراستہ کھلا رہنا چاہیے۔ عدلیہ اور نیب کو مزیدفعال ہونا چاہیے۔ یہ جعلی جمہوریت ہمیں برباد کرگئی ہے۔اتنی مہنگی جمہوریت سے دامن بچانا چاہیے۔ جمہوریت کے نام پرہونے والے فراڈ کوختم کرنا چاہیے۔ پر شائد یہ ممکن نہ ہوپائے۔ اسلیے کہ پیسے میں بہت طاقت ہے؟