عوام کا کام زندہ باد کہنا نہیں
ہماری جماعتیں عوام کے لیے اپنی خدمات کا انتہائی ڈھٹائی سے ذکر کرتی ہیں، ان خدمات کا عوام کو جائزہ لینا چاہیے۔
ہر ملک میں عام انتخابات عوام کا امتحان بن کر آتے ہیں، آنے والے 5 برسوں کے لیے وہ کیسے فائدے چنتے ہیں، اس امتحان میں دولت کی فراوانی رائے عامہ پر اثر انداز ہوتی ہے، ماضی کے دور اقتدار میں کرپشن سے کمائی ہوئی دولت کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، وہ ''قائدین'' جو اقتدار کی جنگ میں شامل ہوتے ہیں ان کا دائرہ کار ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہوتا ہے اور ملک بھر میں انتخابی مہم وہی رہنما وہی پارٹیاں چلا سکتی ہیں جن کا بجٹ اربوں میں ہوتا ہے اور مہم بھی دھوم دھام سے چلائی جاتی ہے، دولت کے بے دریغ استعمال سے عوام کو مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی مہم پر لگایا جانے والا اربوں روپوں کا سرمایہ آیا کہاں سے؟ دھڑلے سے چلائی جانے والی انتخابی مہم سے عوام کا نفسیاتی اور روایتی طور پر متاثر ہونا فطری ہے اور عوام اس دھوم دھڑکے کی مہموں میں یہ جاننا بھول جاتے ہیں کہ انتخابی مہموں پر خرچ کیا جانے والا اربوں روپیہ کہاں سے آیا؟
سرمایہ دارانہ جمہوریت پر لگایا جانے والا سرمایہ ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے جو ایک کے اکیس دیتی ہے، جو لوگ انتخابات میں ہاتھ کھول کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یہ سرمایہ ان کی محنت کی کمائی نہیں ہوتا، یہ سرمایہ اسی کرپشن سے حاصل کیا جاتا ہے جو اقتدار میں رہنے کی وجہ حاصل ہوتا ہے اور اگر یہ سرمایہ کاری سرمایہ دار کو اقتدار دلا دیتی ہے تو عوام کو لوٹنے کا ایک اور موقع ہاتھ آجاتا ہے۔
یہ کھیل سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے منافع بخش کھیل ہے۔ پاکستان میں بھی یہی سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے، اس جمہوریت کے منافع کا اندازہ سابق حکمرانوں کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی دولت سے لگایا جاسکتا ہے جن کے تذکروں سے میڈیا بھرا ہوا ہے۔ اس نظام میں ہر چیز حتیٰ کہ دین، دھرم، ضمیر سب قابل فروخت ہوتے ہیں۔ میڈیا ان رہنماؤں اور جماعتوں کو زیادہ کوریج دیتا ہے جن کا ہاتھ کھلا ہوتا ہے، تنگ ہاتھوں والے میڈیا میں بارہویں کھلاڑی بنے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ بلاتفریق غریب اور امیر ہر ملک میں جاری رہتا ہے، اسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوامی مسائل سے لاتعلق جماعتیں بھی بار بار اقتدار میں آتی رہتی ہیں اور لوٹ مار کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔
ہماری جماعتیں عوام کے لیے اپنی خدمات کا انتہائی ڈھٹائی سے ذکر کرتی ہیں، ان خدمات کا عوام کو جائزہ لینا چاہیے۔ہمارے عوامی مسائل میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تعلیم ہے، علاج ہے، معیار زندگی اور آمدنی میں اضافہ ہے۔ کیا پچھلے دس سال میں جب سے دو بڑی نامور سیاسی جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں مذکورہ سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے، یعنی مہنگائی کم ہوئی ہے؟ بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے، تعلیم کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے؟ عوام کو مہیا کی جانے والی طبی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے؟ عوام 70 سال سے جس معیار زندگی کے حصار میں قید ہیں، کیا اس معیار زندگی میں اضافہ ہوا ہے؟
ملک کا ہر شہری ان سوالوں کے جواب جانتا ہے۔ اس حوالے سے چند شرمناک کوتاہیوں یا جرائم کا حوالہ ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں عشروں سے بجلی کی کمی ہے، اس کمی کا شافی علاج لوڈشیڈنگ سے کیا جاتا رہا ہے، اگر حکمران ایماندار اور عوام دوست ہوتے تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوچکا ہوتا، لیکن اسے ہم حکمرانوں کی نااہلی کہیں یا بددیانتی یا بے ایمانی کہ یہ مسئلہ عشروں سے حل طلب ہے اور ہمارا حکمران طبقہ بار بار انتہائی ڈھٹائی اور بے ایمانی سے یہ کہتا رہا کہ ہم نے ملک میں لوڈشیڈنگ پر قابو پالیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور غریبوں کے علاقوں میں اس کے دورانیے میں اضافہ ہوگیا ہے۔
بجلی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے اگر حکمران طبقہ ایماندار اور عوام کا ہمدرد ہوتا تو وہ اس مسئلے کو ہنگامی طور پر حل کرتا اس جرم کا اعتراف کرنے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے، جب کہ وارداتوں میں وہ حکمران بھی شامل ہوتے ہیں جو اس قومی جرم میں شریک ہوتے ہیں۔ اور مسئلوں کا ذکر بعد میں کریں گے پانی کا مسئلہ آج ایک جان لیوا مسئلہ بنا ہوا ہے ملک کے ہر شہر ہر علاقے میں پانی کی قلت عذاب جاں بنی ہوئی ہے، پانی کا مسئلہ اچانک پیدا نہیں ہوا اس کی کمی عرصے سے جاری ہے لیکن اس کمی پر قابو پانے کی ہمارے حکمرانوں نے سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔
بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی دو صوبوں میں سخت مخالفت ہو رہی ہے اگر کالا باغ ڈیم بنائیں تو ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے بہانے بازوں کی خدمت میں متعلقہ ماہرین نے بھاشا ڈیم کا متبادل منصوبہ پیش کیا تھا لیکن ہمارے حکمران ''ضروری کاموں'' میں اس قدر مصروف تھے کہ انھیں بھاشا ڈیم کی تعمیر پر غور کرنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ سارا ملک آہستہ آہستہ کربلا بنتا جا رہا ہے اگر مون سون بھرپور طریقے سے ملک میں نہ برسا تو پانی کی قلت کیسے کیسے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ مسئلہ بھی دونوں سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتوں پر ان مسائل کی ذمے داری عائد نہیں ہوسکتی، لہٰذا مقتدر جماعتیں ان مسائل کی ذمے دار ہیں اور عوام کا فرض ہے کہ وہ ووٹ کے لیے آنے والی ان جماعتوں سے پوچھیں کہ بجلی پانی کی کمی کا ذمے دار کون ہے؟
اب کچھ شہزادے بادشاہ انتخابی مہم پر نکل چکے ہیں، کچھ نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں، جب وہ عوام میں اپنی تقریر دل پذیر کے ساتھ تشریف لائیں تو عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ محض زندہ باد کے نعرے لگائیں اور تالیاں پیٹتے رہیں، عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ان امیدواروں سے بجلی پانی گیس، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، علاج کے علاوہ اس اربوں کی کرپشن پر سوالات کریں، جس کے چرچے میڈیا میں ہو رہے ہیں، اب عوام کو گونگے پن سے باہر آنا چاہیے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابی مہم پر لگایا جانے والا اربوں روپوں کا سرمایہ آیا کہاں سے؟ دھڑلے سے چلائی جانے والی انتخابی مہم سے عوام کا نفسیاتی اور روایتی طور پر متاثر ہونا فطری ہے اور عوام اس دھوم دھڑکے کی مہموں میں یہ جاننا بھول جاتے ہیں کہ انتخابی مہموں پر خرچ کیا جانے والا اربوں روپیہ کہاں سے آیا؟
سرمایہ دارانہ جمہوریت پر لگایا جانے والا سرمایہ ایک ایسی منافع بخش سرمایہ کاری ہے جو ایک کے اکیس دیتی ہے، جو لوگ انتخابات میں ہاتھ کھول کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یہ سرمایہ ان کی محنت کی کمائی نہیں ہوتا، یہ سرمایہ اسی کرپشن سے حاصل کیا جاتا ہے جو اقتدار میں رہنے کی وجہ حاصل ہوتا ہے اور اگر یہ سرمایہ کاری سرمایہ دار کو اقتدار دلا دیتی ہے تو عوام کو لوٹنے کا ایک اور موقع ہاتھ آجاتا ہے۔
یہ کھیل سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے منافع بخش کھیل ہے۔ پاکستان میں بھی یہی سرمایہ دارانہ جمہوریت رائج ہے، اس جمہوریت کے منافع کا اندازہ سابق حکمرانوں کی پوشیدہ اور چھپی ہوئی دولت سے لگایا جاسکتا ہے جن کے تذکروں سے میڈیا بھرا ہوا ہے۔ اس نظام میں ہر چیز حتیٰ کہ دین، دھرم، ضمیر سب قابل فروخت ہوتے ہیں۔ میڈیا ان رہنماؤں اور جماعتوں کو زیادہ کوریج دیتا ہے جن کا ہاتھ کھلا ہوتا ہے، تنگ ہاتھوں والے میڈیا میں بارہویں کھلاڑی بنے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ بلاتفریق غریب اور امیر ہر ملک میں جاری رہتا ہے، اسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوامی مسائل سے لاتعلق جماعتیں بھی بار بار اقتدار میں آتی رہتی ہیں اور لوٹ مار کے ذریعے اپنی دولت میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔
ہماری جماعتیں عوام کے لیے اپنی خدمات کا انتہائی ڈھٹائی سے ذکر کرتی ہیں، ان خدمات کا عوام کو جائزہ لینا چاہیے۔ہمارے عوامی مسائل میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تعلیم ہے، علاج ہے، معیار زندگی اور آمدنی میں اضافہ ہے۔ کیا پچھلے دس سال میں جب سے دو بڑی نامور سیاسی جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں مذکورہ سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے، یعنی مہنگائی کم ہوئی ہے؟ بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے، تعلیم کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے؟ عوام کو مہیا کی جانے والی طبی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے؟ عوام 70 سال سے جس معیار زندگی کے حصار میں قید ہیں، کیا اس معیار زندگی میں اضافہ ہوا ہے؟
ملک کا ہر شہری ان سوالوں کے جواب جانتا ہے۔ اس حوالے سے چند شرمناک کوتاہیوں یا جرائم کا حوالہ ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں عشروں سے بجلی کی کمی ہے، اس کمی کا شافی علاج لوڈشیڈنگ سے کیا جاتا رہا ہے، اگر حکمران ایماندار اور عوام دوست ہوتے تو یہ مسئلہ کبھی کا حل ہوچکا ہوتا، لیکن اسے ہم حکمرانوں کی نااہلی کہیں یا بددیانتی یا بے ایمانی کہ یہ مسئلہ عشروں سے حل طلب ہے اور ہمارا حکمران طبقہ بار بار انتہائی ڈھٹائی اور بے ایمانی سے یہ کہتا رہا کہ ہم نے ملک میں لوڈشیڈنگ پر قابو پالیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ جاری ہے اور غریبوں کے علاقوں میں اس کے دورانیے میں اضافہ ہوگیا ہے۔
بجلی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے اگر حکمران طبقہ ایماندار اور عوام کا ہمدرد ہوتا تو وہ اس مسئلے کو ہنگامی طور پر حل کرتا اس جرم کا اعتراف کرنے کے بجائے کہا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ہمیں وراثت میں ملا ہے، جب کہ وارداتوں میں وہ حکمران بھی شامل ہوتے ہیں جو اس قومی جرم میں شریک ہوتے ہیں۔ اور مسئلوں کا ذکر بعد میں کریں گے پانی کا مسئلہ آج ایک جان لیوا مسئلہ بنا ہوا ہے ملک کے ہر شہر ہر علاقے میں پانی کی قلت عذاب جاں بنی ہوئی ہے، پانی کا مسئلہ اچانک پیدا نہیں ہوا اس کی کمی عرصے سے جاری ہے لیکن اس کمی پر قابو پانے کی ہمارے حکمرانوں نے سرے سے کوشش ہی نہیں کی۔
بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی دو صوبوں میں سخت مخالفت ہو رہی ہے اگر کالا باغ ڈیم بنائیں تو ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے بہانے بازوں کی خدمت میں متعلقہ ماہرین نے بھاشا ڈیم کا متبادل منصوبہ پیش کیا تھا لیکن ہمارے حکمران ''ضروری کاموں'' میں اس قدر مصروف تھے کہ انھیں بھاشا ڈیم کی تعمیر پر غور کرنے کا وقت ہی نہ مل سکا۔ سارا ملک آہستہ آہستہ کربلا بنتا جا رہا ہے اگر مون سون بھرپور طریقے سے ملک میں نہ برسا تو پانی کی قلت کیسے کیسے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ مسئلہ بھی دونوں سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے اقتدار سے باہر رہنے والی جماعتوں پر ان مسائل کی ذمے داری عائد نہیں ہوسکتی، لہٰذا مقتدر جماعتیں ان مسائل کی ذمے دار ہیں اور عوام کا فرض ہے کہ وہ ووٹ کے لیے آنے والی ان جماعتوں سے پوچھیں کہ بجلی پانی کی کمی کا ذمے دار کون ہے؟
اب کچھ شہزادے بادشاہ انتخابی مہم پر نکل چکے ہیں، کچھ نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں، جب وہ عوام میں اپنی تقریر دل پذیر کے ساتھ تشریف لائیں تو عوام کا کام یہ نہیں کہ وہ محض زندہ باد کے نعرے لگائیں اور تالیاں پیٹتے رہیں، عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ان امیدواروں سے بجلی پانی گیس، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم، علاج کے علاوہ اس اربوں کی کرپشن پر سوالات کریں، جس کے چرچے میڈیا میں ہو رہے ہیں، اب عوام کو گونگے پن سے باہر آنا چاہیے۔