پیپلز پارٹی کا منشور عوام کے لیے مایوسی
پیپلز پارٹی نے کراچی اور حیدرآباد کے شہریوں کے کسی مطالبہ پر توجہ نہیں دی۔
بلاول بھٹو زرداری نے لیاری سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ لیاری میں ایک مزاحمتی گروہ نے پتھراؤ کرکے بلاول کے قافلہ کو راستہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ یہ لوگ اپنے علاقے میں پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کررہے تھے۔ لیاری کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ لیاری میں صدیوں سے آباد کچھی برادری نے گزشتہ 10 سال کے دوران روا رکھے گئے سلوک پر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
لیاری میں انتخابی مہم کا آغاز پتھراؤ سے ہوا۔ یوں تشدد کی بری روایت قائم ہوئی۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ پیپلز پارٹی کے پرانے چاہنے والے ہیں، مگر لیاری میں گینگ وار سے براہِ راست متاثر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے حلقے یہ الزام لگاتے ہیں کہ کالعدم لیاری پیپلز امن کمیٹی کے رہنما حبیب جان بلوچ اور عزیر بلوچ کے حامی اس تشدد آمیز مظاہرہ کے ذمے دار ہیں۔
لیاری 1970 سے پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط قلعہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے لیاری میں 1970 سے ہونے والے تمام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں سے بیشتر انتخابات اس وقت ہوئے جب پیپلز پارٹی معتوب تھی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے پرتشدد احتجاج کو جمہوریت کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ 1977 میں جب پیپلز پارٹی کو پاکستان قومی اتحاد کی پرتشدد تحریک کا سامنا تھا تو اس وقت لیاری میں اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی، اب جب کہ پیپلز پارٹی 10 سال سے برسر اقتدار ہے اور اس احتجاج کے پس منظر میں کوئی عناصر ہوں مگر لیاری میں کسی گروہ کا پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے جلوس کے خلاف مظاہرہ پیپلز پارٹی کے مستقبل پر فکر کرنے والوں کے لیے ضرور تشویش کا باعث ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول زرداری نے اسلام آباد میں صحافیوں کے سامنے پیپلز پارٹی کا منشور جاری کیا۔ اس منشور میں انھوں نے قومی سلامتی، ملازمتوں کی فراہمی، مزدوروں کے حقوق وغیرہ کے وعدے کیے۔ اس منشور کو پیش کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے جمہوریت کو درپیش چیلنج کا ذکر کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کو سنسرشدہ جمہوریت قبول نہیں، مگر ان کے پیش کردہ منشور میں جمہوریت کو درپیش چیلنج سے نمٹنے کا ذکر نہیں ہے۔
گزشتہ 10 برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا شعوری طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بار بار واضح ہوتی ہے کہ ریاست کے تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی کمزور پڑ رہی ہے۔ جمہوری طرز فکر میں ایک طرف منتخب سیاسی رہنما ہیں جو قائدین کہلاتے ہیں، مگر گزشتہ 10 برسوں کے دوران غیر منتخب اداروں کے نگراں بھی قائدین کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ پھر غیر منتخب افراد کی ڈاکٹرائن پارلیمنٹ سمیت ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی حاصل کرچکی ہے۔
یوں پارلیمنٹ کا پالیسیاں بنانے کا فریضہ کہیں اور منتقل ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں 2008 سے 2013 تک دو سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کی آئینی مدت تو پوری کرپائیں مگر دونوں حکومتوں کی رٹ تین تین برسوں بعد ختم ہوگئی۔ یوں ڈیپ اسٹیٹ کے نظریہ نے تمام اداروں کو ڈکٹیٹ کرنے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ ان 10 برسوں میں شہریوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ انتہائی شدت اختیار کرگیا۔ نامعلوم قوتیں چاروں صوبوں میں شہریوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے برسوں سے لاپتہ ہیں۔
کچھ لوگ جو واپس آجاتے ہیں وہ خاموشی کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی 2008 میں اقتدار میں آئی تو جبری طور پر لاپتہ ہونے کے معاملات خیبرپختونخوا اور بلوچستان اور پنجاب میں رونما ہورہے تھے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بین الاقوامی صورتحال سے براہِ راست سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر گزشتہ 3 برسوں سے سندھ بھی اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ والے برسوں سے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔
ایم کیو ایم دو سال پہلے تو اس معاملہ پر کئی کئی دفعہ شہر کو بند کراتی تھی مگر اب ان کا احتجاج بین الاقوامی فورمز پر منتقل ہوگیا ہے۔ اب اندرون سندھ سے طلبا، مزدوروں اور دانشوروں کے لاپتہ ہونے پر احتجاج ہورہا ہے۔ اب یہ احتجاج کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزراء کو ان احتجاجی کیمپوں کی بناء پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزرا نے گزشتہ مہینے بھوک ہڑتالی کیمپوں کا دورہ کرکے تمام لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر یہ وزراء محض وعدہ کرتے رہے، مگر پیپلز پارٹی کا منشور اس اہم مسئلے پر کسی رائے کے حوالے سے خاموش ہے۔
ملک کے سابق صدر آصف زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پیشگوئی کی ہے کہ سنجرانی جیسا کوئی ملک کا وزیراعظم منتخب ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں جیپ کے نشان والے آزاد امیدوار منتخب ہوں گے اور حکومت بنانے کے لیے اکثریتی گروہ کو ان سے بات کرنی پڑے گی۔ ایک ایسی جماعت جس نے پورے ملک میں حکمرانی کی ہے اور جس جماعت کے سربراہ نے سیاست کا انداز تبدیل کردیا ہو اس جماعت کے ایک اور سربراہ کا یہ بیان اعتراف شکست کے ساتھ سیاسی کارکنوں کے لیے سبق ہے۔
زرداری صاحب نے محض میاں نواز شریف کی مخالفت میں ڈیپ اسٹیٹ کے نظریہ کی اطاعت کی، یوں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے اپنے کارکنوں کو ہی نظرانداز نہیں کیا بلکہ سویلین کے لیے راستہ کم کرنے والوں کا ساتھ دیا مگر اب ان کی جماعت ایک دفعہ پھر ڈیپ اسٹیٹ نظریہ کا شکار ہورہی ہے۔ پھر منشور کے نکات کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ منشور 2008 اور 2013 میں جاری ہونے والے منشور کی نقل ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ پورے ملک میں ایک لاکھ مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے رقم مختص کر دی، مگر مالیاتی مدت کے خاتمے کے بعد یہ رقم واپس وفاق کو چلی گئی۔ پھر زرداری نے نواب شاہ میں اعلان کیا کہ ہر خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دی جائے گی۔ یہ اعلان پیپلز پارٹی کے منشور سے بالکل علیحدہ ہے۔ بعض صحافیوں کا خیال ہے کہ آصف زرداری نے صرف نواب شاہ کے لوگوں سے ووٹ لینے کے لیے یہ پرکشش اعلان کیا ہے۔ اس کا اطلاق پورے ملک پر نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے صورتحال انتہائی خراب رہی۔
پیپلز پارٹی نے کراچی اور حیدرآباد کے شہریوں کے کسی مطالبہ پر توجہ نہیں دی۔ شہر کا صفائی کا نظام تباہ ہوا۔ کوڑا کرکٹ قومی ایشو بن گیا مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس خطرناک صورتحال کا اندازہ نہیں لگایا یا کسی اور وجہ سے یہ صورتحال رہی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں نچلی سطح تک کے بلدیاتی نظام کے قیام کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت خودمختار بلدیاتی اداروں کے تصور کو پیش کررہی ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی اداروں کی ساکھ کو مکمل طور پر ختم کردیا اور کسی صورت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر تیار نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ کی مداخلت پر انتخابات منعقد ہوئے تو مہینوں پیپلز پارٹی ان اداروں کو کسی قسم کا اختیار دینے کو تیار نہیں تھی، جس کا نقصان پورے سندھ کو ہوا۔ پیپلز پارٹی نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کو اخراجات زندگی سے منسلک کرنے کا وعدہ کیا ہے، سندھ میں اس وقت کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے ہے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیبر قوانین کے اطلاق کی ذمے داری کو قبول ہی نہیں کیا۔ سندھ میں لیبر کورٹس فعال نہیں ہیں۔ آجر مزدوروں کو یونین سازی کا حق نہیں دیتے۔ حکومت سندھ کا محکمہ لیبر آجروں کا اسیر ہے، یوں اس 15ہزار روپے کے اعلان پر بھی عمل نہیں ہوا۔
سندھ میں اب تک کنزیومر کورٹ قائم نہیں کیے گئے۔ پنجاب میں ہنگامی صورتحال کے لیے ریسکیو کا ادارہ قائم ہوئے 20 سال ہوگئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے ریسکیو کا ادارہ قائم کیا مگر سندھ کی حکومت نے اس طرح کی تنظیم کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک اپنے سابق وزیر کو دوبارہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کا ٹکٹ دیا ہے جس کے دور میں سندھ میں تعلیم کا نظام تباہ ہوا، یوں تعلیم کے شعبے میں پارٹی کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا منشور کچھ نہیں، اس میں عوام کے لیے مایوسی کا حصہ زیادہ ہے۔
لیاری میں انتخابی مہم کا آغاز پتھراؤ سے ہوا۔ یوں تشدد کی بری روایت قائم ہوئی۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ یہ سب لوگ پیپلز پارٹی کے پرانے چاہنے والے ہیں، مگر لیاری میں گینگ وار سے براہِ راست متاثر ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے حلقے یہ الزام لگاتے ہیں کہ کالعدم لیاری پیپلز امن کمیٹی کے رہنما حبیب جان بلوچ اور عزیر بلوچ کے حامی اس تشدد آمیز مظاہرہ کے ذمے دار ہیں۔
لیاری 1970 سے پیپلز پارٹی کا سب سے مضبوط قلعہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے لیاری میں 1970 سے ہونے والے تمام انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں سے بیشتر انتخابات اس وقت ہوئے جب پیپلز پارٹی معتوب تھی۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے پرتشدد احتجاج کو جمہوریت کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ 1977 میں جب پیپلز پارٹی کو پاکستان قومی اتحاد کی پرتشدد تحریک کا سامنا تھا تو اس وقت لیاری میں اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوئی، اب جب کہ پیپلز پارٹی 10 سال سے برسر اقتدار ہے اور اس احتجاج کے پس منظر میں کوئی عناصر ہوں مگر لیاری میں کسی گروہ کا پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے جلوس کے خلاف مظاہرہ پیپلز پارٹی کے مستقبل پر فکر کرنے والوں کے لیے ضرور تشویش کا باعث ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول زرداری نے اسلام آباد میں صحافیوں کے سامنے پیپلز پارٹی کا منشور جاری کیا۔ اس منشور میں انھوں نے قومی سلامتی، ملازمتوں کی فراہمی، مزدوروں کے حقوق وغیرہ کے وعدے کیے۔ اس منشور کو پیش کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے جمہوریت کو درپیش چیلنج کا ذکر کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کو سنسرشدہ جمہوریت قبول نہیں، مگر ان کے پیش کردہ منشور میں جمہوریت کو درپیش چیلنج سے نمٹنے کا ذکر نہیں ہے۔
گزشتہ 10 برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا شعوری طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بار بار واضح ہوتی ہے کہ ریاست کے تمام اداروں پر پارلیمنٹ کی بالادستی کمزور پڑ رہی ہے۔ جمہوری طرز فکر میں ایک طرف منتخب سیاسی رہنما ہیں جو قائدین کہلاتے ہیں، مگر گزشتہ 10 برسوں کے دوران غیر منتخب اداروں کے نگراں بھی قائدین کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ پھر غیر منتخب افراد کی ڈاکٹرائن پارلیمنٹ سمیت ریاست کے تمام اداروں پر بالادستی حاصل کرچکی ہے۔
یوں پارلیمنٹ کا پالیسیاں بنانے کا فریضہ کہیں اور منتقل ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں 2008 سے 2013 تک دو سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کی آئینی مدت تو پوری کرپائیں مگر دونوں حکومتوں کی رٹ تین تین برسوں بعد ختم ہوگئی۔ یوں ڈیپ اسٹیٹ کے نظریہ نے تمام اداروں کو ڈکٹیٹ کرنے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ ان 10 برسوں میں شہریوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ انتہائی شدت اختیار کرگیا۔ نامعلوم قوتیں چاروں صوبوں میں شہریوں کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے برسوں سے لاپتہ ہیں۔
کچھ لوگ جو واپس آجاتے ہیں وہ خاموشی کی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی 2008 میں اقتدار میں آئی تو جبری طور پر لاپتہ ہونے کے معاملات خیبرپختونخوا اور بلوچستان اور پنجاب میں رونما ہورہے تھے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو بین الاقوامی صورتحال سے براہِ راست سامنا کرنا پڑتا تھا، مگر گزشتہ 3 برسوں سے سندھ بھی اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ والے برسوں سے اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔
ایم کیو ایم دو سال پہلے تو اس معاملہ پر کئی کئی دفعہ شہر کو بند کراتی تھی مگر اب ان کا احتجاج بین الاقوامی فورمز پر منتقل ہوگیا ہے۔ اب اندرون سندھ سے طلبا، مزدوروں اور دانشوروں کے لاپتہ ہونے پر احتجاج ہورہا ہے۔ اب یہ احتجاج کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزراء کو ان احتجاجی کیمپوں کی بناء پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزرا نے گزشتہ مہینے بھوک ہڑتالی کیمپوں کا دورہ کرکے تمام لاپتہ افراد کے بازیاب ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر یہ وزراء محض وعدہ کرتے رہے، مگر پیپلز پارٹی کا منشور اس اہم مسئلے پر کسی رائے کے حوالے سے خاموش ہے۔
ملک کے سابق صدر آصف زرداری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں پیشگوئی کی ہے کہ سنجرانی جیسا کوئی ملک کا وزیراعظم منتخب ہوسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں جیپ کے نشان والے آزاد امیدوار منتخب ہوں گے اور حکومت بنانے کے لیے اکثریتی گروہ کو ان سے بات کرنی پڑے گی۔ ایک ایسی جماعت جس نے پورے ملک میں حکمرانی کی ہے اور جس جماعت کے سربراہ نے سیاست کا انداز تبدیل کردیا ہو اس جماعت کے ایک اور سربراہ کا یہ بیان اعتراف شکست کے ساتھ سیاسی کارکنوں کے لیے سبق ہے۔
زرداری صاحب نے محض میاں نواز شریف کی مخالفت میں ڈیپ اسٹیٹ کے نظریہ کی اطاعت کی، یوں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے اپنے کارکنوں کو ہی نظرانداز نہیں کیا بلکہ سویلین کے لیے راستہ کم کرنے والوں کا ساتھ دیا مگر اب ان کی جماعت ایک دفعہ پھر ڈیپ اسٹیٹ نظریہ کا شکار ہورہی ہے۔ پھر منشور کے نکات کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ منشور 2008 اور 2013 میں جاری ہونے والے منشور کی نقل ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ پورے ملک میں ایک لاکھ مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پروجیکٹ کے لیے رقم مختص کر دی، مگر مالیاتی مدت کے خاتمے کے بعد یہ رقم واپس وفاق کو چلی گئی۔ پھر زرداری نے نواب شاہ میں اعلان کیا کہ ہر خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دی جائے گی۔ یہ اعلان پیپلز پارٹی کے منشور سے بالکل علیحدہ ہے۔ بعض صحافیوں کا خیال ہے کہ آصف زرداری نے صرف نواب شاہ کے لوگوں سے ووٹ لینے کے لیے یہ پرکشش اعلان کیا ہے۔ اس کا اطلاق پورے ملک پر نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے صورتحال انتہائی خراب رہی۔
پیپلز پارٹی نے کراچی اور حیدرآباد کے شہریوں کے کسی مطالبہ پر توجہ نہیں دی۔ شہر کا صفائی کا نظام تباہ ہوا۔ کوڑا کرکٹ قومی ایشو بن گیا مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس خطرناک صورتحال کا اندازہ نہیں لگایا یا کسی اور وجہ سے یہ صورتحال رہی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں نچلی سطح تک کے بلدیاتی نظام کے قیام کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت خودمختار بلدیاتی اداروں کے تصور کو پیش کررہی ہے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلدیاتی اداروں کی ساکھ کو مکمل طور پر ختم کردیا اور کسی صورت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر تیار نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ کی مداخلت پر انتخابات منعقد ہوئے تو مہینوں پیپلز پارٹی ان اداروں کو کسی قسم کا اختیار دینے کو تیار نہیں تھی، جس کا نقصان پورے سندھ کو ہوا۔ پیپلز پارٹی نے مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کو اخراجات زندگی سے منسلک کرنے کا وعدہ کیا ہے، سندھ میں اس وقت کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے ہے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیبر قوانین کے اطلاق کی ذمے داری کو قبول ہی نہیں کیا۔ سندھ میں لیبر کورٹس فعال نہیں ہیں۔ آجر مزدوروں کو یونین سازی کا حق نہیں دیتے۔ حکومت سندھ کا محکمہ لیبر آجروں کا اسیر ہے، یوں اس 15ہزار روپے کے اعلان پر بھی عمل نہیں ہوا۔
سندھ میں اب تک کنزیومر کورٹ قائم نہیں کیے گئے۔ پنجاب میں ہنگامی صورتحال کے لیے ریسکیو کا ادارہ قائم ہوئے 20 سال ہوگئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے ریسکیو کا ادارہ قائم کیا مگر سندھ کی حکومت نے اس طرح کی تنظیم کو اپنی ذمے داری نہیں سمجھا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک اپنے سابق وزیر کو دوبارہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کا ٹکٹ دیا ہے جس کے دور میں سندھ میں تعلیم کا نظام تباہ ہوا، یوں تعلیم کے شعبے میں پارٹی کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کا منشور کچھ نہیں، اس میں عوام کے لیے مایوسی کا حصہ زیادہ ہے۔