لال رنگ کی پریشانی
کہاں تو میں بے چارہ ایک مادی دنیا کا پجاری۔ اسکول کے زمانے سے ہی اپنے بستے کو سرخ سرخ رسالوں سے بھرنے والا۔..
کہاں تو میں بے چارہ ایک مادی دنیا کا پجاری۔ اسکول کے زمانے سے ہی اپنے بستے کو سرخ سرخ رسالوں سے بھرنے والا۔ ''اسپتنک'' میں کہاں پڑھتا۔ ''ماں'' کا حوالہ بھی گورکی کے ناول میں تلاش کرتا اور ٹالسٹائی کی کتابوں کے آسان ترجمے ڈھونڈتا۔ ''واراینڈ پیس'' کی جلد ایک ماہ تک تکیے کا کام کرتی رہی۔ ان دنوں علماء کی بجائے علمائے انسانیت کی تلاش تھی۔ مولانا کارل مارکس اور مولانا بھاشانی کے مقابل دیگر عالم فاضل لوگ کہاں ٹھہرے؟ اردو کے اصلاحی ناول پڑھ کے طبیعت رواں ہوتی تو دل چاہتا کہ ہلکے نیلے رنگ کی قمیض والی ساتھیوں سے کہوں۔۔۔۔''تو کہیں اور ملاکر مجھ کو''۔۔۔۔کیونکہ یہ تاج محل اور جمنا کا کنارا سب بکواس ہے۔ اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل وغیرہ وغیرہ۔ ساحر لدھیانوی ان دنوں ہم لوگوں کو ایک بڑا شاعر دکھتا تھا۔ اندھیری راتوں میں کسی تارے کو تکتے تکتے اس کے نغمے سنتے تو آنکھ میں ایک تارا ضرور چمکتا اور ٹوٹ کے گر جاتا۔
شوکت صدیقی کے ناول پڑھے تو پسماندہ کرداروں کی دکھ بھری زندگی لے بیٹھی۔انھی کی طرز میں دو دوستوں کے ساتھ مل کے ایک انقلابی تنظیم بنا ڈالی اور کاربن پیپر رکھ کے پوسٹرز بنانا شروع کردیے۔ رات کو چھپ کے ڈاک خانے، ریلوے اسٹیشن اور مسجد کے باہر چپکا دیتے۔ سوچتے کہ صبح ہوگی تو ایک بدلا ہوا سورج طلوع ہوگا۔ ایک ہجوم ان پوسٹرز کے گرد جمع ہوگا جو تھوڑی ہی دیر میں انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاتا امراء کے درودیوار ہلانے نکل پڑے گا۔ سماج کو بدل ڈالنے کا ٹھیکہ ہمارے ہی پاس تھا۔
اور پھر کہاں زندگی کا وہ موڑ کہ اچانک خود کو چاروں طرف سے باریش لوگوں میں گھرا ہوا پایا۔ ان میں سے زیادہ تر کلین شیوڈ تھے مگر ان کے پیٹ میں داڑھیاں تھیں اور انھیں امریکی فاسٹ فوڈز سے رغبت تھی۔ یہ بڑے کامیاب اور طاقتور لوگ تھے۔ انھی کے ایک گھونسے نے سوویت یونین کے ٹوٹے کردیے تھے اور ساری دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا۔ اب وہ دوسرا گھونسہ مارنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ بس ٹارگٹ طے کرنا باقی تھا۔ ان دنوں میں بھی اپنے ڈولے شولے دکھاتا پھرتا تھا کیونکہ میرے وہ تمام ساتھی جن سے میں نے بے وفائی کی تھی وہ اب میرے اردگرد منڈلاتے تھے۔
میں ان کا کیمپ چھوڑ کے آگیا تھا لیکن جب ان کا تنبو ہوا لے اڑی تو وہ پناہ کی تلاش میں بکھر گئے۔ سوال یہ تھا کہ وہ اپنے لال رنگ کے سینگ کہاں سمائیں؟ تب سے یہ سوال اسی طرح موجود ہے۔ یہ پرچہ حل ہونے میں ہی نہیں آتا۔ کنفیوزڈ اور بے سمت لوگوں کا ایک گروہ وجود میں آچکا ہے جو لاحاصل بحثیں کرکرکے مت مار دیتا ہے۔ کبھی سیکولر، کبھی سوشلسٹ، کبھی لیفٹسٹ کی اصطلاح اور کبھی ایک مخنث اسٹینڈ ''لبرل'' اور پھر ایسے ایسے امیر کبیر اور امریکی ٹھپہ لگے سرخے موجود ہیں کہ دیکھ کے ڈوب مرنے کو جی چاہے۔ سچے اور سنجیدہ لوگ جو خال خال آج بھی موجود ہیں وہ تو کہیں پس منظر میں چلے گئے۔ادھر یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ تین اہم سیاسی جماعتوں کا ایک جتھہ وجود میں آچکا ہے جس نے سرخ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بہت عرصے کے بعد کسی ایک پلیٹ فارم سے تواتر کے ساتھ، شہر در شہر، دفتر در دفتر یک جہتی کا لال نعرہ بلند ہورہا ہے۔ میرے کنفیوزڈ اور بے سمت دوست بھی اس طرف متوجہ ہوں۔ یہ بڑا طاقتور گروہ ہے اور ایک کی تو ٹوپی بھی لال ہے۔ بس اس میں خرابی یہ ہے کہ فون پر ذمے داریاں قبول کرنیوالا ایک مولوی رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ تب پریشانی ہوتی ہے۔
پھر بھی الیکشن کی مہم تو چل نکلی۔ کسی پر کسی طرف سے پابندی نہیں ہے۔ میڈیا کی کوریج جتنی وسیع ہوچکی ہے اس کے بعد یقیناً یہ مہم آج تک کی سب سے بڑی مہم ہے۔ جھوٹ بھی تھوک کے حساب سے بولا جارہا ہے۔ فضول بھی بہت بولا جارہا ہے اور بور بھی بہت کیا جارہا ہے۔ ہر چیز پرانی ہے۔ موٹروے ہے، ایٹم بم ہے، ملک بدری ہے ، پھانسی ہے، شہادت ہے، کرکٹ کا عالمی پیالہ ہے اور کینسر کا اسپتال ہے۔ گویا کوئی چیز ایسی نہیں جس کی داڑھی مونچھیں سفید نہ ہوئی ہوں۔ جنھیں مہم نہ چلانے کی دھمکی دی گئی ان کی تو موجیں ہوگئیں۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آگیا۔ مظلومیت نے انھیں اس سیاسی مہم کی صف اول میں لاکے کھڑا کردیا۔ ہر جگہ وہی ڈسکس ہونا شروع ہوگئے۔ اب اس سے آگے اور کیا چاہیے۔
اس الیکشن میں میری دلچسپی فی الحال صرف تین سیٹوں میں ہے۔ ان میں سے دو تو اس چھوٹے شہر کی ہیں جس کے ڈاک خانے اور ریلوے اسٹیشن کے باہر ہم چھپ کے انقلابی پوسٹر چپکایا کرتے تھے۔ ایک صادق آباد میں قومی اسمبلی کا حلقہ نمبر 197ہے جہاں راتوں رات حکومت وقت کو پیارا ہوجانے والا گورنر پنجاب کا نوعمر بیٹا مخدوم مرتضیٰ محمود پیپلز پارٹی کا امیدوار ہے۔ اس کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کا ارشد لغاری اور تحریک انصاف کا رفیق حیدر لغاری ہے۔ رفیق حیدر صوبائی وزیر رہ چکا ہے اور ہمارا پرانا دوست ہے۔ یہ وڈیروں کی جنگ ہے اور شاید وہی جیتے گا جس کے پلڑے میں ایک چوتھا وڈیرا، رئیس منیر اپنا وزن ڈالے گا۔ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہا ہے لیکن خیال ہے کہ کسی ایک کے حق میں دستبردار ہوجائے گا۔
دوسری سیٹ صادق آباد کا صوبائی حلقہ 296ہے۔ یہ شہری سیٹ ہے اور اس میں اصلی مقابلہ تحریک انصاف کے چوہدری شوکت داؤد اور مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ اسمبلی کے ممبر چوہدری شفیق کے درمیان ہے ۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے رانا طارق حصہ لے رہا ہے۔ میں ان تینوں کو ساری عمر سے جانتا ہوں۔ شوکت داؤد اچھی شہرت کا مالک ہے۔ پنجاب کا وزیر مال رہ چکا ہے۔ اس نے اس حلقے میں 1990کے انتخابات میں موجودہ گورنر پنجاب کو شکست سے دوچارکردیا تھا۔ اب اس نے وہاں تحریک انصاف کی دھوم مچارکھی ہے۔ گزشتہ روز اس نے عمران خان کے ساتھ صادق آباد میں جو جلسہ کیا وہ وہاں کی تاریخ کا سب سے یادگار اور متحرک جلسہ تھا۔ اس کے بعد سے اس کا پلڑا بھاری ہے اور اس کا فائدہ مرکزی سیٹ پر رفیق حیدر لغاری کو بھی ہوگا۔تیسری سیٹ کا رنگ لال ہے۔
اس لیے کہ چکوال کے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کا اصلی امیدوار بائیں بازو کا حامی تھا۔ کاؤس جی کی مدارات کے بارے میں لکھنے پر اسے نااہل قرار دیا گیا۔جہاندیدہ نواز شریف نے انتظار کیا۔ جب اہل قرار دے دیا گیا تو اس کی نیت ٹھیک نہ پاکر ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ اگلے ہی لمحے میرا یہ پسندیدہ لکھاری حریفوں کے کیمپ میں موجود تھا اور رقیبوں کی زبان بول رہا تھا۔ سچ ہے کہ آج کا لیفٹسٹ بہت ہی لبرل ہوچکا ہے۔ ہر ضابطے اور ہر ظرف سے آزاد۔
تین لال سیاسی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اوپر ایک مولوی کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا فون رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ میاں صاحب اور خان صاحب، دونوں آج کل کرکٹ کا کھلاڑی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ''انتظامیہ'' سے ان کی اچھی علیک سلیک ہے۔ میری درخواست ہے کہ وہ اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور اس مولوی سے کہیں ذرا امپائرنگ تو دیانتداری سے کرے۔
شوکت صدیقی کے ناول پڑھے تو پسماندہ کرداروں کی دکھ بھری زندگی لے بیٹھی۔انھی کی طرز میں دو دوستوں کے ساتھ مل کے ایک انقلابی تنظیم بنا ڈالی اور کاربن پیپر رکھ کے پوسٹرز بنانا شروع کردیے۔ رات کو چھپ کے ڈاک خانے، ریلوے اسٹیشن اور مسجد کے باہر چپکا دیتے۔ سوچتے کہ صبح ہوگی تو ایک بدلا ہوا سورج طلوع ہوگا۔ ایک ہجوم ان پوسٹرز کے گرد جمع ہوگا جو تھوڑی ہی دیر میں انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاتا امراء کے درودیوار ہلانے نکل پڑے گا۔ سماج کو بدل ڈالنے کا ٹھیکہ ہمارے ہی پاس تھا۔
اور پھر کہاں زندگی کا وہ موڑ کہ اچانک خود کو چاروں طرف سے باریش لوگوں میں گھرا ہوا پایا۔ ان میں سے زیادہ تر کلین شیوڈ تھے مگر ان کے پیٹ میں داڑھیاں تھیں اور انھیں امریکی فاسٹ فوڈز سے رغبت تھی۔ یہ بڑے کامیاب اور طاقتور لوگ تھے۔ انھی کے ایک گھونسے نے سوویت یونین کے ٹوٹے کردیے تھے اور ساری دنیا کا نقشہ بدل دیا تھا۔ اب وہ دوسرا گھونسہ مارنے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ بس ٹارگٹ طے کرنا باقی تھا۔ ان دنوں میں بھی اپنے ڈولے شولے دکھاتا پھرتا تھا کیونکہ میرے وہ تمام ساتھی جن سے میں نے بے وفائی کی تھی وہ اب میرے اردگرد منڈلاتے تھے۔
میں ان کا کیمپ چھوڑ کے آگیا تھا لیکن جب ان کا تنبو ہوا لے اڑی تو وہ پناہ کی تلاش میں بکھر گئے۔ سوال یہ تھا کہ وہ اپنے لال رنگ کے سینگ کہاں سمائیں؟ تب سے یہ سوال اسی طرح موجود ہے۔ یہ پرچہ حل ہونے میں ہی نہیں آتا۔ کنفیوزڈ اور بے سمت لوگوں کا ایک گروہ وجود میں آچکا ہے جو لاحاصل بحثیں کرکرکے مت مار دیتا ہے۔ کبھی سیکولر، کبھی سوشلسٹ، کبھی لیفٹسٹ کی اصطلاح اور کبھی ایک مخنث اسٹینڈ ''لبرل'' اور پھر ایسے ایسے امیر کبیر اور امریکی ٹھپہ لگے سرخے موجود ہیں کہ دیکھ کے ڈوب مرنے کو جی چاہے۔ سچے اور سنجیدہ لوگ جو خال خال آج بھی موجود ہیں وہ تو کہیں پس منظر میں چلے گئے۔ادھر یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ تین اہم سیاسی جماعتوں کا ایک جتھہ وجود میں آچکا ہے جس نے سرخ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ بہت عرصے کے بعد کسی ایک پلیٹ فارم سے تواتر کے ساتھ، شہر در شہر، دفتر در دفتر یک جہتی کا لال نعرہ بلند ہورہا ہے۔ میرے کنفیوزڈ اور بے سمت دوست بھی اس طرف متوجہ ہوں۔ یہ بڑا طاقتور گروہ ہے اور ایک کی تو ٹوپی بھی لال ہے۔ بس اس میں خرابی یہ ہے کہ فون پر ذمے داریاں قبول کرنیوالا ایک مولوی رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ تب پریشانی ہوتی ہے۔
پھر بھی الیکشن کی مہم تو چل نکلی۔ کسی پر کسی طرف سے پابندی نہیں ہے۔ میڈیا کی کوریج جتنی وسیع ہوچکی ہے اس کے بعد یقیناً یہ مہم آج تک کی سب سے بڑی مہم ہے۔ جھوٹ بھی تھوک کے حساب سے بولا جارہا ہے۔ فضول بھی بہت بولا جارہا ہے اور بور بھی بہت کیا جارہا ہے۔ ہر چیز پرانی ہے۔ موٹروے ہے، ایٹم بم ہے، ملک بدری ہے ، پھانسی ہے، شہادت ہے، کرکٹ کا عالمی پیالہ ہے اور کینسر کا اسپتال ہے۔ گویا کوئی چیز ایسی نہیں جس کی داڑھی مونچھیں سفید نہ ہوئی ہوں۔ جنھیں مہم نہ چلانے کی دھمکی دی گئی ان کی تو موجیں ہوگئیں۔ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آگیا۔ مظلومیت نے انھیں اس سیاسی مہم کی صف اول میں لاکے کھڑا کردیا۔ ہر جگہ وہی ڈسکس ہونا شروع ہوگئے۔ اب اس سے آگے اور کیا چاہیے۔
اس الیکشن میں میری دلچسپی فی الحال صرف تین سیٹوں میں ہے۔ ان میں سے دو تو اس چھوٹے شہر کی ہیں جس کے ڈاک خانے اور ریلوے اسٹیشن کے باہر ہم چھپ کے انقلابی پوسٹر چپکایا کرتے تھے۔ ایک صادق آباد میں قومی اسمبلی کا حلقہ نمبر 197ہے جہاں راتوں رات حکومت وقت کو پیارا ہوجانے والا گورنر پنجاب کا نوعمر بیٹا مخدوم مرتضیٰ محمود پیپلز پارٹی کا امیدوار ہے۔ اس کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کا ارشد لغاری اور تحریک انصاف کا رفیق حیدر لغاری ہے۔ رفیق حیدر صوبائی وزیر رہ چکا ہے اور ہمارا پرانا دوست ہے۔ یہ وڈیروں کی جنگ ہے اور شاید وہی جیتے گا جس کے پلڑے میں ایک چوتھا وڈیرا، رئیس منیر اپنا وزن ڈالے گا۔ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہا ہے لیکن خیال ہے کہ کسی ایک کے حق میں دستبردار ہوجائے گا۔
دوسری سیٹ صادق آباد کا صوبائی حلقہ 296ہے۔ یہ شہری سیٹ ہے اور اس میں اصلی مقابلہ تحریک انصاف کے چوہدری شوکت داؤد اور مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ اسمبلی کے ممبر چوہدری شفیق کے درمیان ہے ۔ پیپلزپارٹی کی طرف سے رانا طارق حصہ لے رہا ہے۔ میں ان تینوں کو ساری عمر سے جانتا ہوں۔ شوکت داؤد اچھی شہرت کا مالک ہے۔ پنجاب کا وزیر مال رہ چکا ہے۔ اس نے اس حلقے میں 1990کے انتخابات میں موجودہ گورنر پنجاب کو شکست سے دوچارکردیا تھا۔ اب اس نے وہاں تحریک انصاف کی دھوم مچارکھی ہے۔ گزشتہ روز اس نے عمران خان کے ساتھ صادق آباد میں جو جلسہ کیا وہ وہاں کی تاریخ کا سب سے یادگار اور متحرک جلسہ تھا۔ اس کے بعد سے اس کا پلڑا بھاری ہے اور اس کا فائدہ مرکزی سیٹ پر رفیق حیدر لغاری کو بھی ہوگا۔تیسری سیٹ کا رنگ لال ہے۔
اس لیے کہ چکوال کے اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کا اصلی امیدوار بائیں بازو کا حامی تھا۔ کاؤس جی کی مدارات کے بارے میں لکھنے پر اسے نااہل قرار دیا گیا۔جہاندیدہ نواز شریف نے انتظار کیا۔ جب اہل قرار دے دیا گیا تو اس کی نیت ٹھیک نہ پاکر ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ اگلے ہی لمحے میرا یہ پسندیدہ لکھاری حریفوں کے کیمپ میں موجود تھا اور رقیبوں کی زبان بول رہا تھا۔ سچ ہے کہ آج کا لیفٹسٹ بہت ہی لبرل ہوچکا ہے۔ ہر ضابطے اور ہر ظرف سے آزاد۔
تین لال سیاسی جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے میں نے اوپر ایک مولوی کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کا فون رنگ میں بھنگ ڈال دیتا ہے۔ میاں صاحب اور خان صاحب، دونوں آج کل کرکٹ کا کھلاڑی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ''انتظامیہ'' سے ان کی اچھی علیک سلیک ہے۔ میری درخواست ہے کہ وہ اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور اس مولوی سے کہیں ذرا امپائرنگ تو دیانتداری سے کرے۔