عنوان خود سوچیے
حیرت اپنی جگہ لیکن اس سے بڑھ کر مقام افسوس ہے کہ آج سے چھ دن بعد ملک میں ایک جینوئن عام انتخابات کا دن مقرر ہے...
حیرت اپنی جگہ لیکن اس سے بڑھ کر مقام افسوس ہے کہ آج سے چھ دن بعد ملک میں ایک جینوئن عام انتخابات کا دن مقرر ہے جس کے لیے قوم تیار اور انتظامات تکمیل کے قریب ہیں لیکن بہت سے لوگ فکرمندی سے پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ کیا الیکشن بروقت ہوں گے، کیا الیکشن پرامن ہوں گے، کیا الیکشن ہوں گے بھی کہ نہیں۔ فکرمند لوگوں نے ایک ہی سانس میں تین سوال پوچھے ہیں لیکن پریشان کن اس کا تیسرا حصہ ہے۔ سیاسی لوگ، تجزیہ نگار، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور افواج پاکستان کے علاوہ ملک کے عوام گیارہ مئی کو الیکشن کا انعقاد دیکھنے کے خواہش مند اور منتظر ہیں۔ اس کی وجہ آنے والی حکومت سے بہتری کی توقع اور آئینی تقاضا ہے لیکن میرے سامنے ملک کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹنگ ہے جو وجہ پریشانی بن رہی ہے۔
اس رپورٹنگ میں بین السطور حوصلہ افزاء باتوں کے علاوہ مختلف مقامات پر اور مخصوص سیاسی پارٹیوں کی الیکشنئرنگ کے دوران وقوع پذیر ہونے والے پرتشدد واقعات ہیں جو کم ازکم تین منظم اور گزشتہ برسراقتدار سیاسی حکومتوں کے میجر پارٹنرز کے لیے بے حد وجہ تشویش بن رہے ہیں۔ اگرچہ ان تینوں سیاسی گروہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی کوئی بات کی ہے نہ دھمکی دی ہے بلکہ اصرار کیا ہے کہ انھیں کتنا ہی ٹارگٹ کیا جائے، وہ 11 مئی کے الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گے لیکن ان کا یکجا ہو جانا اور صرف انھی کے دفتروں اور اسمبلی کے امیدواروں پر متواتر حملے ہونے کے ساتھ مخصوص پیغام کا نظر آنا کسی بڑے اور تشویشناک فیصلے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے جس سے الیکشن کے انعقاد پر زد پڑسکتی ہے۔
تین روز قبل پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی میں ایک اسٹیج پر بیٹھے مشترکہ پریس کانفرنس میں یک آواز تھے کہ چونکہ وہ روشن خیالی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں جب کہ دوسری بڑی دو تین پارٹیاں طالبانی سوچ کی حامل اور ان کی سپورٹر ہیں اس لیے ان کے دفتروں، اجلاسوں اور ورکروں پر دہشت گرد حملے نہیں ہو رہے ہیں اور ان کے بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں امن قائم ہے، اس صورت حال میں صرف ان کے لیے الیکشن کے اجتماع کرنا خطرے سے خالی نہیں کہ ان پر لبرل ہونے کی تہمت ہے۔ ان تینوں پارٹیوں نے گزشتہ پانچ سال تک ماسوائے پنجاب پورے ملک پر حکومت کی ہے اور اس کے باوجود خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ نہیں روکی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آئندہ الیکشنوں میں MQM,PPP اور ANP کی کمزور پوزیشن کے پیش نظر یہ ان پارٹیوں کی سوچی سمجھی اسکیم ہے کہ الیکشنوں میں التوا کا راستہ پیدا کیا جائے، چاہے ایسا کرنے میں اپنے چند امیدواروں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں بری حکمرانی، کرپشن، اقرباپروری، گرانی، بیروزگاری کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جب کہ پنجاب میں سرگرم مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے باقی صوبوں میں بھی متحرک ہیں کیونکہ ان کے دعوے اور وعدے ہر دل کی آواز ہیں۔
گزشتہ حکومت سے پہلے سیاست دان بیورو کریسی میں سے من پسند افراد کو ساتھ لے کر حکومت کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ حکومت نے تو بیوروکریسی کے ساتھ ایسا رشتہ قائم کر لیا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی کرپشن اور بری حکمرانی میں سانجھے داری قائم کر لی جس کا اثر نچلی سطح تک گیا اور اب نائب قاصد سے صوبائی و مرکزی افسر اعلیٰ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 5 سال میں بے شمار SUO MOTO ایکشن لے کر حکومتی عہدیداروں کی بداعمالیوں کو بے نقاب کیا لیکن سیاسی لوگوں نے بیوروکریسی سے ملی بھگت کی وجہ سے کسی مقدمے کو اپنے انجام تک نہ پہنچنے دیا۔ یہ بالکل وہی مثال ہے کہ جب چور اور چوکیدار آپس میں مل جائیں تو جزا و سزا کا تصور ختم ہو کر قانون کو بے بس اور ملزم کو بے قصور ثابت کر دیتا ہے۔ اب تو یہ انتہا ہے کہ میڈیا میں جرائم کی تفصیل کی تو بھرمار ملتی ہے لیکن سزا کا خانہ خالی ملتا ہے۔ یعنی
گر ہمی مکتب و ہمی ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
والا حساب ہے۔ جیسے حکمران ہیں ویسے ہی ان کے کارندے اور اب عوام میں بھی بدی کے جراثیم اتنی شدت سے سرائیت کر گئے ہیں کہ کوئی مسیحا ہی اس معاشرے میں بدی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا معجزہ انجام دے سکتا ہے۔
روشنی کی ایک کرن البتہ دکھائی دیتی ہے جسے میڈیا نے اجاگر کرنے میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ ملک کے نوجوانوں میں یہ شعور ابھرا ہے کہ ہمارا ملک اگر اسی روش پر چلتا رہا تو اس کا بانی شاید عالم ارواح میں سوچنا شروع کردے کہ کہیں اسے کوئی مغالطہ تو نہیں ہو گیا تھا کہ عنان حکومت غلط کاروں کے ہاتھوں میں دے کر رخصت ہو گیا۔
اس رپورٹنگ میں بین السطور حوصلہ افزاء باتوں کے علاوہ مختلف مقامات پر اور مخصوص سیاسی پارٹیوں کی الیکشنئرنگ کے دوران وقوع پذیر ہونے والے پرتشدد واقعات ہیں جو کم ازکم تین منظم اور گزشتہ برسراقتدار سیاسی حکومتوں کے میجر پارٹنرز کے لیے بے حد وجہ تشویش بن رہے ہیں۔ اگرچہ ان تینوں سیاسی گروہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی کوئی بات کی ہے نہ دھمکی دی ہے بلکہ اصرار کیا ہے کہ انھیں کتنا ہی ٹارگٹ کیا جائے، وہ 11 مئی کے الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گے لیکن ان کا یکجا ہو جانا اور صرف انھی کے دفتروں اور اسمبلی کے امیدواروں پر متواتر حملے ہونے کے ساتھ مخصوص پیغام کا نظر آنا کسی بڑے اور تشویشناک فیصلے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے جس سے الیکشن کے انعقاد پر زد پڑسکتی ہے۔
تین روز قبل پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی میں ایک اسٹیج پر بیٹھے مشترکہ پریس کانفرنس میں یک آواز تھے کہ چونکہ وہ روشن خیالی اور مذہبی رواداری کے داعی ہیں جب کہ دوسری بڑی دو تین پارٹیاں طالبانی سوچ کی حامل اور ان کی سپورٹر ہیں اس لیے ان کے دفتروں، اجلاسوں اور ورکروں پر دہشت گرد حملے نہیں ہو رہے ہیں اور ان کے بڑے بڑے جلسوں اور جلوسوں میں امن قائم ہے، اس صورت حال میں صرف ان کے لیے الیکشن کے اجتماع کرنا خطرے سے خالی نہیں کہ ان پر لبرل ہونے کی تہمت ہے۔ ان تینوں پارٹیوں نے گزشتہ پانچ سال تک ماسوائے پنجاب پورے ملک پر حکومت کی ہے اور اس کے باوجود خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ نہیں روکی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آئندہ الیکشنوں میں MQM,PPP اور ANP کی کمزور پوزیشن کے پیش نظر یہ ان پارٹیوں کی سوچی سمجھی اسکیم ہے کہ الیکشنوں میں التوا کا راستہ پیدا کیا جائے، چاہے ایسا کرنے میں اپنے چند امیدواروں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں بری حکمرانی، کرپشن، اقرباپروری، گرانی، بیروزگاری کے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جب کہ پنجاب میں سرگرم مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے باقی صوبوں میں بھی متحرک ہیں کیونکہ ان کے دعوے اور وعدے ہر دل کی آواز ہیں۔
گزشتہ حکومت سے پہلے سیاست دان بیورو کریسی میں سے من پسند افراد کو ساتھ لے کر حکومت کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ حکومت نے تو بیوروکریسی کے ساتھ ایسا رشتہ قائم کر لیا ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کی کرپشن اور بری حکمرانی میں سانجھے داری قائم کر لی جس کا اثر نچلی سطح تک گیا اور اب نائب قاصد سے صوبائی و مرکزی افسر اعلیٰ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے نظر آتے ہیں۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 5 سال میں بے شمار SUO MOTO ایکشن لے کر حکومتی عہدیداروں کی بداعمالیوں کو بے نقاب کیا لیکن سیاسی لوگوں نے بیوروکریسی سے ملی بھگت کی وجہ سے کسی مقدمے کو اپنے انجام تک نہ پہنچنے دیا۔ یہ بالکل وہی مثال ہے کہ جب چور اور چوکیدار آپس میں مل جائیں تو جزا و سزا کا تصور ختم ہو کر قانون کو بے بس اور ملزم کو بے قصور ثابت کر دیتا ہے۔ اب تو یہ انتہا ہے کہ میڈیا میں جرائم کی تفصیل کی تو بھرمار ملتی ہے لیکن سزا کا خانہ خالی ملتا ہے۔ یعنی
گر ہمی مکتب و ہمی ملا
کار طفلاں تمام خواہد شد
والا حساب ہے۔ جیسے حکمران ہیں ویسے ہی ان کے کارندے اور اب عوام میں بھی بدی کے جراثیم اتنی شدت سے سرائیت کر گئے ہیں کہ کوئی مسیحا ہی اس معاشرے میں بدی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا معجزہ انجام دے سکتا ہے۔
روشنی کی ایک کرن البتہ دکھائی دیتی ہے جسے میڈیا نے اجاگر کرنے میں بھرپور تعاون کیا ہے۔ ملک کے نوجوانوں میں یہ شعور ابھرا ہے کہ ہمارا ملک اگر اسی روش پر چلتا رہا تو اس کا بانی شاید عالم ارواح میں سوچنا شروع کردے کہ کہیں اسے کوئی مغالطہ تو نہیں ہو گیا تھا کہ عنان حکومت غلط کاروں کے ہاتھوں میں دے کر رخصت ہو گیا۔