نوجوانی کی منزل
ہمیں علم ہے کہ انسانی ذہن کس قدر چنچل، کتنا چوکنا اور کیسا چاق و چوبند واقع ہے۔۔۔
ہمیں علم ہے کہ انسانی ذہن کس قدر چنچل، کتنا چوکنا اور کیسا چاق و چوبند واقع ہے، جونہی انسانی ارادے کی گرفت مضبوط ہونے لگتی ہے، وہ پھڑپھڑانے اور رسی تڑانے لگتا ہے، جیسے آپ کسی اڑیل گھوڑے کو رام کرنے کی کوشش کریں تو شروع میں سرکشی دکھاتا ہے، لیکن یہ کیفیت ہمیشہ نہیں رہتی، آخرکار ارادے کی قوت اس سرکش گھوڑے کو رام کر ہی لیتی ہے اسی طرح انسانی نفس کے سرکش جانور کو سدھانے کے لیے مستقل مزاجی اور عزم صمیم کی ضرورت ہے، انسان کی ''انا'' جذبات کے پرشور طوفان پر سوار ہوہی جاتی ہے۔ رئیس صاحب نے 'لے سانس بھی آہستہ' میں دوران مشق قبض و بسط کے سلسلے پر بحث کی ہے، ایک خط کے مندرجات ملاحظہ کریں۔
''تسکین صدیقی کی کیفیت بقول ان کے یہ ہے کہ پہلے دن میں مایوسی کے دورے پڑتے رہے، خوفناک خواب نظر آتے، عجیب و غریب آوازیں سنتا، غنودگی کی حالت میں سائے چلتے پھرتے نظر آتے، آنکھ کھولتا تو کچھ بھی نہیں۔ اس زمانے میں ذہن پر خوف حاوی رہا، رات کو بھی ڈر، دن کو بھی ڈر، ہر آدمی سے ڈر لگتا، یہاں تک کہ اپنے دوستوں سے بھی خطرے کی بو آتی، بازار میں چلتے چلتے قدم لڑکھڑا جاتے، کسی سے بات کرتے کرتے بھول جاتا، عجب مایوسانہ انداز سوچتا، ہر ایک دشمن نظر آتا، کبھی کبھی خودکشی کو جی چاہتا اور جب یہ کیفیتیں گزر جاتیں تو پھر پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہوجاتا، آج کل پرسکون ہوں، زیادہ وقت اﷲ کی قدرت، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت، قرآن مجید، اسلام، مومن کامل، انسانی عظمت اور صحابہ اکرام رضی اﷲ عنہ جیسے موضوعات پر سوچتے گزرتا ہے، کبھی خود کو انسانی عظمت کی بلندیوں پر محسوس کرتا ہوں اور کبھی (گو تھوڑے عرصے کے لیے) ذہن انتہائی پست، غلیظ اور گھٹیا خیالات کی دلدل میں گر جاتا ہے۔
تسکین صدیقی صاحب کا یہ فقرہ پڑھ کر شیخ مصلح الدین سعدی کا شعر یاد آیا:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر نفس پائے خود نہ بینم
یعنی کبھی تو میں ساتویں آسمان پر جا بیٹھتا ہوں اور کبھی اپنے پائوں کے نشان کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ شیخ سعدی نے تصوف کے ایک مشہور مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ طریقت کی وادی میں ہر قطب، ابدال، ولی، عارف اور صوفی کو قبض و بسط کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ سینہ کھل گیا۔ تجلیات الٰہی کی بارشیں ہونے لگیں اور سارے حجابات اٹھ گئے۔ اسی کیفیت کو صوفیائے کرام بسط (یعنی دل کھل جانا) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور کبھی قبض طاری ہوجاتا ہے یعنی گھٹن، روحانی بندش اور تاریکی کا احساس! یہ کیفیت صوفیوں پر ہی نہیں شاعروں، عاشقوں، موجدوں، فلسفیوں، فن کاروں اور موسیقاروں پر بھی گزرتی ہے۔ میر تقی میر کو لیجیے، خدائے سخن کہلاتے ہیں، اس کے باوجود میر صاحب کے بارے میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ:
پستش بسیار پست و بلندش بسیار بلند!
مطلب یہ کہ جب وہ شعر گوئی میں نیچے گرتے ہیں تو گرتے ہی چلے جاتے ہیں اور جب بلندی پر پرواز کرتے ہیں تو بلند پروازی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ جس طرح حقیقت کا کوئی طالب، قبض و بسط (دل کھلنے بند ہونے) بلندیوں پستیوں سے گزرے بغیر معرفت کی سب سے اونچی چوٹی پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کا کوئی طالب علم لاشعوری مزاحمت اور ذہنی بغاوت کی دیوار پھلانگے بغیر ذہنی بحالی، دماغی ترقی، جذباتی صحت مندی، نفسیاتی حقیقت پسندی اور روحانی بیداری کی معراج پر نہیں پہنچ سکتا۔''
گزشتہ کالموں میں ''روح حیات'' کی کارفرمائی پر مفصل گفتگو کی جاچکی ہے۔ زندگی کی یہ 'زندگی' اور روح کی یہ 'روح' جو تمام کائنات میں پھیلی ہوئی ہے پانی، غذا اور ہوا کے ذریعے ہمارے اندر پہنچتی ہے، کائنات کی اس ہمہ گیر قوت کے حصول کا سب سے آسان مگر موثر وسیلہ سانس کی مشقیں ہیں۔ مشق تنفس نور کرنے والے روح حیات کو ''برقی مقناطیسی توانائی'' کی طرح محسوس کرتے ہیں اور کچھ لوگ خارق العادات تجربات سے بھی گزرتے ہیں۔ 'خارق العادات' ایسے واقعات کو کہتے ہیں جو عادت کے خلاف ہوں مثلاً ہم تحریر و تقریر یا اشاروں کے ذریعے دوسروں کے خیالات اور جذبات کو معلوم کرسکتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص تقریر، تحریر اور اشارے کنایئے کے بغیر دوسرے کے مخفی خیالات اور اندرونی جذبات سے واقف ہوجائے تو ان واقعات کو خارق العادات یعنی عادت کے خلاف کہیں گے۔
کردار سازی و تنظیم شخصیت کے بیشتر طلبا کا متفقہ بیان ہے کہ سانس کی مشق سے رفتہ رفتہ انھیں ''شرح صدر'' کا احساس ہوا۔ شرح صدر کہتے ہیں قلب کی کشادگی کو! یعنی یہ محسوس ہوا کہ دل کا بند دریچہ کھل رہا ہے یا باغیچہ دل کھل رہا ہے، جو لوگ حافظے کی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں عام طور پر دل و دماغ کی بندش کی شکایت ہوا کرتی ہے جیسے قلب پر تالے پڑے ہوئے ہیں یا دماغ بوجھل بوجھل اور بند ہے۔ حافظے کی خرابی کے اسباب منفی اور مثبت جذبات (یعنی دل و دماغ) کی ٹکر ہے۔ بیک وقت نفس میں دو مختلف جذبوں اور خواہشوں کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزرنا چاہتی ہیں تو ذہن کی سطح پر عجیب قسم کی کشمکش برپا ہوجاتی ہے۔
اس کشمکش کا پہلا نشانہ حافظہ ہوتا ہے۔ کئی طلبا کی شکایت ہے کہ بچپن میں ان کا حافظہ بہتر تھا جو کچھ پڑھتے تھے فوراً یاد ہوجاتا تھا، مطالعے میں جی لگتا تھا، مگر جونہی جوانی کی حدود میں قدم رکھا، نہ ذہن کی تیزی رہی نہ طبیعت کی طراری! ایسا لگا جیسے کسی نے روح کو اندر سے جکڑ لیا ہے، بہت سوں کو ایسا محسوس ہوا کہ دماغ کا پچھلا حصہ بوجھل ہوگیا، بہت سوں پر غائب دماغی کا دورہ پڑ گیا کہ دماغ خوف ناک واہموں کا شکار ہوگئے۔ ان حالات میں ڈرائونے اور خوفناک خوابوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ نوجوان (لڑکے اور لڑکیاں) خواب ہائے بیداری میں کھو جاتے ہیں، یعنی انھیں حقیقی دنیا میں جو لذت سکون، رتبہ، شہرت اور محبوبیت میسر نہیں آتی اسے خیالی دنیا میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہنے اور چاہے جانے کی پرجوش تمنا اور بے چین کر دینے والی آرزو سر پر مسلط ہوجاتی ہے۔ طبیعت بے حد حساس اور نازک ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دس گیارہ سال سے چوبیس پچیس سال تک کا زمانہ بڑی آزمائش، امتحان اور ابتلا کا زمانہ ہے۔ سات برس کی عمر کے بعد بچہ، بچپن سے گزر کر لڑکپن کی حد میں داخل ہوتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن ایک ہی راستے کی دو منزلیں ہیں، پہلی منزل سادگی اور معصومیت کی ہے، دوسری شوخی و شرارت کی۔ اس دوسری منزل (لڑکپن) میں قدم رکھ کر لڑکے اور لڑکی کو نوجوانی کی آنچ محسوس ہونے لگتی ہے، جسم کے غدود پوری طاقت سے کام کرنے لگتے ہیں، خون کی روانی تیز ہوجاتی ہے جس طرح سات سے چودہ سال کے درمیان لڑکے اور لڑکی کا جسم نت نئی تبدیلی سے دوچار ہوتا ہے۔ لڑکیاں بھرپور عورت بننے لگتی ہیں، لڑکے مردانہ سانچے میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ذہن جذبات کی نئی کشمکش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کشمکش کی واضح علامت گہرا باطنی اضطراب، ہیجان اور حافظے کی خرابی ہے۔ اضطراب و ہیجان کے اس مخصوص زمانے میں سانس کی مشق بے حد سکون اور نشاط خاطر کا سبب ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے ہم اس ایج گروپ کو سانس کی مشقوں کا مشورہ لازمی دیتے ہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)
''تسکین صدیقی کی کیفیت بقول ان کے یہ ہے کہ پہلے دن میں مایوسی کے دورے پڑتے رہے، خوفناک خواب نظر آتے، عجیب و غریب آوازیں سنتا، غنودگی کی حالت میں سائے چلتے پھرتے نظر آتے، آنکھ کھولتا تو کچھ بھی نہیں۔ اس زمانے میں ذہن پر خوف حاوی رہا، رات کو بھی ڈر، دن کو بھی ڈر، ہر آدمی سے ڈر لگتا، یہاں تک کہ اپنے دوستوں سے بھی خطرے کی بو آتی، بازار میں چلتے چلتے قدم لڑکھڑا جاتے، کسی سے بات کرتے کرتے بھول جاتا، عجب مایوسانہ انداز سوچتا، ہر ایک دشمن نظر آتا، کبھی کبھی خودکشی کو جی چاہتا اور جب یہ کیفیتیں گزر جاتیں تو پھر پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہوجاتا، آج کل پرسکون ہوں، زیادہ وقت اﷲ کی قدرت، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت، قرآن مجید، اسلام، مومن کامل، انسانی عظمت اور صحابہ اکرام رضی اﷲ عنہ جیسے موضوعات پر سوچتے گزرتا ہے، کبھی خود کو انسانی عظمت کی بلندیوں پر محسوس کرتا ہوں اور کبھی (گو تھوڑے عرصے کے لیے) ذہن انتہائی پست، غلیظ اور گھٹیا خیالات کی دلدل میں گر جاتا ہے۔
تسکین صدیقی صاحب کا یہ فقرہ پڑھ کر شیخ مصلح الدین سعدی کا شعر یاد آیا:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر نفس پائے خود نہ بینم
یعنی کبھی تو میں ساتویں آسمان پر جا بیٹھتا ہوں اور کبھی اپنے پائوں کے نشان کو بھی نہیں دیکھ سکتا۔ شیخ سعدی نے تصوف کے ایک مشہور مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ طریقت کی وادی میں ہر قطب، ابدال، ولی، عارف اور صوفی کو قبض و بسط کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ سینہ کھل گیا۔ تجلیات الٰہی کی بارشیں ہونے لگیں اور سارے حجابات اٹھ گئے۔ اسی کیفیت کو صوفیائے کرام بسط (یعنی دل کھل جانا) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور کبھی قبض طاری ہوجاتا ہے یعنی گھٹن، روحانی بندش اور تاریکی کا احساس! یہ کیفیت صوفیوں پر ہی نہیں شاعروں، عاشقوں، موجدوں، فلسفیوں، فن کاروں اور موسیقاروں پر بھی گزرتی ہے۔ میر تقی میر کو لیجیے، خدائے سخن کہلاتے ہیں، اس کے باوجود میر صاحب کے بارے میں اہل علم کی رائے یہ ہے کہ:
پستش بسیار پست و بلندش بسیار بلند!
مطلب یہ کہ جب وہ شعر گوئی میں نیچے گرتے ہیں تو گرتے ہی چلے جاتے ہیں اور جب بلندی پر پرواز کرتے ہیں تو بلند پروازی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔ جس طرح حقیقت کا کوئی طالب، قبض و بسط (دل کھلنے بند ہونے) بلندیوں پستیوں سے گزرے بغیر معرفت کی سب سے اونچی چوٹی پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کا کوئی طالب علم لاشعوری مزاحمت اور ذہنی بغاوت کی دیوار پھلانگے بغیر ذہنی بحالی، دماغی ترقی، جذباتی صحت مندی، نفسیاتی حقیقت پسندی اور روحانی بیداری کی معراج پر نہیں پہنچ سکتا۔''
گزشتہ کالموں میں ''روح حیات'' کی کارفرمائی پر مفصل گفتگو کی جاچکی ہے۔ زندگی کی یہ 'زندگی' اور روح کی یہ 'روح' جو تمام کائنات میں پھیلی ہوئی ہے پانی، غذا اور ہوا کے ذریعے ہمارے اندر پہنچتی ہے، کائنات کی اس ہمہ گیر قوت کے حصول کا سب سے آسان مگر موثر وسیلہ سانس کی مشقیں ہیں۔ مشق تنفس نور کرنے والے روح حیات کو ''برقی مقناطیسی توانائی'' کی طرح محسوس کرتے ہیں اور کچھ لوگ خارق العادات تجربات سے بھی گزرتے ہیں۔ 'خارق العادات' ایسے واقعات کو کہتے ہیں جو عادت کے خلاف ہوں مثلاً ہم تحریر و تقریر یا اشاروں کے ذریعے دوسروں کے خیالات اور جذبات کو معلوم کرسکتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص تقریر، تحریر اور اشارے کنایئے کے بغیر دوسرے کے مخفی خیالات اور اندرونی جذبات سے واقف ہوجائے تو ان واقعات کو خارق العادات یعنی عادت کے خلاف کہیں گے۔
کردار سازی و تنظیم شخصیت کے بیشتر طلبا کا متفقہ بیان ہے کہ سانس کی مشق سے رفتہ رفتہ انھیں ''شرح صدر'' کا احساس ہوا۔ شرح صدر کہتے ہیں قلب کی کشادگی کو! یعنی یہ محسوس ہوا کہ دل کا بند دریچہ کھل رہا ہے یا باغیچہ دل کھل رہا ہے، جو لوگ حافظے کی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں عام طور پر دل و دماغ کی بندش کی شکایت ہوا کرتی ہے جیسے قلب پر تالے پڑے ہوئے ہیں یا دماغ بوجھل بوجھل اور بند ہے۔ حافظے کی خرابی کے اسباب منفی اور مثبت جذبات (یعنی دل و دماغ) کی ٹکر ہے۔ بیک وقت نفس میں دو مختلف جذبوں اور خواہشوں کی لہریں پیدا ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی گزرنا چاہتی ہیں تو ذہن کی سطح پر عجیب قسم کی کشمکش برپا ہوجاتی ہے۔
اس کشمکش کا پہلا نشانہ حافظہ ہوتا ہے۔ کئی طلبا کی شکایت ہے کہ بچپن میں ان کا حافظہ بہتر تھا جو کچھ پڑھتے تھے فوراً یاد ہوجاتا تھا، مطالعے میں جی لگتا تھا، مگر جونہی جوانی کی حدود میں قدم رکھا، نہ ذہن کی تیزی رہی نہ طبیعت کی طراری! ایسا لگا جیسے کسی نے روح کو اندر سے جکڑ لیا ہے، بہت سوں کو ایسا محسوس ہوا کہ دماغ کا پچھلا حصہ بوجھل ہوگیا، بہت سوں پر غائب دماغی کا دورہ پڑ گیا کہ دماغ خوف ناک واہموں کا شکار ہوگئے۔ ان حالات میں ڈرائونے اور خوفناک خوابوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کچھ نوجوان (لڑکے اور لڑکیاں) خواب ہائے بیداری میں کھو جاتے ہیں، یعنی انھیں حقیقی دنیا میں جو لذت سکون، رتبہ، شہرت اور محبوبیت میسر نہیں آتی اسے خیالی دنیا میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہنے اور چاہے جانے کی پرجوش تمنا اور بے چین کر دینے والی آرزو سر پر مسلط ہوجاتی ہے۔ طبیعت بے حد حساس اور نازک ہوجاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے دس گیارہ سال سے چوبیس پچیس سال تک کا زمانہ بڑی آزمائش، امتحان اور ابتلا کا زمانہ ہے۔ سات برس کی عمر کے بعد بچہ، بچپن سے گزر کر لڑکپن کی حد میں داخل ہوتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن ایک ہی راستے کی دو منزلیں ہیں، پہلی منزل سادگی اور معصومیت کی ہے، دوسری شوخی و شرارت کی۔ اس دوسری منزل (لڑکپن) میں قدم رکھ کر لڑکے اور لڑکی کو نوجوانی کی آنچ محسوس ہونے لگتی ہے، جسم کے غدود پوری طاقت سے کام کرنے لگتے ہیں، خون کی روانی تیز ہوجاتی ہے جس طرح سات سے چودہ سال کے درمیان لڑکے اور لڑکی کا جسم نت نئی تبدیلی سے دوچار ہوتا ہے۔ لڑکیاں بھرپور عورت بننے لگتی ہیں، لڑکے مردانہ سانچے میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح ذہن جذبات کی نئی کشمکش سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کشمکش کی واضح علامت گہرا باطنی اضطراب، ہیجان اور حافظے کی خرابی ہے۔ اضطراب و ہیجان کے اس مخصوص زمانے میں سانس کی مشق بے حد سکون اور نشاط خاطر کا سبب ثابت ہوتی ہیں۔ اس لیے ہم اس ایج گروپ کو سانس کی مشقوں کا مشورہ لازمی دیتے ہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں
www.facebook.com/shayan.tamseel)