جھلستا بدن

ایک جواز کی جستجو ہے جو اس ظلم کی توجیہہ قرار پاسکے جس میں ایک چھ سالہ بچی کو بچا ہواکھانا مانگنے۔۔۔

ایک جواز کی جستجو ہے جو اس ظلم کی توجیہہ قرار پاسکے جس میں ایک چھ سالہ بچی کو بچا ہواکھانا مانگنے کے جرم کی پاداش میں گرم پانی میں پھینک کر ماردیا گیا لیکن کوئی ایسا حلیہ نہیں سجھائی دے رہا جو دل پر ہاتھ رکھ دے، جس زاویے سے دیکھیے اس خبر کی سنگینی اپنی مظلومیت کے سرخ رنگ کو ٹپکا رہی ہے۔

ایک چھ سالہ بچی کے قدوقامت، صحت اور طاقت سے سب ہی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ خبر کے مطابق اس بچی کو بالوں سے گھسیٹ کر گرم پانی میں پھینک دیا گیا ایک توانا آدمی کا چھ سالہ بچی کے بال کھینچنا ہی اس کی عمر کے مطابق ظلم تھا۔ چیختی چلاتی تو وہ اس اذیت پر بھی ہوگی مگر شاید چیخوں کی یہ شدت ان کے ذوق درندگی کے معیار پر پوری نہ اتری ہوگی لہٰذا درندوں نے اس کو رحم کھا کر بخشا نہیں۔ نہ جانے بال کھینچتے سمے بچی کو درندوں کے ارادوں کی خبر ہوئی تھی یا نہیں اگر ہوگئی تھی تو یقیناً انسانی جبلت سے مجبور ہوکر ''چھوڑ دو اور معاف کردو'' کی التجائیں تو اس نے ضرورکی ہوں گی تھوڑے بہت اپنے ننھے ننھے کمزور سے ہاتھ پیر بھی چلائے ہوں گے۔ پتلی اور نازک سی ہڈی والی ایک چھ سالہ بچی کی کلائی تصور میں لائیں اسی جیسی چار کلائیاں ایک آدمی آسانی سے گرفت کرسکتا ہے خیر خانہ بدوش غریب بچی کا یہ ننھا احتجاج اور فریاد ظالموں کے ظلم کو شکست نہ دے سکی، اور اگر موت کا مرحلہ اس بچی پر یکایک ہی آن وارد ہوا تو پتہ نہیں گرم پانی کی حدت اور گرمائش نے اس کی آنکھوں کی حیرانی کو بھی چھوڑا یا پگھلا دیا۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان میں کتنی آگ بھری تھی جو چھ سالہ بچی کی ضد برداشت نہ کرسکی۔ خانہ بدوشوں کی بچی تھی اپنی اوقات سے باخبر ہوگی زیادہ سے زیادہ ان کے آگے پیچھے پھر رہی ہوگی کھانا لیے بغیر ٹلنے کو تیار نہ ہوگی اور کتنا کھانا لینے آئی ہوگی ایک تھیلی دو تھیلی، اور چھ سالہ بچی کتنا کھانا لے جاتی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے بچی بھوکی ہو اور کھانے کی خوشبو نے اسے جھڑکیوں اور دھتکار سے بے سدھ کردیا ہو، بھوکی بچی ان درندوں کے لہجے اور تیورکی انتہا کو سمجھ ہی نہ پائی ہو یوں بھی چھ سالہ بچی کی سمجھ کتنی ہوتی ہے۔ مانا کہ خانہ بدوشی کی زندگی نے اسے عام چھ سال کے بچے سے مختلف کردیا ہوگا مگر اپنی ضد کے راستے موت سے ہمکنار ہوکر اس معصوم بچی نے یہ ثابت کردیا کہ زندگی کی سختی بے شک غریب بچوں کے نقوش میں پختگی بھر دیتی ہے۔

ان کی کھلونوں کی ضدیں چھین لیتی ہے ان کی معصومیت اپنی غربت کو بہت اچھی طرح سمجھ لیتی ہے مگر فطرت ان کی ضد کے دھارے کھانے کی بھوک کی طرف موڑ دیتی ہے اسی لیے تو بچی اپنی ضد نہ روک سکی یہاں تک کہ موت کے ہاتھ لگ گئی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اچھے کھانے کے لالچ نے اسے گرم پانی کی موت تک پہنچا دیا ہو ایسے گھرانے جہاں کھانا پکنے کی نوبت ہی شاذ آتی ہو، اس لالچ کا ایک محرک ہوسکتا ہے یا سوچ یوں بھی آتی ہے کہ بچی اپنے گھرانے کی بھوک مٹانے کی ذمے داری ادا کرتے ہوئے ظلم کا شکار ہوگئی ہو۔ غرض مسئلہ سارا یہی ہے کہ سوچ کا کوئی بھی رخ کسی بھی طرح بچی کو غلط ثابت کرکے سینے کے بوجھ کو ہلکا نہیں کررہا۔ کوئی برا ہوتا تو اسے احمق بدتمیز کہہ کر تسلی ہوجاتی مگر یہاں بھی بچی کی کم عمری اور اس کی معصومیت سامنے آجاتی ہے۔


ہاں مگر ایک طریقہ ہوسکتا ہے اس واقعے یا اس جیسے واقعات کو دل پر نہ لینے کا جب یہ سوچ لیا جائے کہ غربت کی انتہائی سطح سے دوچار اور معاشرے کے نچلے طبقوں میں شمار ہونے والوں کا ایسے حالات کا شکار ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ پتہ نہیں یہ فیصلہ خدا نے کرلیا ہے یا ہم سب اپنی اپنی جگہ یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ زندگی کی ساری بدقسمتیاں، مصائب، حادثے ایسے لوگوں کے مقدر کا ازلی حصہ ہیں یہ اپنے نصیبوں میں انھیں لکھواکر لاتے ہیں کیونکہ عام آدمی کی روح کو جھنجھنانے والے واقعات یا سانحات ایسی بستیوں کے روزمرہ معمولات ہوتے ہیں۔ یہ ان کے عادی ہوتے ہیں اور نسبتاً آسانی سے انھیں جھیل جاتے ہیں۔ یہ ہوش سنبھالتے ہی بلکہ آنکھیں کھولتے ہی اپنے ارگرد پھیلے زندگی کے رنگ ڈھنگ سے اپنی تقدیر کی سیاہی کو بھانپ لیتے ہیں۔ چلیں ٹھیک کہ اپنی زندگی کے حالات کے مطابق ان کے طور طریقے، احساس، خیال، ترجیحات اور حوصلے ان کے ماحول سے مطابقت حاصل کرلیتے ہیں لیکن کیا ان کے جسم بھی تکلیف اور برداشت کی انسانی حد سے ماورا ہوجاتے ہیں؟

ان بستیوں کے لواحقین کے آنسو اور چیخیں بھی رسمی سی سمجھ کر نظرانداز کردی جاتی ہیں۔ کیونکہ ہم لوگ انھیں غم پروف سمجھتے ہیں۔ عام لوگ تو ان کے چہروں اور آنکھوں میں ملال کی وہ کیفیت محسوس ہی نہیں کر پاتے جو ایک کماؤ بندے کے کم ہوجانے پر ہوتی ہے کہیں زندگی ان پر ایک زندگی کا بوجھ کم کردیتی ہے اور کہیں اپنا بوجھ مزید بڑھادیتی ہے۔ ان کی زندگی اپنے روزوشب کے ساتھ زندگی کی ہر سانس، ہر مرحلے اور ہر رشتے کو بھوک سے جوڑ دیتی ہے اسی بھوک میں ان کے قصے بھی ہوتے ہیں اور المیے بھی۔

وسائل اور نعمتوں کی تخصیص سے معاشرے کے ایسے گروہ جنھیں لاچار کرکے چھوڑ دیا گیا ہے، سماجی شعور سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کے بارے میں طے کیا جائے آیا یہ اپنا حق مانگتے ہیں یا بھیک مانگتے ہیں؟ اگر حق مانگتے ہیں تو وہ بھیک کے طور پر کیوں لیا اور دیا جائے اور اگر معاشرے نے طے کرلیا ہے کہ یہ مانگے تانگے کی زندگی ایسے لوگوں کا مقدر ہے تو پھر لعنت ملامت کس بات کی؟ جب ریاست اور معاشرہ انھیں زندگی کا کوئی حق دینے کو تیار نہیں تعلیم، روزگار، رہائش، صحت صفائی کے حوالے سے تب گداگری بطور پیشے کے جنم لیتی ہے تو اسے بھی ہم نے لعنت قرار دے ڈالا ہے حالانکہ پیشہ ور گداگر پکی اینٹوں کے گھر اور گھر سے وابستہ زندگی کا نظام ٹھکرا کر سڑکوں پر بھیک مانگنے نہیں آتے۔ نوسربازی اور لوٹ مار کے رجحان نے ان کی قسمت میں ذلت کے رنگ کو مزید گہرا کردیا ہے۔

ایک کام مگر ہم کر چکے ہیں اور وہ یہ کہ ہمیں یہ سمجھ آگئی ہے کہ مانگنا، ہاتھ پھیلانا اور گداگری ایک لت ہے ایک بری عادت ہے اس لیے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے آپ جس تھوڑی بہت امداد پر قادر ہیں اسے دیکھ بھال کرکے ضرورت مند کے ہی حوالے کریں جب کہ ہدایات کے مطابق گھوڑے یا اونٹ پر سوار ہوکر آنے والا بھی اگر خدا کے نام پر طلب کرے تو اسے دینا واجب ہے۔پتہ نہیں ہم یہ بات جانتے ہیں یا نہیں کہ معاشرے کے پسماندہ طبقات درحقیقت ہمارے معاشرتی نظام کا ایسا آئینہ ہوتے ہیں جو ریاست سے لے کر عوام تک کا بھرپور عکس پیش کرتا ہے۔ یہ وہ آبادیاں ہوتی ہیں جن کا حصہ اللہ کے فضل اور نعمتوں کی صورت میں ہماری زندگی اور مال میں شامل ہے لیکن سب کچھ چھوڑیں اپنی چھ سالہ بچی یا بچے کو گود میں لیں اور خوب پیار کریں اور پھر اس کے لاڈ دیکھیں انداز دیکھیں۔ اس عمل کے دوران ہرگز اپنے بچے کا چہرہ نہ دیکھیں ورنہ اس چھ سالہ بچی کا جھلسا ہوا وجود آپ کی مادرانہ یا پدرانہ شفقت پر سوالیہ نشان لگادے گا۔ انشا جی بھی آواز لگاگئے ہیں سب مایا ہے، سب مایا ہے۔
Load Next Story