ویپرہیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ جون2014 سے آپریشنل ہوگاعبدالواحد

امپورٹڈتھائی پلانٹ کے ای پی زیڈ یا سپرہائی وے پرمناسب اراضی ملنے پرنصب کیاجائیگا

پلانٹ سے پہلے آم،بعدمیں دیگر پھلوں وسبزیوں کو پراسیس کرکے برآمد کیا جائے گا. فوٹو : ایکسپریس/فائل

وزارت تجارت نے پاکستانی آم ودیگر پھلوں اور سبزیوں کو یورپ کے کورنٹائن مسائل و شرائط سے چھٹکارا دلانے اور بلند معیار برقرار رکھنے کے لیے کراچی میں جاپانی ٹیکنالوجی کا حامل ''ویپر ہیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ'' لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ٹی ڈی اے پی کے تعاون سے مجوزہ پلانٹ کے منصوبے پر 24 کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، پلانٹ کی مشینری تھائی لینڈ سے درآمد کرلی گئی ہے تاہم پلانٹ کی تنصیب کے لیے کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون یا سپرہائی وے کے علاقوں میں مناسب اراضی حاصل ہونے کے بعد منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوجائیگا۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے بانی وترجمان عبدالواحد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ٹی ڈی اے پی میں منعقد ہونے والے حالیہ ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مجوزہ ویپرہیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کو جون 2014 سے آپریشنل بھی کردیا جائے گا، مجوزہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کی پروسیسنگ استعداد15 ٹن فی گھنٹہ ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر کی مارکیٹوں بالخصوص جاپان، یورپ سمیت دیگر قابل ادائیگی مارکیٹوں میں کورنٹائن مسائل اور سخت شرائط بڑھتے جارہے ہیں، ان حقائق کے تناظر میں وزارت تجارت کے ماتحت ادارے ٹی ڈی اے پی کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ مجوزہ نئے پلانٹ کے آپریشنل ہونے سے پاکستانی پھل وسبزیوں کے برآمدکنندگان کو یورپی مارکیٹ میں نہ صرف آسانیاں پیدا ہوسکیں گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلحاظ معیار پاکستانی پھل وسبزیوں کی ساکھ بھی بہتر ہوجائے گی۔ عبدالواحد نے بتایا کہ پاکستان سے سالانہ 1لاکھ 50 ہزار تا ایک لاکھ75 ہزار ٹن آم کی برآمدات ہوتی ہیں جس میں25 تا27 ہزار ٹن آم یورپی ممالک اور باقی ماندہ متحدہ عرب امارات کو برآمد یا جا رہا ہے، مجوزہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے آپریشنل ہونے سے پاکستانی آم جاپان کے لیے بھی قابل قبول ہوگا جہاں فی الوقت صرف تھائی لینڈ سے سالانہ 1500 ٹن آم درآمد کیا جاتا ہے، جاپان میں آم کی سالانہ ڈیمانڈ اگرچہ کم ہے لیکن اس مارکیٹ میں جگہ بنانے کے دور رس فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔




 

انہوں نے بتایا کہ جاپان ودیگر قابل ادائیگی مارکیٹوں میں پاکستانی آم کی 'کاسمیٹک لک' قابل قبول نہیںکیونکہ ان ممالک کے کسٹمرز کی اولین ترجیح پراڈکٹ کی ظاہری خوبصورتی اور دوسری ترجیح ذائقہ ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یورپ کے سرفہرست ڈپارٹمنٹل اسٹورز میں پاکستانی آم کی بہتر انداز میں ڈسپلے کا فقدان ہے، اس سلسلے میں وزارت تجارت سے درخواست ہے کہ وہ پاکستانی آم میں ظاہری خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے پروفیشنل حکمت عملی وضح کرے کیونکہ 35 تا40 فٹ تک اونچے آم کے پیڑ کی دیکھ بھال انتہائی مشکل ہے جس پر لدے پھل کو تیز ہوا، سنڈیوں اور مکھیوں کے حملوں سے بچانا مشکل ہوتا ہے اور ان درختوں کی تراش خراش اور کٹائی بھی مشکل ہوتی ہے، یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی آم کی ظاہری خوبصورتی خراب ہورہی ہے۔

ایک سوال پرعبدالواحد نے کہا کہ مجوزہ ویپر ہیٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ قابل عمل ہے یا نہیں لیکن اس پلانٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ اس پلانٹ کے قیام سے پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کی کوالٹی بتدریج بہتری کی جانب گامزن ہوسکے گی، ابتدائی طور پر اس پلانٹ کے ذریعے اگرچہ آم کی پراسیسنگ کی جائے گی لیکن وقت کے ساتھ ڈیمانڈ بڑھنے کی صورت میں اس پلانٹ کے ذریعے دیگر پھل اور سبزیوں کی بھی پروسیسنگ کرکے انہیں برآمدکیا جاسکے گا۔

ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس سے قبل بھی پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ میں اسی نوعیت کا ایک چھوٹا ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم ہے جس میں فی الوقت پھل سبزیوں کی ٹیسٹنگ کی جارہی ہے جس کی پروسیسنگ استعداد 60 کلوگرام فی گھنٹہ ہے اور اسی پرانے پلانٹ کے ذریعے جون 2013 سے پراسیس شدہ آم کی چھوٹے پیمانے پربرآمدات شروع کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجوزہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کے آپریشنل ہونے سے پاکستان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ دنیا کے تمام اچھی ادائیگی کی حامل مارکیٹوں میں وسیع پیمانے پر پھل اور سبزیاں آزادانہ برآمدات کرسکے کیونکہ اس سے برطانوی ڈپارٹمنٹ فار انوائرمینٹل فوڈ اینڈ رورل افیئرزکی سخت شرائط پوری کرنے کی بھی صلاحیت حاصل ہوجائے گی،اس برطانوی ادارے کے کورنٹائن اعتراضات پر گزشتہ سال پاکستانی آم کے 10 کنسائنمنٹس واپس کر دیے گئے تھے۔
Load Next Story