نیب نواز شریف کی سزا بڑھانے کیلیے اپیل کرسکتا ہے قانونی ماہرین
اقوام متحدہ کے کنونشن 2005ء کے مطابق نواز شریف کو بیرون ملک سے بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے، قانونی ماہر
سابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتساب عدالت کی طرف سے سزا پر کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو سزا کم سنائی گئی نیب سزا بڑھانے کے لیے اپیل کرسکتا ہے جب کہ بعض نے اسے سیاست دانوں کے ایک خاص گروہ کو ٹارگٹ کرنے سے تشبیہ دی ہے۔
فیصلہ حقیقی احتساب کا غماز، سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، حامد خان
معروف قانون دان حامد خان نے کہا کہ ''میں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب وطن عزیز میں حقیقی احتساب کا عمل شروع ہو گیا، یعنی احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے، جو خوش آئند ہے لیکن یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے، ہر اس شخص کا احتساب ہونا چاہیے جس نے کوئی پبلک آفس ہولڈ کر رکھا ہے یا کر رہا ہے، اس فیصلے کے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے تاثر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے تاکہ آنے والے فیصلے کو متنازع بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس فعل سے عدلیہ کی آزادی پر حرف بھی آتا ہے البتہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلے پر تنقید کرے، لیکن یہ تنقید فیصلہ پڑھنے کے بعد اور آئینی و قانونی حدود کے اندر ہونی چاہیے، مذکورہ فیصلہ سنانے میں تاخیر کوئی بڑی بات نہیں، یہ عدالت کا حق ہے، عدالت نے کون سا فیصلہ سنانے میں کئی دن کی تاخیر کر دی، لہٰذا میرے نزدیک تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں''۔
فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد ہونے پر حامد خان گویا ہوئے کہ اس کیس میں کیا اب بھی مزید وقت دینے کی کوئی گنجائش ہے؟ میرے خیال میں تو پہلے ہی اس کیس کے لیے بہت وقت دیا جا چکا ہے، لہٰذا مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں تھا، فیصلے کے بعد قانون کے مطابق میاں نواز شریف سمیت دیگر ملزموں کی گرفتاری ضروری ہو چکی ہے، لیکن اب اگر وہ ملک میں موجود نہیں تو یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ وہ ریڈ وارنٹ جاری کرکے ان کی گرفتاری یقینی بنائے۔
حسن و حسین نواز کے بارے میں تو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہی نہیں تو ان پر اس فیصلے کا اطلاق کیسے ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں ماہر قانون نے بتایا کہ جرم تو جرم ہے، وہ کسی بھی خطے یہ ملک میں ہو، اگر ایک غیر ملکی پاکستان میں کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسی طرح قانون کو جواب دہ ہے جس طرح کوئی پاکستانی، دیکھنے والا معاملہ صرف یہ ہے کہ جرم کس ملک میں ہوا ہے اور اس جرم کے حوالے سے وہاں کا قانون کیا کہتا ہے؟
حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے لیکن اس کا ملک کی سیاسی و امن و امان کی صورت حال پر اثر نہیں پڑے گا اور نقص امن کی کسی طور اجازت بھی نہیں دی جاسکتی تاہم قانونی چارہ جوئی متاثرہ فریقین کا حق ہے۔
سزا کم سنائی گئی، نیب کو اپیل میں جانا چاہیے، اظہر صدیق
چیئرمین جوڈیشل ایکٹوزم پینل و سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اظہر صدیق کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں کم سزا سنائی گئی، ان کے مطابق نیب کو اپیل میں جانا چاہیے، کیونکہ قید کی سزا 14 سال بنتی ہے، جرمانہ بھی کم ہے کیونکہ جتنی پراپرٹی ہے، اتنا تو جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی قائم ہونے والے تاثر اور میاں نواز شریف کی طرف سے فیصلہ میں تاخیر کی دی جانے والے درخواست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط تھا کہ میاں نواز شریف کو سزا ہونی ہی ہے۔
فیصلہ موخر کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ یہ کیس 126 روز سپریم کورٹ کے سامنے چلا، 60 روز جے آئی ٹی اور اب گزشتہ 10 ماہ سے نیب کورٹ میں چل رہا تھا تو اس میں کوئی ایسی گنجائش رہ گئی تھی؟ میں یہ سمجھتا ہوں جتنا right to fair trial انہیں ملا، تاریخ میں کسی کو نہیں ملا، رہی بات فیصلہ موخر کرنے کی تو میاں نواز شریف کی درخواست تو قابل سماعت ہی نہیں، کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اب ایک سزا یافتہ مجرم ہیں، جنہیں انٹرپول کے ذریعے فوری گرفتار کیا جانا چاہیے، کرپشن کے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن 2005ء کے مطابق میاں نواز شریف کو بیرون ملک سے گرفتار کیا جا سکتا ہے، اگر چلی کے صدر کو لندن سے گرفتار کیا جاسکتا ہے تو ایک سابق وزیراعظم کو کیوں نہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ حسن اور حسین نواز دہری شہریت رکھتے ہیں، ان پر پاکستان کے قوانین کا اطلاق ہوتا ان کے دائمی وارنٹ جاری کیے گئے ہیں اور اگر وہ اگلی پیشی پر بھی عدالت پیش نہیں ہوتے تو پھر انہیں 3 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
سیاست دانوں کے ایک خاص گروپ کو ٹارگٹ کرنا درست نہیں،عابد حسن منٹو
آئینی و قانونی امور کے معروف ماہر عابد حسن منٹو نے ''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر شریف خاندان کے حوالے سے گزشتہ روز سنائے جانے والے فیصلے پر بوجوہ کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے سامنے فیصلے کی تفصیلات ہی موجود نہیں کہ کن بنیادوں یا نکات پر سزاؤں کا فیصلہ کیا گیا تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آج کل یہ جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں جن کی بازگشت نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے، وہ سب انجینئرڈ پولیٹیکل ایکسرسائز کا حصہ ہیں، سیاست دانوں کے ایک خاص گروپ کو ٹارگٹ کرنا کسی طور درست امر نہیں۔
فیصلہ حقیقی احتساب کا غماز، سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، حامد خان
معروف قانون دان حامد خان نے کہا کہ ''میں یہ سمجھتا ہوں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب وطن عزیز میں حقیقی احتساب کا عمل شروع ہو گیا، یعنی احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے، جو خوش آئند ہے لیکن یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے، ہر اس شخص کا احتساب ہونا چاہیے جس نے کوئی پبلک آفس ہولڈ کر رکھا ہے یا کر رہا ہے، اس فیصلے کے بارے میں پہلے سے پائے جانے والے تاثر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے تاکہ آنے والے فیصلے کو متنازع بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس فعل سے عدلیہ کی آزادی پر حرف بھی آتا ہے البتہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلے پر تنقید کرے، لیکن یہ تنقید فیصلہ پڑھنے کے بعد اور آئینی و قانونی حدود کے اندر ہونی چاہیے، مذکورہ فیصلہ سنانے میں تاخیر کوئی بڑی بات نہیں، یہ عدالت کا حق ہے، عدالت نے کون سا فیصلہ سنانے میں کئی دن کی تاخیر کر دی، لہٰذا میرے نزدیک تو اس بات کی کوئی اہمیت نہیں''۔
فیصلہ موخر کرنے کی درخواست مسترد ہونے پر حامد خان گویا ہوئے کہ اس کیس میں کیا اب بھی مزید وقت دینے کی کوئی گنجائش ہے؟ میرے خیال میں تو پہلے ہی اس کیس کے لیے بہت وقت دیا جا چکا ہے، لہٰذا مزید تاخیر کا کوئی جواز نہیں تھا، فیصلے کے بعد قانون کے مطابق میاں نواز شریف سمیت دیگر ملزموں کی گرفتاری ضروری ہو چکی ہے، لیکن اب اگر وہ ملک میں موجود نہیں تو یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے کہ وہ ریڈ وارنٹ جاری کرکے ان کی گرفتاری یقینی بنائے۔
حسن و حسین نواز کے بارے میں تو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہی نہیں تو ان پر اس فیصلے کا اطلاق کیسے ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں ماہر قانون نے بتایا کہ جرم تو جرم ہے، وہ کسی بھی خطے یہ ملک میں ہو، اگر ایک غیر ملکی پاکستان میں کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسی طرح قانون کو جواب دہ ہے جس طرح کوئی پاکستانی، دیکھنے والا معاملہ صرف یہ ہے کہ جرم کس ملک میں ہوا ہے اور اس جرم کے حوالے سے وہاں کا قانون کیا کہتا ہے؟
حامد خان کا مزید کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے لیکن اس کا ملک کی سیاسی و امن و امان کی صورت حال پر اثر نہیں پڑے گا اور نقص امن کی کسی طور اجازت بھی نہیں دی جاسکتی تاہم قانونی چارہ جوئی متاثرہ فریقین کا حق ہے۔
سزا کم سنائی گئی، نیب کو اپیل میں جانا چاہیے، اظہر صدیق
چیئرمین جوڈیشل ایکٹوزم پینل و سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اظہر صدیق کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں کم سزا سنائی گئی، ان کے مطابق نیب کو اپیل میں جانا چاہیے، کیونکہ قید کی سزا 14 سال بنتی ہے، جرمانہ بھی کم ہے کیونکہ جتنی پراپرٹی ہے، اتنا تو جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔ فیصلہ آنے سے پہلے ہی قائم ہونے والے تاثر اور میاں نواز شریف کی طرف سے فیصلہ میں تاخیر کی دی جانے والے درخواست کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط تھا کہ میاں نواز شریف کو سزا ہونی ہی ہے۔
فیصلہ موخر کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ یہ کیس 126 روز سپریم کورٹ کے سامنے چلا، 60 روز جے آئی ٹی اور اب گزشتہ 10 ماہ سے نیب کورٹ میں چل رہا تھا تو اس میں کوئی ایسی گنجائش رہ گئی تھی؟ میں یہ سمجھتا ہوں جتنا right to fair trial انہیں ملا، تاریخ میں کسی کو نہیں ملا، رہی بات فیصلہ موخر کرنے کی تو میاں نواز شریف کی درخواست تو قابل سماعت ہی نہیں، کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اب ایک سزا یافتہ مجرم ہیں، جنہیں انٹرپول کے ذریعے فوری گرفتار کیا جانا چاہیے، کرپشن کے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن 2005ء کے مطابق میاں نواز شریف کو بیرون ملک سے گرفتار کیا جا سکتا ہے، اگر چلی کے صدر کو لندن سے گرفتار کیا جاسکتا ہے تو ایک سابق وزیراعظم کو کیوں نہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ حسن اور حسین نواز دہری شہریت رکھتے ہیں، ان پر پاکستان کے قوانین کا اطلاق ہوتا ان کے دائمی وارنٹ جاری کیے گئے ہیں اور اگر وہ اگلی پیشی پر بھی عدالت پیش نہیں ہوتے تو پھر انہیں 3 سال کی سزا ہو سکتی ہے۔
سیاست دانوں کے ایک خاص گروپ کو ٹارگٹ کرنا درست نہیں،عابد حسن منٹو
آئینی و قانونی امور کے معروف ماہر عابد حسن منٹو نے ''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر شریف خاندان کے حوالے سے گزشتہ روز سنائے جانے والے فیصلے پر بوجوہ کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے سامنے فیصلے کی تفصیلات ہی موجود نہیں کہ کن بنیادوں یا نکات پر سزاؤں کا فیصلہ کیا گیا تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ آج کل یہ جتنے بھی مقدمات چل رہے ہیں جن کی بازگشت نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے، وہ سب انجینئرڈ پولیٹیکل ایکسرسائز کا حصہ ہیں، سیاست دانوں کے ایک خاص گروپ کو ٹارگٹ کرنا کسی طور درست امر نہیں۔