پی ٹی آئی اَپ سیٹ کرسکتی ہے یا پھر اَپ سیٹ ہوگی
تحریک انصاف صرف پنجاب میں 70،80 سیٹیں جیتی توسیاسی منظرنامہ کافی دلچسپ ہوگا
عام انتخابات کی انتخابی مہم کا سب سے اہم مرحلہ آخری ہفتے میں داخل ہوگیا ہے جس میں مسلم لیگ(ن) کو برتری حاصل ہے۔
تاہم جس پارٹی کے بارے میں اب بھی کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے وہ تحریک انصاف ہے جو یا تو نتائج میں اپ سیٹ کرسکتی ہے یا پھراپ سیٹ ہوگی۔ اگلے چند روز میں انتخابی مہم میں مزید تیزی آئے گی، ن لیگ اور تحریک انصاف اپنی زیادہ توجہ پنجاب اور خیبرپختونخوا پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے بلوچستان اور سندھ سے صرف نظر کرتے ہوئے صوبے کو بالترتیب قوم پرستوں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔
انتخابی مہم میں ن لیگ کو تحریک انصاف پراس لیے بھی برتری حاصل ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف دونوں نے مختلف علاقے تقسیم کررکھے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی مہم کا بوجھ صرف عمران خان کے کندھوں پرہے جو ہر روز تقریباً نصف درجن جلسوں سے خطاب کرتے ہیں اور اس تعداد میں آنے والے دنوں میں اضافہ متوقع ہے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں آخری7گھنٹے کپتان اور ان کے حریف نوازشریف کے لیے اہم ہونگے۔ انتخابی مہم میں برتری حاصل ہونے کے باوجود ن لیگ ابھی تک تحریک انصاف کے خلاف نروس نظرآتی ہے۔
اس کا اندازہ ن لیگ کی اشتہاری مہم سے ہوتا ہے جس میں گزشتہ روز سے تحریک انصاف اور عمران خان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سب سے حیران کن اشتہار ایک روز قبل اخبارات میں شائع ہوا جس میں اس نے نہ صرف نوازشریف کا ووٹ تقسیم نہ کرنے کا خبردار کیا ہے بلکہ ایم کیوایم کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ن لیگ جس نے اب جماعت اسلامی اور جے یوآئی سے کچھ نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے کو خدشہ ہے کہ چھوٹی جماعتیں اس کا ووٹ بینک تقسیم کرسکتی ہیں۔ 1993کے الیکشن میں (ن)لیگ کو جماعت اسلامی کی قیادت میں پاکستان اسلامی فرنٹ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس صورتحال سے پیپلزپارٹی نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اب ووٹوں کی تقسیم زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ جے یوآئی کی بہ نسبت جماعت اسلامی کی پنجاب میں مقبولیت بڑھی ہے۔
جماعت اسلامی اب بھی کھیل خراب کرسکتی ہے لیکن اس بار ن لیگ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے لیے۔ شروع میں جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد چاہتی تھی لیکن اس نے کچھ زیادہ ہی حصہ مانگ لیا تھا۔ یہی صورتحال ن لیگ کے معاملے میں نظرآئی تاہم آخرکار پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو ہی گئی۔ جے یو آئی کی خیبرپختونخوا میں مضبوط پوزیشن کے باعث حالیہ 2روز سے عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو رگڑا دینا شروع کردیا ہے۔ عمران کے قریبی رہنمائوں پراعتماد ہیں کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں واحد سب سے بڑی جماعت ہوگی۔ البتہ وہاں ن لیگ اور جے یوآئی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ تحریک انصاف کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ وہاں مذہبی حلقوں کا ووٹ جے یوآئی اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہونے کا امکان ہے۔
ن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے ایکسپریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی اور ق لیگ کا خلا پر کیا ہے، اگر ان کی بات درست مان لی جائے تو تحریک انصاف صرف پنجاب میں 50سے60 نشستیں جیت سکتی ہے اور اگر وہ 70سے 80 سیٹیں جیت جاتی ہے تو سیاسی منظرنامہ کافی دلچسپ واقع ہوسکتا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کو دیہی سندھ اور متحدہ قومی موومنٹ کو شہری علاقوں میں نمایاں برتری حاصل ہے اور وہ مل ملا کر صرف سندھ میں50 سے55نشستیں جیت سکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی اب بھی پرامید ہے کہ وہ اپنی پہلے جیتی گئی سیٹوں میں سے کئی دوبارہ جیت لے گی تاہم اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ن لیگ اور پی ٹی آئی سے پیچھے ہے۔ ان دونوں جماعتوں میں کسی جگہ سخت مقابلے کا فائدہ ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کو پہنچ سکتا ہے۔
اگر یہ دونوں اتحادی جماعتیں پنجاب میں25سے زائد اورخیبرپخونخوا میں اے این پی مدد سے 15نشستیں جیت لیتی ہیں تو نوازشریف جے یوآئی(ف) جیسی جماعتوں کی مدد کے بغیر شاید حکومت نہ بناسکیں۔ ن لیگ کے انتخابات کے بعد بھی ایم کیوایم سے مذاکرات کے امکانات بہت کم ہیں۔ عمران خان جہاں 140پلس اور نوازشریف 150پلس نشستیں جیتنے کے لیے پرامید ہیں اورجوصورتحال اس وقت ہے اس میں یہ اعدادوشمار قریب قریب ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں۔
تاہم جس پارٹی کے بارے میں اب بھی کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے وہ تحریک انصاف ہے جو یا تو نتائج میں اپ سیٹ کرسکتی ہے یا پھراپ سیٹ ہوگی۔ اگلے چند روز میں انتخابی مہم میں مزید تیزی آئے گی، ن لیگ اور تحریک انصاف اپنی زیادہ توجہ پنجاب اور خیبرپختونخوا پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے بلوچستان اور سندھ سے صرف نظر کرتے ہوئے صوبے کو بالترتیب قوم پرستوں، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔
انتخابی مہم میں ن لیگ کو تحریک انصاف پراس لیے بھی برتری حاصل ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف دونوں نے مختلف علاقے تقسیم کررکھے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی مہم کا بوجھ صرف عمران خان کے کندھوں پرہے جو ہر روز تقریباً نصف درجن جلسوں سے خطاب کرتے ہیں اور اس تعداد میں آنے والے دنوں میں اضافہ متوقع ہے۔ کرکٹ کی اصطلاح میں آخری7گھنٹے کپتان اور ان کے حریف نوازشریف کے لیے اہم ہونگے۔ انتخابی مہم میں برتری حاصل ہونے کے باوجود ن لیگ ابھی تک تحریک انصاف کے خلاف نروس نظرآتی ہے۔
اس کا اندازہ ن لیگ کی اشتہاری مہم سے ہوتا ہے جس میں گزشتہ روز سے تحریک انصاف اور عمران خان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سب سے حیران کن اشتہار ایک روز قبل اخبارات میں شائع ہوا جس میں اس نے نہ صرف نوازشریف کا ووٹ تقسیم نہ کرنے کا خبردار کیا ہے بلکہ ایم کیوایم کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ن لیگ جس نے اب جماعت اسلامی اور جے یوآئی سے کچھ نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے کو خدشہ ہے کہ چھوٹی جماعتیں اس کا ووٹ بینک تقسیم کرسکتی ہیں۔ 1993کے الیکشن میں (ن)لیگ کو جماعت اسلامی کی قیادت میں پاکستان اسلامی فرنٹ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس صورتحال سے پیپلزپارٹی نے فائدہ اٹھایا تھا۔ اب ووٹوں کی تقسیم زیادہ خطرناک ہوگی کیونکہ جے یوآئی کی بہ نسبت جماعت اسلامی کی پنجاب میں مقبولیت بڑھی ہے۔
جماعت اسلامی اب بھی کھیل خراب کرسکتی ہے لیکن اس بار ن لیگ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے لیے۔ شروع میں جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد چاہتی تھی لیکن اس نے کچھ زیادہ ہی حصہ مانگ لیا تھا۔ یہی صورتحال ن لیگ کے معاملے میں نظرآئی تاہم آخرکار پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو ہی گئی۔ جے یو آئی کی خیبرپختونخوا میں مضبوط پوزیشن کے باعث حالیہ 2روز سے عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو رگڑا دینا شروع کردیا ہے۔ عمران کے قریبی رہنمائوں پراعتماد ہیں کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں واحد سب سے بڑی جماعت ہوگی۔ البتہ وہاں ن لیگ اور جے یوآئی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ تحریک انصاف کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ وہاں مذہبی حلقوں کا ووٹ جے یوآئی اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہونے کا امکان ہے۔
ن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے ایکسپریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی اور ق لیگ کا خلا پر کیا ہے، اگر ان کی بات درست مان لی جائے تو تحریک انصاف صرف پنجاب میں 50سے60 نشستیں جیت سکتی ہے اور اگر وہ 70سے 80 سیٹیں جیت جاتی ہے تو سیاسی منظرنامہ کافی دلچسپ واقع ہوسکتا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کو دیہی سندھ اور متحدہ قومی موومنٹ کو شہری علاقوں میں نمایاں برتری حاصل ہے اور وہ مل ملا کر صرف سندھ میں50 سے55نشستیں جیت سکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی اب بھی پرامید ہے کہ وہ اپنی پہلے جیتی گئی سیٹوں میں سے کئی دوبارہ جیت لے گی تاہم اس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ن لیگ اور پی ٹی آئی سے پیچھے ہے۔ ان دونوں جماعتوں میں کسی جگہ سخت مقابلے کا فائدہ ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کو پہنچ سکتا ہے۔
اگر یہ دونوں اتحادی جماعتیں پنجاب میں25سے زائد اورخیبرپخونخوا میں اے این پی مدد سے 15نشستیں جیت لیتی ہیں تو نوازشریف جے یوآئی(ف) جیسی جماعتوں کی مدد کے بغیر شاید حکومت نہ بناسکیں۔ ن لیگ کے انتخابات کے بعد بھی ایم کیوایم سے مذاکرات کے امکانات بہت کم ہیں۔ عمران خان جہاں 140پلس اور نوازشریف 150پلس نشستیں جیتنے کے لیے پرامید ہیں اورجوصورتحال اس وقت ہے اس میں یہ اعدادوشمار قریب قریب ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں۔