پٹرولیم مصنوعات حکومت کی کمائی کا ذریعہ بن گئیں چیف جسٹس
ہمیں باہر سے سستا پٹرول اور خام تیل چاہیے، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات حکومت کی کمائی کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل، ایم ڈی پی ایس او اور چیئرپرسن اوگرا عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ قیمتوں میں اضافے اور کمی کا فارمولا کیا ہے؟، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کے پیسہ کمانے کے لیے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ خام تیل کی درآمد اور ریفائنری تک پہنچنے تک کیا قیمتیں ہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خام تیل 5 ریفائنریاں درآمد کرتی ہیں، این آر این اور پاکستان ریفائنری کراچی میں ہیں، بائیکو حب بلوچستان میں، پارکو مظفرگڑھ اور اٹک ریفائنری راولپنڈی میں ہے، تین ریفائنریوں کی 15 فیصد مقامی پیداوار ہے اور 85 فیصد درآمد کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نگراں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی
ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ 22 کمپنیاں ہیں جو پٹرول درآمد کرتی ہیں، سعودی عرب سے پہلے ادھار تیل ملتا تھا اب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مڈل مین دونوں اطراف سے منافع اور کمیشن لیتا ہے، اسے رکھا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ مارجن رکھیں، ہمیں باہر سے سستا پٹرول اور خام تیل چاہیے۔
چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او سے پوچھا کہ آپ کا آئل سیکٹر میں کتنا تجربہ ہے؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ توانائی شعبے میں 3سال کا تجربہ ہے، نجی کمپنی اینگرو میں کام کیا ہے، 37 لاکھ روپے تنخواہ کا پیکج ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بکواس ہے اتنی بھاری تنخواہ پر بندے بھرتی کیے جاتے ہیں، کیا بیوروکریسی ختم ہو گئی تھی جو نجی شعبے سے بندہ لینا پڑا؟، سب کچھ ملا کر آپ کا پیکج 45 لاکھ تو ہوگا اور تنخواہ 22 گریڈ کے افسر سے کئی گنا زیادہ ہے، آپ ہمیں بنیادی چیزوں پر مطمئن نہیں کر سکے آپ اسی کمپنی میں واپس چلے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صارف کو ریلیف نہیں دیتے، پی ایس او کی چھ ماہ کی درآمدات کا آڈٹ کروا لیتے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ شفاف ہونی چاہیے، غیر ترقیاتی اخراجات صارف کو ادا کرنا پڑتے ہیں اور افسران کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، آڈٹ کے بعد عدالت دیکھ لے گی کہ ریاست نے جو ٹیکس لگائے ہیں وہ جائز ہیں کہ نہیں، تعین کرنا ہے کہ درآمد دیانت داری سے ہورہی ہے یا نہیں؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک لیٹر پٹرول خریدنے والے کو چالیس روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت کی کمی کا فائدہ صارف کو دینے کی بجائے ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے، ساری گیم خریداری کے موقع پر ہوتی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل، ایم ڈی پی ایس او اور چیئرپرسن اوگرا عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ قیمتوں میں اضافے اور کمی کا فارمولا کیا ہے؟، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کے پیسہ کمانے کے لیے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ خام تیل کی درآمد اور ریفائنری تک پہنچنے تک کیا قیمتیں ہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خام تیل 5 ریفائنریاں درآمد کرتی ہیں، این آر این اور پاکستان ریفائنری کراچی میں ہیں، بائیکو حب بلوچستان میں، پارکو مظفرگڑھ اور اٹک ریفائنری راولپنڈی میں ہے، تین ریفائنریوں کی 15 فیصد مقامی پیداوار ہے اور 85 فیصد درآمد کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نگراں حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی
ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ 22 کمپنیاں ہیں جو پٹرول درآمد کرتی ہیں، سعودی عرب سے پہلے ادھار تیل ملتا تھا اب نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مڈل مین دونوں اطراف سے منافع اور کمیشن لیتا ہے، اسے رکھا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ مارجن رکھیں، ہمیں باہر سے سستا پٹرول اور خام تیل چاہیے۔
چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او سے پوچھا کہ آپ کا آئل سیکٹر میں کتنا تجربہ ہے؟، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ توانائی شعبے میں 3سال کا تجربہ ہے، نجی کمپنی اینگرو میں کام کیا ہے، 37 لاکھ روپے تنخواہ کا پیکج ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بکواس ہے اتنی بھاری تنخواہ پر بندے بھرتی کیے جاتے ہیں، کیا بیوروکریسی ختم ہو گئی تھی جو نجی شعبے سے بندہ لینا پڑا؟، سب کچھ ملا کر آپ کا پیکج 45 لاکھ تو ہوگا اور تنخواہ 22 گریڈ کے افسر سے کئی گنا زیادہ ہے، آپ ہمیں بنیادی چیزوں پر مطمئن نہیں کر سکے آپ اسی کمپنی میں واپس چلے جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صارف کو ریلیف نہیں دیتے، پی ایس او کی چھ ماہ کی درآمدات کا آڈٹ کروا لیتے ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ شفاف ہونی چاہیے، غیر ترقیاتی اخراجات صارف کو ادا کرنا پڑتے ہیں اور افسران کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، آڈٹ کے بعد عدالت دیکھ لے گی کہ ریاست نے جو ٹیکس لگائے ہیں وہ جائز ہیں کہ نہیں، تعین کرنا ہے کہ درآمد دیانت داری سے ہورہی ہے یا نہیں؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک لیٹر پٹرول خریدنے والے کو چالیس روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت کی کمی کا فائدہ صارف کو دینے کی بجائے ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے، ساری گیم خریداری کے موقع پر ہوتی ہے۔