پاکستانی اسکالرکا کارنامہ کینسرکے علاج کا نیا طریقہ دریافت کرلیا

لیاری سے تعلق رکھنے والے محمد وقاص عثمان ہنگورو نے خون کے سرخ خلیات کو دوا پہنچانے کے لیے استعمال کیا ہے

محمد وقاص عثمان نےپہلی مرتبہ خون کےسرخ خلیات کے ای وی کو آراین اے تھراپی کیلیےاستعمال کیا فوٹو:وقاص

پاکستان کے نوجوان پی ایچ ڈی اسکالر محمد وقاص عثمان ہنگورو نے خون کے سرخ خلیات سے وابستہ ذرات کو استعمال کرتے ہوئے کینسر کی رسولیوں تک دوا پہنچانے کا کامیاب عملی مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے قبل خون کے سرخ خلیات کو سرطان کے معالجے میں نہیں آزمایا گیا۔

محمد وقاص اور ان کی ٹیم نے انسانی جسم میں خلیات (سیلز) کے مابین رابطہ کرنے والے بین الخلیاتی اجسام (ایکسٹرا سیلیولر ویسیکلز یا ای وی) میں آر این اے پر مبنی دوا رکھ کر اسے کینسر کے خاتمے کے لیے استعمال کیا ہے۔ عام حالات میں قدرتی طور پر ای وی خلوی رابطوں کے درمیان اہم کردار ادا کرتے ہیں اور عین اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کینسر کے خلیات تک دوا پہنچانے کا کام کیا ہے۔

یہاں وقاص نے اس شعبے کی ایک معتبر ماہر منہ لی کی زیرِ نگرانی یہ کام سرانجام دیا ہے جس کی تفصیلات ممتاز سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوئی ہیں جو خود وقاص کے لیے بھی ایک اعزاز ہے۔ اس عمل کو جین تھراپی بھی کہا جاسکتا ہے۔



ایک غیرمعمولی کام

تحقیقی مقالے کے مطابق اگرچہ کئی خلیوں کے ای وی کو پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ کام اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وقاص اور ان کی ٹیم نے پہلی مرتبہ خون کے سرخ خلیات (آر بی سی ) سے وابستہ ای وی کو اس کام کے لیے استعمال کیا ہے۔ اول تو خون کے خلیات میں ڈی این اے نہیں ہوتا اور یوں وہ علاج میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالتے اور بہت مؤثر انداز میں کام کرتے ہیں۔ دوم خون کے سرخ خلیات کو بڑی تعداد میں حاصل کرکے آراین اے تھراپی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔



وقاص نے نہایت احتیاط کے ساتھ خون کے خلیات کے ای وی الگ کیے، انہیں صاف کیا اور ان میں آر این اے پر مبنی ادویاتی سالمات (مالیکیولز) شامل کرکے انہیں نہ صرف تجربہ گاہ بلکہ جانوروں کے ماڈلز پر بھی استعمال کیا اور اس طرح کینسر کے معالجے میں اہم کامیابی دیکھی گئی۔


ایکسپریس نیوز کو ایک ای میل میں محمد وقاص نے بتایا کہ آر بی سی ای وی کو خون کے سرطان یعنی لیوکیمیا اور بریسٹ کینسر میں آزمایا گیا ہے۔ ان کے مطابق توقع ہے کہ اس طریقے کو مزید اقسام کے کینسر کے علاج میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طریقے کو انسانوں پر آزمانے کے لیے مزید تحقیقی مراحل سے گزارا جائے گا تاہم اگلے مرحلے میں انہیں کینسر کے مریضوں سے لیے گئے نمونوں اور ماڈلوں پر آزمایا جائے گا۔

لیاری سے ہانگ کانگ

محمد وقاص عثمان ہنگورو نے یہ اہم کام ہانگ کانگ کی سٹی یونیورسٹی میں واقع بایو میڈیکل سائنسز کے شعبے کے تحت کیا ہے۔ لیاری کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے محمد وقاص نے موسیٰ لین میں واقع گولڈن کیریئر پرائمری اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد بہار کالونی میں واقع این ای ڈی فاؤنڈیشن ہائر سیکنڈری اسکول سے میٹرک کیا اور بحریہ کالج سے انٹر کرنے کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

وہ پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلے کی سکت نہیں رکھتے تھے انہوں نے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس یو آئی ٹی) سے میڈیکل ٹیکنالوجی کا کورس کیا جہاں کئی برس تک انہوں نے تجربہ گاہی کام پر مہارت حاصل کی۔ اس وقت تک وہ طبی سائنس داں بننے کا فیصلہ کرچکے تھے۔



محمد وقاص اس کے بعد آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہاں سات اہم تحقیق مقالوں کے شریک مصنف رہے۔ اس کے بعد 2013ء میں وہ چین کی ڈالیان میڈیکل یونیورسٹی میں بایو میڈیکل میں ایم ایس سی کے لیے داخل ہوئے اور یہاں کینسر اسٹیم سیل پر تحقیق کام کرنے کے علاوہ اسپرین اور کینسر پر اپنا پہلا ریویو مقالہ شائع کرایا۔

اس کے بعد انہیں 2016ء میں سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں ڈاکٹریٹ کی اسکالرشپ دی گئی اور اس دوران انہوں نے خون کے سرخ خلیات کے ای وی پر اپنا اہم کام پیش کیا۔
Load Next Story