اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچےآخری حصہ
سیاستدانوں کے خلاف احتساب اور کیسز چلتے رہیں گے اور پھر نئی قیادت جنم لے گی۔
اسمبلیوں میں جائیں تو جیسے مچھلی مارکیٹ لگتی ہے، ایک دوسرے کی بے عزتی کرتے رہتے ہیں اور عوام کی بھلائی کا کوئی کام نہیں ہوتا اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ مجھے یہ بتائیں کہ ٹی وی شوز میں ایک دوسرے کے خلاف کتنی بری باتیں کرتے ہیں اور ہر پارٹی کا لیڈر اپنے آپ کو اور اپنی پارٹی کو اچھا اور دوسروں کو برا کہتا رہتا ہے۔
اس بات سے ایک تو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب ایک دوسرے کی برائی کرکے سارے برے کارنامے عوام کو بتا دیتے ہیں۔ وہ تو چھوڑیں ایک دوسرے کو کرسیاں اور گلاس مارتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے لیڈران جو ہماری آنے والی نسلوں کو سنواریں گے۔ ان کو جو فنڈز اپنے علاقے کی ترقی کے لیے ملتے ہیں وہ یا تو خرچ نہیں کرتے یا پھر اسے لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
میں تو کہتا ہوں کہ سب سے پہلے انسان کی عزت اہم ہے مگر جب کرپٹ لیڈروں اور بیورو کریٹس کو ایک عام پولیس والا پکڑ کر پولیس کی گاڑی میں بٹھاتا ہے اور اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیلتا ہے تو وہ دو ٹکے کا بھی نہیں رہتا۔ جو سیاستدان ایمانداری سے علاقوں میں جاکر لوگوں کے کام کرتے ہیں، انھیں وقت دیتے ہیں، ان کے مسائل حل کرتے ہیں وہ کبھی بھی الیکشن میں نہیں ہارتے۔ اس میں ایک نام ایم پی اے ٹھل (سندھ) ڈاکٹر سہراب سرکی ہیں، جو پی پی پی کی ٹکٹ سے الیکشن لڑا ہو، آزاد امیدوار رہا ہو، وہ چاروں مرتبہ اپنے حلقے سے کامیاب ہوا ہے، کیونکہ وہ ہر ہفتے اپنے حلقے میں جاتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے لیے ترقیاتی کام کرواتے رہتے ہیں، اگر لوگ کراچی آتے ہیں تو ڈاکٹر پورا وقت ان کے کام کروانے میں مصروف رہتا ہے۔
وہ پولیٹیکل پارٹیاں جو پیسے دے کر بڑے بڑے جلسے کرواتی ہیں یا پھر دھرنے کرواتی ہیں، ان سے عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ان کے روزانہ کے کام میں دشواری پیدا ہوجاتی ہے۔ جو لوگ دل سے کسی بھی پارٹی کے ساتھ نہیں ہوں گے وہ کبھی سچے اور وفادار نہیں ثابت ہوں گے۔ سب سے خراب بات یہ ہے کہ اگر ایک لیڈر کسی دوسری پارٹی میں ہے تو وہ بہت ہی خراب اور کرپٹ ہے مگر جب وہ پارٹی چھوڑ کے ان کی پارٹی میں شامل ہوجاتا ہے تو وہ اچھا اور دودھ کی طرح صاف ہوجاتا ہے، اسے لوٹے کے بجائے ٹکٹ بھی مل جاتی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے تم تو عوامی لیڈر کہلواتے ہو، مگر عام جہاز میں سوار ہونے کے بجائے کروڑوں روپے خرچ کرکے چارٹرڈ پلین میں جاتے ہیں۔
اس ملک میں اتنی سیاسی پارٹیاں ہیں کہ کسی کو یاد بھی نہیں ہیں۔ جس کے لیڈران صرف الیکشن کے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر Hibernation میں چلے جاتے ہیں۔ بڑی سیاسی پارٹیوں کے کئی لیڈران اتنے مغرور ہوتے ہیں کہ وہ عام آدمی سے ملنا پسند نہیں کرتے اور ان کے اردگرد گارڈز ملنے والوں کی کبھی ایسی پٹائی کرتے ہیں کہ یاد کریں گے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اگر ان سے نوکری مانگو تو کہتے ہیں جاؤ چنے بیچو اور یہ نوکریاں پیسوں سے ملتی ہیں اور بیچنے والوں کے ایجنٹ دکانیں کھول کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی لیڈر بنے ہوئے ہیں جو اخبار نہیں پڑھتے اور نہ ہی انھیں تقریر کرنی اور لکھنی آتی ہے، وہ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے ہوئے نوٹس دیکھ کر بات کرتے ہیں۔
ہماری کتنی بدنصیبی ہے کہ صاحبزادہ یعقوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہمیں کوئی وزیر خارجہ صحیح ملا ہی نہیں اور ہماری خارجہ پالیسی کتنی کمزور ہے، ہمارے خلاف ہندوستان پوری دنیا میں مخالفت کے بیج بوئے جا رہا ہے اور ہم آپس میں لڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے ملک کے راز پوری دنیا کو بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس لیے ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن ہم وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو حب الوطنی کا پتا ہی نہیں ہے، وہ انڈین فلموں کو دیکھ کر ان کی کاپی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
کہنے کو تو بہت ساری باتیں ہیں، مگر میں یہ کہوں گا کہ ہمیں سائنٹسٹ پیدا کرنے چاہئیں، ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نوجوانوں، عورتوں اور دانشوروں کے ٹیلنٹ استعمال کرکے ترقی کے لیے ریکارڈ قائم کرنے ہوں گے، جس کے لیے کرپٹ لوگوں کا صفایا کیا جائے، کالی بھیڑوں کو اداروں سے فارغ کرکے ایماندار لوگوں کو آگے لایا جائے۔ سب سے پہلے احتساب کرو سب کا، ورنہ جو کینسر رشوت، بے ایمانی، ملاوٹ، ناانصافی، جرم، نااہلی کا عام آدمی کے خون میں سرائیت کرتا جا رہا ہے اسے روکنے کے لیے خونیں انقلاب لانا ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ابھی جسم کا جو ایک یا دو حصے خراب ہوچکے ہیں انھیں کاٹ کر پھینک دیا جائے۔
اس ملک میں بڑے لوگ ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ میں بڑے ماہر ہیں، انھیں حکومت میں لاکر اس کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس سیاسی لیڈر یا بیورو کریٹ یا پھر چور بزنس مین کو قانون کے کٹہرے میں لاکر اس سے جان چھڑائی جائے تاکہ جمہوریت، عوام اور ملک ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکے۔ اب عام آدمی میں ہمت پیدا ہوگئی ہے اور وہ کرپٹ لوگوں کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کر رہا ہے جس کے لیے عدالتوں کو ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ کرپشن کے کیسز کو نمٹانے کے لیے کم وقت لیا جائے اور اچھے، صحیح پڑھے لکھے مخلص، روشن خیال افراد کو حکومت کا حصہ بنایا جائے ورنہ وقت گزر جائے گا اور ہم قرضوں کے بوجھ تلے دب کر کئی مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ کچھ پرانے گھاگ قسم کے کرپٹ سیاستدانوں کا صفایا الیکشن سے پہلے ہوجائے گا اور باقی کا الیکشن کے بعد اور جو الیکشن کا نتیجہ ہوگا وہ Hang Parlimaent ہوگی جس میں دشمن اور دوست مل کے بھی Coalition حکومت بنا بھی لیں گے مگر وہ چل نہیں سکے گی اور پھر ایک اچھے خاصے لمبے وقت کے لیے قومی حکومت بنائی جائے گی۔
سیاستدانوں کے خلاف احتساب اور کیسز چلتے رہیں گے اور پھر نئی قیادت جنم لے گی۔ اس سلسلے میں ایک عرض یہ ہے کہ جو بھی قومی حکومت بنائی جائے اس کے لیے Pure قسم کے ایماندار، قابل اور محنتی لوگ لیے جائیں جنھیں خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ اس میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھی جائے کہ اچھے لوگوں کی تلاش میں کوئی بے ایمانی اور اقربا پروری نہ کی جائے۔
اس وقت ہمارے ملک کی معیشت کو بڑھانا ہے، آئی ایم ایف اور دوسروں سے لیے ہوئے قرضے اتارنے ہیں اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، قومی خزانے سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لاکر ترقیاتی کام کروانے ہیں، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں، اپنے مسائل کو موجودہ وسائل سے حل کرنا ہے اور ہر مکتب فکر کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ملک اور قوم کی ترقی کے لیے استعمال کریں اور جو لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں ان کا قلع قمع کرنا ہے۔
ہماری افواج اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کی پوری پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتی ہے اور عدالتیں انصاف کا سر اونچا کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اب صرف ایک اہم کام ہے اچھے لوگوں کی تلاش جو ہمارے ملک میں بے تحاشا موجود ہیں لیکن سفارش کلچر نے ان کا راستہ روکا ہوا ہے وہی اچھا لیڈر بن سکتا ہے جس نے عوام کے درمیان وقت گزارا ہے اور اسے عوام کے مسائل اور اس کے حل کا پتا ہے۔ موجودہ Intern Govt میں ایک بھی ایسا بندہ نہیں ہے یہ ایک خانہ پوری ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس کو موقعہ دیا جائے جو دن بہ دن ختم ہو رہا ہے۔
اس بات سے ایک تو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب ایک دوسرے کی برائی کرکے سارے برے کارنامے عوام کو بتا دیتے ہیں۔ وہ تو چھوڑیں ایک دوسرے کو کرسیاں اور گلاس مارتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے لیڈران جو ہماری آنے والی نسلوں کو سنواریں گے۔ ان کو جو فنڈز اپنے علاقے کی ترقی کے لیے ملتے ہیں وہ یا تو خرچ نہیں کرتے یا پھر اسے لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
میں تو کہتا ہوں کہ سب سے پہلے انسان کی عزت اہم ہے مگر جب کرپٹ لیڈروں اور بیورو کریٹس کو ایک عام پولیس والا پکڑ کر پولیس کی گاڑی میں بٹھاتا ہے اور اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیلتا ہے تو وہ دو ٹکے کا بھی نہیں رہتا۔ جو سیاستدان ایمانداری سے علاقوں میں جاکر لوگوں کے کام کرتے ہیں، انھیں وقت دیتے ہیں، ان کے مسائل حل کرتے ہیں وہ کبھی بھی الیکشن میں نہیں ہارتے۔ اس میں ایک نام ایم پی اے ٹھل (سندھ) ڈاکٹر سہراب سرکی ہیں، جو پی پی پی کی ٹکٹ سے الیکشن لڑا ہو، آزاد امیدوار رہا ہو، وہ چاروں مرتبہ اپنے حلقے سے کامیاب ہوا ہے، کیونکہ وہ ہر ہفتے اپنے حلقے میں جاتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے لیے ترقیاتی کام کرواتے رہتے ہیں، اگر لوگ کراچی آتے ہیں تو ڈاکٹر پورا وقت ان کے کام کروانے میں مصروف رہتا ہے۔
وہ پولیٹیکل پارٹیاں جو پیسے دے کر بڑے بڑے جلسے کرواتی ہیں یا پھر دھرنے کرواتی ہیں، ان سے عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ان کے روزانہ کے کام میں دشواری پیدا ہوجاتی ہے۔ جو لوگ دل سے کسی بھی پارٹی کے ساتھ نہیں ہوں گے وہ کبھی سچے اور وفادار نہیں ثابت ہوں گے۔ سب سے خراب بات یہ ہے کہ اگر ایک لیڈر کسی دوسری پارٹی میں ہے تو وہ بہت ہی خراب اور کرپٹ ہے مگر جب وہ پارٹی چھوڑ کے ان کی پارٹی میں شامل ہوجاتا ہے تو وہ اچھا اور دودھ کی طرح صاف ہوجاتا ہے، اسے لوٹے کے بجائے ٹکٹ بھی مل جاتی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے تم تو عوامی لیڈر کہلواتے ہو، مگر عام جہاز میں سوار ہونے کے بجائے کروڑوں روپے خرچ کرکے چارٹرڈ پلین میں جاتے ہیں۔
اس ملک میں اتنی سیاسی پارٹیاں ہیں کہ کسی کو یاد بھی نہیں ہیں۔ جس کے لیڈران صرف الیکشن کے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر Hibernation میں چلے جاتے ہیں۔ بڑی سیاسی پارٹیوں کے کئی لیڈران اتنے مغرور ہوتے ہیں کہ وہ عام آدمی سے ملنا پسند نہیں کرتے اور ان کے اردگرد گارڈز ملنے والوں کی کبھی ایسی پٹائی کرتے ہیں کہ یاد کریں گے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اگر ان سے نوکری مانگو تو کہتے ہیں جاؤ چنے بیچو اور یہ نوکریاں پیسوں سے ملتی ہیں اور بیچنے والوں کے ایجنٹ دکانیں کھول کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی لیڈر بنے ہوئے ہیں جو اخبار نہیں پڑھتے اور نہ ہی انھیں تقریر کرنی اور لکھنی آتی ہے، وہ کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے ہوئے نوٹس دیکھ کر بات کرتے ہیں۔
ہماری کتنی بدنصیبی ہے کہ صاحبزادہ یعقوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ہمیں کوئی وزیر خارجہ صحیح ملا ہی نہیں اور ہماری خارجہ پالیسی کتنی کمزور ہے، ہمارے خلاف ہندوستان پوری دنیا میں مخالفت کے بیج بوئے جا رہا ہے اور ہم آپس میں لڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے ملک کے راز پوری دنیا کو بتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس لیے ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن ہم وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کو حب الوطنی کا پتا ہی نہیں ہے، وہ انڈین فلموں کو دیکھ کر ان کی کاپی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
کہنے کو تو بہت ساری باتیں ہیں، مگر میں یہ کہوں گا کہ ہمیں سائنٹسٹ پیدا کرنے چاہئیں، ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نوجوانوں، عورتوں اور دانشوروں کے ٹیلنٹ استعمال کرکے ترقی کے لیے ریکارڈ قائم کرنے ہوں گے، جس کے لیے کرپٹ لوگوں کا صفایا کیا جائے، کالی بھیڑوں کو اداروں سے فارغ کرکے ایماندار لوگوں کو آگے لایا جائے۔ سب سے پہلے احتساب کرو سب کا، ورنہ جو کینسر رشوت، بے ایمانی، ملاوٹ، ناانصافی، جرم، نااہلی کا عام آدمی کے خون میں سرائیت کرتا جا رہا ہے اسے روکنے کے لیے خونیں انقلاب لانا ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ابھی جسم کا جو ایک یا دو حصے خراب ہوچکے ہیں انھیں کاٹ کر پھینک دیا جائے۔
اس ملک میں بڑے لوگ ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ میں بڑے ماہر ہیں، انھیں حکومت میں لاکر اس کے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس سیاسی لیڈر یا بیورو کریٹ یا پھر چور بزنس مین کو قانون کے کٹہرے میں لاکر اس سے جان چھڑائی جائے تاکہ جمہوریت، عوام اور ملک ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکے۔ اب عام آدمی میں ہمت پیدا ہوگئی ہے اور وہ کرپٹ لوگوں کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کر رہا ہے جس کے لیے عدالتوں کو ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ کرپشن کے کیسز کو نمٹانے کے لیے کم وقت لیا جائے اور اچھے، صحیح پڑھے لکھے مخلص، روشن خیال افراد کو حکومت کا حصہ بنایا جائے ورنہ وقت گزر جائے گا اور ہم قرضوں کے بوجھ تلے دب کر کئی مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ کچھ پرانے گھاگ قسم کے کرپٹ سیاستدانوں کا صفایا الیکشن سے پہلے ہوجائے گا اور باقی کا الیکشن کے بعد اور جو الیکشن کا نتیجہ ہوگا وہ Hang Parlimaent ہوگی جس میں دشمن اور دوست مل کے بھی Coalition حکومت بنا بھی لیں گے مگر وہ چل نہیں سکے گی اور پھر ایک اچھے خاصے لمبے وقت کے لیے قومی حکومت بنائی جائے گی۔
سیاستدانوں کے خلاف احتساب اور کیسز چلتے رہیں گے اور پھر نئی قیادت جنم لے گی۔ اس سلسلے میں ایک عرض یہ ہے کہ جو بھی قومی حکومت بنائی جائے اس کے لیے Pure قسم کے ایماندار، قابل اور محنتی لوگ لیے جائیں جنھیں خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ اس میں ایک بات یہ بھی ذہن میں رکھی جائے کہ اچھے لوگوں کی تلاش میں کوئی بے ایمانی اور اقربا پروری نہ کی جائے۔
اس وقت ہمارے ملک کی معیشت کو بڑھانا ہے، آئی ایم ایف اور دوسروں سے لیے ہوئے قرضے اتارنے ہیں اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، قومی خزانے سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لاکر ترقیاتی کام کروانے ہیں، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں، اپنے مسائل کو موجودہ وسائل سے حل کرنا ہے اور ہر مکتب فکر کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ملک اور قوم کی ترقی کے لیے استعمال کریں اور جو لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں ان کا قلع قمع کرنا ہے۔
ہماری افواج اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کی پوری پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتی ہے اور عدالتیں انصاف کا سر اونچا کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اب صرف ایک اہم کام ہے اچھے لوگوں کی تلاش جو ہمارے ملک میں بے تحاشا موجود ہیں لیکن سفارش کلچر نے ان کا راستہ روکا ہوا ہے وہی اچھا لیڈر بن سکتا ہے جس نے عوام کے درمیان وقت گزارا ہے اور اسے عوام کے مسائل اور اس کے حل کا پتا ہے۔ موجودہ Intern Govt میں ایک بھی ایسا بندہ نہیں ہے یہ ایک خانہ پوری ہے۔ خاص طور پر مڈل کلاس کو موقعہ دیا جائے جو دن بہ دن ختم ہو رہا ہے۔