جمہوریت اور سامراجی مفادات
سامراجی مفادات اور جمہوریت میں جہاں بھی ٹکراؤ ہوگا اب جمہوریت کٹ ٹو سائز ہوگی چاہے یہ امریکا ہویا دنیاکا کوئی بھی خطہ۔
آصف زرداری نے کہا ہے کہ الیکشن میں پنجاب سے آزاد امیدوار زیادہ کامیاب ہوں گے۔ جیپ کے نشان والے آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیت گئے تو پھر وہ ڈکٹیٹ کریں گے۔ انتخابات کے بعد کوئی سنجرانی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے۔ جس نے بھی حکومت بنانا ہو گی، اسے ہم سے بات ضرور کرنا ہوگی۔ بہرحال ہم حکومت نہیں چاہتے۔دوبارہ صدر نہیں بننا چاہوں گا۔ اس سے بہتر ہے کہ پارٹی کے لیے گراؤنڈ پر کام کروں۔
سیاسی طاقتوں کو الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا ہو گا۔ 2018ء کے الیکشن سو فیصد درست نہیں ہوں گے۔ لیکن ادارے مضبوط ہوتے جائیں گے تو آنے والے الیکشن بہتر ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کو اب بھی انتخابی میدان میں مساوی مواقع حاصل نہیں۔ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ انقلاب پر نہیں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں۔ جمہوریت بھی ارتقائی مراحل طے کر لے گی۔ انقلاب لال رنگ کا جب کہ ارتقا کا رنگ سفید ہے۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مجھ پر تنقید کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہے۔ بلوچستان سے غیر سیاسی شخصیت کو چیئرمین سینیٹ بنوایا۔ بلوچوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہاں انڈیا کا فُٹ پرنٹ کم ہو۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ن لیگ نے دھوکے دیے اسی لیے رابطوں سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ نواز شریف سے میری ملاقات کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔ 25 جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ اس وقت ہر کوئی پاور میں آنا چاہ رہا ہے اور پاور پالیٹکس ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے۔
آصف زرداری پاکستان کی سیاست میں متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ مجھے بینظیر سے اپنی پہلی ملاقات یاد ہے جب انھوں نے دوسرے سوالات کے علاوہ مجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں دریافت کیا کہ ان کا سیاست میں آنا ان کے لیے نقصان دہ تو نہیں ہوگا۔ دوسری طرف مرتضیٰ بھٹو تھے جب انھوں نے مجھے خصوصی دعوت پر لاڑکانہ اپنی جاگیر پر بلایا۔ وہاں پر انھوں نے آصف زرداری کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ سب پر عیاں ہیں ۔بینظیر ضیاء دور میں جس دباؤ سے گزر رہی تھیں ان کے لیے شادی کے لیے زیادہ چوائس کی گنجائش نہیں تھی۔
یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ بہن اور بھائی میں صلح ہونے والی تھی کہ ایک سازش کے تحت مرتضیٰ کو قتل کردیا گیا اور اس کا الزام بینظیر اور زرداری پر ڈال دیا۔ لیکن اس الزام میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ بعد میں یہ بھی پتہ چل گیا کہ قتل کس طرح ہوا۔ لیکن پروپیگنڈا اتنا خوفناک تھا کہ پاکستان کے عوام اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ خاص طور پر پنجاب میں پروپیگنڈا کی شدت زیادہ تھی اور آصف زرداری کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس طرح بینظیر کے قتل کا الزام بھی آصف زرداری پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
پروپیگنڈا زرداری کے خلاف مسلسل جاری رہا کیونکہ پس پردہ قوتیں انھیں پسند نہیں کرتی تھیں۔ لیکن بینظیر کے قتل کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی، آصف زرداری کو بھرپور سیاسی کردار ادا کرنا پڑا اور پیپلزپارٹی کا کنٹرول مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں آگیا۔ یہ حالات کا جبر تھا، مسائل بہت زیادہ تھے، دہشتگردی کا عفریت عروج پر تھا، ایسے میں انھوں نے پارٹی بھی چلائی اور حکومت بھی۔ مخالفین نے آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کا گورباچوف قرار دیا۔
آصف زرداری پیپلزپارٹی کے لیے گوربا چوف بنے یا نہیں بنے، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن وہ پیپلزپارٹی جسے ضیاء جیسا آمر نہ ختم کر سکا آج پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا ہے۔ اب وہ چند ہزار ووٹ لینے سے بھی قاصر ہے۔ اب تو پارٹی کو پنجاب سے امیدوار ہی مشکل سے ملے ہیں جن میں سے بیشتر کے ہارنے کا امکان ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلزپارٹی کھمبے کو ٹکٹ دیتی تھی تو وہ بھی جیت جاتا تھا۔ نظریاتی سیاست سے دستبرداری بینظیر نے اپنے دور سے ہی شروع کر دی تھی۔ نظریاتی سیاست کی بھینٹ پہلے باپ چڑھا، پھر بھائی، آخر میں خود۔
سوویت یونین کے خاتمے نے دنیا سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ اب تو امریکا جیسے ملک میں جمہوریت پسپائی اختیار کررہی ہے۔ جمہوری آزادیاں کم ہورہی ہیں۔ کیونکہ جمہوریت امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ جمہوریت ایک ہتھیار تھا جسے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اب عوام کو جمہوریت کے نام پر مادر پدر آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حقیقی جمہوریت سے امریکا کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اب رائج جمہوریت پر ہی قدغنیں لگ رہی ہیں۔
سامراجی مفادات اور جمہوریت میں جہاں بھی ٹکراؤ ہوگا اب جمہوریت کٹ ٹو سائز ہوگی چاہے یہ امریکا ہو یا دنیا کا کوئی بھی خطہ۔ کٹ ٹو سائز جمہوریت ہمارے ملک میں بھی رائج ہے جس کا دوسرا نام کنٹرولڈ جمہوریت ہے۔ ہمارے خطے کے حوالے سے عالمی اور مقامی سامراج کے مفادات یکساں ہیں۔ جو بھی اپنی حد سے نکلے گا۔ عبرتناک سزا اس کا مقدر ہوگی۔ پاکستان اور تیسری دنیا کے ملکوں کی تاریخ یہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سامراجی مفادات کے لیے بادشاہی نظام کو دوبارہ سے منظور کیا جارہا ہے جب کہ چند مہینے پہلے امریکی صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکا اگر ان بادشاہتوں کا تحفظ نہ کرے تو یہ دو ہفتوں سے زیادہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ یورپ میں سوشل ویلفیئر نظام جو سوشلسٹ نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے رائج کیا گیا کہ کہیں یورپی عوام اپنے ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب نہ لے آئیں جس میں رہائش، تعلیم، صحت وغیرہ کی سہولتیں مفت یا ارزاں نرخوں پر دستیاب تھیں۔
٭... 13 جولائی کا سورج گرہن اور 27 جولائی اس صدی کا طویل ترین خون رنگ مکمل چاند گرہن انتخابات کے بعد پاکستان کے سیاسی بحران کو خطرناک مرحلے میں داخل کرے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
سیاسی طاقتوں کو الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا ہو گا۔ 2018ء کے الیکشن سو فیصد درست نہیں ہوں گے۔ لیکن ادارے مضبوط ہوتے جائیں گے تو آنے والے الیکشن بہتر ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کو اب بھی انتخابی میدان میں مساوی مواقع حاصل نہیں۔ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ انقلاب پر نہیں ارتقا پر یقین رکھتا ہوں۔ جمہوریت بھی ارتقائی مراحل طے کر لے گی۔ انقلاب لال رنگ کا جب کہ ارتقا کا رنگ سفید ہے۔
آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مجھ پر تنقید کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہے۔ بلوچستان سے غیر سیاسی شخصیت کو چیئرمین سینیٹ بنوایا۔ بلوچوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہاں انڈیا کا فُٹ پرنٹ کم ہو۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ ن لیگ نے دھوکے دیے اسی لیے رابطوں سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ نواز شریف سے میری ملاقات کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے۔ 25 جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ اس وقت ہر کوئی پاور میں آنا چاہ رہا ہے اور پاور پالیٹکس ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے۔
آصف زرداری پاکستان کی سیاست میں متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ مجھے بینظیر سے اپنی پہلی ملاقات یاد ہے جب انھوں نے دوسرے سوالات کے علاوہ مجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں دریافت کیا کہ ان کا سیاست میں آنا ان کے لیے نقصان دہ تو نہیں ہوگا۔ دوسری طرف مرتضیٰ بھٹو تھے جب انھوں نے مجھے خصوصی دعوت پر لاڑکانہ اپنی جاگیر پر بلایا۔ وہاں پر انھوں نے آصف زرداری کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ سب پر عیاں ہیں ۔بینظیر ضیاء دور میں جس دباؤ سے گزر رہی تھیں ان کے لیے شادی کے لیے زیادہ چوائس کی گنجائش نہیں تھی۔
یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ بہن اور بھائی میں صلح ہونے والی تھی کہ ایک سازش کے تحت مرتضیٰ کو قتل کردیا گیا اور اس کا الزام بینظیر اور زرداری پر ڈال دیا۔ لیکن اس الزام میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ بعد میں یہ بھی پتہ چل گیا کہ قتل کس طرح ہوا۔ لیکن پروپیگنڈا اتنا خوفناک تھا کہ پاکستان کے عوام اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ خاص طور پر پنجاب میں پروپیگنڈا کی شدت زیادہ تھی اور آصف زرداری کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس طرح بینظیر کے قتل کا الزام بھی آصف زرداری پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
پروپیگنڈا زرداری کے خلاف مسلسل جاری رہا کیونکہ پس پردہ قوتیں انھیں پسند نہیں کرتی تھیں۔ لیکن بینظیر کے قتل کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی، آصف زرداری کو بھرپور سیاسی کردار ادا کرنا پڑا اور پیپلزپارٹی کا کنٹرول مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں آگیا۔ یہ حالات کا جبر تھا، مسائل بہت زیادہ تھے، دہشتگردی کا عفریت عروج پر تھا، ایسے میں انھوں نے پارٹی بھی چلائی اور حکومت بھی۔ مخالفین نے آصف زرداری کو پیپلز پارٹی کا گورباچوف قرار دیا۔
آصف زرداری پیپلزپارٹی کے لیے گوربا چوف بنے یا نہیں بنے، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن وہ پیپلزپارٹی جسے ضیاء جیسا آمر نہ ختم کر سکا آج پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا ہے۔ اب وہ چند ہزار ووٹ لینے سے بھی قاصر ہے۔ اب تو پارٹی کو پنجاب سے امیدوار ہی مشکل سے ملے ہیں جن میں سے بیشتر کے ہارنے کا امکان ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلزپارٹی کھمبے کو ٹکٹ دیتی تھی تو وہ بھی جیت جاتا تھا۔ نظریاتی سیاست سے دستبرداری بینظیر نے اپنے دور سے ہی شروع کر دی تھی۔ نظریاتی سیاست کی بھینٹ پہلے باپ چڑھا، پھر بھائی، آخر میں خود۔
سوویت یونین کے خاتمے نے دنیا سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ اب تو امریکا جیسے ملک میں جمہوریت پسپائی اختیار کررہی ہے۔ جمہوری آزادیاں کم ہورہی ہیں۔ کیونکہ جمہوریت امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ جمہوریت ایک ہتھیار تھا جسے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ اب عوام کو جمہوریت کے نام پر مادر پدر آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حقیقی جمہوریت سے امریکا کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اب رائج جمہوریت پر ہی قدغنیں لگ رہی ہیں۔
سامراجی مفادات اور جمہوریت میں جہاں بھی ٹکراؤ ہوگا اب جمہوریت کٹ ٹو سائز ہوگی چاہے یہ امریکا ہو یا دنیا کا کوئی بھی خطہ۔ کٹ ٹو سائز جمہوریت ہمارے ملک میں بھی رائج ہے جس کا دوسرا نام کنٹرولڈ جمہوریت ہے۔ ہمارے خطے کے حوالے سے عالمی اور مقامی سامراج کے مفادات یکساں ہیں۔ جو بھی اپنی حد سے نکلے گا۔ عبرتناک سزا اس کا مقدر ہوگی۔ پاکستان اور تیسری دنیا کے ملکوں کی تاریخ یہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سامراجی مفادات کے لیے بادشاہی نظام کو دوبارہ سے منظور کیا جارہا ہے جب کہ چند مہینے پہلے امریکی صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکا اگر ان بادشاہتوں کا تحفظ نہ کرے تو یہ دو ہفتوں سے زیادہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتیں۔ یورپ میں سوشل ویلفیئر نظام جو سوشلسٹ نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے رائج کیا گیا کہ کہیں یورپی عوام اپنے ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب نہ لے آئیں جس میں رہائش، تعلیم، صحت وغیرہ کی سہولتیں مفت یا ارزاں نرخوں پر دستیاب تھیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان سہولتوں میں کمی کی جارہی ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہی دنیا کے اربوں لوگ ایسے فاقوں کا شکار ہوگئے کہ ایک وقت کی روٹی ملنا بھی محال ہوگئی اور دنیا کی دولت مٹھی بھر لوگوں میں سمٹ کر رہ گئی۔
٭... 13 جولائی کا سورج گرہن اور 27 جولائی اس صدی کا طویل ترین خون رنگ مکمل چاند گرہن انتخابات کے بعد پاکستان کے سیاسی بحران کو خطرناک مرحلے میں داخل کرے گا۔
سیل فون: 0346-4527997