کیا یہ ملک کرپشن کے لیے بنا ہے

کے پی واحد صوبہ ہے جس میں معاشی کرپشن بہت کم سطح پر آگئی ہے۔ مکمل طورپر غیرجانبداربات کررہا ہوں۔

raomanzar@hotmail.com

MUMBAI:
توشی کاٹسومٹسوئکا (Toshi Katsu Matsuoka) جاپان میں زراعت کا وزیر تھا۔ اتنہائی لائق اورمحنتی انسان۔ جاپان میں زرعی زمین بہت کم ہے لہذا توشی کاٹسوسائنسدانوں سے ملکرایسے طریقے اختیار کر رہا تھا جن سے کم سے کم زمین استعمال کرکے بھرپورزرعی اجناس اُگاسکے۔اسے خاطرخواہ کامیابی بھی حاصل ہورہی تھی۔ لوگوں کو یقین تھاکہ اس شخص کی اُٹھان اتنی زبردست ہے کہ تھوڑے عرصے بعدملک کا وزیراعظم بن جائیگا۔ یہ 2007 کاذکرہے۔

اچانک اس کی زندگی میں ایسا موڑ آیاکہ ہر چیز تبدیل ہوگئی۔توشی کاٹسوکاایک دفتر تھا۔ اس میں درجنوں لوگ کام کرتے تھے۔سرکاری دفتر میں وہ تمام سہولیات موجودتھیں جوایک ترقی یافتہ ملک کے وزیرکوحاصل ہوتی ہیں۔اس دفترکی بجلی، پانی اورگیس مکمل طور پرمفت تھی۔توشی کاٹسوکواس سہولت کامکمل طورپرعلم نہیں تھا۔ ایک دن وہ دفتر میں کام کررہاتھاکہ نوٹس موصول ہوا۔درج تھا کہ تین دن کے بعدپارلیمنٹ کی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہوں۔

جرم کیاتھاکہ توشی کاٹسونے دفترکی مراعات مفت ہونے کے باوجودایک لاکھ بیس ہزار یورو وصول کیے ہیں۔ وزیر حددرجہ گھبراگیا۔اپنے بینکرسے معلوم کیااورپوچھاکہ کیا واقعی اس کے اکاؤنٹ میں یہ رقم آئی ہے۔بینکرنے تسلی سے بتایا کہ ایسی کوئی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موصول نہیں ہوئی۔ ہاں،یہ رقم دفترکے سرکاری اکاؤنٹ میں ضرورموصول ہوئی ہے۔ توشی کاٹسوکے لیے یہ ایک ناقابل برداشت بات تھی۔ اپنے افسروں کو بلایا اور ان کی خوب کچھائی کی،غصہ ہواکہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ غلطی کیسے ہوئی۔

اسٹاف نے بتایاکہ ان کے بھی علم میں نہیں تھاکیونکہ وہ پہلی بارسرکاری شعبے میں کام کررہے تھے۔بہرحال توشی کاٹسوحددرجہ ذہنی دباؤمیں آگیا۔ فوری حکم دیاکہ تمام رقم واپس سرکاری خزانے میں جمع کروادی جائے۔ تمام پیسے واپس خزانے میں جمع کروادیے گئے۔ مگر سوال اُٹھا،کہ کیاوہ شخص جسے دفترکے مالیاتی معاملات پر کنٹرول نہیں ہے،کیاواقعی اعلیٰ عہدے پررہنے کا حقدار ہے۔

انکوائری کمیٹی نے سوالات بناکراسے بھجوا دیے۔ جس دن اسے انکوائری میں پیش ہوناتھا،توشی کاٹسونے اپنے فلیٹ میں خودکشی کرلی۔مرنے سے پہلے دوخط لکھے۔ایک وزیراعظم کے نام۔جس میں درج تھاکہ وہ معذرت چاہتا ہے کہ حکومتی عہدیدار کے طورپراس سے غلطی ہوئی اوروہ وزیراعظم کی توقعات پر پورا نہیں اُترسکا۔ دوسرا خط، جاپان کی عوام کے نام تھا۔درج تھاکہ عوام سے معافی مانگتا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری نہ کرسکا اور اس کے اسٹاف سے غلطی ہوگئی۔یہ دونوں خطوط آج بھی جاپانی حکومت کے ریکارڈمیں موجود ہیں۔

کیاآپ جانتے ہیں کہ 2007ء میں ایک یوروکتنے پاکستانی روپوں کے برابرتھا۔شائدساٹھ یا ستر روپے کے برابر۔تمام رقم پاکستانی ایک کروڑسے کم بنتی تھی۔پوری قوم نے توشی کاٹسوکی معافی قبول کرنے سے انکارکردیا۔لوگوں نے کہا کہ ایک پیسے کی مالیاتی غلطی بھی کیونکرہوئی۔خودکشی کرنے کے بعد وزیراعظم ایوی کی حکومت ریٹنگ میں بائیس فیصدکم ہوگئی۔

وزیراعظم نے ٹی وی پرآکرمعافی مانگی کہ اس نے وزیرکی تعیناتی میں غلطی کی تھی۔اس کی بھی اخلاقی ذمے داری بنتی ہے، قوم جو سزا دینا چاہتی ہے۔ وہ حاضرہے۔آنے والے الیکشن میں اس کی جماعت ہارگئی۔ذراسوچیے کہ ایک کروڑ سے کم کی مالیاتی غفلت نے پورے ملک کوہلاکررکھ دیا۔ وہ بھی ایسی رقم جوخزانے میں جمع ہوچکی تھی۔

اب اپنے ملک کے موجودہ سیاستدانوں کی طرف آئیے۔ان میں سے واضع اکثریت انتہائی ڈھٹائی سے حکومت میں رہتے ہوئے کاروبارکررہی ہیں۔حکمران ملیں لگارہے ہیں۔ رشوت وصول کررہے ہیں۔مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔غلطی ثابت ہونے کے باوجودکوئی اپنی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک مثال پر غور کیجئے۔ کہ ہمارے سیاستدانوں نے بے پناہ فائدے کے لیے شوگرملیں لگا کر عام کاروباری آدمی کے لیے مل لگانے پر پابندی لگادی۔یعنی عام کاروباری آدمی شوگرمل نہیں لگا سکتا۔پنجاب کی حدتک تو قانونی پابندی ہے۔

سندھ میں زرداری صاحب کی موجودگی میں کوئی شوگر مل لگانے کی بے وقوفی نہیں کرسکتا۔کیایہ سرکاری اختیارات کا ناجائز کاروباری استعمال نہیں ہے۔ بات کرپشن کی ہورہی تھی۔ اس اَمرپرتوسب متفق ہیں کہ ان دس بر سوں میں ہوشربا کرپشن ہوئی ہے۔ ایک دہائی میں سیاستدان، سرکاری ملازمین اوران کے چیلے وغیرہ،ارب پتی ہوچکے ہیں۔ان میں سے کچھ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔


کئیوں کے خلاف مقدمات عدالتوں میں چل رہے ہیں۔کئی سزابھی بھگت رہے ہیں۔مگر ایک مثال بتادیں جس میں کسی بھی ملزم نے اپنی غلطی تسلیم کی ہو۔ہلکی سی ندامت کا اظہار کیا ہو۔ پاکستانی قوم سے معافی مانگی ہو۔ آپ کو ایک بھی مثال نہیں ملے گی۔ جو جتنا بڑا ڈاکو ہے،وہ اتنا ہی بڑافریبی اوردروغ گوہے۔اربوں ڈکارنے کے بعد،کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کرتا۔

گزرنے والی دہائی میں ہمارے اوپرچار حکمران مسلط رہے ہیں۔آصف زرداری، شہباز شریف، نواز شریف اور عمران خان۔بلوچستان کی حکومت ایک قبائلی طرز کی حکومت ہے اوروہاں مالیاتی کرپشن کی مکمل آزادی ہے بلکہ اسے تقریباً قانونی سندحاصل ہے۔سندھ اور پنجاب میں دیکھیے کہ جولوگ موٹرسائیکلوں اورچھوٹی گاڑیوں میں سوار ہوکر پارلیمنٹ میں آئے تھے،وہ آج ارب پتی کیسے بن گئے۔

اصل میں ہوایہ ہے کہ ان دس برسوں میں کرپشن کا ایک سائنسٹیفک اورمربوط نظام قائم کیا ہے۔سرکاری عمائدین کا ایک گروہ بنایاگیاہے جو کمیشن اور دیگر ناجائز ذرایع سے حاصل کی گئی رقم بڑے اہتمام سے اوپرپہنچاتے رہے ہیں۔ کبھی دبئی کے کسی بینک اکاؤنٹ میں توکبھی کسی دیگرملک میں۔ لوٹ مارکے اس نظام کوابھی تک کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔تھوڑے دن کے لیے رُک گیا ہے۔ مگر اس کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ یہ شکل تبدیل کرکے تھوڑے عرصے بعدواپس آجائیگا۔یہ اَن دیکھانظام ملک کے کسی بھی احتسابی ادارے سے زیادہ طاقتور ہوچکا ہے۔

موجودہ حالات میں ہمارے چندسیاسی خاندانوں نے بہترین بینکر،مالیاتی امورکے ماہر وکلاء اورمشیررکھے ہوئے ہیں۔ انکاکام صرف یہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت،باہرکے ملکوں میں کیسے لیجانی ہے۔ اگر آپ اسحاق ڈارکودیکھیے توبعینہ ہی وہ یہی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ایسے شخص کووزیرخزانہ بنانے کا کیا مقصد تھا، سب کو معلوم ہے۔سندھ میں انور مجید کا بھی یہی کام تھااور ہے۔ چلیے حسین لوائی تھوڑی دیرکے لیے قابو آگیا۔ مگر چند دن بعدوہ بھی ڈاکٹرعاصم کی طرح باہرآکرایمانداری اوراپنی بے گناہی پرتقرریں کررہا ہوگا۔

پنجاب میں صورتحال سندھ سے زیادہ خراب ہے۔یہاں تمام بڑے منصوبوں کو چند سرکاری ملازموں کے حوالے کردیا گیا۔ان کوکھلی چھٹی دیدی گئی کہ بیٹاجاؤ مال بناؤ۔ کچھ خودرکھواورزیادہ ہمیں دے دو۔یہ دھندا سرِعام دس سال سے جاری تھا۔تھوڑے دن بعد شائد دوبارہ کھل جائے۔نام نہیں لکھ سکتا۔کئی ایسے سرکاری افسروں کو جانتاہوں جن کے غیرملکی اکاؤنٹ اربوں میں ہیں۔ان کی تنخواہ صرف اور صرف چندلاکھ تھی۔ وہ جوازہی پیش نہیں کر سکتے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔

معذرت کے ساتھ،ان لوگوں میں سے ننانوے فیصد لوگ آزادپھررہے ہیں۔ان کے بیوی بچے،امریکا یا لندن میں ہیں۔یہ افسر،اس ملک میں صرف اسلیے مقیم ہیںکہ کسی بھی طرح احتساب کے نظام کو غیرموثر بناسکیں۔اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مکمل احتساب کے نظام کو حقیقت میں غیرفعال کردیاگیاہے۔

کے پی واحد صوبہ ہے جس میں معاشی کرپشن بہت کم سطح پر آگئی ہے۔ مکمل طورپر غیرجانبداربات کررہا ہوں۔ وہاں حکومتی اداروں نے لوگوں کے فائدے کے لیے بہت اچھاکام کیا ہے۔رشوت لیے بغیر لوگوں کوان کے حقوق دینے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ نہیں کہ وہاں صورتحال آئیڈیل ہے۔بالکل نہیں۔مگرایک مثبت تبدیلی ضرورآئی ہے۔اس کونہ تسلیم کرنازیادتی ہوگی۔

ذراسوچیے کہ وہ لوگ جنہوں نے فقیدالمثال جھوٹ بول بول کرہمیں بیوقوف بنایا۔جوعام آدمی سے ہاتھ ملانے کے بعدغیرملکی صابن سے ہاتھ دس مرتبہ دھوتے ہیں۔ جو منرل واٹرکے علاوہ نلکے کاپانی پینے کوگناہ سمجھتے ہیں۔ جو حکومت میں رہ کرصنعتی ایمپائرکھڑاکرتے ہیں۔جولندن میں کھربوں روپے کی پراپرٹی خریدتے ہیں۔جنکی اولاد، پاکستانی پاسپورٹ کوہیج اورادنیٰ گردانتی ہے۔جومرسیڈیز،بی ایم ڈبلیو،رولزرائس اورآوڈی سے کمترگاڑیوں پر سفر کرنا بے عزتی سمجھتے ہیں۔

جوسرکاری ہوائی جہازوں کوتکے کباب اور کھانا لانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو چوری کے پیسے پراولاد کو پالنے کے بعدپارسائی کے بھرپوردعوے کرتے ہیں۔ جو گرفتارہونے کے بعد انگلیوں سے وکٹری کانشان بناتے ہیں۔ جوپکڑے جانے کے بعداَزحدبیمارہونے کادعوی کرتے ہیں۔ جوہرطرح کی اخلاقی گراوٹ کاشکار ہیں۔ جو عدالتوں کی سزاکو بے انصافی قراردیکراپنی کرپشن کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔کیاواقعی یہی گروہ ہمارے اوپر حکومت کرنے کے حقدارہیں۔کیاووٹ انھیں ملنا چاہیے۔ کیاواقعی یہ ووٹ کوعزت دلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔نہیں صاحبان نہیں۔

سوشل میڈیا اور میڈیانے اس ملک میں سچ اورجھوٹ کے فرق کوواضح کر دیاہے۔یقین کریں۔ آزاد سوشل میڈیاان کے لیے سزائے موت ہے۔ یہ واحدملک ہے جہاں گناہ گار قطعاً شرمندہ نہیں۔بلکہ شریف اورایماندارلوگ زیادتی کا شکار ہیں۔ توشی کاٹسونے تواپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے خودکشی کرلی،یہاں توکرپٹ ترین لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ اوربشاشت ہی ختم نہیں ہوتی۔ شائدیہ ملک بناہی کرپشن کے لیے ہے؟
Load Next Story