بھوک کیسے مٹے گی

جس ملک کی 80 فیصد دولت پر مٹھی بھر اشرافیہ قبضہ جمائے بیٹھی ہو اس ملک میں بھوک افلاس لازمی بات ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

LONDON:
جمہوری ملک میں سیاسی پارٹیوں کی پہچان ان کے منشور سے ہوتی ہے، پاکستان ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے لیکن اس ملک میں سیاسی پارٹیاں عموماً منشور کے بغیر ہی گلشن کا کاروبار چلاتی ہیں۔ بے چارے عوام اس قدر سادہ لوح ہیں کہ وہ عموماً منشور نامی چیز سے لاعلم ہی رہتے ہیں۔

عوام کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی جماعتیں منشور جیسی اہم دستاویز کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں عوام الیکشن کے موقع پر بہت سے پہلے سیاسی جماعتوں سے ان کے منشور طلب کرتے ہیں اور اس کا مطالعہ اور موازنہ کرنے کے بعد ووٹ سب سے زیادہ بہتر منشور پیش کرنے والی جماعت کو دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ عوام اس پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ برسر اقتدار آنے والی جماعت اپنے پیش کردہ منشور پر عمل کر بھی رہی ہے یا نہیں۔ چونکہ ان کے سبھی نمایندے ان کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں، اس لیے منشور پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ان سے جواب بھی طلب کرتے ہیں۔ اور جماعتوں کا تو علم نہیں ہمارے ملک میں پیپلزپارٹی نے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کیا ہے، جس کا مرکزی آئٹم ''بھوک مٹاؤ'' ہے۔

پی پی کو منشور کے حوالے سے اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے عوام میں متعارف کرایا، روٹی، کپڑا اور مکان پی پی کے منشور کی پہچان بن گیا۔ پی پی اسی نعرے کے حوالے سے عوام میں مقبول ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ پرکشش نعرہ بس نعرہ ہی بن کر رہ گیا۔ بے چارے سادہ لوح پاکستانی عموماً سیاسی جماعتوں کے پرکشش نعروں پر ہی خوش رہتے ہیں۔

بھوک مٹاؤ جیسے نعرے بھارت میں بھی سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جاتے رہے ہیں، ''غریبی ہٹاؤ'' بھارت کی سیاسی جماعتوں کا مقبول نعرہ رہا ہے، یہ نعرہ بلند کیے کئی برس ہو رہے ہیں لیکن بھارت میں آج بھی اتنی ہی بلکہ پہلے سے زیادہ غربت ہے۔ بھارتی عوام اگرچہ سیاسی شعور کے حوالے سے پاکستانی عوام سے نسبتاً آگے ہیں لیکن جمہوریت انھیں کیا کیا حقوق دیتی ہے وہ بھی اس سے نابلد ہیں۔


بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور 1947ء سے بھارتی جمہوریت میں کوئی رخنہ اندازی بھی نہیں ہوئی، 70 سال سے بھارت میں جمہوریت کا دور دورہ ہے لیکن وہاں اب بھی 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور عام آدمی اب بھی دو وقت کی روٹی کے پیچھے ہی بھاگ رہا ہے۔

پی پی پاکستان کی مقبول ترین جماعت رہی ہے اور مرحوم بھٹو پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین رہنما رہے ہیں لیکن پی پی پی نہ اپنے منشور پر عمل درآمد کرسکی، نہ روٹی، کپڑا اور مکان عوام کو مہیا کرسکی۔ پی پی کی مقبولیت عوام کے مسائل حل کرنے کی وجہ نہ تھی بلکہ مرحوم بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے تھی، لیکن جب بھٹو اپنے ان ترقی پسند دوستوں سے الگ ہوگئے جو بھٹو کی مقبولیت میں بنیادی کردار ادا کررہے تھے تو عوام میں اس کی مقبولیت ختم ہوتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے الگ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ لیکن بھٹو کے لیے جان دینے والے عوام بھٹو کو جان سے جاتا ہوا دیکھتے رہے لیکن ٹس سے مس نہیں ہوئے، اگر بھٹو اپنے ترقی پسند دوستوں سے بے وفائی نہ کرتے اور وڈیروں کے ساتھی نہ بنتے تو نہ ان کی مقبولیت میں کمی آتی نہ ضیا الحق کو انھیں تختہ دار پر لے جانے کی ہمت ہوتی۔

2008ء سے 2013ء تک پی پی کو اقتدار میں رہنے کا موقع ملا، اگر پیپلزپارٹی کی قیادت عوام کی ہمدرد ہوتی اور عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتی تو پی پی پی عوام میں دوبارہ مقبول ہوتی لیکن پی پی کی قیادت عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ایسے راستے پر چل پڑی جو نہ صرف اس کی بدنامی کا باعث بن گئے بلکہ عوام سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ بھٹو کس قدر مصلحت پسند ہوگئے اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب بھٹو نے شملہ جانے سے پہلے شہر کے معروف لوگوں سے ملنا شروع کیا، ایسی ہی ایک ملاقات میں ہم اور ہمارے دوستوں نے سندھ حکومت کے ایک بدنام وزیر کی شکایت کی اور انھیں بتایاکہ اس وزیر کی وجہ سے پی پی بدنام ہورہی ہے تو بھٹو نے کہا اقتدار کے تقاضے ہوتے ہیں کہ غلط لوگوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔

پیپلزپارٹی نے اپنے منشور کا اعلان کیا ہے جس کا مرکزی نکتہ بھوک مٹاؤ ہے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، اسے اگر انتخابی نعروں تک محدود رکھا جاتا ہے تو یہ ایک عمومی نعرہ بازی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، لیکن اگر اس نعرے کو یا منشور کے بنیادی آئٹم کو سنجیدہ لیا جائے تو بھوک مٹاؤ ایک انتہائی مشکل اور گمبھیر کام ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھوک پیدا کیوں ہوتی ہے؟ دنیا بھر میں جہاں بھوک ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اناج کی قلت ہے، ہر قسم کے اناج سے ملک کی منڈیاں بھری ہوتی ہیں لیکن اس ملک کے غریب عوام میں قوتِ خرید نہیں۔

جس ملک کی 80 فیصد دولت پر مٹھی بھر اشرافیہ قبضہ جمائے بیٹھی ہو اس ملک میں بھوک افلاس لازمی بات ہے۔ اگر اس ملک سے بھوک مٹانا ہے تو اس اشرافیہ کے گلے پر ہاتھ ڈالنا پڑے گا جو عوام کے خون پسینے کی کمائی اربوں کھربوں کے سرمائے پر سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے، پاناما لیکس اس کلاس کی لوٹی ہوئی دولت کو منظر عام پر لے آیا ہے۔ ہمارے انتخابی نامزدگی کے ساتھ پیش کیے جانے والے حلف ناموں کے مطالبے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشرافیہ ہی نہیں اس کے دم چھلوں نے کتنی بھاری رقم اور جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اگر بھوک مٹانا ہو تو عوام کی دولت پر قبضہ جمائی ہوئی عوام دشمن اشرافیہ اور اس کے محافظوں کو مٹانا ہوگا۔
Load Next Story