شکست سامراج کا مقدر ہے
اگلے ایک سال کے دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بالادست قوت کے...
پاکستان بننے کے اتنے عرصے بعد بھی بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ آزادی کے بعد پاکستان کا جھکائو امریکا کی طرف کیوں ہوگیا۔ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتاہی چلا گیا۔ پاکستانیوں کی اکثریت کو اس راز سے قعطاً آگاہی نہیں۔ یہ یکم مئی 1947ء کا گرم دن تھا یعنی پاکستان کی آزادی سے تقریباً چار ماہ پہلے جب قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ''بمبئی کی رہائش گاہ پر دو امریکی سفارت کاروں سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں قائد اعظم نے ان معزز مہمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایک آزاد، خود مختار پاکستان کا قیام امریکی مفادات کے مطابق ہوگا۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہوگا اور مسلمان ممالک روسی جارحیت کے خلاف متحد ہوجائیں گے۔'' جب برصغیر ''آزاد'' ہوا، اس وقت سرمایہ دارانہ نظام شدید خطرے سے دوچار تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ نے عالمی سرمایہ داری نظام کے بحران کو انتہا پر پہنچا دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد روسی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا اور وہاں سوشلسٹ نظام معیشت قائم ہوگیا۔
اس نظام نے روسی عوام کو خوراک، صحت، تعلیم اور رہائش کی انتہائی ارزاں سہولتیں مہیا کیں کہ مغربی یورپ کے عوام بھی اپنے حکمران طبقات سے ان سہولتوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ خطرہ یہ تھا کہ کہیں باقی دنیا بھی سوشلسٹ معیشت کو نہ اپنالے۔ یورپ میں سوشلزم کی عوامی مقبولیت کی پیش رفت اتنی زیادہ تھی کہ جرمنی اس کا مرکز بن گیا۔ سامراج کے لیے یہ صورت حال خطرے کا بہت بڑا الارم تھی کہ اگر جرمن عوام سوشلسٹ معیشت کو اپنا لیتے تو باقی یورپ بھی اس سیلاب میں بہہ جاتا چنانچہ روسی جارحیت (سوشلزم) کو روکنا لازم ٹھہرا تاکہ امریکی مفادات یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جاسکے۔
تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی سوشلسٹ تحریک کو روکنے کے لیے جرمنی میں ہٹلر کی سرپرستی میں نازی ازم کو فروغ دیا گیا جس کے بطن سے دوسری عالمی جنگ نے جنم لیا۔ سامراج کی اس سازش نے آخر کار روس سے باہر جرمنی میں سوشلزم کے دوسرے بڑے گڑھ کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح عارضی طور اس خطرے کو ٹال دیا گیا لیکن دوسری عالمی جنگ اپنے ساتھ تباہی و بربادی، بھوک ،غربت اور بے روزگاری بھی لائی تو دوسری طرف برٹش سامراج کی وہ نوآبادیاں بھی تھیں جہاں انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ ان میں سے ایک انتہائی اہمیت کا خطہ برصغیر بھی تھا جہاں انقلاب دستک دے رہا تھا۔
ایک طرف روسی سوشلزم دوسری طرف چینی مائو کی سوشلسٹ تحریک جس نے برصغیر کے ماحول کو دو آتشہ سے سہ آتشہ بنا دیا تھا۔ یہی وہ صورتحال تھی جس میں قائداعظم نے اپنی رہائش گاہ پر امریکی سفارت کار مہمانوں کو باور کرایا کہ اس روسی جارحیت کا مقابلہ صرف پاکستان ہی نہیں کرے گا بلکہ دوسرے مسلم ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ پھر جب وقت آیا تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح 80ء کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ دوسرے مسلم ممالک افغانستان میں سوویت یونین کو تباہ کرنے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔
ان کے پیچھے امریکا کی سرپرستی میں پورا کیپیٹل ازم کھڑا تھا۔ جو بات سمجھنے کی ہے اور یہ بات 65ء سال بعد اپنے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی آزادی غیر مشروط نہیں مشروط تھی۔ یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتی رہی کیوں کہ اس ایجنڈے کا تقاضا ہی یہی تھا۔ جن حکمران طبقوں کو پاکستان میںاقتدار دیا گیا وہ اس سے انحراف نہیں کرسکتے تھے۔
سوائے پاکستانی عوام کے جو انقلاب برپا کرکے ان زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کرواسکتے تھے لیکن امریکی سامراج کے پاس اس کا توڑ تھا کہ اس نے اسلامی تاریخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی سادہ لوح عوام کو اس بڑے پیمانے پر مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت میں جھونک دیا کہ اب امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنا ناممکن سا ہوگیا ہے کیونکہ پاکستانی عوام امریکا اور اس کے اتحادی پاکستانی حکمران طبقوں کے خلاف طبقاتی جنگ لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ اور امریکا چاہتا بھی یہی تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراج کی یہ مجبوری بن گئی کہ وہ اپنی نوآبادیوں کو ''آزادی'' دے کیونکہ اس کے بغیر وہ سوشلزم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس نے چالاکی یہ کی کہ اپنی دنیا بھر میں پھیلی نوآبادیات میں اقتدار ان طبقوں کو سونپ دیا جن کو ''خود'' اس نے تخلیق کیا اور جن کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ اس میں پاکستان بھارت کے بیشتر زعما بھی شامل تھے۔ یہ سامراج کی وہ کامیاب اسٹرٹیجی تھی جس کا فائدہ پاکستان اور بھارت میں آج بھی وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی شکل میں اٹھارہا ہے۔
اسی طرح کے حالات فلپائن، جنوبی کوریا میں بھی تھے جن کے انتہائی قیمتی قدرتی وسائل اور محل و قوع سامراج کی زندگی کے لیے ناگزیر تھے۔ پاکستان کی طرح ان ممالک کو بھی جب آزادی دی گئی تو بہت جلد ان ممالک پر بھی وہاں کی افواج کا غلبہ (قبضہ) ہوگیا اور وہاں کی عدلیہ میڈیا اس کا حصہ بن گئے۔ سیاستدانوں کی کردار کشی ہونی لگی جس طرح پاکستان میں پچھلے 65 سال سے ہورہی ہے۔ جب سیاستدانوں کو گالی دی جاتی ہے تو حقیقت میں وہ گالی عوام کو دی جارہی ہوتی ہے کیونکہ سیاستدانوں کو عوام ہی منتخب کرتے ہیں ۔
یہ بات پاکستانی عوام کو یاد رکھنے کی ہے کہ جس دن پاکستان پر سے اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ختم ہوگا، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں ایک قلیل مدت میں نمایاں کمی آجائے گی۔ ہمارا خطہ بڑی ''ریڈیکل'' تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ٹوٹنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چار سال سے سیاستدانوں کی کردار کشی اور گالم گلوچ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور اس پس منظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کرنے کے لیے میڈیا اور دوسرے ادارے پیش پیش ہیں۔
میڈیا اور دوسرے اداروں سے تعلق رکھنے والوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہ لوگ غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے قلم اور زبان سے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر حکمران طبقوں اور عالمی سامراج کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسی طبقے سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی ہزاروں سال کی جدوجہد نے دنیا بھر میں آخر کار ہر ادارے کو ذلت آمیز شکست فاش سے دوچار کیا ہے ۔
ظلم اور استحصال غلامی کے خلاف یہ عوام کا بہنے والا مقدس خون ہی تھا۔ جس کے نتیجے میں انسانوں کو وہ آزادیاں نصیب ہوئیں جن کا ماضی میں خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ ابھی یہ سفر جاری ہے۔۔۔ جوہمیشہ جاری رہے گا۔
اگلے ایک سال کے دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بالادست قوت کے خاتمے کا آغاز ہوجائے گا۔
ایک ضروری وضاحت:۔ محترم قارئین اگر کسی دن اتفاق سے مجھ سے رابطہ نہ ہوسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں کچھ انتہائی حساس معاملات میں مصروف ہوں۔ ایسی صورت میں اگلے دن رابطہ کریں۔ شکریہ
اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا 6 بجے شام
سیل فون نمبر:۔0346-4527997
اس ملاقات میں قائد اعظم نے ان معزز مہمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایک آزاد، خود مختار پاکستان کا قیام امریکی مفادات کے مطابق ہوگا۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہوگا اور مسلمان ممالک روسی جارحیت کے خلاف متحد ہوجائیں گے۔'' جب برصغیر ''آزاد'' ہوا، اس وقت سرمایہ دارانہ نظام شدید خطرے سے دوچار تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ نے عالمی سرمایہ داری نظام کے بحران کو انتہا پر پہنچا دیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد روسی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا اور وہاں سوشلسٹ نظام معیشت قائم ہوگیا۔
اس نظام نے روسی عوام کو خوراک، صحت، تعلیم اور رہائش کی انتہائی ارزاں سہولتیں مہیا کیں کہ مغربی یورپ کے عوام بھی اپنے حکمران طبقات سے ان سہولتوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ خطرہ یہ تھا کہ کہیں باقی دنیا بھی سوشلسٹ معیشت کو نہ اپنالے۔ یورپ میں سوشلزم کی عوامی مقبولیت کی پیش رفت اتنی زیادہ تھی کہ جرمنی اس کا مرکز بن گیا۔ سامراج کے لیے یہ صورت حال خطرے کا بہت بڑا الارم تھی کہ اگر جرمن عوام سوشلسٹ معیشت کو اپنا لیتے تو باقی یورپ بھی اس سیلاب میں بہہ جاتا چنانچہ روسی جارحیت (سوشلزم) کو روکنا لازم ٹھہرا تاکہ امریکی مفادات یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جاسکے۔
تیزی سے بڑھتی اور پھیلتی سوشلسٹ تحریک کو روکنے کے لیے جرمنی میں ہٹلر کی سرپرستی میں نازی ازم کو فروغ دیا گیا جس کے بطن سے دوسری عالمی جنگ نے جنم لیا۔ سامراج کی اس سازش نے آخر کار روس سے باہر جرمنی میں سوشلزم کے دوسرے بڑے گڑھ کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح عارضی طور اس خطرے کو ٹال دیا گیا لیکن دوسری عالمی جنگ اپنے ساتھ تباہی و بربادی، بھوک ،غربت اور بے روزگاری بھی لائی تو دوسری طرف برٹش سامراج کی وہ نوآبادیاں بھی تھیں جہاں انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ ان میں سے ایک انتہائی اہمیت کا خطہ برصغیر بھی تھا جہاں انقلاب دستک دے رہا تھا۔
ایک طرف روسی سوشلزم دوسری طرف چینی مائو کی سوشلسٹ تحریک جس نے برصغیر کے ماحول کو دو آتشہ سے سہ آتشہ بنا دیا تھا۔ یہی وہ صورتحال تھی جس میں قائداعظم نے اپنی رہائش گاہ پر امریکی سفارت کار مہمانوں کو باور کرایا کہ اس روسی جارحیت کا مقابلہ صرف پاکستان ہی نہیں کرے گا بلکہ دوسرے مسلم ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ پھر جب وقت آیا تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح 80ء کی دہائی میں پاکستان کے ساتھ دوسرے مسلم ممالک افغانستان میں سوویت یونین کو تباہ کرنے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔
ان کے پیچھے امریکا کی سرپرستی میں پورا کیپیٹل ازم کھڑا تھا۔ جو بات سمجھنے کی ہے اور یہ بات 65ء سال بعد اپنے پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی آزادی غیر مشروط نہیں مشروط تھی۔ یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خاں سے لے کر آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتی رہی کیوں کہ اس ایجنڈے کا تقاضا ہی یہی تھا۔ جن حکمران طبقوں کو پاکستان میںاقتدار دیا گیا وہ اس سے انحراف نہیں کرسکتے تھے۔
سوائے پاکستانی عوام کے جو انقلاب برپا کرکے ان زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کرواسکتے تھے لیکن امریکی سامراج کے پاس اس کا توڑ تھا کہ اس نے اسلامی تاریخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی سادہ لوح عوام کو اس بڑے پیمانے پر مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت میں جھونک دیا کہ اب امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنا ناممکن سا ہوگیا ہے کیونکہ پاکستانی عوام امریکا اور اس کے اتحادی پاکستانی حکمران طبقوں کے خلاف طبقاتی جنگ لڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ اور امریکا چاہتا بھی یہی تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراج کی یہ مجبوری بن گئی کہ وہ اپنی نوآبادیوں کو ''آزادی'' دے کیونکہ اس کے بغیر وہ سوشلزم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس نے چالاکی یہ کی کہ اپنی دنیا بھر میں پھیلی نوآبادیات میں اقتدار ان طبقوں کو سونپ دیا جن کو ''خود'' اس نے تخلیق کیا اور جن کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ اس میں پاکستان بھارت کے بیشتر زعما بھی شامل تھے۔ یہ سامراج کی وہ کامیاب اسٹرٹیجی تھی جس کا فائدہ پاکستان اور بھارت میں آج بھی وہ اپنے مفادات کے تحفظ کی شکل میں اٹھارہا ہے۔
اسی طرح کے حالات فلپائن، جنوبی کوریا میں بھی تھے جن کے انتہائی قیمتی قدرتی وسائل اور محل و قوع سامراج کی زندگی کے لیے ناگزیر تھے۔ پاکستان کی طرح ان ممالک کو بھی جب آزادی دی گئی تو بہت جلد ان ممالک پر بھی وہاں کی افواج کا غلبہ (قبضہ) ہوگیا اور وہاں کی عدلیہ میڈیا اس کا حصہ بن گئے۔ سیاستدانوں کی کردار کشی ہونی لگی جس طرح پاکستان میں پچھلے 65 سال سے ہورہی ہے۔ جب سیاستدانوں کو گالی دی جاتی ہے تو حقیقت میں وہ گالی عوام کو دی جارہی ہوتی ہے کیونکہ سیاستدانوں کو عوام ہی منتخب کرتے ہیں ۔
یہ بات پاکستانی عوام کو یاد رکھنے کی ہے کہ جس دن پاکستان پر سے اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ختم ہوگا، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں ایک قلیل مدت میں نمایاں کمی آجائے گی۔ ہمارا خطہ بڑی ''ریڈیکل'' تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پر بھی اسٹیبلشمنٹ کا قبضہ ٹوٹنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چار سال سے سیاستدانوں کی کردار کشی اور گالم گلوچ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے اور اس پس منظر میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد کرنے کے لیے میڈیا اور دوسرے ادارے پیش پیش ہیں۔
میڈیا اور دوسرے اداروں سے تعلق رکھنے والوں کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہ لوگ غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود اپنے قلم اور زبان سے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر حکمران طبقوں اور عالمی سامراج کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسی طبقے سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کی ہزاروں سال کی جدوجہد نے دنیا بھر میں آخر کار ہر ادارے کو ذلت آمیز شکست فاش سے دوچار کیا ہے ۔
ظلم اور استحصال غلامی کے خلاف یہ عوام کا بہنے والا مقدس خون ہی تھا۔ جس کے نتیجے میں انسانوں کو وہ آزادیاں نصیب ہوئیں جن کا ماضی میں خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ ابھی یہ سفر جاری ہے۔۔۔ جوہمیشہ جاری رہے گا۔
اگلے ایک سال کے دوران پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بالادست قوت کے خاتمے کا آغاز ہوجائے گا۔
ایک ضروری وضاحت:۔ محترم قارئین اگر کسی دن اتفاق سے مجھ سے رابطہ نہ ہوسکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں کچھ انتہائی حساس معاملات میں مصروف ہوں۔ ایسی صورت میں اگلے دن رابطہ کریں۔ شکریہ
اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا 6 بجے شام
سیل فون نمبر:۔0346-4527997