ضروریات
عوام خوش ہیں ایسے لوگوں کی پکڑ ہے جن کو دعویٰ تھا کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا۔
شاید ہم نے ملک کے غریب عوام کے بارے میں سوچا تک نہیں، اگر سوچتے تو کچھ کرتے، وجہ کچھ نہ ہونے کی یہی ہے۔ میری مراد ان لوگوں اور برسر اقتدار اشخاص سے ہے، ویلفیئر، فلاحی ادارے قابل تحسین ہیں جو کام ہماری حکومت کو کرنا چاہیے وہ یہ فلاحی ادارے کر رہے ہیں۔ غریب کو صرف ایک یا چند یوم کھانا کھلانے سے بنیادی مسائل دور نہیں ہوں گے۔
افسوس اس امر پر ہر ووٹنگ کے وقت عوام سے جھوٹے وعدے دعوے کیے گئے، جب برسر اقتدار آئے تو اپنے کیے وعدوں کو نہ صرف فراموش کیا بلکہ عوام کے مال و زر کو خوب لوٹا کل وہ کیا تھے آج کیا ہوگئے۔ مجھے اندازہ ہے اس بدمعاشیہ کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا، ایک نہیں دوسرا بے وقوف بنائے گا یہ معصوم، سادہ عوام جس طرح پہلے بے وقوف بنی اب بھی اسی ڈگر پر رہے گی۔
بڑی بات ہے اس ملک کے عوام محنتی، وفادار، کھلے دل کے ہیں اپنا نقصان نہیں سوچتے، دوسروں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں نکتہ سنج، دانا و بینا کھانے کمانے لوٹنے، ڈاکہ ڈالنے والے لوگ اپنا کام دکھاتے رہے شاید آیندہ بھی وہ اپنے مقاصد کی خاطر ماضی والا کام جاری رہے گا۔ پہلے ان کے خلاف کچھ نہ ہوسکا امید نہیں ان کے خلاف اب کچھ ہوسکتا ہے اندرونی طور پر بیرونی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کی غلطیاں عوام کو بھگتنا پڑتی ہیں معیشت بدحال کرنے والا کون؟ عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے والا کون؟ غریب کو غریب تر کرنے والا کون؟ اشیا پر قیمتیں بڑھانے والا کون؟
یہ چند سوالات ہیں جب کہ متعدد سوالات ہیں جن کا جواب عوام مانگ رہے ہیں لیکن جواب دینے کے بجائے وہی مکاری، عیاری، چالبازی جو ان کا شیوہ ہے جھوٹ اس قدر بولیں کہ سچ جھوٹ معلوم دے اور جھوٹ سچ لگے ان لوگوں کی مہارت ہے جھوٹے وعدے بلند بانگ دعوے کرنے کی۔ لیکن اب میں سمجھ رہا ہوں پاکستان میڈیا نے بڑا کام کیا عوام کو ان چور، ڈاکو، عیار، مکار، چالبازوں کے بارے میں پردہ چاک کردیا جس کی وجہ سے ایک عام مزدور چھابڑی والا حتیٰ کہ گاؤں میں بھی لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے۔
میڈیا قابل تحسین ہے اس نے وقت پر عوام کو حقائق سے روشناس کردیا سارا کریڈٹ عوام خود میڈیا کو دے رہے ہیں باقاعدگی سے وہ ایسے پروگرام توجہ سے دیکھتے ہیں جن میں حقائق کا ذکر ہوتا ہے اور بدمعاشیہ کا پردہ چاک کیا جاتا ہے۔ شرم اور غیرت کی بات ہے میرے کلن خان جیسے دوست اچھی بات کہتے ہیں جن کو میں دہراتا ہوں انھوں نے کہا اگر شرم اور غیرت ہوتی تو وہ اس ملک میں چوری، ڈاکا، غداری، مکاری، عیاری، جھوٹے وعدے کبھی نہ کرتے، بڑے عرصے سے ایسی باتیں سن کر اب وہ سچ سننا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے، بلکہ وہ تو سر عام ان سے سوال کر رہے ہیں جس کا جواب ان کے پاس نہیں۔
بات صحیح ہے ایسا ہی ہونا چاہیے بہت لوٹ مار کرلی کب تک بچیں گے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں عوام نے بھی ان کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ بدمعاشیہ کو خوف کھانا چاہیے اگر عوام ٹینشن میں آگئے تو کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ ان کے گھروں میں گھس کر ان کو گھسیٹیں ان کے لیے یہ برا وقت ہوگا۔ بہتر یہی ہے جس قدر رقم لوٹی ہے ٹیکس کا زر کھایا، ملک کی عوام کو خوشحالی کے بجائے غربت دی اس کو قومی خزانے میں جمع کردیں ان کے لیے بہتر ہے اور ملک و قوم کے لیے ان کا لوٹ مار کا زر ترقی کا سبب بنے گا۔
ملکی انتخابات گزرتے دن کے ساتھ قریب ہوتے جا رہے ہیں یہ اس ملک کا پہلا الیکشن ہے جب عوام نے جھوٹے، بلند دعوے کرنے والے کو پہچان لیا ہے اس کا ثبوت وہ سوالات ہیں جو عوام ان سے کر رہے ہیں جس کا ان کے پاس جواب نہیں۔ امید نظر آرہی ہے ایسے لوگ منتخب نہیں ہوسکیں گے خواہ کتنا زر خرچ کرلیں ناکامی ان کا مقدر ہے۔
کلن خان آج بڑی باتیں سناتے رہے ہیں، سنتا رہا، میں نے ان سے کہا میاں کلن خان! ''عقل مند اشارہ کافی است'' بولے میرا محاورہ مجھ پر؟ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے کہا یہ تو ایک ہے نہ جانے کتنی باتیں میں آپ کی دوسروں سے کرتا ہوں کوئی شخص اچھی بات کرے اس کو دہرانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے آپ نے کئی سال قبل جو کچھ کہا وہ سب پورا ہوا اور ہو رہا ہے میں سمجھتا ہوں آپ دور اندیش ہیں۔
بولے خان صاحب! میں دور اندیش نہیں بلکہ میں جن صاحب فکر، دانشوروں سے ملتا ہوں یہ سب باتیں ان کی ہیں جو ان لوگوں نے کہا وہ میں نے آپ کو بتایا جو سب پورا ہوا مزید پورا ہوگا۔ عوام خوش ہیں ایسے لوگوں کی پکڑ ہے جن کو دعویٰ تھا کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا کہا جاتا تھا ان کے پاس بڑے ذریعے ہیں اندرون ملک سے لے کر بیرون ممالک تک ان کا اثر و رسوخ ہے۔ اپنے رسوخ استعمال کیے جو ہر دفعہ وہی رسوخ کام آتے تھے اس دفعہ وہ سارے لاچار ہوگئے بہت ہاتھ پیر مارے کہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ان کے بیانات بتا رہے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں اداروں کو برا کہنا اپنی ذات کو افضل بتانا عوام کو ان کی کسی بات پر یقین نہیں معصومیت، عیاری اب سب ہی بے کار ہے۔
افسوس اس امر پر ہر ووٹنگ کے وقت عوام سے جھوٹے وعدے دعوے کیے گئے، جب برسر اقتدار آئے تو اپنے کیے وعدوں کو نہ صرف فراموش کیا بلکہ عوام کے مال و زر کو خوب لوٹا کل وہ کیا تھے آج کیا ہوگئے۔ مجھے اندازہ ہے اس بدمعاشیہ کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا، ایک نہیں دوسرا بے وقوف بنائے گا یہ معصوم، سادہ عوام جس طرح پہلے بے وقوف بنی اب بھی اسی ڈگر پر رہے گی۔
بڑی بات ہے اس ملک کے عوام محنتی، وفادار، کھلے دل کے ہیں اپنا نقصان نہیں سوچتے، دوسروں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں نکتہ سنج، دانا و بینا کھانے کمانے لوٹنے، ڈاکہ ڈالنے والے لوگ اپنا کام دکھاتے رہے شاید آیندہ بھی وہ اپنے مقاصد کی خاطر ماضی والا کام جاری رہے گا۔ پہلے ان کے خلاف کچھ نہ ہوسکا امید نہیں ان کے خلاف اب کچھ ہوسکتا ہے اندرونی طور پر بیرونی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ حکمرانوں کی غلطیاں عوام کو بھگتنا پڑتی ہیں معیشت بدحال کرنے والا کون؟ عوام کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے والا کون؟ غریب کو غریب تر کرنے والا کون؟ اشیا پر قیمتیں بڑھانے والا کون؟
یہ چند سوالات ہیں جب کہ متعدد سوالات ہیں جن کا جواب عوام مانگ رہے ہیں لیکن جواب دینے کے بجائے وہی مکاری، عیاری، چالبازی جو ان کا شیوہ ہے جھوٹ اس قدر بولیں کہ سچ جھوٹ معلوم دے اور جھوٹ سچ لگے ان لوگوں کی مہارت ہے جھوٹے وعدے بلند بانگ دعوے کرنے کی۔ لیکن اب میں سمجھ رہا ہوں پاکستان میڈیا نے بڑا کام کیا عوام کو ان چور، ڈاکو، عیار، مکار، چالبازوں کے بارے میں پردہ چاک کردیا جس کی وجہ سے ایک عام مزدور چھابڑی والا حتیٰ کہ گاؤں میں بھی لوگوں کو معلوم ہوچکا ہے۔
میڈیا قابل تحسین ہے اس نے وقت پر عوام کو حقائق سے روشناس کردیا سارا کریڈٹ عوام خود میڈیا کو دے رہے ہیں باقاعدگی سے وہ ایسے پروگرام توجہ سے دیکھتے ہیں جن میں حقائق کا ذکر ہوتا ہے اور بدمعاشیہ کا پردہ چاک کیا جاتا ہے۔ شرم اور غیرت کی بات ہے میرے کلن خان جیسے دوست اچھی بات کہتے ہیں جن کو میں دہراتا ہوں انھوں نے کہا اگر شرم اور غیرت ہوتی تو وہ اس ملک میں چوری، ڈاکا، غداری، مکاری، عیاری، جھوٹے وعدے کبھی نہ کرتے، بڑے عرصے سے ایسی باتیں سن کر اب وہ سچ سننا چاہتے ہیں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے، بلکہ وہ تو سر عام ان سے سوال کر رہے ہیں جس کا جواب ان کے پاس نہیں۔
بات صحیح ہے ایسا ہی ہونا چاہیے بہت لوٹ مار کرلی کب تک بچیں گے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں عوام نے بھی ان کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ بدمعاشیہ کو خوف کھانا چاہیے اگر عوام ٹینشن میں آگئے تو کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ ان کے گھروں میں گھس کر ان کو گھسیٹیں ان کے لیے یہ برا وقت ہوگا۔ بہتر یہی ہے جس قدر رقم لوٹی ہے ٹیکس کا زر کھایا، ملک کی عوام کو خوشحالی کے بجائے غربت دی اس کو قومی خزانے میں جمع کردیں ان کے لیے بہتر ہے اور ملک و قوم کے لیے ان کا لوٹ مار کا زر ترقی کا سبب بنے گا۔
ملکی انتخابات گزرتے دن کے ساتھ قریب ہوتے جا رہے ہیں یہ اس ملک کا پہلا الیکشن ہے جب عوام نے جھوٹے، بلند دعوے کرنے والے کو پہچان لیا ہے اس کا ثبوت وہ سوالات ہیں جو عوام ان سے کر رہے ہیں جس کا ان کے پاس جواب نہیں۔ امید نظر آرہی ہے ایسے لوگ منتخب نہیں ہوسکیں گے خواہ کتنا زر خرچ کرلیں ناکامی ان کا مقدر ہے۔
کلن خان آج بڑی باتیں سناتے رہے ہیں، سنتا رہا، میں نے ان سے کہا میاں کلن خان! ''عقل مند اشارہ کافی است'' بولے میرا محاورہ مجھ پر؟ مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے کہا یہ تو ایک ہے نہ جانے کتنی باتیں میں آپ کی دوسروں سے کرتا ہوں کوئی شخص اچھی بات کرے اس کو دہرانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے آپ نے کئی سال قبل جو کچھ کہا وہ سب پورا ہوا اور ہو رہا ہے میں سمجھتا ہوں آپ دور اندیش ہیں۔
بولے خان صاحب! میں دور اندیش نہیں بلکہ میں جن صاحب فکر، دانشوروں سے ملتا ہوں یہ سب باتیں ان کی ہیں جو ان لوگوں نے کہا وہ میں نے آپ کو بتایا جو سب پورا ہوا مزید پورا ہوگا۔ عوام خوش ہیں ایسے لوگوں کی پکڑ ہے جن کو دعویٰ تھا کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا کہا جاتا تھا ان کے پاس بڑے ذریعے ہیں اندرون ملک سے لے کر بیرون ممالک تک ان کا اثر و رسوخ ہے۔ اپنے رسوخ استعمال کیے جو ہر دفعہ وہی رسوخ کام آتے تھے اس دفعہ وہ سارے لاچار ہوگئے بہت ہاتھ پیر مارے کہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ان کے بیانات بتا رہے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں اداروں کو برا کہنا اپنی ذات کو افضل بتانا عوام کو ان کی کسی بات پر یقین نہیں معصومیت، عیاری اب سب ہی بے کار ہے۔