14 اگست کا سبق
میرے والدین‘ ان کا خاندان اور قبیلہ مشرقی پنجاب سے لٹ پٹ کر لاہور...
سال میں ایک بار 14 اگست کا دن آتا ہے' اسے پاکستان کا یوم آزادی کہا جاتا ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو میرا جواب ہوگا کہ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ تو یقیناً اس روز مادر پدر آزاد ہو گیا' اسے کسی سے مقابلے یا مسابقت کا ڈر اور خوف نہ رہا۔ وہ اس نئے ملک کا حاکم' سرکاری افسر اور صنعتکار بن گیا۔ جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کا اقتدار بھی جوں کا توں قائم رہا، متحدہ ہندوستان میں شاید ایسا نہ ہوسکتا، یوں اس منہ زور اور بے مہار طبقے کو آزادی کا جشن دھوم دھڑکے سے منانا چاہیے لیکن میرے لیے آزادی کا یہ دن جب بھی آتا ہے پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔
بعض قارئین شاید میری اس بات کا برا منائیں، میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے ان جذبات کے پس منظر میں ایک درد بھری کہانی ہے۔ میرے والدین' ان کا خاندان اور قبیلہ مشرقی پنجاب سے لٹ پٹ کر لاہور آئے تھے۔ انھیں بلوائیوں نے زبردستی گھروں سے نکال دیا تھا۔ یہ بلوائی سکھ تھے، میں انھیں مجرم اس لیے نہیں سمجھتا کہ مغربی پاکستان میں بھی سکھوں اور ہندوئوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ سارا پنجاب انتقام اور نفرت کی آگ میں جل رہا تھا۔ میرے خاندان اور قبیلے کے ساتھ ہونے والا سلوک اس ضرب المثل پر صادق آتا ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔
میرے والد صاحب اجڑنے کے وہ لمحات یوں بیان کیا کرتے تھے،''سارے گائوں والوں نے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیے' مویشیوں کے رسے کھول کر انھیں آزاد کر دیا' کھیتوں میں فصلیں کھڑی تھیں' انھیں ایک نظر دیکھ کر خدا حافظ کہا اور ایک بے نام منزل کی طرف چل دیے''۔ جب یہ لوگ پاکستان پہنچے تو ان کے کئی عزیز اور ساتھی راستے میں قتل ہوئے یا بیماریوں سے مرگئے' وہ پہاڑی علاقے کے انتہائی سادہ لوح دیہاتی تھے۔ گوجری اور ہندی لہجے میں رچی پنجابی بولنے والے۔
لاہور آ کر انھوں نے اس مسلمان ایم ایل اے سے ملنے کی کوشش کی جسے انھوں نے ہندوستان میں ووٹ دیے تھے' وہ بااثر شخص تقسیم سے پہلے ہی لاہور آ کر مزے کی زندگی گزار رہا تھا' اس نے لوگوں کو ملنے سے انکار کر دیا تھا' اس کے بعد ان لوگوں کے مصائب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا' وہ زمیندار سے دیہاڑی دار مزدور میں تبدیل ہو گئے اور برسوں کی جدوجہد کے بعد اس قابل ہوئے کہ اپنی زرعی زمینیں الاٹ کرا سکیں۔ یہ ذاتی دکھ اور کرب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم جہاں چند خاندانوںاور شخصیات کے لیے اقتدار و اختیار کی سیڑھی بنی، وہاں لاکھوں خاندانوں کو ایسے دکھ اور المیے دے گئی جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہیں گے۔
پاکستان قائم ہوا تو ابتدا میں یہاں ان شخصیات کا اقتدار قائم ہوا' جن کا تعلق بنگال یا یو پی، سی پی کے اشراف سے تھا۔ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم بنے حالانکہ وہ پاکستان کے کسی حلقے سے منتخب ہوئے نہ کبھی یہاں قیام پذیر رہے۔ سکندر مرزا بنگال کے خاندان سے تھے' میں ان کی خاندانی تاریخ کا ذکر نہیںکرنا چاہتا کہ اس حمام میں بہت سے اشراف ننگے ہیں، صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مرزا صاحب بھی اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں لیکن موصوف خود کو بنگالی کہلاتے تھے نہ بنگلہ زبان پڑھ سکتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین بھی بنگال سے تھے اور حسین شہید سہروردی بھی بنگالی تھے۔
یہ شخصیات بنگال کی مسلم اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مغربی پاکستانیوں کا اقتدار تو ایوب خان سے شروع ہوتا ہے اور یہیں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں لکھاریوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کے حقوق کو پامال کیا' بنگلہ زبان کی جگہ اردو کو رائج کیا وغیرہ وغیرہ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ چند اور عوامل کو بھی زیر غور لانا چاہیے۔ بنگال کی مسلم اشرافیہ بھی پاکستان کے اقتدار کی متمنی تھی' اگر اسے بنگال کی تہذیب و ثقافت، تاریخ اور زبان سے محبت ہوتی تو متحدہ ہندوستان اور متحدہ بنگال کی حامی ہوتی۔
نواب سلیم اللہ خان' خواجہ ناظم الدین' حسین شہید سہروردی بنگالی قومیت کے حامی ہوتے۔ رابندر ناتھ ٹیگور اورشرت چندر چیٹرجی کو پڑھتے۔ ان شخصیات نے دو قومی نظریہ کو ہی سیاسی ہتھیار بنایا تھا۔ اصل مسئلہ اقتدار کا ہی تھا' جب تک بنگالیوں کی مسلم اشرافیہ سکندر مرزا' خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کی صورت میں اقتدار میں رہی' اسے مغربی پاکستان سے کوئی شکایت نہ ہوئی۔ بہت سے لوگوں کو شاید معلوم ہو کہ 1956ء میں ہونے والے فسادات کو رکوانے میں خواجہ ناظم الدین کی کمزوری، کم علمی یا کوتاہی کا دخل تھا' اگر وہ اس وقت فسادیوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے احکامات جاری کر دیتے تو آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔
عرض یہ ہے کہ جب تک بنگال سے تعلق رکھنے والی مسلم اشرافیہ اقتدار میں رہی سب کچھ ٹھیک تھاجیسے ہی مغربی پاکستان نے اختیارات پر کنٹرول حاصل کیا' انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور بنگالی نیشنل ازم کو ہتھیار بنا لیا۔ مجھے تو یہ سب کچھ سرد جنگ کے بڑے کھیل کا حصہ لگتا ہے۔ سرد جنگ کا آخری معرکہ چونکہ افغانستان میں برپا ہونا تھا لہٰذا پاکستان پر فوج کا کنٹرول ضروری تھا اور فوج میں مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب کے خطہ پوٹھوہار اور خیبر پختونخوا کی ہندکو بیلٹ کے افراد کی اکثریت تھی۔
ایوب خان کا تعلق اسی ہندکو بولنے والی بیلٹ سے تھا۔ بنگالی سرد جنگ کے عالمی بندوبست میں فٹ نہیں ہوتے تھے' بنگال کی سرحد کسی ایسی ریاست سے نہیں ملتی تھی جو کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے درمیان بفر اسٹیٹ ہو۔ بنگالیوں کی مسلم اشرافیہ کو اس کا احساس تھا' اسی لیے اس نے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اس کا یہ حق تسلیم کر لیا۔
آج کا پاکستان بھی سرد جنگ کے چھوڑے ہوئے نظریاتی خلفشار کا شکار ہے۔ جس نظریے کے بنا پر مسلم اشرافیہ نے پاکستان بنایا تھا، کیپیٹلسٹ ورلڈ کے لیے اس کی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔ اب سرمایہ داروں نے کمیونزم کے خلاف لڑائی نہیں لڑنی، جس میں مذہب فیصلہ کن ہتھیار ہوتا ہے۔ پاکستان کے اقتدار پر قابض مخصوص ذہنیت ساٹھ برس سے من مانی کرتی آئی ہے، وہ اس خطے میں رہتے ہیں، موج مستی کرتے ہیں، اقتدار حاصل کرتے ہیں لیکن مقامی تہذیب، یہاں کے تہواروں اور ثقافت کو ہندوانہ قرار دے کر رد کرتے ہیں۔
یہ بیرونی حملہ آوروں کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے غیرملکی حملہ آوروں سے ساز باز کرکے اپنے ہم وطنوں کو غلام بنایا۔ اب وہ سخت مشکل میںہیں۔ پرانے نظریات کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ افغانستان اور قبائلی علاقے کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ بنا کر دوسروں کے وسائل پر قبضے کی خواہش رکھنے والا طبقہ اپنے ہی تیر کا شکار ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے14 اگست کا یہی سبق ہے کہ حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے، جیسے بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے کیا۔
بعض قارئین شاید میری اس بات کا برا منائیں، میں انھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے ان جذبات کے پس منظر میں ایک درد بھری کہانی ہے۔ میرے والدین' ان کا خاندان اور قبیلہ مشرقی پنجاب سے لٹ پٹ کر لاہور آئے تھے۔ انھیں بلوائیوں نے زبردستی گھروں سے نکال دیا تھا۔ یہ بلوائی سکھ تھے، میں انھیں مجرم اس لیے نہیں سمجھتا کہ مغربی پاکستان میں بھی سکھوں اور ہندوئوں کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں ہوا۔ سارا پنجاب انتقام اور نفرت کی آگ میں جل رہا تھا۔ میرے خاندان اور قبیلے کے ساتھ ہونے والا سلوک اس ضرب المثل پر صادق آتا ہے کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔
میرے والد صاحب اجڑنے کے وہ لمحات یوں بیان کیا کرتے تھے،''سارے گائوں والوں نے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیے' مویشیوں کے رسے کھول کر انھیں آزاد کر دیا' کھیتوں میں فصلیں کھڑی تھیں' انھیں ایک نظر دیکھ کر خدا حافظ کہا اور ایک بے نام منزل کی طرف چل دیے''۔ جب یہ لوگ پاکستان پہنچے تو ان کے کئی عزیز اور ساتھی راستے میں قتل ہوئے یا بیماریوں سے مرگئے' وہ پہاڑی علاقے کے انتہائی سادہ لوح دیہاتی تھے۔ گوجری اور ہندی لہجے میں رچی پنجابی بولنے والے۔
لاہور آ کر انھوں نے اس مسلمان ایم ایل اے سے ملنے کی کوشش کی جسے انھوں نے ہندوستان میں ووٹ دیے تھے' وہ بااثر شخص تقسیم سے پہلے ہی لاہور آ کر مزے کی زندگی گزار رہا تھا' اس نے لوگوں کو ملنے سے انکار کر دیا تھا' اس کے بعد ان لوگوں کے مصائب کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا' وہ زمیندار سے دیہاڑی دار مزدور میں تبدیل ہو گئے اور برسوں کی جدوجہد کے بعد اس قابل ہوئے کہ اپنی زرعی زمینیں الاٹ کرا سکیں۔ یہ ذاتی دکھ اور کرب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم جہاں چند خاندانوںاور شخصیات کے لیے اقتدار و اختیار کی سیڑھی بنی، وہاں لاکھوں خاندانوں کو ایسے دکھ اور المیے دے گئی جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہیں گے۔
پاکستان قائم ہوا تو ابتدا میں یہاں ان شخصیات کا اقتدار قائم ہوا' جن کا تعلق بنگال یا یو پی، سی پی کے اشراف سے تھا۔ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم بنے حالانکہ وہ پاکستان کے کسی حلقے سے منتخب ہوئے نہ کبھی یہاں قیام پذیر رہے۔ سکندر مرزا بنگال کے خاندان سے تھے' میں ان کی خاندانی تاریخ کا ذکر نہیںکرنا چاہتا کہ اس حمام میں بہت سے اشراف ننگے ہیں، صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مرزا صاحب بھی اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں لیکن موصوف خود کو بنگالی کہلاتے تھے نہ بنگلہ زبان پڑھ سکتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین بھی بنگال سے تھے اور حسین شہید سہروردی بھی بنگالی تھے۔
یہ شخصیات بنگال کی مسلم اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مغربی پاکستانیوں کا اقتدار تو ایوب خان سے شروع ہوتا ہے اور یہیں سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوا۔ پاکستان میں لکھاریوں کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ مغربی پاکستان نے بنگالیوں کے حقوق کو پامال کیا' بنگلہ زبان کی جگہ اردو کو رائج کیا وغیرہ وغیرہ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ چند اور عوامل کو بھی زیر غور لانا چاہیے۔ بنگال کی مسلم اشرافیہ بھی پاکستان کے اقتدار کی متمنی تھی' اگر اسے بنگال کی تہذیب و ثقافت، تاریخ اور زبان سے محبت ہوتی تو متحدہ ہندوستان اور متحدہ بنگال کی حامی ہوتی۔
نواب سلیم اللہ خان' خواجہ ناظم الدین' حسین شہید سہروردی بنگالی قومیت کے حامی ہوتے۔ رابندر ناتھ ٹیگور اورشرت چندر چیٹرجی کو پڑھتے۔ ان شخصیات نے دو قومی نظریہ کو ہی سیاسی ہتھیار بنایا تھا۔ اصل مسئلہ اقتدار کا ہی تھا' جب تک بنگالیوں کی مسلم اشرافیہ سکندر مرزا' خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی کی صورت میں اقتدار میں رہی' اسے مغربی پاکستان سے کوئی شکایت نہ ہوئی۔ بہت سے لوگوں کو شاید معلوم ہو کہ 1956ء میں ہونے والے فسادات کو رکوانے میں خواجہ ناظم الدین کی کمزوری، کم علمی یا کوتاہی کا دخل تھا' اگر وہ اس وقت فسادیوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے احکامات جاری کر دیتے تو آج پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔
عرض یہ ہے کہ جب تک بنگال سے تعلق رکھنے والی مسلم اشرافیہ اقتدار میں رہی سب کچھ ٹھیک تھاجیسے ہی مغربی پاکستان نے اختیارات پر کنٹرول حاصل کیا' انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور بنگالی نیشنل ازم کو ہتھیار بنا لیا۔ مجھے تو یہ سب کچھ سرد جنگ کے بڑے کھیل کا حصہ لگتا ہے۔ سرد جنگ کا آخری معرکہ چونکہ افغانستان میں برپا ہونا تھا لہٰذا پاکستان پر فوج کا کنٹرول ضروری تھا اور فوج میں مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب کے خطہ پوٹھوہار اور خیبر پختونخوا کی ہندکو بیلٹ کے افراد کی اکثریت تھی۔
ایوب خان کا تعلق اسی ہندکو بولنے والی بیلٹ سے تھا۔ بنگالی سرد جنگ کے عالمی بندوبست میں فٹ نہیں ہوتے تھے' بنگال کی سرحد کسی ایسی ریاست سے نہیں ملتی تھی جو کمیونزم اور کیپیٹل ازم کے درمیان بفر اسٹیٹ ہو۔ بنگالیوں کی مسلم اشرافیہ کو اس کا احساس تھا' اسی لیے اس نے علیحدگی کا راستہ اختیار کیا اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اس کا یہ حق تسلیم کر لیا۔
آج کا پاکستان بھی سرد جنگ کے چھوڑے ہوئے نظریاتی خلفشار کا شکار ہے۔ جس نظریے کے بنا پر مسلم اشرافیہ نے پاکستان بنایا تھا، کیپیٹلسٹ ورلڈ کے لیے اس کی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔ اب سرمایہ داروں نے کمیونزم کے خلاف لڑائی نہیں لڑنی، جس میں مذہب فیصلہ کن ہتھیار ہوتا ہے۔ پاکستان کے اقتدار پر قابض مخصوص ذہنیت ساٹھ برس سے من مانی کرتی آئی ہے، وہ اس خطے میں رہتے ہیں، موج مستی کرتے ہیں، اقتدار حاصل کرتے ہیں لیکن مقامی تہذیب، یہاں کے تہواروں اور ثقافت کو ہندوانہ قرار دے کر رد کرتے ہیں۔
یہ بیرونی حملہ آوروں کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے غیرملکی حملہ آوروں سے ساز باز کرکے اپنے ہم وطنوں کو غلام بنایا۔ اب وہ سخت مشکل میںہیں۔ پرانے نظریات کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ افغانستان اور قبائلی علاقے کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ بنا کر دوسروں کے وسائل پر قبضے کی خواہش رکھنے والا طبقہ اپنے ہی تیر کا شکار ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے14 اگست کا یہی سبق ہے کہ حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے، جیسے بنگلہ دیش کے مسلمانوں نے کیا۔