الیکشن یا سلیکشن
انتخابات کے آزادانہ و غیر جانبدارانہ انعقاد پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
بڑی عجیب صورتحال ہے، جو کچھ ہورہا ہے وہ پہلے کیے گئے اعلانات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتا۔ اعلان کیا گیا تھا کہ آیندہ 25 تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات صاف، شفاف اور منصفانہ ہوں گے، لیکن اس کے برعکس کیے جانے والے اقدامات کی وجہ سے انتخابات کے آزادانہ و غیر جانبدارانہ انعقاد پر شکوک و شبہات کے بادل منڈلانے لگے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الیکشن کے بجائے سلیکشن ہونے جارہا ہے۔
راولپنڈی سے چوہدری نثار کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار انجینئر قمر الاسلام راجہ کو ٹکٹ ملنے کا اعلان ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا، جس سے لگا جیسے سلیکشن کرنے والوں کو ان کا میدان میں اترنا پسند نہیں آیا۔ شاہد خاقان عباسی کو بھی، جو میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیے جانے اور بعد ازاں الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے تک ملک کے وزیراعظم تھے، یہ کہہ کر تاحیات نااہل قرار دے دیا گیاکہ اپنی کسی جائیداد کی قیمت کم ظاہر کرکے وہ صادق و امین نہیں رہے۔ گویا فیصلہ کرنے والوں کے خیال میں جو آدمی ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے وہ اپنے آبائی حلقے سے الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا یا جو شخص الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے وہ ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔
آپ الیکشن ہوجانے دیتے، قمر الاسلام اگر کسی کیس میں مطلوب تھے تو انھیں بعد میں بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ عدالتوں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کرنا دال میں کالا کے مترادف ہے اور اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر لگا کر سیاستدانوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔ خود چوہدری نثار نے بھی اپنے مخالف امیدوار قمر الاسلام راجہ کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک امیدوار کو گرفتار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسے اقدامات سے الیکشن متنازع ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اﷲ کا کہنا تھا کہ قمرالاسلام کی گرفتاری نیب کی جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
بے یقینی کی اسی صورتحال کی وجہ سے کسی کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کیے جانے اور اس کے اس فیصلے پر کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ سردی ہو، گرمی یا برسات انتخابات بروقت ہوں گے۔ اگرچہ بعد میں ہائی کورٹ کی مداخلت سے شاہد خاقان عباسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی اور الیکشن کمیشن نے اشارہ دیا کہ وہ قمر الاسلام راجہ سمیت بعض امیدواروں کی گرفتاری اور دیگر خلاف ضابطہ کارروائیوں پر نیب سے رابطہ کرنے جارہا ہے، لیکن بعد میں اس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم شروع کردی ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 849 سیٹوں کے لیے 11,855 امیدوار میدان میں ہیں۔ انتخابی مہم میں تشدد کا عنصر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ لیاری میں بلاول کے قافلے پر مخالفین کے پتھراؤ اور فیصل آباد میں تحریک انصاف اور ن لیگی کارکنوں میں فائرنگ کی اطلاعات ملی ہیں۔ جی ایچ کیو نے قصور واقعہ کو غلطی قرار دے کر اپنی پوزیشن واضح کی ہے، جب کہ الیکشن کمیشن کے ایک اعلامیہ کے مطابق اس نے ملتان و نارووال واقعات کا بھی نوٹس لیا ہے۔
الیکشن 2018 میں بعض امیدواروں کو الاٹ ہونے والے جیپ کے انتخابی نشان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے وطن واپسی سے قبل لندن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شفاف الیکشن ہونے کی امید دم توڑ رہی ہے اور ہمارے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ واپس کرکے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے، یہ کھلم کھلا دھاندلی ہے جو عوام ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں جیپ کے نشان پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ لوگ (جیپ کے نشان والے امیدوار) جیت گئے تو وہ ڈکٹیٹ کیا کریں گے۔
الیکشن کے نام پر سلیکشن کا معاملہ اس قدر سیریس نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو یہاں تک کہنا پڑا کہ اگر انتخابات شفاف ہوتے نظر نہ آئے تو بائیکاٹ کا سوچیں گے۔ شاہد خاقان کی اہلیت بحال ہونے کے باوجود سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سینیٹ رکنیت کی معطلی، دانیال عزیز کی نااہلی اور ایک سابق رکن اسمبلی کی سزایابی سے مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کا تاثر ابھرا ہے، جس کی نفی کرنے کے لیے عدلیہ کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کہا گیا کہ توہیں آمیز زبان استعمال کرنے والوں کو شٹ اپ کال دینا ضروری ہے۔
معافی مانگ لینے کے باوجود سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ آنا باقی ہے اور اگر انھیں بھی سزا ہوجاتی ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کے گرد شکنجہ کسے جانے کے تاثر کو تقویت ملے گی۔ حیرت انگیز طور پر ان دنوں جب ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں بعض حلقوں کی طرف سے عدلیہ کی جانب غیر ضروری طور پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، انھیں اس کا موقع قابل احترام چیف جسٹس پاکستان، میاں ثاقب نثار کی بعض ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملا ہے جو ان کے بقول انتظامی امور میں عدالتی مداخلت کے مترادف ہیں اور جن سے عدلیہ کی جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے۔
ان میں ڈیم بنانے جیسے متنازع معاملات کو چھیڑنا اور شیخ رشید جیسے مخالف سیاسی لیڈر کے ساتھ اسپتال کا دورہ کرنے جیسی سرگرمیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایسی سرگرمیوں سے خاص طور انتخابات کے موقع پر اجتناب کرکے بلاوجہ کی تنقید سے بچا جاسکتا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خود عدالتی حلقوں کی طرف سے بھی آنریبل چیف جسٹس کے خلاف خبریں میڈیا کی غذا بننے لگی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے چیف جسٹس کو دیا گیا جواب اس کی تازہ مثال ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں دفاع کا حق حاصل ہے اور اگر چیف جسٹس صاحب کو ان کا چہرہ اچھا نہیں لگتا تب بھی انھیں کھلی عدالت میں ان کی تضحیک کرنے کا حق حاصل نہیں۔
یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس صدیقی کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے۔ دوسری طرف توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کرنے والے امیدواروں نے ہنگامی لائحہ عمل تیار کرلیا ہے جس کے تحت نااہل ہونے کی صورت میں وہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو الیکشن لڑنے کے لیے نامزد کرسکیں گے۔
اس حوالے سے اب تک نااہل ہونے والے دانیال عزیز کی جگہ ان کی اہلیہ اور قصور کے امیدوار کے بیٹے کے الیکشن لڑنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ الیکشن 2018 کا پہلا غیر سرکاری نتیجہ بھی آگیا ہے، جس کے مطابق سندھ کے شہر کشمور کے حلقے پی ایس 6 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شبیر بجارانی بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں۔ ن لیگ سمیت سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی جاری ہے، سردار مہتاب ن لیگ سے اپنی 33 سالہ رفاقت ختم کرکے الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں، ان کے بیٹے اور کزن نے بھی پارٹی ٹکٹ واپس کردیا ہے۔
دریں اثناء تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ضرورت سے زیادہ الیکٹیبلز جمع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی کشتی ہچکولے کھانے لگی ہے، عدلیہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس چھ مہینے رہ گئے ہیں، لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں جب کہ ان کی دوسرے کاموں میں دلچسپی کے نتیجے میں عدلیہ کی کارکردگی کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔
سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی اس حوالے سے چیف جسٹس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں کسی اور کے پیسوں سے کالا باغ ڈیم بنانے کا کوئی حق نہیں، یہ ان کا کام نہیں، لوگوں کو انصاف فراہم کریں، لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر التوا ہیں اور کئی فائلوں کو دیمک کھا گئی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے قائد اسفندیار ولی خان نے خبردار کیا ہے کہ الیکشن متنازع ہوئے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
راولپنڈی سے چوہدری نثار کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار انجینئر قمر الاسلام راجہ کو ٹکٹ ملنے کا اعلان ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا، جس سے لگا جیسے سلیکشن کرنے والوں کو ان کا میدان میں اترنا پسند نہیں آیا۔ شاہد خاقان عباسی کو بھی، جو میاں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیے جانے اور بعد ازاں الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے تک ملک کے وزیراعظم تھے، یہ کہہ کر تاحیات نااہل قرار دے دیا گیاکہ اپنی کسی جائیداد کی قیمت کم ظاہر کرکے وہ صادق و امین نہیں رہے۔ گویا فیصلہ کرنے والوں کے خیال میں جو آدمی ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے وہ اپنے آبائی حلقے سے الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا یا جو شخص الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے وہ ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے۔
آپ الیکشن ہوجانے دیتے، قمر الاسلام اگر کسی کیس میں مطلوب تھے تو انھیں بعد میں بھی گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ شاہد خاقان عباسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ عدالتوں اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کرنا دال میں کالا کے مترادف ہے اور اثاثوں کی تفصیلات ویب سائٹ پر لگا کر سیاستدانوں کو بدنام کیا جارہا ہے۔ خود چوہدری نثار نے بھی اپنے مخالف امیدوار قمر الاسلام راجہ کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک امیدوار کو گرفتار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور ایسے اقدامات سے الیکشن متنازع ہوسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اﷲ کا کہنا تھا کہ قمرالاسلام کی گرفتاری نیب کی جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
بے یقینی کی اسی صورتحال کی وجہ سے کسی کو الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کیے جانے اور اس کے اس فیصلے پر کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ سردی ہو، گرمی یا برسات انتخابات بروقت ہوں گے۔ اگرچہ بعد میں ہائی کورٹ کی مداخلت سے شاہد خاقان عباسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی اور الیکشن کمیشن نے اشارہ دیا کہ وہ قمر الاسلام راجہ سمیت بعض امیدواروں کی گرفتاری اور دیگر خلاف ضابطہ کارروائیوں پر نیب سے رابطہ کرنے جارہا ہے، لیکن بعد میں اس کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم شروع کردی ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 849 سیٹوں کے لیے 11,855 امیدوار میدان میں ہیں۔ انتخابی مہم میں تشدد کا عنصر بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ لیاری میں بلاول کے قافلے پر مخالفین کے پتھراؤ اور فیصل آباد میں تحریک انصاف اور ن لیگی کارکنوں میں فائرنگ کی اطلاعات ملی ہیں۔ جی ایچ کیو نے قصور واقعہ کو غلطی قرار دے کر اپنی پوزیشن واضح کی ہے، جب کہ الیکشن کمیشن کے ایک اعلامیہ کے مطابق اس نے ملتان و نارووال واقعات کا بھی نوٹس لیا ہے۔
الیکشن 2018 میں بعض امیدواروں کو الاٹ ہونے والے جیپ کے انتخابی نشان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے وطن واپسی سے قبل لندن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شفاف الیکشن ہونے کی امید دم توڑ رہی ہے اور ہمارے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ واپس کرکے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے، یہ کھلم کھلا دھاندلی ہے جو عوام ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں جیپ کے نشان پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ لوگ (جیپ کے نشان والے امیدوار) جیت گئے تو وہ ڈکٹیٹ کیا کریں گے۔
الیکشن کے نام پر سلیکشن کا معاملہ اس قدر سیریس نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو یہاں تک کہنا پڑا کہ اگر انتخابات شفاف ہوتے نظر نہ آئے تو بائیکاٹ کا سوچیں گے۔ شاہد خاقان کی اہلیت بحال ہونے کے باوجود سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سینیٹ رکنیت کی معطلی، دانیال عزیز کی نااہلی اور ایک سابق رکن اسمبلی کی سزایابی سے مسلم لیگ (ن) کو دیوار سے لگانے کا تاثر ابھرا ہے، جس کی نفی کرنے کے لیے عدلیہ کی جانب سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کے بجائے کہا گیا کہ توہیں آمیز زبان استعمال کرنے والوں کو شٹ اپ کال دینا ضروری ہے۔
معافی مانگ لینے کے باوجود سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ آنا باقی ہے اور اگر انھیں بھی سزا ہوجاتی ہے تو اس سے مسلم لیگ (ن) کے گرد شکنجہ کسے جانے کے تاثر کو تقویت ملے گی۔ حیرت انگیز طور پر ان دنوں جب ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں بعض حلقوں کی طرف سے عدلیہ کی جانب غیر ضروری طور پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، انھیں اس کا موقع قابل احترام چیف جسٹس پاکستان، میاں ثاقب نثار کی بعض ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملا ہے جو ان کے بقول انتظامی امور میں عدالتی مداخلت کے مترادف ہیں اور جن سے عدلیہ کی جانبداری کا تاثر ابھرتا ہے۔
ان میں ڈیم بنانے جیسے متنازع معاملات کو چھیڑنا اور شیخ رشید جیسے مخالف سیاسی لیڈر کے ساتھ اسپتال کا دورہ کرنے جیسی سرگرمیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایسی سرگرمیوں سے خاص طور انتخابات کے موقع پر اجتناب کرکے بلاوجہ کی تنقید سے بچا جاسکتا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خود عدالتی حلقوں کی طرف سے بھی آنریبل چیف جسٹس کے خلاف خبریں میڈیا کی غذا بننے لگی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے چیف جسٹس کو دیا گیا جواب اس کی تازہ مثال ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انھیں دفاع کا حق حاصل ہے اور اگر چیف جسٹس صاحب کو ان کا چہرہ اچھا نہیں لگتا تب بھی انھیں کھلی عدالت میں ان کی تضحیک کرنے کا حق حاصل نہیں۔
یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس صدیقی کے خلاف کارروائی کا باقاعدہ آغاز کرچکی ہے۔ دوسری طرف توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کرنے والے امیدواروں نے ہنگامی لائحہ عمل تیار کرلیا ہے جس کے تحت نااہل ہونے کی صورت میں وہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار کو الیکشن لڑنے کے لیے نامزد کرسکیں گے۔
اس حوالے سے اب تک نااہل ہونے والے دانیال عزیز کی جگہ ان کی اہلیہ اور قصور کے امیدوار کے بیٹے کے الیکشن لڑنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ الیکشن 2018 کا پہلا غیر سرکاری نتیجہ بھی آگیا ہے، جس کے مطابق سندھ کے شہر کشمور کے حلقے پی ایس 6 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شبیر بجارانی بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوگئے ہیں۔ ن لیگ سمیت سیاسی پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی جاری ہے، سردار مہتاب ن لیگ سے اپنی 33 سالہ رفاقت ختم کرکے الیکشن سے دستبردار ہوگئے ہیں، ان کے بیٹے اور کزن نے بھی پارٹی ٹکٹ واپس کردیا ہے۔
دریں اثناء تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ضرورت سے زیادہ الیکٹیبلز جمع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اس کی کشتی ہچکولے کھانے لگی ہے، عدلیہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس چھ مہینے رہ گئے ہیں، لاکھوں مقدمات زیر التوا ہیں جب کہ ان کی دوسرے کاموں میں دلچسپی کے نتیجے میں عدلیہ کی کارکردگی کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔
سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی اس حوالے سے چیف جسٹس کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں کسی اور کے پیسوں سے کالا باغ ڈیم بنانے کا کوئی حق نہیں، یہ ان کا کام نہیں، لوگوں کو انصاف فراہم کریں، لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر التوا ہیں اور کئی فائلوں کو دیمک کھا گئی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے قائد اسفندیار ولی خان نے خبردار کیا ہے کہ الیکشن متنازع ہوئے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔
دیکھئے کیا ہوتا ہے۔