ٹیلی ویژن سے عشق ہے سکیرتی کنڈپال

ہندی ٹیلی ویژن ڈراموں اور سوپ سیریلز نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔۔۔

ہندی ٹیلی ویژن ڈراموں اور سوپ سیریلز نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ فوٹو : فائل

ہندی ٹیلی ویژن ڈراموں اور سوپ سیریلز نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ ان ڈراموں کی مقبولیت صرف بھارت تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی ہندی بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں یہ ڈرامے بہت شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ اور ان ڈراموں کے کردار اداکاروں کی پہچان بن جاتے ہیں۔

2007ء سے 2010ء تک ٹیلی ویژن چینل اسٹار وَن سے سوپ سیریل '' دل مل گئے'' نشر ہوتی رہی تھی۔ ڈاکٹر ردھمی گپتا اس ڈرامے کی ہیروئن تھی۔ یہ کردار تین اداکاراؤں نے ادا کیا تھا جن میں سے ایک سکیرتی کنڈپال تھی۔ درحقیقت اس کردار میں سکیرتی کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا تھا۔ سکیرتی نے اس کردار میں اتنی خوب صورت پرفارمینس دی تھی کہ یہ کردار اس کی شناخت بن گیا۔

اس کے بعد بھی سکیرتی نے کئی ڈراموں میں بہترین اداکاری کی مگر ناظرین آج بھی اسے اسی کردار کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ سکیرتی کے مداح آج کل اسے '' لائف او کے'' سے نشر ہونے والی ڈراما سیریل ''کیسا یہ عشق ہے۔۔۔ عجب سا رسک ہے'' میں دیکھ رہے ہیں۔ سکیرتی اس سیریل کی ہیروئن اور گورو بجاج ہیرو ہے۔ اس سیریل کی پہلی قسط بائیس اپریل کو نشر کی گئی تھی۔ ٹیلی نگری کی خوب صورت اداکارہ کی نئی مصروفیات کے حوالے سے کی گئی بات چیت قارئین کی نذر ہے۔

٭ پچھلی سیریل ''رب سے سوہنا عشق'' میں آپ نے بیرون ملک مقیم ہندوستانی لڑکی کا رول کیا تھا اور اس سیریل میں بھی کچھ اسی طرح کا رول کررہی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

٭یہ محض اتفاق ہے۔ پچھلے ڈرامے میں میرا کردار ہندوستانی رنگ لیے ہوئے تھا جب کہ ''کیسا یہ عشق ہے۔۔۔ عجب سا رسک ہے''میں آپ کو میرے کردار پر مغربی رنگ چھایا ہوا نظر آئے گا۔ اس طرح یہ دونوں بالکل مختلف کردار ہیں۔

٭خرابیٔ صحت کی بنا پر آپ نے ایک سوپ سیریل سے علیٰحدگی اختیار کرلی تھی مگر اب آپ پھر ایک سوپ سیریل کررہی ہیں۔۔۔۔
وجہ بہت سادہ ہے! اس وقت میں بیمار ہوگئی تھی اور اب میں ٹھیک ہوں۔ اسی لیے آپ مجھے نئے شو میں دیکھ رہے ہیں۔

ٔ٭''کیسا یہ عشق ہے۔۔۔ عجب سا رسک ہے'' میں رول کرنے کا فیصلہ کس وجہ سے کیا؟
جیسا کہ میں نے کہا کہ میں دیسی اور بدیسی دونوں طرح کے رول مہارت سے ادا کرسکتی ہوں، ہر اداکارہ میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس سیریل میں میرا کردار سمرن مغربی رنگ میں رنگی ہوئی لڑکی کا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس سیریل کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ یہ مزاحیہ ہونے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ بھی ہے جو یقینی طور پر سوپ سیریلز کے شائقین کو پسند آئے گی۔ شادی شدہ خواتین بہت جلد اس سیریل کی دیوانی ہوجائیں گی کیوں کہ شادی کے بعد سمرن جس گھر میں جائے گی وہاں اس کا واسطہ ایک انتہائی سخت مزاج سسر سے پڑے گا جب کہ خود اس کا باپ بہت ہی شفیق اور مہربان ہے۔ بالخصوص نئی شادی شدہ خواتین اس سیریل سے بہت جلد اٹیچ ہوجائیں گی۔

٭ اس سیریل میں ہریانہ کا ماحول دکھایا گیا ہے، تو کیا ہم آپ کو ہریانوی زبان بھی بولتے ہوئے دیکھیں گے؟
سیریل کی ابتدا میں تو آپ مجھے انگریزی ہی بولتے ہوئے دیکھیں اور سنیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ سمرن آگے چل کر ہریانوی لہجے میں ہندی بولنے لگے ( مسکراہٹ )

٭راج ویر ( گورو بجاج) سمرن کو اُس کے گھر جیسا ماحول مہیا کرنے کے لیے کیا کرے گا؟
صرف سمرن ہی اس گھر کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ راج ویر بھی اس ضمن میں ہر طرح سے اس کی مدد کرتا ہے اور اس سیریل کا بنیادی نکتہ یہی ہے۔

٭ سمرن اور راج ویر ایک دوسرے کی محبت میں کیسے گرفتار ہوجاتے ہیں؟
دونوں کو ایک دوسرے کی کچھ باتیں اچھی لگتی ہیں اور بہ تدریج محبت ان کے دل میں گھر کرنے لگتی ہے۔ میرے خیال میں محبت اندھی ہوتی ہے، یہ جب ہوتی ہے تو ہوجاتی ہے اس کے لیے کسی وجہ کا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔




٭ '' کیسا یہ عشق ہے۔۔۔ عجب سا رسک ہے'' کی شوٹنگ سنگاپور اور انڈیا میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد ڈراموں کی شوٹنگ ہندوستان سے باہر ہوئی ہے اور کی جا رہی ہے۔ آپ کے خیال میں بیرون ملک شوٹنگ کا جحان کیوں بڑھ رہا ہے؟
میں اسے ٹیلی ویژن کی ترقی سے تعبیر کرتیہوں۔ میرے خیال میں اس کا سبب ٹیلی ویژن چینلز کے مابین بڑھتی مسابقت ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب چینلز کے پاس ڈراما سازی کے لیے بجٹ زیادہ ہوتا ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی پروڈکشن کو ناظرین کے لیے زیادہ سے زیادہ پُرکشش اور دل چسپ بنائیں۔ اسی لیے بیرون ممالک میں ڈراموں کی شوٹنگ کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔

٭ ساتھی اداکار گورو بجاج کے بارے میں کچھ بتائیں۔
گورو بہت اچھا لڑکا ہے۔ ہمارے درمیان اچھی ذہنی ہم آہنگی ہوگئی ہے۔ وہ بہترین ساتھی اداکار ہے۔

٭ '' کیسا یہ عشق ہے۔۔۔ عجب سا رسک ہے'' اس بارے میں ہے کہ کیسے ایک بڑے اور لبرل شہر میں رہنے والوں کے نظریات چھوٹے قصبوں کی روایات میں مدغم ہوجاتے ہیں۔ یہ بنیادی خیال کئی اور ڈراموں میں بھی پیش کیا جارہا ہے۔ کیا اس کا مطلب شہری اور دیہی ، دونوں طبقوں کے ناظرین کی توجہ حاصل کرنا ہے؟
جی ہاں، بالکل! مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شوز علمی اور معلوماتی بھی ہیں۔ ان ڈراموں سے دیہات اور شہر میں رہنے والے ایک دوسرے کے رہن سہن، رسم و رواج اور ماحول سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

٭ذاتی طور پر آپ سمرن سے کس حد تک مشابہت رکھتی ہیں؟
میں سمرن کی طرح لباس ضرور پہنتی ہوں۔ اس کے علاوہ ہم دونوں میں کوئی اور بات مشترک نہیں۔ میں اس کی طرح یہ نہیں سوچتی کہ لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے شہر چھوڑ کر کسی گاؤں میں جا بسوں۔ میں مانتی ہوں کہ یہ بہت اچھی بات ہے مگر میں ایسا نہیں کروں گی۔ میرے خیال میں عملی طور پر یہ ممکن نہیں۔ دوسری بات یہ کہ میں پُرسکون شادی شدہ زندگی چاہتی ہوں۔ میں نہیں چاہوں گی کہ سسرال والوں کی جانب سے مجھے کسی بھی طرح کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

٭ تو آپ اس بات سے اتفاق کررہی ہیں کہ اس ڈراما سیریل میںوہ کچھ دکھایا جارہا ہے جو عملی طور پر ممکن نہیں؟
سکیرتی کے لیے ہوسکتا ہے کہ یہ ممکن نہ ہو، مگر سمرن کے لیے قابل عمل ہے۔ میری ایسی کئی ماڈرن اور تعلیم یافتہ دوست ہیں جو شادی کے بعد دیہی علاقوں میں مقیم ہیں۔ دراصل یہ آپ کی ذاتی پسند اور ناپسند کا معاملہ ہے۔

٭ کیا آپ ریئلٹی شوز میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں؟
مجھے اگر موقع ملا تو ڈانس رئیلٹی شو میں حصہ لینا چاہوں گی۔

٭بولی وڈ کی جانب جانے کا ارادہ نہیں رکھتیں؟
ایسا نہیں ہے کہ مجھے فلموں میں اداکاری کرنے سے دل چسپی نہیں، اگر مجھے کسی فلم کی آفر ہوئی تو ضرور کروں گی، مگر میں بولی وڈ کا حصہ بننے کے لیے بے چین نہیں ہوں۔

٭تو کیا آپ مِنی اسکرین ہی پر خوش ہیں؟
جی ہاں، میں یہاں بہت مطمئن ہوں۔ ٹیلی ویژن محض اب دال روٹی کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ اب اداکاروں کو بہت اچھے معاوضے دیے جارہے ہیں۔ مجھے ٹیلی ویژن صرف پسند نہیں بلکہ اس سے عشق ہے۔
Load Next Story