امن کے قیام کے لیے آہنی ارادے کی ضرورت
لاشیں گرائی جارہی ہیں تاہم قوم اپنے جمہوری حق رائے دہی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں...
انتخابات کا سورج نصف النہار تک آپہنچا۔ تمام سیاسی جماعتیں باوجود کہیں کھلی یا محدود انتخابی مہم اور کہیں شدید حملوں کی زد میں ہوتے ہوئے بھی ووٹ کے تقدس کو بندوق کی گولی پر سبقت دینے میں ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہیں۔شکایتوں کے انبار لگ چکے، لاشیں گرائی جارہی ہیں تاہم قوم اپنے جمہوری حق رائے دہی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ جمہوری عمل کو اپنی منزل تک پہنچنے میں کتنی سخت مسافت ابھی طے کرنی ہے۔لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آنے والے انتخابات اس ملک کی سیاسی تاریخ کے اعصاب شکن اور یادگار انتخابات ہی کہلائیں گے جس میں ووٹرز اپنے ووٹ بندوقوں ، کلاشنکوفوں ، بموں، راکٹوں اور خودکش بمباروں کی قہر سامانیوں میں کاسٹ کریں گے۔
یہ ایک چیلنج ہے اور اس کا ثمر اسی جمہوری رویے کے بطن سے عوام کو مل رہا ہے جو اس ملک کی سیاسی تقدیر کے بدلنے کی نوید دے رہا ہے۔ صدر آصف زرداری نے شاید ان ہی حقائق اور عصری شعور کے گہرے ادراک کے باعث کہا ہے کہ حکومت الیکشن کے پرامن انعقاد کے لیے پرعزم ہے، الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی تمام سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ وہ گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی سے ٹیلی فون پر گفتگو کررہے تھے۔
صدر مملکت نے آیندہ انتخابات کے شفاف اور منصفانہ طور پر انعقاد کے تناظر میں جو ہدایات دی ہیں وہ بلوچستان سمیت کراچی،اندرون سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی انتخابی صورتحال کی اعصاب شکنی کی سچی عکاسی کرتے ہیں ۔
دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں میں شدت لانے کے لیے اپنے اہداف پر مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، تاہم بلوچستان پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے باوجود بلوچستان کے کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں سے تمام اہم سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی نامزدگی سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنمائوں کی ہدایت پر بلوچستان میں سرگرم مزاحمت کاروں کی جانب سے انتخابی قافلوں اور امیدواروں پر براہ راست حملوں سے صوبے میں الیکشن کے التوا کی کوئی ناگزیر صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے۔
ان مبصرین کے مطابق سابق وزیر تعلیم زبیدہ جلال، سابق وزیراعظم میر ظفراﷲ جمالی، پشتون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ،جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبدالغفور حیدری، سردار ثنا اﷲ زہری، آیت اﷲ درانی ، یعقوب ناصر ،میر مقبول لہڑی، ستار مینگل، دائود خان، چنگیز مری، اور میر باز کھیتران سمیت دیگر سینئر سیاست دان انتخابی دوڑ میں شامل ہیں ۔پیپلز پارٹی نے11،ن لیگ نے10 ، تحریک انصاف نے 10اور جے یو آئی نے13 جب کہ مسلم لیگ ق نے بھی 10امیدوار نامزد کیے ہیں اور ان میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔
ادھر بادی النظر میں انتظامی سطح پر بلوچستان جیسے '' ہارڈ'' صوبے میں جہاں امن و امان اور انتخابی مہم کو تتربتر کرنے کی وارداتوںنے عام شہریوں کو خوفزدہ کردیا ہے وہاں سول بیوروکریسی کے فرائض مسلح افواج کے سپرد کرنیکی تجویز مسترد کرتے ہوئے یہ قرار پایا ہے کہ اب بلوچستان میں انتظامی امور چلانے کی ذمے داری سول بیوروکریسی کی ہوگی۔ مالی مسائل،سخت موسمی حالات اور امن وامان کی بدترین صورتحال کے باعث بلوچستان اس وقت سول بیوروکریسی میں ایک ''ہارڈایریا'' تصورکیا جاتاہے اس لیے وفاقی حکومت نے بیوروکریسی کو وہاں تعینات کر نے کے لیے طرح طرح کی پرکشش مراعات کا اعلان بھی کیا ہے،اس کے باوجود افسران بلوچستان میں اپنی خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں۔
تاہم اساتذہ نے اپنا بائیکاٹ ختم کرنے اور الیکشن ڈیوٹی جوائن کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جو خوش آیند پیش رفت ہے۔ادھر کراچی کے مختلف علاقوں اور زیریں سندھ میں الیکشن کے دوران امن و امان بحال رکھنے کے لیے فوج کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوگیا، رات گئے فوجی جوانوں کی نفری قافلے کی شکل میں شاہراہ فیصل سے ہوتی ہوئی مختلف علاقوں میں پہنچ گئی جب کہ حیدرآباد گیریژن سے حیدرآباد ڈویژن اور میرپورخاص ڈویژن کے13 اضلاع میں تعیناتی کے لیے6 ہزارجوانوں کے قافلے روانہ ہوئے۔ یہ جوان الیکشن تک فیلڈ میں موجود رہیں گے۔
لوڈ شیڈنگ کے ملک گیر خاتمہ کی خبر بھی کم دلچسپی کی حامل نہیں ہوگی۔ نگراں وفاقی وزیر پانی وبجلی ڈاکٹر مصدق ملک نے بند یونٹس کو چالو کر کے بجلی کی پیداوار میں ایک ہزار میگاواٹ اضافہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ آج سے لیسکو سمیت ملک بھر میں جبری لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور شہری علاقوں میں 9 اور دیہی علاقوں میں12گھنٹے کی شیڈولڈ لوڈشیڈنگ ہو گی۔ اجلاس میں جبری لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ اطلاع آئی ہے کہ ووٹرز اب موبائل فون پر پولنگ اسٹیشن معلوم کرسکیں گے۔
الیکٹرانک پرچی تیار کی گئی ہے، کسی بھی حلقے کا ووٹر 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کرکے بلاک کوڈ ،حلقہ نمبر اور پولنگ اسٹیشن کی جگہ کے بارے میں پوری تفصیل حاصل کرسکے گا۔ نگراں وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب نے کراچی کے حوالے سے کہا ہے کہ کسی کو بھی امن و امان کو جواز بناکر الیکشن ملتوی نہیں کرنے دیں گے ،کراچی میں پرامن انتخابات کے لیے تمام تر وسائل بروئے کارلائے جائیں گے۔
دہشت گرد انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں ،ایم کیو ایم کے حوصلے بلند ہیں اور یہ الیکشن میں حصہ ضرور لیں گے، انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی قیادت سے ملنے کے بعد مجھے پورا یقین ہے کہ وہ جوش و جذبے سے کام کریں گے،امن و امان سے متعلق اعلی سطح کا اجلاس ہوگا۔ملک حبیب نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے پولیس اور رینجرز کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جب کہ فوج کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کراچی میں موجود ہے۔ دہشت گرد متحدہ قومی موومنٹ ،مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، حکومت تمام جماعتوں اور امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں سیکیورٹی اداروں کے پاس ایسے واقعات کی اطلاعات تھیں،کراچی میں ہونے والے دھماکوں میں مماثلت پائی جاتی ہے، تمام دھماکے ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں سیکیورٹی کی صورتحال زمینی حقائق سے مختلف ہے، اسی لیے کراچی کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عوام دہشت گردوں کے عزائم ناکام بناتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیں۔ ملک حبیب نے کہا کہ دہشت گردی ایک ناسور بن چکی ہے جسے ختم کرنا نگراں حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔
ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور کراچی کے حالات پر ہماری گہری نظر ہے۔وزیر داخلہ کے اس بیان کی روشنی میں توقع کی جانی چاہیے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن وامان کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے آہنی ارادوں کے ساتھ اقدامات کو بروئے کار لایا جائے گا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے امن وامان کی شرط بنیادی ہے اور اب تک کے حکومتی اقدامات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی آڑ میں ہولناک خونریزی کمال تدبر سے روکی گئی تو الیکشن ضرور ہوں گے اور ان کے نتائج قوم کے حق میں بہتر ہی ہوں گے۔
اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ جمہوری عمل کو اپنی منزل تک پہنچنے میں کتنی سخت مسافت ابھی طے کرنی ہے۔لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آنے والے انتخابات اس ملک کی سیاسی تاریخ کے اعصاب شکن اور یادگار انتخابات ہی کہلائیں گے جس میں ووٹرز اپنے ووٹ بندوقوں ، کلاشنکوفوں ، بموں، راکٹوں اور خودکش بمباروں کی قہر سامانیوں میں کاسٹ کریں گے۔
یہ ایک چیلنج ہے اور اس کا ثمر اسی جمہوری رویے کے بطن سے عوام کو مل رہا ہے جو اس ملک کی سیاسی تقدیر کے بدلنے کی نوید دے رہا ہے۔ صدر آصف زرداری نے شاید ان ہی حقائق اور عصری شعور کے گہرے ادراک کے باعث کہا ہے کہ حکومت الیکشن کے پرامن انعقاد کے لیے پرعزم ہے، الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی تمام سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔ وہ گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی سے ٹیلی فون پر گفتگو کررہے تھے۔
صدر مملکت نے آیندہ انتخابات کے شفاف اور منصفانہ طور پر انعقاد کے تناظر میں جو ہدایات دی ہیں وہ بلوچستان سمیت کراچی،اندرون سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی انتخابی صورتحال کی اعصاب شکنی کی سچی عکاسی کرتے ہیں ۔
دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں میں شدت لانے کے لیے اپنے اہداف پر مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، تاہم بلوچستان پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے باوجود بلوچستان کے کئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں سے تمام اہم سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی نامزدگی سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنمائوں کی ہدایت پر بلوچستان میں سرگرم مزاحمت کاروں کی جانب سے انتخابی قافلوں اور امیدواروں پر براہ راست حملوں سے صوبے میں الیکشن کے التوا کی کوئی ناگزیر صورتحال پیدا نہیں ہوئی ہے۔
ان مبصرین کے مطابق سابق وزیر تعلیم زبیدہ جلال، سابق وزیراعظم میر ظفراﷲ جمالی، پشتون ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ،جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبدالغفور حیدری، سردار ثنا اﷲ زہری، آیت اﷲ درانی ، یعقوب ناصر ،میر مقبول لہڑی، ستار مینگل، دائود خان، چنگیز مری، اور میر باز کھیتران سمیت دیگر سینئر سیاست دان انتخابی دوڑ میں شامل ہیں ۔پیپلز پارٹی نے11،ن لیگ نے10 ، تحریک انصاف نے 10اور جے یو آئی نے13 جب کہ مسلم لیگ ق نے بھی 10امیدوار نامزد کیے ہیں اور ان میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔
ادھر بادی النظر میں انتظامی سطح پر بلوچستان جیسے '' ہارڈ'' صوبے میں جہاں امن و امان اور انتخابی مہم کو تتربتر کرنے کی وارداتوںنے عام شہریوں کو خوفزدہ کردیا ہے وہاں سول بیوروکریسی کے فرائض مسلح افواج کے سپرد کرنیکی تجویز مسترد کرتے ہوئے یہ قرار پایا ہے کہ اب بلوچستان میں انتظامی امور چلانے کی ذمے داری سول بیوروکریسی کی ہوگی۔ مالی مسائل،سخت موسمی حالات اور امن وامان کی بدترین صورتحال کے باعث بلوچستان اس وقت سول بیوروکریسی میں ایک ''ہارڈایریا'' تصورکیا جاتاہے اس لیے وفاقی حکومت نے بیوروکریسی کو وہاں تعینات کر نے کے لیے طرح طرح کی پرکشش مراعات کا اعلان بھی کیا ہے،اس کے باوجود افسران بلوچستان میں اپنی خدمات انجام دینے سے کتراتے ہیں۔
تاہم اساتذہ نے اپنا بائیکاٹ ختم کرنے اور الیکشن ڈیوٹی جوائن کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جو خوش آیند پیش رفت ہے۔ادھر کراچی کے مختلف علاقوں اور زیریں سندھ میں الیکشن کے دوران امن و امان بحال رکھنے کے لیے فوج کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوگیا، رات گئے فوجی جوانوں کی نفری قافلے کی شکل میں شاہراہ فیصل سے ہوتی ہوئی مختلف علاقوں میں پہنچ گئی جب کہ حیدرآباد گیریژن سے حیدرآباد ڈویژن اور میرپورخاص ڈویژن کے13 اضلاع میں تعیناتی کے لیے6 ہزارجوانوں کے قافلے روانہ ہوئے۔ یہ جوان الیکشن تک فیلڈ میں موجود رہیں گے۔
لوڈ شیڈنگ کے ملک گیر خاتمہ کی خبر بھی کم دلچسپی کی حامل نہیں ہوگی۔ نگراں وفاقی وزیر پانی وبجلی ڈاکٹر مصدق ملک نے بند یونٹس کو چالو کر کے بجلی کی پیداوار میں ایک ہزار میگاواٹ اضافہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ آج سے لیسکو سمیت ملک بھر میں جبری لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا اور شہری علاقوں میں 9 اور دیہی علاقوں میں12گھنٹے کی شیڈولڈ لوڈشیڈنگ ہو گی۔ اجلاس میں جبری لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ اطلاع آئی ہے کہ ووٹرز اب موبائل فون پر پولنگ اسٹیشن معلوم کرسکیں گے۔
الیکٹرانک پرچی تیار کی گئی ہے، کسی بھی حلقے کا ووٹر 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کرکے بلاک کوڈ ،حلقہ نمبر اور پولنگ اسٹیشن کی جگہ کے بارے میں پوری تفصیل حاصل کرسکے گا۔ نگراں وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب نے کراچی کے حوالے سے کہا ہے کہ کسی کو بھی امن و امان کو جواز بناکر الیکشن ملتوی نہیں کرنے دیں گے ،کراچی میں پرامن انتخابات کے لیے تمام تر وسائل بروئے کارلائے جائیں گے۔
دہشت گرد انتخابات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں ،ایم کیو ایم کے حوصلے بلند ہیں اور یہ الیکشن میں حصہ ضرور لیں گے، انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی قیادت سے ملنے کے بعد مجھے پورا یقین ہے کہ وہ جوش و جذبے سے کام کریں گے،امن و امان سے متعلق اعلی سطح کا اجلاس ہوگا۔ملک حبیب نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے پولیس اور رینجرز کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جب کہ فوج کوئیک رسپانس فورس کے طور پر کراچی میں موجود ہے۔ دہشت گرد متحدہ قومی موومنٹ ،مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، حکومت تمام جماعتوں اور امیدواروں کو سیکیورٹی فراہم کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ کراچی میں سیکیورٹی اداروں کے پاس ایسے واقعات کی اطلاعات تھیں،کراچی میں ہونے والے دھماکوں میں مماثلت پائی جاتی ہے، تمام دھماکے ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں سیکیورٹی کی صورتحال زمینی حقائق سے مختلف ہے، اسی لیے کراچی کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عوام دہشت گردوں کے عزائم ناکام بناتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیں۔ ملک حبیب نے کہا کہ دہشت گردی ایک ناسور بن چکی ہے جسے ختم کرنا نگراں حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔
ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور کراچی کے حالات پر ہماری گہری نظر ہے۔وزیر داخلہ کے اس بیان کی روشنی میں توقع کی جانی چاہیے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن وامان کے قیام اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے آہنی ارادوں کے ساتھ اقدامات کو بروئے کار لایا جائے گا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے امن وامان کی شرط بنیادی ہے اور اب تک کے حکومتی اقدامات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی آڑ میں ہولناک خونریزی کمال تدبر سے روکی گئی تو الیکشن ضرور ہوں گے اور ان کے نتائج قوم کے حق میں بہتر ہی ہوں گے۔