پچھتانے کا وقت بھی نہیں رہے گا

یقین غیر یقینیت، شکوک و شبہات کے ماحول میں آخر کار انتخابات اب لب بام رہ گئے ہیں۔..

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

یقین غیر یقینیت، شکوک و شبہات کے ماحول میں آخر کار انتخابات اب لب بام رہ گئے ہیں۔ اس مختصر مدتی انتخابی مہم کی خاص بات یہ ہے کہ صرف صوبہ پنجاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں نہ صرف بھرپور انتخابی مہم چلتی رہی بلکہ یہ مہم انتہائی پرامن بھی رہی جب کہ باقی تین صوبوں میں قتل و غارت کا ایسا طوفان اٹھا ہوا ہے کہ ہر روز انتخابی مہم چلانے والے امیدوار اور ان کے ورکرز قتل کیے جارہے ہیں اور بڑی جماعتوں نے اپنے انتخابی دفاتر فوری بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

کراچی میں گزشتہ ہفتے متحدہ کے تین انتخابی دفاتر پر حملہ ہوا جس میں کئی کارکن جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے حتیٰ کہ ایک بند دفتر کو بھی نشانہ بنایا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی معروف تنظیم نے ان حملوں کی ذمے داری بھی قبول کرلی۔ اسی سے ملتی جلتی صورت حال بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی ہے ان صوبوں میں بھی انتخابی مہم تقریباً ختم ہوگئی ہے، ہر طرف خوف و ہراس کی صورت حال ہے اور سوال کرنے والے بجا طور پر یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا دہشت اور خوف کے اس ماحول میں جب کہ کسی کی جان کے تحفظ کا کوئی اہتمام ہے، نہ گارنٹی، کیا ووٹر ووٹ دینے کے لیے اپنے گھروں سے باہر نکل کر پولنگ اسٹیشنوں کی لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنے پر آمادہ ہوگا؟

ووٹروں کے گھروں سے باہر نکلنے کے حوالے سے یہ ایک بجا خدشہ ہے، دوسرا خدشہ یہ ہے کہ اس بار پہلی بار یہ دیکھا جارہا ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت کسی سیاست دان کسی سیاسی جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اگرچہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہر روز کئی کئی شہروں میں جلسے کر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ ان جلسوں میں سیاسی کارکنوں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے علاوہ عام لوگ بھی شریک ہورہے ہوں لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ پنجاب کے عوام کی بھاری اکثریت ابھی تک انتخابات سے لاتعلقی کا اظہار ہی کر رہی ہے۔ آنے والے چند دنوں میں یہ صورت حال اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آجائے گی لیکن صورت حال جو بھی ہو پنجاب میں اصل معرکہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف میں ہی ہوگا اور سابقہ انتخابات کی طرح میاں برادران کو فری ہینڈ نہیں ملے گا۔

ہم نے اپنے ایک پچھلے کالم میں اس بات کی نشان دہی کی تھی کہ اس بار الیکشن لڑنے والی طاقتیں واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہیں جنھیں ہم سیاسی اصطلاح میں دائیں اور بائیں کا نام دے سکتے ہیں، اسی حوالے سے ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کردی تھی کہ نعرے خواہ انقلاب کے لگائے جائیں، نظام کی تبدیلی کے یا نئے پاکستان کے، اس قسم کے نعرے بازوں کی نظریاتی شناخت رہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کی دو بڑی جماعتیں جو بظاہر ایک دوسرے کی سخت حریف نظر آتی ہیں اپنی نظریاتی اپروچ کے حوالے سے شیر و شکر ہیں۔

اس کا ایک سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دہشت گردوں نے اپنے مبینہ مذاکرات کے حوالے سے جن چار شخصیتوں کے نام لیے تھے ان میں سے دو یعنی نواز شریف اور عمران خان ہیں۔ باقی دو قابل اعتماد اکابرین میں جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔

منور حسن اور فضل الرحمن دونوں مذہبی جماعتوں کے سربراہ ہیں اور ان بزرگوں نے کبھی اپنی نظریاتی شناخت چھپانے کی کوشش نہیں کی البتہ عوام نواز شریف اور عمران خان کے بارے میں مخمصے میں گرفتار نظر آتے ہیں کیونکہ یہ دونوں رہنما جن سیاسی جماعتوں کی سربراہی فرما رہے ہیں وہ بہ ظاہر مذہبی جماعتیں نہیں ہیں لیکن اس کے اندر جھانک کر دیکھیں یا ان کی نظریاتی اپروچ کا مطالعہ کریں تو صورت حال واضح ہوجاتی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں وہ نہیں ہیں جو دکھائی اور بتائی جارہی ہیں، اس کا دوسرا بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوںکو انتخابی مہم چلانے کی اتنی ہی آزادی حاصل ہے جتنی دوسری مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے، ایسا کیوں ہے؟


پاکستان میں عوام کی حمایت سے برسراقتدار آنے پر یقین رکھنے والی کسی مذہبی جماعت کی کوئی مخالفت نہیں کرتا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ 65 سال سے ہماری دینی جماعتیں انتخابی سیاست کرتی آرہی ہیں اور اسی سیاست کے نتیجے میں 2002 کے الیکشن میں خیبرپختونخوا میں مکمل طور پر اور بلوچستان میں جزوی طور پر مذہبی جماعتوں کی حکومت قائم ہوئی اور اپنے پانچ سال پورے بھی کیے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی طاقت نہ جمہوریت کو تسلیم کرتی ہے نہ حکومت کو، نہ انتخابات کو نہ ریاستی اداروں کو اور پھر اپنی باتیں منوانے کے لیے کھلی دہشت گردی کا راستہ اختیار کرتی ہے تو کیا ایسی طاقت کے لیے مہذب معاشروں میں کوئی جگہ ہوسکتی ہے؟

ہوسکتا ہے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا دہشت گرد تنظیموں سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن میڈیا میں جو کچھ رپورٹ ہوتا رہا ہے وہ ہمارے اس یقین کی نفی کرتا ہے اور جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے ایک عام آدمی کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ صرف اے این پی، متحدہ اور پی پی پی کے امیدواروں اور کارکنوں پر ہی دہشت گردانہ حملے کیوں ہورہے ہیں؟ اور ان کے کارکن ہی ان حملوں میں کیوں ہلاک ہورہے ہیں؟ اور اس کے برخلاف ن لیگ اور پی ٹی آئی اس قدر آزادی سے بے خوف و خطر پورے پنجاب ہی میں نہیں بلکہ تینوں متاثرہ صوبوں میں بڑے بڑے جلسے پرامن ماحول میں کیسے کر رہے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس ملک کے ہر شہری کے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔

بہ فرض محال ہم یہ مان لیتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کا تعلق کسی انتہاپسند جماعت سے نہیں تو پھر انھیں نہ صرف ان انتہاپسند طاقتوں کی سرعام مذمت کرنا چاہیے بلکہ ان جماعتوں کے نشانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہیے جو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ہمارے یہ محترم رہنما ڈرون حملوں کی تو شدت سے مخالفت کرتے ہیں کہ ان حملوں میں گنہگاروں کے ساتھ چند بے گناہ بھی مارے جارہے ہیں لیکن خود سارے ملک میں جس طرح ہزاروں بے گناہوں کو دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس کے خلاف مشکل سے ایک آدھ مذمتی بیان آتا ہے باقی خیریت۔

اگر یہ پالیسی محض سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اپنائی جارہی ہے تو ہم بڑی دردمندی کے ساتھ ان اکابرین کی توجہ اس ناگوار حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے کہ یہ سودا ملک و قوم اور عوام کے مستقبل کے لیے اس قدر مہنگا پڑے گا کہ اس کے تصور ہی سے صاحب عقل انسان کے جسم میں جھرجھری آجاتی ہے۔ آج ساری دنیا دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے نتائج و عواقب سے خوفزدہ ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب نہ صرف امریکا کا رہا ہے نہ پاکستان کا، یہ مسئلہ ساری دنیا کا اور جدید تہذیب اور دنیا کے مستقبل کا مسئلہ بن گیا ہے اور ساری دنیا سنجیدگی سے اس سے نمٹنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

پنجاب میں ہمارے ملک کی آبادی کا 63 فیصد حصہ رہتا ہے، اس حوالے سے پنجاب نہ صرف تینوں صوبوں کی مجموعی آبادی سے بڑا صوبہ ہے بلکہ پاکستان کی سیاست میں اس صوبے کا سب سے اہم رول رہا ہے اور اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ انتخابات کا فیصلہ کن معرکہ اسی صوبے میں پیش آرہا ہے۔ مسلم لیگ کے اکابرین عمران خان پر الزام لگا رہے ہیں کہ عمران خان پی پی پی کی زبان بول رہے ہیں اور اندر سے وہ پی پی پی کے آدمی ہیں، دوسری طرف عمران خان میاں برادران پر مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ میاں برادران کے گٹھ جوڑ ہی کی وجہ سے پی پی پی اپنے پانچ سال مکمل کرسکی ہے۔

ہوسکتا ہے یہ الزام اور جوابی الزام ان کے سیاسی مفادات کے لیے ضروری ہوں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں دہشت گردی کی جو سیاست کی جارہی ہے کیا وہ پاکستان کے مستقبل کے لیے نیک شگون ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر نہ صرف مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی بلکہ انتخابی سیاست کرنے والی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ قلیل مدتی ممکنہ سیاسی مفادات کی پالیسیوں سے نکل کر اٹھارہ کروڑ عوام کے بہتر اور درخشندہ مستقبل کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف کھڑے ہوں، اگر آج یہ ذمے داری پوری نہ کی گئی تو کل شاید ہمارے پاس پچھتانے کا وقت بھی نہ ہو۔
Load Next Story