عام انتخابات 2018ء

فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ اگلی مدت کے لیے کسے اپنا مینڈیٹ دیں۔

اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ 25 جولائی 2018ء کو وطن عزیز میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کئی ایک طرح سے انفرادی اہمیت کے حامل ہیں، ان انتخابات کی اولین انفرادیت یہ ہے کہ یہ عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ انتخابی عمل میں اٹھنے والے اخراجات اب لاکھوں روپے نہیں رہے بلکہ یہ اخراجات اب کروڑوں میں ہیں۔ گویا اس سے قبل اگر کوئی عام آدمی انتخابی عمل میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا بھی تھا تو اب موجودہ کیفیت میں عام آدمی تو کیا چھوٹا موٹا سرمایہ دار بھی انتخابی عمل کا حصہ نہیں بن سکتا۔

دوم جن حالات میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) و پاکستان پیپلز پارٹی نے اس قدر خراب کیفیت میں عام انتخابات میں حصہ کبھی نہیں لیا تھا کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کی کیفیت یہ ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کی کیفیت یہ ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کو تمام انتخابی حلقوں میں کھڑے کرنے کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے امیدوار تک پوری طرح دستیاب نہیں ہیں، جب کہ چند یوم قبل تک مسلم لیگ (ن) کی کیفیت یہ تھی کہ زعیم قادری جیسے سابق صوبائی وزیر کو یہ کہہ کر کہ انتخابی عمل بہت مہنگا ہوگیا ہے چنانچہ آپ یہ اخراجات برداشت نہیں کر پائیں گے اسی باعث آپ کو ٹکٹ نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کثیر تعداد مسلم لیگی امیدواران نے پارٹی ٹکٹ واپس کردیتے ہیں اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی ہے۔

ان دونوں سیاسی جماعتوں کے ساتھ المیہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما بڑی تعداد میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان مسلم لیگی رہنماؤں کی تعداد اس قدر زائد ہے کہ جی میں آتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ع) کا نام دے دیا جائے یعنی مسلم لیگ عمران خان سوم۔ ان عام انتخابات کی انفرادیت یہ ہے یہ ان مجوزہ عام انتخابات سے کوئی 18 یوم قبل سابق وزیراعظم محترم میاں نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ آچکا ہے۔ یوں اس وقت پورے وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو کس قدر فائدہ ہوگا یا نقصان، البتہ صورت جمعہ 13 جولائی 2018ء کے بعد واضح ہونا شروع ہوجائے گی کیونکہ اس وقت میاں نواز شریف صاحب ملک میں موجود ہوں گے۔

کیونکہ میاں صاحب 13 جولائی 2018ء کو لندن سے پاکستان واپسی کا اعلان کرچکے ہیں۔ یوں بھی میاں صاحب کے سامنے دو راستے ہیں کہ پاکستان واپس آکر اپنی پارٹی کو مزید تقسیم سے بچا لیں بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان موجود ہے قوی امکان یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کو ایئرپورٹ پر ہی ان کی صاحبزادی مریم سمیت گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس کیفیت میں مسلم لیگ کے صدر محترم میاں شہباز شریف انتخابی مہم کس قدر کامیابی سے چلا پائیں گے اس سوال کا جواب بھی 13 جولائی 2018ء کے بعد ہی مل پائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ شریف خاندان گردش میں ہے اور ان حالات میں انسان کے اچھے عمل کو بھی شک ہی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔


بہرکیف چہارم ان انتخابات کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ اولین موقع ہے کہ جب پاکستانی قوم بالخصوص نوجوان طبقہ سیاست دانوں سے یہ سوال کر رہا ہے کہ پانچ برس سے کہاں تھے اور پانچ سالہ اپنے دور اقتدار میں کون سا ترقیاتی کام کیا ہے؟ نوجوان طبقے کا یہ بڑھتا ہوا سیاسی شعور ایک نیک شگون ضرور ہے مگر اس عمل میں تشدد کا عنصر قابل مذمت ہے یہ کوئی احسن اقدام نہیں ہے جیسے کہ بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی ریلی کے دوران ہوا کہ انتخابی ریلی کا گھیراؤ ہوا اور ریلی پر سنگ باری ہوئی اس نوع کے عمل سے کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔

جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عام شہری مایوسی کا شکار ہے اور وہ تمام قسم کی سہولیات سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے صحت تعلیم روزگار جیسے بنیادی مسائل شدت اختیار کرچکے ہیں یہ تمام مسائل اس لیے بھی پیدا ہوئے کہ نجکاری کا عمل جاری ہے اور اس نجکاری عمل سے لاتعداد مسائل پیدا ہو رہے ہیں توانائی بحران پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا جس کے باعث سابقہ حکومتوں کے اچھے کاموں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے جب کہ عالمی مالیاتی اداروں کا قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے جس کے سبب آئے روز روز مرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے قومی خزانے میں فقط 11 ارب ڈالر موجود ہیں گویا خزانہ خالی ہے البتہ امید افزا بات یہ ہے کہ باشعور نوجوان طبقہ سیاستدانوں کی کلائی تھام کر حساب مانگ رہا ہے چنانچہ یہ بڑھتا ہوا عوامی شعور آنے والے انتخابات میں اور اس کے بعد بھی ملکی مفادات کے لیے بہترین عمل ثابت ہوگا۔

پنجم ان انتخابات کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندگی کرنے والی جماعت ایم کیو ایم اپنے بانی قائد کے بغیر ان عام انتخابات کا حصہ بننے جا رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ شدید دھڑے بندی کا شکار ایم کیو ایم 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کس کارکردگی کا مظاہرہ کر پائے گی، البتہ ایم کیو ایم کے رہنما یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ ہمارے مینڈیٹ پر دوسرے علاقوں سے آکر قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں اس ضمن میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو اس اسمبلی میں شریک تمام ممبران کا مینڈیٹ بھی ختم ہو جاتا ہے، گویا یہ انتخابی عمل میں حاصل کردہ مینڈیٹ دائمی یا تاحیات نہیں ہوتا یوں بھی جیسے کہ ایم کیو ایم والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے صوبوں میں جاکر ایم کیو ایم کے لیے کام کریں اور یہ کام ان رہنماؤں نے کیا بھی اسی طرح دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کراچی یا کہیں بھی جاکر انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔

فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ اگلی مدت کے لیے کسے اپنا مینڈیٹ دیں اور ایک بات ان انتخابات میں دیکھنے میں آرہی ہے کہ ان انتخابات میں بھی موروثی سیاست کا بھرپور مظاہرہ کیا جا رہا ہے ایک خاندان کے چار چار چھ چھ افراد بیک وقت ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اس عمل میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی شریک ہوچکی ہیں جیسے کہ محترم فضل الرحمن اپنے بھائی و دو بیٹوں سمیت ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں بہر کیف ہم عوام الناس سے یہی گزارش کریں گے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں اور یہ مقدس امانت فقط اہل و دیانت دار لوگوں کے سپرد کریں اور ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھیں نا کہ ذاتی و گروہی مفادات کو۔
Load Next Story