انتخابات اور صرف انتخابات

آپ کو صدام حسین کا عراق بھی یاد ہوگا اور ملاعمر کا افغانستان بھی۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو دونوں...

آپ کو صدام حسین کا عراق بھی یاد ہوگا اور ملاعمر کا افغانستان بھی۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کو دونوں شخصیات سے شدید اختلاف ہو مگر اس حقیقت کو جھٹلانا بہرحال ممکن نہیں کہ صدام کا عراق اور ملاعمر کا افغانستان کرزئی اور مالکی کے افغانستان اور عراق سے ہزار درجہ زیادہ پرامن تھا۔

ہمارے ایک پاکستانی بھائی کا عراق جانا ہوا تو واپسی پر یہ انکشاف کیا کہ کرپشن تو دور کی بات سرکاری اہلکار کرپشن کے نام سے بھی کانپتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس ملک میںعوام کو بیشتر سہولیات کی فراہمی تقریباً مفت ہے۔ اسی دور میں افغانستان کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان اور عرب ممالک سے جانے والے تاجر کروڑوں روپے ساتھ لے کر چلتے اور مجال نہ تھی کہ کوئی ان افراد کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھ لیتا، اساتذہ کے لیے لازم تھا کہ اگر رات کے اوقات میں بھی کوئی طالبعلم در پر دستک دے تو اس کی پیاس بجھائی جائے۔

مگر انکل سام، عراقی صدر صدام حسین جو کہ ایک آزاد خیال شخصیت اور بعث پارٹی کے رہنما تھے اور ملاعمر جو کہ ایک دین دار آدمی ہیں، سے کچھ زیادہ خوش نہ تھے اس لیے 9/11 کے بعد ان ہی دونوں اصحاب کی حکومتیں امریکی بی باون طیاروں کا نشانہ بنیں۔

ہمارا مقصد یہاں ملا عمر اور صدام حسین کا طرف دارانہ تذکرہ نہیں بلکہ امریکی جارحیت کے نتیجے میں ان ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں پر بات کرنا ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ عراق اور افغانستان پر امریکی حملے کے نتیجے میں ان ممالک کو کیا ملا؟ اگر آپ یہ سوال ان ممالک کے عوام سے پوچھیں گے تو وہ ایک لفظ میں اس کا جواب دیں گے، یعنی تباہی، اور یہی سوال امریکا اور اتحادیوں سے پوچھیں گے تو وہ جواب دیں گے 'جمہوریت'۔ جی ہاں! مغرب نے ان دونوں ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد عوام کو جمہوریت کا تحفہ دیا اور جموریت نام ہے عوام کی حاکمیت کا اور اس عوامی حاکمیت کے قیام کے لیے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ جب امریکی زیر کمان اتحاد میں شامل بری اور فضائی افواج کابل، قندھار، بغداد، بصر ہ اور فلوجہ کو تاراج کررہی تھیں تو اعلیٰ امریکی عہدیدار ان ممالک میں ایک نئے دور یعنی جمہوری دور کے آغاز کی نوید سنا رہے تھے۔ جب حامد کرزئی کی حیثیت کابل کے میئر سے زیادہ نہ تھی اور قابض افواج کو افغانستان میں شدید مزاحمت کا سامنا تھا تو 2004 میں صدارتی اور 2005 میں پارلیمانی انتخابات کرائے گئے اور 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جب افغانستان پر طالبان کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوچکی تھی تو 2009 میں صدارتی اور 2010 میں پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے، حالانکہ عملاً افغان حکومت کی رٹ پوری طرح دارالحکومت کابل میں بھی قائم نہ تھی مگر جمہوریت کے تسلسل کے خاطر افغانستان میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔


عراق کی صورتحال تو ابتدا میں افغانستان سے کئی گنا زیادہ خطرناک تھی، عراق مجاہدین جارح افواج کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے تھے۔ امریکی اور برطانوی افواج پر ہر ہفتے تقریباً 200 کے قریب حملے ہوتے، جانی نقصان اس قدر زیادہ تھا کہ صحیح اعداد و شمار آج تک مرتب نہ ہوسکے۔ یہ مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ برسوں تک ویتنام میں لڑنے والی امریکی افواج کو دو سال بعد ہی اعتراف کرنا پڑا کہ عراق امریکا کے لیے دوسرا ویتنام ثابت ہورہا ہے اور یہ اعترافِ شکست خود سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کیا۔

مگر جمہوریت کے آغاز، دستور کی تشکیل اور ارکان قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے جنوری 2005 میں عراق میں عام انتخابات ہوئے۔ پانچ سال بعد 2010 میں یہی مشق دہرائی گئی۔ عراق اور افغانستا ن میں ہونے والے یہ انتخابات کس قدر شفاف تھے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہم کہنا اور بتانا صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان دونوں ممالک میں کشیدہ ترین صورتحال میں بھی انتخابات منعقد ہوئے۔

آئیے! کچھ ذکر پڑوسی ملک ایران کا بھی کرلیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ انقلاب ایران نے مغرب کے سفارتی جادوگروں اور خفیہ ایجنسیوں کو ہلاکر رکھ دیا تھا، ایران میں بادشاہت کا خاتمہ اور اسلامی حکومت کا قیام خطے میں معمولی تبدیلی نہ تھا، ایرانی عوام نے اس تبدیلی کی خاطر جو قربانیاں دیں وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، خود کتنے ہی انقلابی، اس انقلاب اور ضد انقلاب کی نذر ہوگئے، ابھی انقلابی حکومت پوری طرح قدم جمانے بھی نہ پائے تھی کہ امریکی شہ پر صدام حسین نے ایران پر حملہ کردیا اور یہ جنگ 10 سال تک جاری رہی مگر اس کے باوجود 80 کی دہائی میں اسلامی جمہوریہ ایران میں جس جمہوری دور کا آغاز ہوا وہ بلاتعطل آج تک جاری ہے۔

ایران، افغانستان اور عراق تو جنگ سے متاثر تھے، انھیں شدید ترین داخلی، خارجی اور اقتصادی مسائل کا سامنا تھا مگر ان تمام مشکلات کے باوجود وہاں جمہوری عمل جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی صورتحال تو ان تینوں ممالک سے کئی گنا بہتر تھی اور ہے مگر پھر ایک ایسے وقت جب عام انتخابات میں محض 8 دن کا وقت رہ گیا ہے کیوں بعض حلقوں اور جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے التوا کا مطالبہ اور تجویز سامنے آرہی ہے؟

مان لیا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی کے حالات بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہیں مگر اس میں نئی بات کیا ہے؟ خیبر پختونخوا میں تو گزشتہ 10 برسوں سے یہی حالات ہیں، قبائلی علاقوں کی صورتحال تو کئی سال سے تشویشناک ہے، بلوچستان میں آگ ایک عرصے سے لگی ہوئی ہے اور کراچی تو 1985 سے جل رہا ہے اور صرف گزشتہ 5 سال میں 8 ہزار سے زائد افراد کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا، مگر اس کے باوجود بھی سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومتیں قائم رہیں۔ پھر ان صوبوں اور وفاق میں نگراں سیٹ اپ بھی سابقہ حکمران جماعتوں کی مرضی سے تشکیل دیا گیا، چاروں صوبائی گورنرز بھی انھی حکومتوں کی مرضی کے مطابق تعینات ہوئے، صدر پاکستان کا تعلق بھی سابقہ حکمران جماعت سے ہے۔ جب سب کچھ مرضی کے مطابق ہے تو پھر چند حملوں اور دھماکوں کے بعد انتخابات کے تعطل یا التوا کا مطالبہ یا تجویز کیا بلاجواز نہیں؟

ہمار ے خیال میں کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے داخلی حالات بغداد، کابل اورقندھار سے آج بھی کئی گنا زیادہ بہتر ہیں اور اگر کہیں خرابی ہے تو اس کی ذمے دار وہی جماعتیں ہیں جو گزشتہ 5 سال تک ملک پر حکومت کرتی رہی ہیں اور پھر اقتدار اپنے ہی یار دوستوں کے سپرد کرکے گئی ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انتخابات ملتوی کرکے ملک کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کیا جائے۔ نگراں حکومت زیادہ عرصے ملکی معاملات کا بار اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس لیے ہر صورت میں عام انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جائے، چاہے سیاسی قیادت کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔
Load Next Story