سیاسی کشیدگی
منتخب لیڈروں کو اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے یہ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔
پاکستان کی احتساب عدالت نے دو مرتبہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد نواز شریف کو 10سال کے لیے قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے بارے میں عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ بہت سخت فیصلہ ہے۔ نواز شریف کو اس فیصلے کی اطلاع لندن میں ملی جہاں انھوں نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان واپس جائیں گے۔ البتہ حکمرانوں کے قریبی ذرایع کے مطابق جونہی وہ پاکستان میں اتریں گے انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ ایک دفعہ پھر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے پاکستان میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
شاید غیرجمہوری قوتوں کو عوامی بالادستی کی کوشش پسند نہیں۔ نواز شریف کے پاس اسقدر دولت ہے کہ وہ جتنا بڑا چاہیں جرمانہ ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی جو عدالت کے اختیار میں تھی۔ میری لندن کے قلب میں واقع پُرتعیش فلیٹ میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس فلیٹ کو دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ برصغیر کے بہت سے لیڈروں کی انگلینڈ میں ایسی ہی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ برصغیر پر انگلینڈ کی 150سال تک حکومت رہی ہے جس سے ان لوگوں کے دل میں لندن کی شان و شوکت اور دبدبہ جاگزین ہو گیا ہے۔ نواز شریف نے مجھے ناشتے پر مدعو کیا تھا لیکن ناشتے کا جو سامان سجایا گیا اس میں انواع و اقسام کی خور و نوش کی اشیا موجود تھیں۔
ان کے خاندان کے پاس پاکستان اور سعودی عرب میں کئی فیکٹریاں ہیں۔ لہٰذا مجھے یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ان کی اہلیہ اور بیٹی کے بھی لندن میں الگ الگ فلیٹ موجود ہیں۔ جہاں تک نواز شریف کے مقدمے کا تعلق ہے تو ان پر کرپشن کا کوئی الزام عاید نہیں کیا گیا۔ اس بات کا تذکرہ خود نواز شریف نے کیا ہے۔ جہاں تک الزامات کا تعلق ہے ان کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہو چکی ہے لیکن اسے ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہیے جس میں جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا امکان پیدا ہو۔ نواز شریف اپنے خلاف اس فیصلے سے فرار نہیں ہونا چاہتے بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ پاکستان واپس جائیں گے اور سزا کا سامنا کریں گے۔ منتخب لیڈروں کو اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے یہ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے عوام سڑکوں پر نکل آتے تھے تاکہ جمہوری نظام کا دفاع کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خلاف فیصلہ خود قبول کیا ہے۔ ان کی حکمرانی کی خامیوں نے عوام کے ایک حصے کو ان سے دور کر دیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار چھوڑ دیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور نصف مدتی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ لیکن نواز شریف نے پارلیمنٹ سے اپنی حمایت میں ایک قرارداد منظور کروائی ہے کہ پارلیمنٹ ہر قیمت پر ان کا ساتھ دے گی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تحریک انصاف کے عمران خان اور عوامی تحریک کے طاہر القادری دونوں ان کے خلاف ہیں۔
نواز شریف کے بعض اپوزیشن لیڈروں نے بھی نصف مدتی انتخابات کا مطالبہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ایک مرتبہ پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ نواز شریف کی حکومت چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب نواز شریف کو جنرل مشرف نے اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ ملک میں پارلیمانی جمہوریت نواز شریف ہی لائے تھے۔ میری نواز شریف سے اس وقت بھی ملاقات ہوئی تھی جب وہ وزیراعلیٰ تھے۔ یہ ملاقات دہلی میں ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے فوراً بتایا کہ میرا تعلق سیالکوٹ سے تھا انھوں نے کہا مجھے میرے پنجابی بولنے کے لہجے سے پہچانا ہے کہ میں سیالکوٹی ہوں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی لاہور میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نیا باب کھل سکتا تھا۔
دونوں ملکوں کی دوستی سے پورے خطے کو اقتصادی طور پر بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ دونوں اپنے بارڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں چہ جائیکہ درآمد برآمد کے لیے دوبئی کو استعمال کیا جائے۔ اس ملاقات کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس قسم کی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہونی چاہئیں جس میں کسی پروٹوکول کی ضرورت نہ ہو۔
اس کام کی ابتدا سابقہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی۔ جن کی دور اندیشی تعلقات کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔ وزیراعظم مودی نے لاہور سے واپس جانے کے بعد سب سے پہلے واجپائی سے ملاقات کی جن کا کہنا تھا کہ جو کام مودی نے کیا ہے وہ خود وہی کرنا چاہتے تھے کیونکہ مودی کی حکمرانی میں واجپائی کی روح جھلکتی ہے۔ اس کے برخلاف اب نواز شریف کو دس سال کی سزا کا سامنا ہے لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ ان کو سزا دینے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کی جانی چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
شاید غیرجمہوری قوتوں کو عوامی بالادستی کی کوشش پسند نہیں۔ نواز شریف کے پاس اسقدر دولت ہے کہ وہ جتنا بڑا چاہیں جرمانہ ادا کر سکتے ہیں۔ بہرحال نواز شریف کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی جو عدالت کے اختیار میں تھی۔ میری لندن کے قلب میں واقع پُرتعیش فلیٹ میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس فلیٹ کو دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ برصغیر کے بہت سے لیڈروں کی انگلینڈ میں ایسی ہی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ برصغیر پر انگلینڈ کی 150سال تک حکومت رہی ہے جس سے ان لوگوں کے دل میں لندن کی شان و شوکت اور دبدبہ جاگزین ہو گیا ہے۔ نواز شریف نے مجھے ناشتے پر مدعو کیا تھا لیکن ناشتے کا جو سامان سجایا گیا اس میں انواع و اقسام کی خور و نوش کی اشیا موجود تھیں۔
ان کے خاندان کے پاس پاکستان اور سعودی عرب میں کئی فیکٹریاں ہیں۔ لہٰذا مجھے یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ان کی اہلیہ اور بیٹی کے بھی لندن میں الگ الگ فلیٹ موجود ہیں۔ جہاں تک نواز شریف کے مقدمے کا تعلق ہے تو ان پر کرپشن کا کوئی الزام عاید نہیں کیا گیا۔ اس بات کا تذکرہ خود نواز شریف نے کیا ہے۔ جہاں تک الزامات کا تعلق ہے ان کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد ہو چکی ہے لیکن اسے ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں کرنی چاہیے جس میں جمہوریت کو نقصان پہنچنے کا امکان پیدا ہو۔ نواز شریف اپنے خلاف اس فیصلے سے فرار نہیں ہونا چاہتے بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ پاکستان واپس جائیں گے اور سزا کا سامنا کریں گے۔ منتخب لیڈروں کو اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے یہ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے عوام سڑکوں پر نکل آتے تھے تاکہ جمہوری نظام کا دفاع کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خلاف فیصلہ خود قبول کیا ہے۔ ان کی حکمرانی کی خامیوں نے عوام کے ایک حصے کو ان سے دور کر دیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف اقتدار چھوڑ دیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور نصف مدتی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ لیکن نواز شریف نے پارلیمنٹ سے اپنی حمایت میں ایک قرارداد منظور کروائی ہے کہ پارلیمنٹ ہر قیمت پر ان کا ساتھ دے گی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تحریک انصاف کے عمران خان اور عوامی تحریک کے طاہر القادری دونوں ان کے خلاف ہیں۔
نواز شریف کے بعض اپوزیشن لیڈروں نے بھی نصف مدتی انتخابات کا مطالبہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ایک مرتبہ پھر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا وہ نواز شریف کی حکومت چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب نواز شریف کو جنرل مشرف نے اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ ملک میں پارلیمانی جمہوریت نواز شریف ہی لائے تھے۔ میری نواز شریف سے اس وقت بھی ملاقات ہوئی تھی جب وہ وزیراعلیٰ تھے۔ یہ ملاقات دہلی میں ہوئی تھی۔ انھوں نے مجھے فوراً بتایا کہ میرا تعلق سیالکوٹ سے تھا انھوں نے کہا مجھے میرے پنجابی بولنے کے لہجے سے پہچانا ہے کہ میں سیالکوٹی ہوں۔ وزیراعظم نریندر مودی کی لاہور میں نواز شریف سے ملاقات ہوئی جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نیا باب کھل سکتا تھا۔
دونوں ملکوں کی دوستی سے پورے خطے کو اقتصادی طور پر بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ دونوں اپنے بارڈر سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں چہ جائیکہ درآمد برآمد کے لیے دوبئی کو استعمال کیا جائے۔ اس ملاقات کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس قسم کی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہونی چاہئیں جس میں کسی پروٹوکول کی ضرورت نہ ہو۔
اس کام کی ابتدا سابقہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی۔ جن کی دور اندیشی تعلقات کی راہ ہموار کر سکتی تھی۔ وزیراعظم مودی نے لاہور سے واپس جانے کے بعد سب سے پہلے واجپائی سے ملاقات کی جن کا کہنا تھا کہ جو کام مودی نے کیا ہے وہ خود وہی کرنا چاہتے تھے کیونکہ مودی کی حکمرانی میں واجپائی کی روح جھلکتی ہے۔ اس کے برخلاف اب نواز شریف کو دس سال کی سزا کا سامنا ہے لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ ان کو سزا دینے کی کوئی ٹھوس وجہ بیان کی جانی چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)