احسان قرآن و سنت کی روشنی میں
عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوب صورت ترین حالت کا نام ’’احسان‘‘ ہے۔
امام راغب اصفہانی لفظ حُسن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا حسیِن ہونا ہے، جو ہر لحاظ سے پسندیدہ اور عمدہ ہو اور اس کا عمدہ ہونا عقل کے پیمانے پر بھی پورا اترتا ہو، قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے بھی دل کو بھلا لگتا ہو اور یہ کہ حسی طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے بھی پرکشش ہو۔
اسی سے باب افعال کا مصدر ''احسان'' ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حُسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حُسن ہی حُسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوب صورت ترین حالت کا نام ''احسان'' ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ''تزکیہ'' ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوّف و سُلوک کہلاتا ہے۔
قرآنِ مجید میں احسان کا مفہوم:
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ''احسان'' کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: '' پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان ( اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔'' ( المائدہ)
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔'' (التوبہ)
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے۔ تقویٰ، دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آگیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ احسان کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوّف کی طرف اشارہ ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں، بل کہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کم زور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کرلیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوّف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں، جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشان دہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی: '' اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تُونے اپنا انعام فرمایا۔ ''
انعام یافتہ بندوں کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے : '' تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ '' (النساء)
حدیث مبارکہ میں احسان کا مفہوم:
امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' ایمان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کے نازل کردہ صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالی کی طرف سے مقدر مانے۔'' انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے ؟ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' اسلام یہ ہے کہ تُو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ کہ تُو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے ۔'' اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' احسان یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تُو نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔''
احسان کی جامع تعریف: حضور نبی اکرمؐ کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کیفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزیں ہوجائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے ۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ ال غرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کیفیت کو ''احسان'' کہتے ہیں۔
احسان کی قسمیں:
مالی احسان:
مالی بھلائی یہ کہ مال خرچ کرے، صدقہ، زکوۃ دے۔ سب سے عمدہ ''مالی احسان'' زکوۃ ہے۔ کیوں کہ زکوۃ اسلام اور اس کی عظیم عمارت کا ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نفقہ ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے ان واجب نفقات کا جو انسان اپنی بیوی، والدین، بچے، برادران، بھتیجے، بھانجیوں، چچاؤں، پھوپھیوں اور خالاؤں وغیرہ پر صرف کرتا ہے۔ پھر وہ صدقہ جو مستحقین صدقہ مساکین پر صرف کرتا ہے جیسے طالب علم وغیرہ۔
''مرتبے کی بھلائی اور احسان'' یہ ہے کہ لوگ مختلف رتبے کے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی پہنچ سرکاری عمال تک ہوتی ہے۔ چناں چہ انسان اپنی بھلائی رتبے اور مرتبے کی شکل میں خرچ کرتا ہے۔ اس کے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے کسی سرکاری عہدے دار کے یہاں کسی پریشانی کو ختم کرانے یا کسی فائدے کے سلسلے میں سفارش کے طالب ہوتے ہیں۔
''علمی احسان'' یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے لیے علم صرف کیا جائے۔ اس طرح کہ عمومی اور خصوصی محفلوں اور نشستوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے، یہاں تک کہ محفلِ قہوہ نوشی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ کیوں کہ لوگوں کو تعلیم دینا اور سکھانا تمہارا احسان ہے چاہے تم عام مجلس ہی میں کیوں نہ رہو۔ لیکن اس سلسلے میں حکمت سے کام لو، ان کے اوپر بوجھ نہ بن جاؤ کہ جہاں بھی بیٹھو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگو۔ اللہ کے رسول ﷺ موقع دے کر وعظ فرماتے اور زیادتی سے کام نہیں لیتے تھے، کیوں کہ طبیعتیں تھک جاتی اور بے زار ہو جاتی ہیں۔ اگر بے زار ہو گئیں تو بوجھل اور کم زور ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے وعظ و نصیحت کرنے والے کی طولانی سے خیر ہی کو ناپسند کرنے لگیں۔
لوگوں کے ساتھ ''جسمانی احسان'' کیا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارا سواری کے سلسلے میں آدمی کی اعانت کرنا، اسے سواری پر سوار کرا دینا، یا اس کے لیے سواری پر اس کا سامان چڑھا دینا صدقہ ہے۔ (رواہ البخاری) ایک آدمی جس کی تم اعانت کرتے ہو، اس کے ساتھ اس کا سامان لدوا دیتے ہو یا اسے راستہ بتا دیتے ہو یا اسی جیسے کام سب کے سب ''احسان'' ہیں۔ یہ ساری باتیں اس احسان سے متعلق ہیں جو اللہتعالیٰ کے بندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
احسان کا بدلہ:
بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کر جنگل میں سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑیا آیا اور اس نے عورت پہ حملہ کیا جب بھیڑیے نے حملہ کیا تو وہ کم زور دل عورت گھبرا گئی جس کی وجہ سے اس کا بیٹا اس کے ہاتھ سے نیچے گرگیا بھڑیے نے بچے کو اٹھایا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ جب ماں نے دیکھا کہ بھیڑیا میرے بیٹے کو منہ میں ڈال کر جا رہا ہے تو ماں کی ممتا نے جوش مارا تو اس کے دل سے ایک آہ نکلی جیسے ہی اس کی آہ نکلی تو اس نے دیکھا کہ ایک جوان مرد درخت کے پیچھے سے بھیڑیے کے سامنے آیا، جب بھڑیے نے سامنے اچانک ایک مرد کو دیکھا تو وہ گھبرا گیا اور بچے کو وہی چھوڑ کر بھاگ گیا، نوجوان نے بچے کو اٹھایا اور ماں کے حوالے کردیا اس ماں نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ جس نے میرے بچے کی جان بچائی آدمی نے کہا میں اللہ پاک کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں، مجھے اللہ پاک نے آپ کی مدد کرنے بھیجا ہے، جب ایک بار آپ کھانا کھا رہی تھی عین اسی وقت ایک سائل نے آپ کے دروازے پہ روٹی کا ٹکرا مانگا آپ کے گھر میں اس وقت وہی روٹی موجود تھی جو آپ خود کھانے والی تھی آپ نے کہا اللہ کے نام پہ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ کیسے جانے دوں، تم نے خود کو بھوکا رکھ کر اپنے لقمے اس کو دیے اب اللہ پاک نے بھیڑیے کے منہ کے لقمے نکال کر آپ کو دیے کہ احسان کا بدلہ بس احسان ہے۔
مولانا رضوان اللہ
اسی سے باب افعال کا مصدر ''احسان'' ہے۔ گویا احسان ایسا عمل ہے، جس میں حُسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حُسن ہی حُسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو۔ پس عمل کی اسی نہایت عمدہ اور خوب صورت ترین حالت کا نام ''احسان'' ہے اور اس کا دوسرا قرآنی نام ''تزکیہ'' ہے اور اس کے حصول کا طریقہ اور علم تصوّف و سُلوک کہلاتا ہے۔
قرآنِ مجید میں احسان کا مفہوم:
قرآن مجید میں اکثر مقامات پر لفظ ''احسان'' کے ساتھ علم الاحسان کی اہمیت اور فضیلت کا بیان مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: '' پھر پرہیز کرتے رہے اور ایمان لائے پھر صاحبان تقویٰ ہوئے (بالآخر) صاحبان احسان ( اللہ کے خاص محبوب و مقرب و نیکو کار بندے) بن گئے اور اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔'' ( المائدہ)
''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کی سنگت اختیار کرو۔'' (التوبہ)
ان آیات کریمہ میں پہلے تقویٰ کا بیان ہے۔ تقویٰ، دراصل شریعت کے تمام احکام، حلال و حرام پر سختی سے عمل کرنے کا نام ہے۔ اس سے پہلے عقائد و ایمانیات کا ذکر بھی آگیا یعنی ایمان و اسلام پر مبنی شریعت کے تمام احکام کی تکمیل کے ساتھ احسان کا ذکر کیا گیا ہے جو طریقت و تصوّف کی طرف اشارہ ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان نہ صرف شریعت کے ظاہری احکام پر عمل کر کے اپنے باطنی احوال کو تقوی کے نور سے آراستہ کریں، بل کہ اگر ان کو ایمان، اسلام اور احکام شریعت کی بجاآوری اور تقوی کے کم زور پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو انہیں چاہیے کہ سچے بندوں کی سنگت اختیار کرلیں جو صادقین اور محسنین ہیں اور یہی صاحبان احسان درحقیقت احسان و تصوّف کی راہ پر چلنے والے صوفیائے کرام ہیں، جو اللہ کے نہایت نیک اور مقرب بندے ہوتے ہیں۔ یہی وہ انعام یافتہ بندے ہیں جن کی راہ کو اللہ نے صراط مستقیم قرار دیا ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں سیدھے رستے کی نشان دہی کرتے ہوئے دعا کرنے کی تلقین فرمائی گئی: '' اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا جن پر تُونے اپنا انعام فرمایا۔ ''
انعام یافتہ بندوں کی وضاحت خود قرآن مجید نے یہ کہہ کر فرمائی ہے : '' تو یہی لوگ (روز قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام فرمایا ہے جو انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ '' (النساء)
حدیث مبارکہ میں احسان کا مفہوم:
امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبریل امین علیہ السلام بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کے لیے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے ؟ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' ایمان یہ ہے کہ تُو اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کے نازل کردہ صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالی کی طرف سے مقدر مانے۔'' انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے ؟ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' اسلام یہ ہے کہ تُو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لایق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ کہ تُو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے ۔'' اس کے بعد جبریل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' احسان یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تُو نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔''
احسان کی جامع تعریف: حضور نبی اکرمؐ کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کیفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزیں ہوجائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے ۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ ال غرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کیفیت کو ''احسان'' کہتے ہیں۔
احسان کی قسمیں:
مالی احسان:
مالی بھلائی یہ کہ مال خرچ کرے، صدقہ، زکوۃ دے۔ سب سے عمدہ ''مالی احسان'' زکوۃ ہے۔ کیوں کہ زکوۃ اسلام اور اس کی عظیم عمارت کا ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب نفقہ ہے۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے ان واجب نفقات کا جو انسان اپنی بیوی، والدین، بچے، برادران، بھتیجے، بھانجیوں، چچاؤں، پھوپھیوں اور خالاؤں وغیرہ پر صرف کرتا ہے۔ پھر وہ صدقہ جو مستحقین صدقہ مساکین پر صرف کرتا ہے جیسے طالب علم وغیرہ۔
''مرتبے کی بھلائی اور احسان'' یہ ہے کہ لوگ مختلف رتبے کے ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی پہنچ سرکاری عمال تک ہوتی ہے۔ چناں چہ انسان اپنی بھلائی رتبے اور مرتبے کی شکل میں خرچ کرتا ہے۔ اس کے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے کسی سرکاری عہدے دار کے یہاں کسی پریشانی کو ختم کرانے یا کسی فائدے کے سلسلے میں سفارش کے طالب ہوتے ہیں۔
''علمی احسان'' یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کے لیے علم صرف کیا جائے۔ اس طرح کہ عمومی اور خصوصی محفلوں اور نشستوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے، یہاں تک کہ محفلِ قہوہ نوشی کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ کیوں کہ لوگوں کو تعلیم دینا اور سکھانا تمہارا احسان ہے چاہے تم عام مجلس ہی میں کیوں نہ رہو۔ لیکن اس سلسلے میں حکمت سے کام لو، ان کے اوپر بوجھ نہ بن جاؤ کہ جہاں بھی بیٹھو لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنے لگو۔ اللہ کے رسول ﷺ موقع دے کر وعظ فرماتے اور زیادتی سے کام نہیں لیتے تھے، کیوں کہ طبیعتیں تھک جاتی اور بے زار ہو جاتی ہیں۔ اگر بے زار ہو گئیں تو بوجھل اور کم زور ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے وعظ و نصیحت کرنے والے کی طولانی سے خیر ہی کو ناپسند کرنے لگیں۔
لوگوں کے ساتھ ''جسمانی احسان'' کیا ہے ؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارا سواری کے سلسلے میں آدمی کی اعانت کرنا، اسے سواری پر سوار کرا دینا، یا اس کے لیے سواری پر اس کا سامان چڑھا دینا صدقہ ہے۔ (رواہ البخاری) ایک آدمی جس کی تم اعانت کرتے ہو، اس کے ساتھ اس کا سامان لدوا دیتے ہو یا اسے راستہ بتا دیتے ہو یا اسی جیسے کام سب کے سب ''احسان'' ہیں۔ یہ ساری باتیں اس احسان سے متعلق ہیں جو اللہتعالیٰ کے بندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
احسان کا بدلہ:
بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو لے کر جنگل میں سے گزر رہی تھی کہ اچانک بھیڑیا آیا اور اس نے عورت پہ حملہ کیا جب بھیڑیے نے حملہ کیا تو وہ کم زور دل عورت گھبرا گئی جس کی وجہ سے اس کا بیٹا اس کے ہاتھ سے نیچے گرگیا بھڑیے نے بچے کو اٹھایا اور وہاں سے بھاگ گیا۔ جب ماں نے دیکھا کہ بھیڑیا میرے بیٹے کو منہ میں ڈال کر جا رہا ہے تو ماں کی ممتا نے جوش مارا تو اس کے دل سے ایک آہ نکلی جیسے ہی اس کی آہ نکلی تو اس نے دیکھا کہ ایک جوان مرد درخت کے پیچھے سے بھیڑیے کے سامنے آیا، جب بھڑیے نے سامنے اچانک ایک مرد کو دیکھا تو وہ گھبرا گیا اور بچے کو وہی چھوڑ کر بھاگ گیا، نوجوان نے بچے کو اٹھایا اور ماں کے حوالے کردیا اس ماں نے اس سے پوچھا تم کون ہو ؟ جس نے میرے بچے کی جان بچائی آدمی نے کہا میں اللہ پاک کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں، مجھے اللہ پاک نے آپ کی مدد کرنے بھیجا ہے، جب ایک بار آپ کھانا کھا رہی تھی عین اسی وقت ایک سائل نے آپ کے دروازے پہ روٹی کا ٹکرا مانگا آپ کے گھر میں اس وقت وہی روٹی موجود تھی جو آپ خود کھانے والی تھی آپ نے کہا اللہ کے نام پہ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ کیسے جانے دوں، تم نے خود کو بھوکا رکھ کر اپنے لقمے اس کو دیے اب اللہ پاک نے بھیڑیے کے منہ کے لقمے نکال کر آپ کو دیے کہ احسان کا بدلہ بس احسان ہے۔
مولانا رضوان اللہ