جو سامنے ہے وہ تو دے دو

یہ انہونی بھی ہو رہی ہے کہ کئی خاندانوں کو خوراک خریدنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔

پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں کے باشندے اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہئے کہ انھیں وہ بتایا ہی نہیں جاتا جسے جاننا ان کا بنیادی حق ہے۔اس نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا ہم کون ہیں۔تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں۔چنانچہ پچھلے ستر برس سے کوشش یہی ہے کہ پاکستانیوں کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائٹ پلان پر ہی رکھا جائے۔اور انھیں یہی بتایا جائے کہ آسمان بس اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے دکھائی دیتا ہے۔

دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں، آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں علانیہ جوہری طاقت ہے۔ پاکستان سمیت صرف پینتیس ممالک کے ہاں گلیشئیر کی شکل میں پانی محفوظ ہے۔دس بڑے گلیشئیروں میں سے ایک ( بیافو ) پاکستان میں ہے۔دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جب کہ پاکستان کے پاس لگ بھگ سوا آٹھ سو کلومیٹر کی بحری پٹی ہے۔

دنیا کے سترہ ممالک میں دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کے بائیسویں طویل دریا ( انڈس ) ایک سو تین ویں ( ستلج ) اور ایک سو باون ویں بڑے دریا ( چناب ) سمیت کوئی ایسا صوبہ یا زیرِ انتظام علاقہ نہیں جو دریا سے محروم ہو۔جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی پچیس فیصد آبادی رہتی ہے وہاں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ( منچھر ) سمیت پاکستان کے پاس انتالیس قدرتی اور آٹھ انسانی جھیلیں ہیں۔ سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے۔

اس کرہِ ارض کے بائیس ممالک کے باسیوں نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہوگا تو تصاویر میں دیکھا ہوگا مگر پاکستان میں نہ صرف دوسری (کے ٹو) اور نویں بلند چوٹی (نانگا پربت) ہے بلکہ یہ اکیلا ملک ہے جہاں دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین پہاڑی سلسلے ( ہمالیہ ، قراقرم ، ہندوکش ) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔یورپ صحراؤں سے خالی براعظم ہے اور دنیا کا بیسواں بڑا صحرا ( تھر تا چولستان ) پاکستان میں ہے۔ سترہ ممالک کے باشندوں نے ریل ہی نہیں دیکھی اور پاکستان کے ہاں ستائیسواں بڑا عالمی ریلوے نیٹ ورک ہے۔

اب آئیے مٹی کی زرخیزی کی جانب۔ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے۔گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں درجے پے ہے۔ چاول کی برآمد کے اعتبار سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی کی پیداوار کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے (بھارت دوسرے نمبر پر ہے )۔پیاز کی فصل کے اعتبار سے چین، بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔گرم مصالحوں کی برآمدی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔چنے کی پیداوار میں پاکستان بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔دالوں کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی عالمی رینکنگ بیسویں ہے۔ کھجوروں کی پیداواری فہرست میں پاکستان چھٹا اور آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔

دریائی و زرعی ملک ہونے کے سبب یہاں مویشی بھی باافراط ہیں۔اس کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان بھارت ، امریکا اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس بڑے ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔بکریوں کی تعداد کے اعتبار سے چین اور بھارت کے بعد پاکستان تیسرا اور مٹن برآمد کرنے والے ممالک میں بارہویں نمبر پر ہے۔ اونٹوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک ہے۔

مگر یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے جب ان نعمتوں سے سب سے کم فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ عام پاکستانی ہے۔ایک عالمی ادارے ووکس نے بائیس ممالک میں خوراک پر فی کس اخراجات کا جو عالمی جدول جاری کیا اس کے مطابق ایک عام جنوبی افریقی خاندان ہر روز اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے پر سو روپے کی آمدنی میں سے بیس روپے ، ایک بھارتی خاندان پچیس روپے ، ایک نائجیریائی خاندان ساڑھے انتالیس روپے خرچ کرتا ہے مگر پاکستان میں ایک خاندان اگر سو روپے روز کماتا ہے تو اس میں سے لگ بھگ سینتالیس روپے خوراک پر خرچ ہوجاتے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سابق ڈائریکٹر برائے پاکستان ولف گینگ ہاربنگر کے بقول پاکستان میں گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔گندم کی پیداوار اس قدر ہے کہ ملکی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بعد بھی بیرونِ ملک برآمد ہوتی ہے۔لیکن پاکستانیوں کو پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آٹا تگنی قیمت پر مل رہا ہے۔اس عرصے میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے صوبہ سندھ میں ناکافی غذائیت کم تو خیر کیا ہوتی اکیس سے بڑھ کے تئیس فیصد ہوگئی۔یہ انہونی بھی ہو رہی ہے کہ کئی خاندانوں کو خوراک خریدنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔


مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے ، چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ الزام حکومت کی ترجیحات پر منڈھا جائے یا یہ کہہ کے جان چھڑا لی جائے کہ یہ سب تو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ راتوں رات سب کا پیٹ بھر دیں۔

مگر اے میرے منشور بازو اور مقدس گائیو ! تعلیم گئی بھاڑ میں ، صحت گئی جہنم میں ، روزگار کی بکواس رکھو اپنے پاس۔جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کررہی ہے اگر وہی پیدا کاروں میں تقسیم کرنے کا نظام نہیں تو باقی کا کیا کروں؟ اسلحہ برائے امن کی نمائشیں سرآنکھوں پے۔ خوراک برائے امن کی نمائش کب ہوگی ؟؟؟

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم

تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ

تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم

(جون ایلیا)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story