چھوٹے خداؤں کی بڑی خدائی
پورے یونین کونسل میں دو چار گھر گھرے تھے وہ بھی بارش کی وجہ سے یا بوسیدگی کی وجہ سے...
یہ پشتو کے ایک شاعر مرحوم سیف الرحمٰن سلیم کا شعر ہے کہ
دوڑو وڑو خدایا نو دے بندہ کڑم
لویہ خدایہ زہ بہ چا چاتہ سجدہ کڑم
ترجمہ: تو نے مجھے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بندہ بنا دیا ہے اے عظیم خدا اب تو ہی بتا کہ میں کس کس کو سجدہ کروں۔
توبہ ہزار بار توبہ ہم تو انھیں خدا نہیں سمجھتے، کیوں کہ خدا تو صرف ایک ہے لیکن اسے کیا جائے کہ وہ زبردستی ہمارے خدا بن بیٹھے ہیں اور ایسے بن بیٹھے ہیں کہ رزق کا ہر دانہ انھی کے ہاتھوں سے گزر کر ہمارے پاس آتا ہے، چونکہ یہ چھوٹے بھی ہیں اور جھوٹے بھی ہیں، اس لیے بڑے و اعظم رب جیسے تو ہو نہیں سکتے کیوں کہ وہ تو بلا کسی امتیاز کے اپنے ہر بندے کو یکساں رزق عطاء فرماتا ہے، چاہے کوئی اس کے آگے سجدہ کرے یا نہ کرے' وہ برابر اسے روزی دیتا ہے لیکن ان چھوٹے خداؤں کے ہاتھ سے صرف وہی کھا سکتا ہے جو ان کے آگے سجدہ کریں اور جو سجدہ نہیں کرتے ان کو یہ جیتے جی ہر عذاب میں مبتلا کرتے ہیں صرف یہ نہیں کہ رزق کا ہر دروازہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاتھ میں جو نوالہ ہوتا ہے وہ بھی چھیننے کی کوشش کرتے ہیں، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ کن چھوٹے خداؤں (بزعم خویش) کی طرف ہے' یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہمارے نظام نے ان داتا بنایا ہوا ہے ملک میں خرچ ہونے والا پیسہ ان کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔
ہر محکمے میں ہر نوکری ان کے ہاتھ میں ہے یہ صرف ایک پرانا افسانہ ہے کہ ملازمت حاصل کرنے کے لیے تعلیم اور اہلیت کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ بھی ضروری نہیں بس صرف چھوٹوں کی خوشنودی ہونی چاہیے، ان کی خوشنودی نہ ہو تو کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر ہی کیوں نہ ہو اس پر ہر ملازمت کے دروازے بند ہوتے ہیں اور خوشنودی حاصل ہو تو گڈریئے کو بھی پکڑ کر تعلیمی ماہر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے بندے صرف اس میں چھوٹ گئے جو پہلے سے ملازم ہیں ان کو تبادلوں کے نشانے پر رکھا جاتا ہے ۔
یہ ان کی مرضی ہے کہ کس کو کہاں رکھا جا سکتا ہے اور تبادلوں کے اس طوفان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے اسے اس وقت تک رگڑا جاتا ہے تبادلوں کے گرز مار مار کر ذرہ ذرہ کیا جاتا ہے جب تک وہ ان کے آگے ماتھا نہیں ٹیک دیتا، ماتھا ٹیکنا بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ ساتھ ہی ''نذر و نیاز'' کی مسلسل سعادت مندی بھی لازم ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ نظام میں یہ خرابی ہے۔ نظام میں وہ خرابی ہے فلاں محکمے نے یہ کیا فلاں محکمے نے وہ کیا، حالانکہ نظام میں کوئی خرابی نہیں اگر اسے نظام رہنے دیا گیا ہوتا، لیکن نظام ہے کہاں؟ نظام کی ماں تو اس وقت مر گئی جب اسے چھوٹے خداؤں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کی سانس کی نالی پر چھوٹے خداؤں کا پیر رکھ دیا گیا پھر تو وہی ہونا تھا جو ہوا اور ہو رہا ہے کہ
مرے نظام سیاست کا حال کیا پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
لیکن اصل مسئلہ تو یہاں آ کر ختم نہیں ہوتا ہے ان چھوٹے خداؤں کے ہاتھوں میں اگر صرف اپنے ملک کے خزانے ہوتے تو پھر بھی غنیمت تھا یہاں تو غضب یہ ہے کہ اگر کوئی باہر کا بندہ اس ملک کے مجبور مقہور اور عذاب زدہ لوگوں کے لیے کوئی خیر خیرات بھیجتا ہے تو وہ خیر خیرات بھی ان خداؤں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، اگر ان چھوٹے خداؤں کے ''اعمال'' کی وجہ سے کوئی زمینی یا آسمانی عذاب نازل ہوتا ہے جیسے زلزلہ، سیلاب، قحط زدگی، بیماریاں یا کوئی اور مصیبت ۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ عالمی ضمیر جاگتا ہے اور دنیا کی حکومتیں، ادارے، مخیر لوگ، انسان دوست تنظیمیں مدد کے لیے آگے بڑھتی ہیں، نقد رقومات بھیجتی ہیں، دوائیں بھیجتی ہیں، غذائی اجناس 'کپڑے بھیجتی ہیں لیکن ان کے راستے میں بھی چھوٹے خدا کھڑے ہوتے ہیں۔
ان امدادوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں 'پہلے تو ان میں سے اپنا اور اپنے بندوں کا حصہ نکالتے ہیں جو برا بھلا ماڑا مٹھا بچتا ہے پھر اس کی تقسیم ویسی ہی ہوتی ہے جیسی ہمیشہ ہوا کرتی ہے۔ کسی کی جھولی میں ایک دانہ کسی کی جھولی میں مٹھی اور کسی کی جھولی میں خروار، اس کی ایک تازہ ترین مثال گزشتہ سیلاب کی بنیاد پر وطن کارڈز کی تقسیم ہے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ خدا کا نام لے کر ان وطن کارڈوں کی جانچ پڑتال کرے اگر اسی فی صد وہ لوگ نہ نکلیں جن کو سیلاب نے چھوا تک نہیں بلکہ سیلاب کو انھوں نے دور سے کسی نالے میں بہتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ہے، وطن کارڈز کی تقسیم کا اندازہ لگانے کے لیے ہم ایک دو کلیو دیتے ہیں۔
جب سیلاب گزر گیا تو سیلاب زدہ علاقوں میں نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے پراپر طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ ایک علاقے کا پٹواری دوسرا گاؤں کا کوئی سرکردہ شخص اور تیسرا کوئی استاد ان تین لوگوں پر مشتمل کمیٹی نے سروے کرنا اور نقصان کا اندراج کرنا تھا ظاہر ہے کہ ابتداء میں وہی ہوا جو حقیقت تھا کچھ تھوڑا بہت مبالغہ یا اونچ نیچ تو ہوئی ہو گی لیکن پھر بھی صرف ان لوگوں کا اندراج ہوا جو کسی نہ کسی طرح سیلاب زدہ تھے، چنانچہ جس کمیونٹی میں ہم رہتے ہیں وہاں سیلاب آیا نہیں تھا بلکہ نالوں میں سے صرف گزرتے ہوئے دیکھا گیا۔
پورے یونین کونسل میں دو چار گھر گھرے تھے وہ بھی بارش کی وجہ سے یا بوسیدگی کی وجہ سے، البتہ فصلوں کا نقصان ضرور ہوا تھا چنانچہ کوئی ایک سو بیس لوگ سیلاب زدہ درج ہو گئے، لیکن آگے تو پھر چھوٹے خدا کی عمل داری تھی چنانچہ جب وطن کارڈ بن گئے تو پتہ چلا کہ اس یونین کونسل میں ساڑھے چھ سو سیلاب زدہ تھے چنانچہ بڑے آرام سے ان میں وہ سب کچھ بانٹا گیا جو سیلاب زدوں کے لیے باہر سے آیا تھا اور چونکہ تقسیم چھوٹے خدا کے اصل بندوں کے ہاتھ میں تھی اور اس لیے عوام تک آتے آتے اونٹ کی خرگوش بن گئی تھی۔
پھر مزید آگے بڑھ کر وہ خرگوش بھی چوہیا بن گیا اندازہ اس سے لگائیں کہ سیلاب زدوں کے لیے آیا ہوا مواد اب بھی ان چھوٹے خداؤں کے بندوں کے گھروں میں پڑا ہوا ہے اور جو بیچا جا سکتا تھا وہ الگ، مثلاً تین سو خیموں میں سیلاب زدگان تک صرف چودہ پندرہ ہی پہنچے ہوں گے باقی کہاں گئے یہ چھوٹے خدا جانتے ہیں یا ان کے بندے یا پھر بندوں کے بندے، سیلاب زدہ فصلوں کے لیے البتہ جو بیج کھاد اور زرعی سہولیات آئی تھیں وہ کاشت کاروں تک پہنچ گئیں لیکن قیمتاً کیوں کہ ان کو ان لوگوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
جن کی سرے سے نہ کوئی زمین تھی نہ فصل، بلکہ جہاں تقسیم ہوتی تھی اس کے آس پاس سوداگر کھڑے تھے وہ یہ سامان خرید لیتے تھے اور پھر آگے کاشت کاروں کو منافع لے کر بیچ دیتے تھے اسی طرح مویشیوں کے لیے چارہ وغیرہ بھی ان ہی لوگوں نے لیا، جن کے گھروں میں جانور تھے ہی نہیں بلکہ جن کے گھر تک نہیں تھے کیوں کہ ایک ہی گھر کے دس دس لوگوں نے الگ الگ مواد لیا تھا ویسے یہ ایک گھر کا سلسلہ وطن کارڈ میں بھی ہوا تھا، ایک گھر چھ سات لوگوں کے نام بھی آیا تھا یعنی اس ایک گھر میں چھ سات سیلاب زدہ تھے جہاں سیلاب آیا ہی نہ تھا، بلکہ اس سے بھی بڑا حقیقہ سن لیجیے جو وطن کارڈ جاری کرنے والے سرکاری عملے سے تعلق رکھتا تھا اس نے ایک ایسے گاؤں کا نام لیا جو پہاڑ کی چوٹی پر آباد اور سیلاب سے کوسوں دور تھا اس نے کہا اس گاؤں کا ایک شخص یہاں ڈی سی او آفس میں کسی اور کام سے آیا تھا وطن کارڈوں کا سن کر وہ بولا آخر ہمارے گاؤں کا حصہ کیوں نہیں۔
وہ واپس چلا گیا دوسرے دن منتخب نمایندے نے فون کیا جو اسی گاؤں کا تھا اور ساٹھ وطن کارڈ بنوا ڈالے جنہوں نے سیلاب کو شاید ٹی وی پر ہی دیکھا ہو گا، لیکن اصل معاملہ تو ابھی باقی ہے چھوٹے خدا کے جو اپنے فنڈز تھے وہ تو اس کے اپنے تھے کیوں نظام نے اس کو دے رکھے ہیں لیکن اسی حلقے میں جس کا ذکر ہو رہا ہے ایک ''این جی او'' کی طرف سے چار ارب روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن یہ پتہ صرف چھوٹے خدا اور اس کے بندوں کو ہو گا کہ کہاں خرچ ہوئے، کیوں کہ وہ بھی منتخب نمایندوں عرف چھوٹے خداؤں کے ہاتھ میں دیے گئے تھے
مضحکہ خیز بھی ہے باعث حیرانی بھی
کچھ نہ ہوتے ہوئے بندوں کا خدا ہو جانا
دوڑو وڑو خدایا نو دے بندہ کڑم
لویہ خدایہ زہ بہ چا چاتہ سجدہ کڑم
ترجمہ: تو نے مجھے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بندہ بنا دیا ہے اے عظیم خدا اب تو ہی بتا کہ میں کس کس کو سجدہ کروں۔
توبہ ہزار بار توبہ ہم تو انھیں خدا نہیں سمجھتے، کیوں کہ خدا تو صرف ایک ہے لیکن اسے کیا جائے کہ وہ زبردستی ہمارے خدا بن بیٹھے ہیں اور ایسے بن بیٹھے ہیں کہ رزق کا ہر دانہ انھی کے ہاتھوں سے گزر کر ہمارے پاس آتا ہے، چونکہ یہ چھوٹے بھی ہیں اور جھوٹے بھی ہیں، اس لیے بڑے و اعظم رب جیسے تو ہو نہیں سکتے کیوں کہ وہ تو بلا کسی امتیاز کے اپنے ہر بندے کو یکساں رزق عطاء فرماتا ہے، چاہے کوئی اس کے آگے سجدہ کرے یا نہ کرے' وہ برابر اسے روزی دیتا ہے لیکن ان چھوٹے خداؤں کے ہاتھ سے صرف وہی کھا سکتا ہے جو ان کے آگے سجدہ کریں اور جو سجدہ نہیں کرتے ان کو یہ جیتے جی ہر عذاب میں مبتلا کرتے ہیں صرف یہ نہیں کہ رزق کا ہر دروازہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاتھ میں جو نوالہ ہوتا ہے وہ بھی چھیننے کی کوشش کرتے ہیں، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ کن چھوٹے خداؤں (بزعم خویش) کی طرف ہے' یہ وہی لوگ ہیں جن کو ہمارے نظام نے ان داتا بنایا ہوا ہے ملک میں خرچ ہونے والا پیسہ ان کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔
ہر محکمے میں ہر نوکری ان کے ہاتھ میں ہے یہ صرف ایک پرانا افسانہ ہے کہ ملازمت حاصل کرنے کے لیے تعلیم اور اہلیت کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ اب ایسا کچھ بھی ضروری نہیں بس صرف چھوٹوں کی خوشنودی ہونی چاہیے، ان کی خوشنودی نہ ہو تو کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر ہی کیوں نہ ہو اس پر ہر ملازمت کے دروازے بند ہوتے ہیں اور خوشنودی حاصل ہو تو گڈریئے کو بھی پکڑ کر تعلیمی ماہر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے بندے صرف اس میں چھوٹ گئے جو پہلے سے ملازم ہیں ان کو تبادلوں کے نشانے پر رکھا جاتا ہے ۔
یہ ان کی مرضی ہے کہ کس کو کہاں رکھا جا سکتا ہے اور تبادلوں کے اس طوفان سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے اسے اس وقت تک رگڑا جاتا ہے تبادلوں کے گرز مار مار کر ذرہ ذرہ کیا جاتا ہے جب تک وہ ان کے آگے ماتھا نہیں ٹیک دیتا، ماتھا ٹیکنا بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ ساتھ ہی ''نذر و نیاز'' کی مسلسل سعادت مندی بھی لازم ہے، پھر ہم کہتے ہیں کہ نظام میں یہ خرابی ہے۔ نظام میں وہ خرابی ہے فلاں محکمے نے یہ کیا فلاں محکمے نے وہ کیا، حالانکہ نظام میں کوئی خرابی نہیں اگر اسے نظام رہنے دیا گیا ہوتا، لیکن نظام ہے کہاں؟ نظام کی ماں تو اس وقت مر گئی جب اسے چھوٹے خداؤں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کی سانس کی نالی پر چھوٹے خداؤں کا پیر رکھ دیا گیا پھر تو وہی ہونا تھا جو ہوا اور ہو رہا ہے کہ
مرے نظام سیاست کا حال کیا پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
لیکن اصل مسئلہ تو یہاں آ کر ختم نہیں ہوتا ہے ان چھوٹے خداؤں کے ہاتھوں میں اگر صرف اپنے ملک کے خزانے ہوتے تو پھر بھی غنیمت تھا یہاں تو غضب یہ ہے کہ اگر کوئی باہر کا بندہ اس ملک کے مجبور مقہور اور عذاب زدہ لوگوں کے لیے کوئی خیر خیرات بھیجتا ہے تو وہ خیر خیرات بھی ان خداؤں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، اگر ان چھوٹے خداؤں کے ''اعمال'' کی وجہ سے کوئی زمینی یا آسمانی عذاب نازل ہوتا ہے جیسے زلزلہ، سیلاب، قحط زدگی، بیماریاں یا کوئی اور مصیبت ۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ عالمی ضمیر جاگتا ہے اور دنیا کی حکومتیں، ادارے، مخیر لوگ، انسان دوست تنظیمیں مدد کے لیے آگے بڑھتی ہیں، نقد رقومات بھیجتی ہیں، دوائیں بھیجتی ہیں، غذائی اجناس 'کپڑے بھیجتی ہیں لیکن ان کے راستے میں بھی چھوٹے خدا کھڑے ہوتے ہیں۔
ان امدادوں کو ہاتھ میں لیتے ہیں 'پہلے تو ان میں سے اپنا اور اپنے بندوں کا حصہ نکالتے ہیں جو برا بھلا ماڑا مٹھا بچتا ہے پھر اس کی تقسیم ویسی ہی ہوتی ہے جیسی ہمیشہ ہوا کرتی ہے۔ کسی کی جھولی میں ایک دانہ کسی کی جھولی میں مٹھی اور کسی کی جھولی میں خروار، اس کی ایک تازہ ترین مثال گزشتہ سیلاب کی بنیاد پر وطن کارڈز کی تقسیم ہے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ خدا کا نام لے کر ان وطن کارڈوں کی جانچ پڑتال کرے اگر اسی فی صد وہ لوگ نہ نکلیں جن کو سیلاب نے چھوا تک نہیں بلکہ سیلاب کو انھوں نے دور سے کسی نالے میں بہتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ہے، وطن کارڈز کی تقسیم کا اندازہ لگانے کے لیے ہم ایک دو کلیو دیتے ہیں۔
جب سیلاب گزر گیا تو سیلاب زدہ علاقوں میں نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے پراپر طریقہ کار یہ اختیار کیا گیا کہ ایک علاقے کا پٹواری دوسرا گاؤں کا کوئی سرکردہ شخص اور تیسرا کوئی استاد ان تین لوگوں پر مشتمل کمیٹی نے سروے کرنا اور نقصان کا اندراج کرنا تھا ظاہر ہے کہ ابتداء میں وہی ہوا جو حقیقت تھا کچھ تھوڑا بہت مبالغہ یا اونچ نیچ تو ہوئی ہو گی لیکن پھر بھی صرف ان لوگوں کا اندراج ہوا جو کسی نہ کسی طرح سیلاب زدہ تھے، چنانچہ جس کمیونٹی میں ہم رہتے ہیں وہاں سیلاب آیا نہیں تھا بلکہ نالوں میں سے صرف گزرتے ہوئے دیکھا گیا۔
پورے یونین کونسل میں دو چار گھر گھرے تھے وہ بھی بارش کی وجہ سے یا بوسیدگی کی وجہ سے، البتہ فصلوں کا نقصان ضرور ہوا تھا چنانچہ کوئی ایک سو بیس لوگ سیلاب زدہ درج ہو گئے، لیکن آگے تو پھر چھوٹے خدا کی عمل داری تھی چنانچہ جب وطن کارڈ بن گئے تو پتہ چلا کہ اس یونین کونسل میں ساڑھے چھ سو سیلاب زدہ تھے چنانچہ بڑے آرام سے ان میں وہ سب کچھ بانٹا گیا جو سیلاب زدوں کے لیے باہر سے آیا تھا اور چونکہ تقسیم چھوٹے خدا کے اصل بندوں کے ہاتھ میں تھی اور اس لیے عوام تک آتے آتے اونٹ کی خرگوش بن گئی تھی۔
پھر مزید آگے بڑھ کر وہ خرگوش بھی چوہیا بن گیا اندازہ اس سے لگائیں کہ سیلاب زدوں کے لیے آیا ہوا مواد اب بھی ان چھوٹے خداؤں کے بندوں کے گھروں میں پڑا ہوا ہے اور جو بیچا جا سکتا تھا وہ الگ، مثلاً تین سو خیموں میں سیلاب زدگان تک صرف چودہ پندرہ ہی پہنچے ہوں گے باقی کہاں گئے یہ چھوٹے خدا جانتے ہیں یا ان کے بندے یا پھر بندوں کے بندے، سیلاب زدہ فصلوں کے لیے البتہ جو بیج کھاد اور زرعی سہولیات آئی تھیں وہ کاشت کاروں تک پہنچ گئیں لیکن قیمتاً کیوں کہ ان کو ان لوگوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
جن کی سرے سے نہ کوئی زمین تھی نہ فصل، بلکہ جہاں تقسیم ہوتی تھی اس کے آس پاس سوداگر کھڑے تھے وہ یہ سامان خرید لیتے تھے اور پھر آگے کاشت کاروں کو منافع لے کر بیچ دیتے تھے اسی طرح مویشیوں کے لیے چارہ وغیرہ بھی ان ہی لوگوں نے لیا، جن کے گھروں میں جانور تھے ہی نہیں بلکہ جن کے گھر تک نہیں تھے کیوں کہ ایک ہی گھر کے دس دس لوگوں نے الگ الگ مواد لیا تھا ویسے یہ ایک گھر کا سلسلہ وطن کارڈ میں بھی ہوا تھا، ایک گھر چھ سات لوگوں کے نام بھی آیا تھا یعنی اس ایک گھر میں چھ سات سیلاب زدہ تھے جہاں سیلاب آیا ہی نہ تھا، بلکہ اس سے بھی بڑا حقیقہ سن لیجیے جو وطن کارڈ جاری کرنے والے سرکاری عملے سے تعلق رکھتا تھا اس نے ایک ایسے گاؤں کا نام لیا جو پہاڑ کی چوٹی پر آباد اور سیلاب سے کوسوں دور تھا اس نے کہا اس گاؤں کا ایک شخص یہاں ڈی سی او آفس میں کسی اور کام سے آیا تھا وطن کارڈوں کا سن کر وہ بولا آخر ہمارے گاؤں کا حصہ کیوں نہیں۔
وہ واپس چلا گیا دوسرے دن منتخب نمایندے نے فون کیا جو اسی گاؤں کا تھا اور ساٹھ وطن کارڈ بنوا ڈالے جنہوں نے سیلاب کو شاید ٹی وی پر ہی دیکھا ہو گا، لیکن اصل معاملہ تو ابھی باقی ہے چھوٹے خدا کے جو اپنے فنڈز تھے وہ تو اس کے اپنے تھے کیوں نظام نے اس کو دے رکھے ہیں لیکن اسی حلقے میں جس کا ذکر ہو رہا ہے ایک ''این جی او'' کی طرف سے چار ارب روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن یہ پتہ صرف چھوٹے خدا اور اس کے بندوں کو ہو گا کہ کہاں خرچ ہوئے، کیوں کہ وہ بھی منتخب نمایندوں عرف چھوٹے خداؤں کے ہاتھ میں دیے گئے تھے
مضحکہ خیز بھی ہے باعث حیرانی بھی
کچھ نہ ہوتے ہوئے بندوں کا خدا ہو جانا