نمک شکر چکنائی اور کہولت
یہ عنوان ہے جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب ’’دی ورلڈ انَٹِل یسٹر ڈے‘‘ کے آخری باب کا۔
یہ عنوان ہے جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب ''دی ورلڈ انَٹِل یسٹر ڈے'' کے آخری باب کا۔ جیرڈ کا اور آپ کی اِس کتاب کا تعارف پہلے ہو چکا ہے۔ آج اُسی کتاب سے چند مزید اقتباسات۔ ''میں نے پاپائے نیوگنی میں 1964میں کام شروع کیا تھا۔ اُس وقت وہاں کی اکثریتی آبادی روایتی طرزِ زندگی کی حامل تھی۔
وہ دیہاتوں میں رہا کرتے تھے۔ سطح مرتفع پر رہنے والے افراد بطور غذا، وہاں پیدا ہونے والی جڑیں کھایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آلو، اروی اور شکر قندی۔ 90 فی صد افراد کی غذا یہ ہی تھی۔ سطح مرتفع سے نیچے رہنے والے افراد نشاستے دار اناج کھاتے تھے۔ اور بہت ہی قلیل تعداد ایسے افراد کی تھی جو اسٹور سے اشیاء خرید کر کھاتے تھے۔ مثلاً بِسکٹ، ڈبے کی مچھلی، قلیل مقدار میں نمک اور شکر۔''
جیرڈ لکھتے ہیں کہ نیو گِنی کی جِن چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیا اُن میں وہاں کے افراد کی جسمانی حالت بھی ہے۔ دبلے پتلے، کثرتی جسم، چاق و چوبند، جیسے مغرب کے باڈی بلڈر۔ اگر انھوں نے وزن اُٹھایا ہُوا نہ ہو تو پہاڑی راستوں پر بلا تکان دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اور اگر انھوں نے بہت سا وزن اُٹھا رکھا ہو تو ان کی رفتار پھر بھی مجھ سے تو تیز ہی ہوتی ہے۔ مجھے ایک چھوٹے قد کی خاتون یاد پڑتی ہیں۔ اُن کا وزن بمشکل 100 پونڈ رہا ہو گا۔ وہ بھلی مانس 70 پونڈ کے چاولوں کی بوری اپنی کمر پر لادے، دریائی اور پہاڑی گزر گاہوں پر بے تکلف چلی جا رہی تھیں۔ اُن دنوں نیوگنی میں میں نے ایک بھی وزنی اور موٹا شخص نہیں دیکھا۔
نیوگنی کے اسپتال کے اندراجات اور ڈاکٹروں کے معائنے کی رپورٹس بھی اِس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہاں کے افراد عمدہ صحت کے حامل تھے۔ غیر متعدی امراض جو پہلی دنیا کے اکثر افراد کی ہلاکت کے ذمے دار قرار دیے جا رہے ہیں۔ مثلاً شوگر، ہائی بلڈ پریشر، فالج، دِل کا دورہ، ہڈیوں کا بُھربُھرا پن، دل کے عمومی امراض اور سرطان وغیرہ۔
یہ تمام امراض نیوگنی اور اُس کے نواحی علاقوں میں نہ صرف یہ کہ مفقود تھے بلکہ لوگ اِن امراض کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ 1960 میں پورٹ مورس بے (دارالخلافہ) کے جنرل اسپتال کا ریکارڈ دیکھا گیا۔ 2000 افراد اسپتال میں داخل ہوئے۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جِسے دِل کی شریانوں کے عارضے کی بِنا پر اسپتال میں داخل کیا گیا ہو۔ ہائی بلڈ پریشر کے صرف 4 کیس تھے۔ اب یہ بھی سُن لیجیے کہ یہ چار افراد وہ تھے جو مخلوط النسل تھے۔ ان میں کا ایک بھی نیوگنی کا اصل نہ تھا۔
1964میں نیوگنی میں پہلی دنیا کے افراد کو لاحق ہونے والے امراض کا ظہور شروع ہو چکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہ امراض اُس طبقے میں ظاہر ہو رہے تھے جن کا یورپ کے افراد سے یا تو براہ راست رابطہ تھا یا اُنھوں نے مغربی طرزِ زندگی اور خوراک کو اپنا لیا تھا۔ آج مغربیت ایک انفجار کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔ آج نیوگنی کے ہزاروں افراد کاروبار کر رہے ہیں، سیاست دان ہیں، پائلٹ ہیں اور کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔ یہ اپنی غذا سُپر مارکیٹس اور ریسٹورینٹس سے حاصل کرتے ہیں۔
ورزش بہت کم کرتے ہیں۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں آج بے شمار موٹے افراد نظر آتے ہیں۔ یہاں کے ''وینگلا'' افراد کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ شوگر سے متاثر افراد میں ہوتا ہے۔ (37 فی صد شوگر کے مریض)۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ اُس نسل کے افراد ہیں کہ جنھوں نے نیوگنی میں سب سے پہلے مغربی طرزِ زندگی اپنایا۔ مغربی طرز کی غذائیں کھانے لگے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ شہری افراد میں دل کے دورے آج عام ہیں۔
1998 سے میں، نیوگنی آئل فیلڈ کے لیے بھی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہاں کے ملازمین بھی مغربی طرز کے بوفے کیفے ٹیریا میں تین وقت کا کھانا کھانے لگے ہیں۔ یہاں ہر میز پر ایک نمک دانی اور ایک شکر دانی رکھی ہوتی ہے۔ آئل کمپنی نے ملازمین کی بہتر صحت کے لیے نیو گنی کے تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کیں۔ وہ ملازمین کو صحت مند غذا کے بارے میں بتاتے تھے۔ دیکھا یہ گیا کہ جلد ہی اُن میں سے کچھ ورکرز خود مغربی طرز کے امراض کا شکار ہو گئے۔
یہ تبدیلیاں جو میں نیوگنی میں وقوع پزیر ہوتے دیکھ رہا ہوں صرف ایک مثال ہے، اُس لہر کی جو غیر متعدی امراض کی وبا پر مشتمل ہے۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے، مغربی طرزِ تغذیہ و بود و باش کا۔ یہ سلسلہ دنیا بھر کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اِس طرح کے امراض روایتی معاشروں میں کہیں نہیں تھے۔ عالمی سطح پر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ جِن اقوام و ملل نے مغربی طرزِ زندگی کو اپنایا وہ تیزی سے ان امراض کا شکار ہوئے۔ جیرڈ کہتے ہیں کہ نمک اور نمک دانی کا استعمال انسان کے لیے نیا ہے۔
روایتی کھانوں اور تہذیبوں میں نہ آج کی طرح نمک استعمال ہوتا تھا، نہ نمک دانی تھی۔ نہ ہی اُس دور کے افراد بلڈ پریشر اور دل کے مریض ہوتے تھے۔ اُس دور میں نمک کا حصول ایک دِقت طلب کام تھا۔ آج نمک سے چھٹکارا پانا ایک مشکل کام ہے۔ جیرڈ لکھتے ہیں کہ سالومن جزیرے کے ''لائو'' افراد اوسطاً روزانہ 10 گرام نمک استعمال کرتے تھے۔ یہ افراد ایک جزیرے پر آباد تھے اور مچھلیاں کھایا کرتے تھے۔ وہ مچھلیاں سمندر کے نمکین پانی میں پکاتے تھے۔ قریباً یہ ہی حال ایران کے قشقی افراد کا تھا جن کے ہاں نمک سطح زمین پر آیا ہوا تھا۔
اب سے کچھ عرصہ قبل کے یہ وہ افراد ہیں جو ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ نمک کھانے والے تھے۔ اور یہ 10 ملی گرام یومیہ سے زیادہ نہ تھا۔ تخمینے کے مطابق دنیا کے دیگر علاقوں میں رہنے والے افراد، خواہ وہ شکاری ہوں یا کاشت کار، اُن کا یومیہ نمک کا اوسط استعمال 3 گرام یومیہ سے زائد نہ تھا۔
سب سے کم نمک استعمال کرنے والے برازیل کے ''یانومامو ہندی'' تھے۔ اوسطاً 50 ملی گرام یومیہ۔ یہ آج کے امریکیوں کے اوسط نمک کھانے کی مقدار کا 1/200 حصہ ہے۔ کنزیومر رپورٹ کے مطابق ایک سنگل بِگ میک ہیم برگر میں 1500 ملی گرام نمک ہوتا ہے۔ گویا ''یانو ما'' افراد کے ایک ماہ کے نمک کی خواراک۔ چکن نوڈلز کے ایک پیالے میں 2.8 گرام نمک ہوتا ہے۔ یعنی یا نو ما افراد کی ایک ماہ کی نمک کی خوراک۔ چائینیز امریکن ریسٹو رنٹ لاس اینجلس کی ڈبل پَین فرائیڈ نوڈلز کومبو کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اِس میں 18.4 گرام نمک تھا۔ یعنی ''یا نو ما''افراد کا ایک برس تین دن کا نمک۔
ہمارے ملک کا حال بھی کچھ مختلف نہیں، کسی شہر قصبے یا دیہات کی کسی بھی کھانے کی دُکان کا رخ کر لیں۔ نان، چپاتی، سالن، کڑاھی، برگر، پیِزا کچھ بھی لے لیں نمک کی ایک کثیر مقدار اس میں ہوتی ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ اور دیگر قریباً سب ہی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر، دل کے امراض، فالج، لقوہ، گردوں کے امراض اور سرطان وغیرہ کا بڑا سبب نمک اور چکنائیاں ہیں۔ جیرڈ کہتے ہیں کہ نمک، شکر، چکنائیاں اور پراسیسڈ فوڈ امراض کی جڑ ہیں۔
یاد کیجیے کہ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں بازار میں یا سرِ راہ کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ عام چلن ہے۔ اور امراض کا سبب ہے۔ نمک پیاس کو بڑھاتا ہے۔ جب آپ ایک نمکین اور چٹخارے دار غذا کھاتے ہیں تو پیاس بجھانے کے لیے تیز ٹھنڈا اور میٹھا مشروب پیتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں درست نہیں۔ چائے، کافی، سوفٹ ڈرنک، انرجی ڈرنک وغیرہ پھر قِسم قِسم کے میٹھے، ذرا تصور کریں ہم آپ کتنی شکر کھاتے ہیں۔ جیرڈ 2010 کے ایک سروے کا حوالا دیتے ہیں کہ دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 300 ملین ہو گئی ہے۔ جیرڈ کا کہنا ہے کہ یہ تخمینہ اصل سے بہت کم معلوم ہوتا ہے۔
ایک جانب نمک، شکر، چکنائیوں اور پراسیسڈ فوڈ نے انسان کو موٹا اور امراض کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب بجلی اور اُس سے چلنے والے آلات نے انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے۔ جسمانی مشقت ہماری زندگی سے نکلتی جا رہی ہے۔ ہم بستر سے اُٹھتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری کرسی پر بیٹھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوبارہ بستر اور پھر اسپتال کا بستر اور پھر قبر۔
انسان ایک مصنوعی وجود نہیں ہے۔ اُسے آج کی مصنوعی مغربی طرزِ زندگی نے بیمار بنا دیا ہے۔ مصنوعی نمک، مصنوعی مٹھاس، چکنائیاں اور جسمانی مشقت کے نہ ہونے اور شدید تنائو اور دبائو کے ماحول نے آج کے انسان سے سکون اور صحت کی نعمتیں چھین لی ہیں۔ آج کا انسان زبانِ حال سے یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ نام نہاد ترقی کا یہ سفر ترقی نہیں ترقی معکوس ہے۔
وہ دیہاتوں میں رہا کرتے تھے۔ سطح مرتفع پر رہنے والے افراد بطور غذا، وہاں پیدا ہونے والی جڑیں کھایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر آلو، اروی اور شکر قندی۔ 90 فی صد افراد کی غذا یہ ہی تھی۔ سطح مرتفع سے نیچے رہنے والے افراد نشاستے دار اناج کھاتے تھے۔ اور بہت ہی قلیل تعداد ایسے افراد کی تھی جو اسٹور سے اشیاء خرید کر کھاتے تھے۔ مثلاً بِسکٹ، ڈبے کی مچھلی، قلیل مقدار میں نمک اور شکر۔''
جیرڈ لکھتے ہیں کہ نیو گِنی کی جِن چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیا اُن میں وہاں کے افراد کی جسمانی حالت بھی ہے۔ دبلے پتلے، کثرتی جسم، چاق و چوبند، جیسے مغرب کے باڈی بلڈر۔ اگر انھوں نے وزن اُٹھایا ہُوا نہ ہو تو پہاڑی راستوں پر بلا تکان دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اور اگر انھوں نے بہت سا وزن اُٹھا رکھا ہو تو ان کی رفتار پھر بھی مجھ سے تو تیز ہی ہوتی ہے۔ مجھے ایک چھوٹے قد کی خاتون یاد پڑتی ہیں۔ اُن کا وزن بمشکل 100 پونڈ رہا ہو گا۔ وہ بھلی مانس 70 پونڈ کے چاولوں کی بوری اپنی کمر پر لادے، دریائی اور پہاڑی گزر گاہوں پر بے تکلف چلی جا رہی تھیں۔ اُن دنوں نیوگنی میں میں نے ایک بھی وزنی اور موٹا شخص نہیں دیکھا۔
نیوگنی کے اسپتال کے اندراجات اور ڈاکٹروں کے معائنے کی رپورٹس بھی اِس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہاں کے افراد عمدہ صحت کے حامل تھے۔ غیر متعدی امراض جو پہلی دنیا کے اکثر افراد کی ہلاکت کے ذمے دار قرار دیے جا رہے ہیں۔ مثلاً شوگر، ہائی بلڈ پریشر، فالج، دِل کا دورہ، ہڈیوں کا بُھربُھرا پن، دل کے عمومی امراض اور سرطان وغیرہ۔
یہ تمام امراض نیوگنی اور اُس کے نواحی علاقوں میں نہ صرف یہ کہ مفقود تھے بلکہ لوگ اِن امراض کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ 1960 میں پورٹ مورس بے (دارالخلافہ) کے جنرل اسپتال کا ریکارڈ دیکھا گیا۔ 2000 افراد اسپتال میں داخل ہوئے۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جِسے دِل کی شریانوں کے عارضے کی بِنا پر اسپتال میں داخل کیا گیا ہو۔ ہائی بلڈ پریشر کے صرف 4 کیس تھے۔ اب یہ بھی سُن لیجیے کہ یہ چار افراد وہ تھے جو مخلوط النسل تھے۔ ان میں کا ایک بھی نیوگنی کا اصل نہ تھا۔
1964میں نیوگنی میں پہلی دنیا کے افراد کو لاحق ہونے والے امراض کا ظہور شروع ہو چکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہ امراض اُس طبقے میں ظاہر ہو رہے تھے جن کا یورپ کے افراد سے یا تو براہ راست رابطہ تھا یا اُنھوں نے مغربی طرزِ زندگی اور خوراک کو اپنا لیا تھا۔ آج مغربیت ایک انفجار کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔ آج نیوگنی کے ہزاروں افراد کاروبار کر رہے ہیں، سیاست دان ہیں، پائلٹ ہیں اور کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔ یہ اپنی غذا سُپر مارکیٹس اور ریسٹورینٹس سے حاصل کرتے ہیں۔
ورزش بہت کم کرتے ہیں۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں آج بے شمار موٹے افراد نظر آتے ہیں۔ یہاں کے ''وینگلا'' افراد کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ شوگر سے متاثر افراد میں ہوتا ہے۔ (37 فی صد شوگر کے مریض)۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ اُس نسل کے افراد ہیں کہ جنھوں نے نیوگنی میں سب سے پہلے مغربی طرزِ زندگی اپنایا۔ مغربی طرز کی غذائیں کھانے لگے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ شہری افراد میں دل کے دورے آج عام ہیں۔
1998 سے میں، نیوگنی آئل فیلڈ کے لیے بھی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہاں کے ملازمین بھی مغربی طرز کے بوفے کیفے ٹیریا میں تین وقت کا کھانا کھانے لگے ہیں۔ یہاں ہر میز پر ایک نمک دانی اور ایک شکر دانی رکھی ہوتی ہے۔ آئل کمپنی نے ملازمین کی بہتر صحت کے لیے نیو گنی کے تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کیں۔ وہ ملازمین کو صحت مند غذا کے بارے میں بتاتے تھے۔ دیکھا یہ گیا کہ جلد ہی اُن میں سے کچھ ورکرز خود مغربی طرز کے امراض کا شکار ہو گئے۔
یہ تبدیلیاں جو میں نیوگنی میں وقوع پزیر ہوتے دیکھ رہا ہوں صرف ایک مثال ہے، اُس لہر کی جو غیر متعدی امراض کی وبا پر مشتمل ہے۔ یہ براہ راست نتیجہ ہے، مغربی طرزِ تغذیہ و بود و باش کا۔ یہ سلسلہ دنیا بھر کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اِس طرح کے امراض روایتی معاشروں میں کہیں نہیں تھے۔ عالمی سطح پر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ جِن اقوام و ملل نے مغربی طرزِ زندگی کو اپنایا وہ تیزی سے ان امراض کا شکار ہوئے۔ جیرڈ کہتے ہیں کہ نمک اور نمک دانی کا استعمال انسان کے لیے نیا ہے۔
روایتی کھانوں اور تہذیبوں میں نہ آج کی طرح نمک استعمال ہوتا تھا، نہ نمک دانی تھی۔ نہ ہی اُس دور کے افراد بلڈ پریشر اور دل کے مریض ہوتے تھے۔ اُس دور میں نمک کا حصول ایک دِقت طلب کام تھا۔ آج نمک سے چھٹکارا پانا ایک مشکل کام ہے۔ جیرڈ لکھتے ہیں کہ سالومن جزیرے کے ''لائو'' افراد اوسطاً روزانہ 10 گرام نمک استعمال کرتے تھے۔ یہ افراد ایک جزیرے پر آباد تھے اور مچھلیاں کھایا کرتے تھے۔ وہ مچھلیاں سمندر کے نمکین پانی میں پکاتے تھے۔ قریباً یہ ہی حال ایران کے قشقی افراد کا تھا جن کے ہاں نمک سطح زمین پر آیا ہوا تھا۔
اب سے کچھ عرصہ قبل کے یہ وہ افراد ہیں جو ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ نمک کھانے والے تھے۔ اور یہ 10 ملی گرام یومیہ سے زیادہ نہ تھا۔ تخمینے کے مطابق دنیا کے دیگر علاقوں میں رہنے والے افراد، خواہ وہ شکاری ہوں یا کاشت کار، اُن کا یومیہ نمک کا اوسط استعمال 3 گرام یومیہ سے زائد نہ تھا۔
سب سے کم نمک استعمال کرنے والے برازیل کے ''یانومامو ہندی'' تھے۔ اوسطاً 50 ملی گرام یومیہ۔ یہ آج کے امریکیوں کے اوسط نمک کھانے کی مقدار کا 1/200 حصہ ہے۔ کنزیومر رپورٹ کے مطابق ایک سنگل بِگ میک ہیم برگر میں 1500 ملی گرام نمک ہوتا ہے۔ گویا ''یانو ما'' افراد کے ایک ماہ کے نمک کی خواراک۔ چکن نوڈلز کے ایک پیالے میں 2.8 گرام نمک ہوتا ہے۔ یعنی یا نو ما افراد کی ایک ماہ کی نمک کی خوراک۔ چائینیز امریکن ریسٹو رنٹ لاس اینجلس کی ڈبل پَین فرائیڈ نوڈلز کومبو کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اِس میں 18.4 گرام نمک تھا۔ یعنی ''یا نو ما''افراد کا ایک برس تین دن کا نمک۔
ہمارے ملک کا حال بھی کچھ مختلف نہیں، کسی شہر قصبے یا دیہات کی کسی بھی کھانے کی دُکان کا رخ کر لیں۔ نان، چپاتی، سالن، کڑاھی، برگر، پیِزا کچھ بھی لے لیں نمک کی ایک کثیر مقدار اس میں ہوتی ہے۔ جیرڈ ڈائمنڈ اور دیگر قریباً سب ہی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر، دل کے امراض، فالج، لقوہ، گردوں کے امراض اور سرطان وغیرہ کا بڑا سبب نمک اور چکنائیاں ہیں۔ جیرڈ کہتے ہیں کہ نمک، شکر، چکنائیاں اور پراسیسڈ فوڈ امراض کی جڑ ہیں۔
یاد کیجیے کہ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہاں بازار میں یا سرِ راہ کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ آج یہ عام چلن ہے۔ اور امراض کا سبب ہے۔ نمک پیاس کو بڑھاتا ہے۔ جب آپ ایک نمکین اور چٹخارے دار غذا کھاتے ہیں تو پیاس بجھانے کے لیے تیز ٹھنڈا اور میٹھا مشروب پیتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں درست نہیں۔ چائے، کافی، سوفٹ ڈرنک، انرجی ڈرنک وغیرہ پھر قِسم قِسم کے میٹھے، ذرا تصور کریں ہم آپ کتنی شکر کھاتے ہیں۔ جیرڈ 2010 کے ایک سروے کا حوالا دیتے ہیں کہ دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 300 ملین ہو گئی ہے۔ جیرڈ کا کہنا ہے کہ یہ تخمینہ اصل سے بہت کم معلوم ہوتا ہے۔
ایک جانب نمک، شکر، چکنائیوں اور پراسیسڈ فوڈ نے انسان کو موٹا اور امراض کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب بجلی اور اُس سے چلنے والے آلات نے انسان کو سہل پسند بنا دیا ہے۔ جسمانی مشقت ہماری زندگی سے نکلتی جا رہی ہے۔ ہم بستر سے اُٹھتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری کرسی پر بیٹھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوبارہ بستر اور پھر اسپتال کا بستر اور پھر قبر۔
انسان ایک مصنوعی وجود نہیں ہے۔ اُسے آج کی مصنوعی مغربی طرزِ زندگی نے بیمار بنا دیا ہے۔ مصنوعی نمک، مصنوعی مٹھاس، چکنائیاں اور جسمانی مشقت کے نہ ہونے اور شدید تنائو اور دبائو کے ماحول نے آج کے انسان سے سکون اور صحت کی نعمتیں چھین لی ہیں۔ آج کا انسان زبانِ حال سے یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ نام نہاد ترقی کا یہ سفر ترقی نہیں ترقی معکوس ہے۔