دھماکے انتخابات ملتوی کرانے کی سازش
ملک میں الیکشن کے نکتہ عروج پر سیاسی گھٹن بڑھ گئی، سیاست میں بصیرت کی آنکھ کی روشنی مدھم ہونے لگی ہے۔
آئندہ انتخابات کو صرف چند دن باقی رہ گئے ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے صدیوں پر محیط ہوں گے۔ اس عرصہ کو میر تقی میر کے اس شعر کے آئینہ میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ
زمانے میں مرے شور جنوں نے
قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
کئی درد انگیز واقعات، حادثات اور سانحے قومی سیاسی تاریخ کا سینہ چیر گئے۔ سیاسی صنم کدے میں جمہوری عمل کو درپیش چیلنجز، الیکشن کی ناگزیر شفافیت اور دیگر اہم سیاسی، قانونی، عدالتی اور احتسابی کارروائیوں کی چنگھاڑ ایسی تھی کہ اس کے سدباب کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے بیک زبان یہ خدشات اٹھائے کہ دھماکے انتخابات سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
دہشتگردوں نے پہلے پشاور میں بلور خاندان کے چشم وچراغ ہارون بلور کو شہید کیا، پھر بنوں میں ووٹرز کو خوفزدہ کرنے کے لیے اکرم درانی کے قافلہ پر بم حملہ کرکے 5 قیمتی جانوں سے خراج لیا، عمران خان کے خلاف الیکشن لڑنے والے اکرم درانی کے قافلہ کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد جمعہ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک انتخابی ریلی میں دھماکا ہولناک اور لرزہ خیز تھا، جس میں بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما میر غوث بخش رئیسانی کے صاحبزادے سراج رئیسانی سمیت 130 شہید جب کہ 150 سے زائد زخمی ہوئے۔
سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کا قافلہ درین گڑھ میں خود کش حملہ آور کا نشانہ بنا۔ صوبائی حلقہ پی بی 35 میں الیکشن ملتوی ہوئے، اس حلقہ میں سراج کا مقابلہ اپنے بڑے بھائی اسلم رئیسانی سے تھا۔ 22 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، بلوچستان عوامی پارٹی نے سانحہ پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، سابق وفاقی وزیر، جے یوآئی (ف) کے مرکزی رہنما اور این اے 35 کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے کے قریب بم دھماکے میں 2 بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق اور 4 پولیس اہلکاروں اور 2 خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے، اکرم خان درانی محفوظ رہے۔ پولیس کے مطابق سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی جمعہ کے روز تھانہ ہوید بنوں کی حدود میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کے بعد کارکنوں کے ہمراہ قافلے کی شکل میں جا رہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے کھڑی موٹرسائیکل میں نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے شہید رہنما سراج رئیسانی پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ انھوں نے 2014ء میں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کا سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ انھوں نے یوم پاکستان کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں پاک فوج کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ یوں دہشتگردوں نے پاکستان کی محبت میں سرشار ایک محب وطن سیاست دان کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ تاہم دہشتگردی کی مسلسل تین وارداتوں سے ہونے والی انسانی جانوں کے نقصان کا ادراک کرنا ناگزیر ٹھہرا، جو دہشتگردی کے دوبارہ سر اٹھانے والے عفریت کی ٹائمنگ، فعالیت اور ظلمت افروز سٹریٹجی کا شاخسانہ ہے۔
انتہاپسندوں نے انتخابی عمل، جمہوریت اور ملکی سالمیت پر حملہ کیا ہے، دہشتگردوں نے ملکی رٹ کے خلاف ماضی جیسی رعونت، خودسری اور ہلاکت خیزی پر کمربستہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، سیاسی حلقوں نے سیکیورٹی حصار کو توڑتے ہوئے سیاسی قافلوں، ریلیوں اور اجتماعات کو نشانہ بنانے والی باطل قوتوں کے اسٹرائیک بیک پر سخت تشویش کے ساتھ ان قوتوں سے کھلی جنگ کرنے کے عزم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ الیکشن ہر قیمت پر ہونے چاہییں مگر اس بات کی دہشتگروں کو ہرگز اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ جمہوری قوتوں، قومی یکجہتی، انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہم وطنوں کی زندگیوں سے کھیلیں اور دنیا کو یہ گھناؤنا پیغام دینے میں کامیاب ہوجائیں کہ ان کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں۔ بظاہر ان کی حکمت عملی ہمارے کمزور سیکیورٹی انتظامات، انٹیلی جنس شیئرنگ اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دعوؤں کے قطعی برعکس ہے۔ فاٹا اور بلوچستان میں 25 جولائی تک آگ، خون اور آنسوؤں کا درد انگیز دورانیہ تھم جانا چاہیے۔
دہشتگردوں کی پاکستان واپسی ایک سیاسی چیلنج ہے اور قومی سلامتی کے لیے خطرات کی الم ناکی کا سفر روکنے کے لیے سیکیورٹی اقدامات جنگی بنیادوں پر ہونے چاہییں، لیکن دہشتگردوں کا کام ہمارے سیاستدان خود آسان نہ بنائیں۔ حقیقت میں عشروں سے جاری سیاسی کشمکش، الزام تراشی میں لتھڑی انتخابی مہم اور سیکیورٹی الرٹ کے باوجود حالیہ سیاسی کریک ڈاؤن، یک طرفہ ریلیوں کی بندش، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور لاہور کو نوگو ایریا بنانے سے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہوئی، اس سے جگ ہنسائی ہوئی۔
اصولی بات تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے لاہور آمد اور ان کی گرفتاری کی حکمت عملی تدبر سے خالی تھی، خواہ مخواہ ایک ہائپ پیدا کی گئی، میڈیا کی براہ راست کوریج پر قدغن کے باوجود سارا لاہور لاکڈ ڈاؤن تھا، سڑکیں سنسان تھیں، معمولات زندگی معطل اور (ن) لیگ کی ریلی اور سٹیبلشمنٹ میں گھمسان کا رن پڑنے کی منظرکشی ہوئی، جب کہ قومی احتساب بیورو کی ٹیم نے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے پر طیارے کے اندر سے باپ بیٹی کو بغیر کسی مزاحمت کے حراست میں لے لیا۔ دونوں رہنما نجی ایئرلائن اتحاد کی فلائٹ نمبر ای وائے 243 سے براستہ ابوظہبی لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے تھے۔
تاخیر کے باعث نواز شریف اور مریم نواز تقریباً پونے 9بجے لاہور پہنچے، طیارے کے لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی 3 خواتین اہلکاروں سمیت نیب کی 16 رکنی ٹیم سینئر افسر عدنان بٹ کی زیرقیادت موجود تھی، جس نے قانونی کارروائی شروع کردی۔ ایف آئی اے کے تین اہلکار بھی جہاز کے اندر پہنچے اور نوازشریف اور مریم نوازکے پاسپورٹس تحویل میں لے کر ان کی امیگریشن جہاز کے اندر ہی کرلی۔ میڈیا کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں گرفتار سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف مزید دو ریفرنسوں میں ٹرائل اب اڈیالہ جیل میں ہوگا۔
وزارت قانون وانصاف کی طرف سے جاری کیے جانے والے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک سینٹرل جیل اڈیالہ میں نواز شریف کے خلاف مزید دو ریفرنسوں کی سماعت کرے گی۔ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بعدازاں مذکورہ ریسٹ ہاؤس کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ریسٹ ہاؤس کو سب جیل کا درجہ دیدیا گیا جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے سیکیورٹی انتظامات سنبھال لیے ہیں۔ ادھر صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ ووٹ ڈال کر کرنا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ تبدیلی آگئی ہے، جو رہ گئی وہ 25 جولائی کو آجائے گی۔ میڈیا کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ریلی کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ (ن) لیگ کے شیروں نے ثابت کر دیا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔
قبل ازیں ریلی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پورا لاہور امڈ آیا ہے، 25 تاریخ کے الیکشن کا آج فیصلہ ہوگیا، دریں اثنا (ن) لیگ کے رہنماؤں مشاہد حسین سید، پرویز رشید، شاہ محمد شاہ، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ و دیگر نے لیگیکارکنوں کی گرفتاریوں اور لاک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور لاک ڈاؤن غیر جمہوری، پری پول دھاندلی کے مترادف اور الیکشن چوری کرنے کی کوشش ہے، گرفتاریوں اور لاک ڈاؤن کا واحد مقصد محاذ آرائی اور ن لیگ کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان واپسی اور خود کو نیب کے حکام کے حوالے کرنے کے بعد اگرچہ ایک بڑا مرحلہ ختم ہوگیا ہے لیکن ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کی اپیل اور خود صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہبازشریف کی طرف سے اپنے قائد کے استقبال کے لیے ریلی کی صورت میں ہوائی اڈے تک جانے کے فیصلے نے لیگی کارکنوں کو متحرک تو کردیا مگر گھروں سے باہر نکلنا اور احتجاج کرنا کوئی متاثر کن عمل دکھائی نہیں دیا، کارکنوں کی متاثرکن تعداد نہیں آئی جب کہ دیگر سیاسی ذرائع کا کہنا تھا کہ ن لیگی کارکنوں نے لاہور کے مکمل انتظامی ''کرفیو'' کی مزاحمت کرتے ہوئے شو ڈاؤن کیا جو کامیاب رہا۔
ادھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نواز شریف کا استقبال کرنے والوں کے حوالہ سے متنازع بیان بھی سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ دریں اثنا نگران وزیر اطلاعات سید علی ظفر نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو ابوظہبی ہی میں گرفتار کرنے کی خبروں پر وضاحت دیتے ہوئے کہا پاکستانی حکام کو بیرون ملک گرفتاریوں کا کوئی اختیار نہیں ہے، جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات علی ظفر نے واضح کیا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو ابوظہبی میں گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی گئی ہے، اس حوالے سے خبریں بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں الیکشن کے نکتہ عروج پر سیاسی گھٹن بڑھ گئی، سیاست میں بصیرت کی آنکھ کی روشنی مدھم ہونے لگی ہے، معروف تعلیمی و ادبی شخصیات نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف ایکشن پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی اور دہشتگردوں کے خلاف ایکشن میں تیزی آنی چاہیے، سیاست کے کھیت کو اجاڑنے والی قوتوں کو راستہ نہیں ملنا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتیں ملکی امن واستحکام اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ ایکشن پلان بنائیں۔ نگراں حکومت جانبداری اور عدم شفافیت کے الزام سے خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے، سینٹ کے اجلاس میں نگراں انتظامیہ پر دھاندلی کے الزامات لگے، سیاست میں جبر کا عنصر نہیں ہونا چاہیے، الیکشن شفاف ہوں، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بند ہو، نگراں وزیراعظم قانون کی عبوری حکمرانی کی مثال قوم کے سامنے پیش کریں تو یہ صائب پیش رفت ہوگی۔
زمانے میں مرے شور جنوں نے
قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
کئی درد انگیز واقعات، حادثات اور سانحے قومی سیاسی تاریخ کا سینہ چیر گئے۔ سیاسی صنم کدے میں جمہوری عمل کو درپیش چیلنجز، الیکشن کی ناگزیر شفافیت اور دیگر اہم سیاسی، قانونی، عدالتی اور احتسابی کارروائیوں کی چنگھاڑ ایسی تھی کہ اس کے سدباب کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے بیک زبان یہ خدشات اٹھائے کہ دھماکے انتخابات سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
دہشتگردوں نے پہلے پشاور میں بلور خاندان کے چشم وچراغ ہارون بلور کو شہید کیا، پھر بنوں میں ووٹرز کو خوفزدہ کرنے کے لیے اکرم درانی کے قافلہ پر بم حملہ کرکے 5 قیمتی جانوں سے خراج لیا، عمران خان کے خلاف الیکشن لڑنے والے اکرم درانی کے قافلہ کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد جمعہ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک انتخابی ریلی میں دھماکا ہولناک اور لرزہ خیز تھا، جس میں بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما میر غوث بخش رئیسانی کے صاحبزادے سراج رئیسانی سمیت 130 شہید جب کہ 150 سے زائد زخمی ہوئے۔
سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کا قافلہ درین گڑھ میں خود کش حملہ آور کا نشانہ بنا۔ صوبائی حلقہ پی بی 35 میں الیکشن ملتوی ہوئے، اس حلقہ میں سراج کا مقابلہ اپنے بڑے بھائی اسلم رئیسانی سے تھا۔ 22 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، بلوچستان عوامی پارٹی نے سانحہ پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
واضح رہے سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، سابق وفاقی وزیر، جے یوآئی (ف) کے مرکزی رہنما اور این اے 35 کے امیدوار اکرم خان درانی کے قافلے کے قریب بم دھماکے میں 2 بچوں سمیت 5 افراد جاں بحق اور 4 پولیس اہلکاروں اور 2 خواتین سمیت 35 افراد زخمی ہوگئے، اکرم خان درانی محفوظ رہے۔ پولیس کے مطابق سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی جمعہ کے روز تھانہ ہوید بنوں کی حدود میں ایک انتخابی جلسے میں شرکت کے بعد کارکنوں کے ہمراہ قافلے کی شکل میں جا رہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے کھڑی موٹرسائیکل میں نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے شہید رہنما سراج رئیسانی پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے۔ انھوں نے 2014ء میں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کا سب سے بڑا قومی پرچم بنانے کا اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔ انھوں نے یوم پاکستان کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں پاک فوج کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ یوں دہشتگردوں نے پاکستان کی محبت میں سرشار ایک محب وطن سیاست دان کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ تاہم دہشتگردی کی مسلسل تین وارداتوں سے ہونے والی انسانی جانوں کے نقصان کا ادراک کرنا ناگزیر ٹھہرا، جو دہشتگردی کے دوبارہ سر اٹھانے والے عفریت کی ٹائمنگ، فعالیت اور ظلمت افروز سٹریٹجی کا شاخسانہ ہے۔
انتہاپسندوں نے انتخابی عمل، جمہوریت اور ملکی سالمیت پر حملہ کیا ہے، دہشتگردوں نے ملکی رٹ کے خلاف ماضی جیسی رعونت، خودسری اور ہلاکت خیزی پر کمربستہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، سیاسی حلقوں نے سیکیورٹی حصار کو توڑتے ہوئے سیاسی قافلوں، ریلیوں اور اجتماعات کو نشانہ بنانے والی باطل قوتوں کے اسٹرائیک بیک پر سخت تشویش کے ساتھ ان قوتوں سے کھلی جنگ کرنے کے عزم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ الیکشن ہر قیمت پر ہونے چاہییں مگر اس بات کی دہشتگروں کو ہرگز اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ جمہوری قوتوں، قومی یکجہتی، انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہم وطنوں کی زندگیوں سے کھیلیں اور دنیا کو یہ گھناؤنا پیغام دینے میں کامیاب ہوجائیں کہ ان کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں۔ بظاہر ان کی حکمت عملی ہمارے کمزور سیکیورٹی انتظامات، انٹیلی جنس شیئرنگ اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دعوؤں کے قطعی برعکس ہے۔ فاٹا اور بلوچستان میں 25 جولائی تک آگ، خون اور آنسوؤں کا درد انگیز دورانیہ تھم جانا چاہیے۔
دہشتگردوں کی پاکستان واپسی ایک سیاسی چیلنج ہے اور قومی سلامتی کے لیے خطرات کی الم ناکی کا سفر روکنے کے لیے سیکیورٹی اقدامات جنگی بنیادوں پر ہونے چاہییں، لیکن دہشتگردوں کا کام ہمارے سیاستدان خود آسان نہ بنائیں۔ حقیقت میں عشروں سے جاری سیاسی کشمکش، الزام تراشی میں لتھڑی انتخابی مہم اور سیکیورٹی الرٹ کے باوجود حالیہ سیاسی کریک ڈاؤن، یک طرفہ ریلیوں کی بندش، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں اور لاہور کو نوگو ایریا بنانے سے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہوئی، اس سے جگ ہنسائی ہوئی۔
اصولی بات تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی لندن سے لاہور آمد اور ان کی گرفتاری کی حکمت عملی تدبر سے خالی تھی، خواہ مخواہ ایک ہائپ پیدا کی گئی، میڈیا کی براہ راست کوریج پر قدغن کے باوجود سارا لاہور لاکڈ ڈاؤن تھا، سڑکیں سنسان تھیں، معمولات زندگی معطل اور (ن) لیگ کی ریلی اور سٹیبلشمنٹ میں گھمسان کا رن پڑنے کی منظرکشی ہوئی، جب کہ قومی احتساب بیورو کی ٹیم نے لاہور ایئرپورٹ پہنچنے پر طیارے کے اندر سے باپ بیٹی کو بغیر کسی مزاحمت کے حراست میں لے لیا۔ دونوں رہنما نجی ایئرلائن اتحاد کی فلائٹ نمبر ای وائے 243 سے براستہ ابوظہبی لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے تھے۔
تاخیر کے باعث نواز شریف اور مریم نواز تقریباً پونے 9بجے لاہور پہنچے، طیارے کے لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی 3 خواتین اہلکاروں سمیت نیب کی 16 رکنی ٹیم سینئر افسر عدنان بٹ کی زیرقیادت موجود تھی، جس نے قانونی کارروائی شروع کردی۔ ایف آئی اے کے تین اہلکار بھی جہاز کے اندر پہنچے اور نوازشریف اور مریم نوازکے پاسپورٹس تحویل میں لے کر ان کی امیگریشن جہاز کے اندر ہی کرلی۔ میڈیا کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس میں گرفتار سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف مزید دو ریفرنسوں میں ٹرائل اب اڈیالہ جیل میں ہوگا۔
وزارت قانون وانصاف کی طرف سے جاری کیے جانے والے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک سینٹرل جیل اڈیالہ میں نواز شریف کے خلاف مزید دو ریفرنسوں کی سماعت کرے گی۔ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بعدازاں مذکورہ ریسٹ ہاؤس کے حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے ریسٹ ہاؤس کو سب جیل کا درجہ دیدیا گیا جس کے بعد اسلام آباد پولیس نے سیکیورٹی انتظامات سنبھال لیے ہیں۔ ادھر صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ ووٹ ڈال کر کرنا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ تبدیلی آگئی ہے، جو رہ گئی وہ 25 جولائی کو آجائے گی۔ میڈیا کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ریلی کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ (ن) لیگ کے شیروں نے ثابت کر دیا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔
قبل ازیں ریلی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پورا لاہور امڈ آیا ہے، 25 تاریخ کے الیکشن کا آج فیصلہ ہوگیا، دریں اثنا (ن) لیگ کے رہنماؤں مشاہد حسین سید، پرویز رشید، شاہ محمد شاہ، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ و دیگر نے لیگیکارکنوں کی گرفتاریوں اور لاک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے پارٹی کے سیکڑوں کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور لاک ڈاؤن غیر جمہوری، پری پول دھاندلی کے مترادف اور الیکشن چوری کرنے کی کوشش ہے، گرفتاریوں اور لاک ڈاؤن کا واحد مقصد محاذ آرائی اور ن لیگ کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان واپسی اور خود کو نیب کے حکام کے حوالے کرنے کے بعد اگرچہ ایک بڑا مرحلہ ختم ہوگیا ہے لیکن ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کی اپیل اور خود صدر مسلم لیگ (ن) میاں شہبازشریف کی طرف سے اپنے قائد کے استقبال کے لیے ریلی کی صورت میں ہوائی اڈے تک جانے کے فیصلے نے لیگی کارکنوں کو متحرک تو کردیا مگر گھروں سے باہر نکلنا اور احتجاج کرنا کوئی متاثر کن عمل دکھائی نہیں دیا، کارکنوں کی متاثرکن تعداد نہیں آئی جب کہ دیگر سیاسی ذرائع کا کہنا تھا کہ ن لیگی کارکنوں نے لاہور کے مکمل انتظامی ''کرفیو'' کی مزاحمت کرتے ہوئے شو ڈاؤن کیا جو کامیاب رہا۔
ادھر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نواز شریف کا استقبال کرنے والوں کے حوالہ سے متنازع بیان بھی سیاسی اور قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ دریں اثنا نگران وزیر اطلاعات سید علی ظفر نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو ابوظہبی ہی میں گرفتار کرنے کی خبروں پر وضاحت دیتے ہوئے کہا پاکستانی حکام کو بیرون ملک گرفتاریوں کا کوئی اختیار نہیں ہے، جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات علی ظفر نے واضح کیا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کو ابوظہبی میں گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی گئی ہے، اس حوالے سے خبریں بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں الیکشن کے نکتہ عروج پر سیاسی گھٹن بڑھ گئی، سیاست میں بصیرت کی آنکھ کی روشنی مدھم ہونے لگی ہے، معروف تعلیمی و ادبی شخصیات نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور حامیوں کے خلاف ایکشن پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی اور دہشتگردوں کے خلاف ایکشن میں تیزی آنی چاہیے، سیاست کے کھیت کو اجاڑنے والی قوتوں کو راستہ نہیں ملنا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتیں ملکی امن واستحکام اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ ایکشن پلان بنائیں۔ نگراں حکومت جانبداری اور عدم شفافیت کے الزام سے خود کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے، سینٹ کے اجلاس میں نگراں انتظامیہ پر دھاندلی کے الزامات لگے، سیاست میں جبر کا عنصر نہیں ہونا چاہیے، الیکشن شفاف ہوں، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بند ہو، نگراں وزیراعظم قانون کی عبوری حکمرانی کی مثال قوم کے سامنے پیش کریں تو یہ صائب پیش رفت ہوگی۔