دھرمپورہ کا استقبال
کئی لیڈروں نے ڈرامے بازی بھی کی تاکہ ان کے نمبر بن سکیں۔ کچھ تو گھروں میں ہی ’’نظربند‘‘ ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
نواز شریف اور مریم نواز کا طیارہ لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ ہوا۔ دونوں باپ بیٹی کی گرفتاری عمل میں آئی، انھیں خصوصی طیارے میں سوار کرکے اسلام آباد اور وہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔
یہ سب ہوگیا لیکن ن لیگ کے کارکنوں کے ''سمندر'' کی کوئی ایک موج ایئرپورٹ کے قریب بھی نہ پہنچ سکی حالانکہ مجھے امید تھی کہ چلو سمندر نہیں، اس کی کوئی موج نہیں تو کم ازکم پانی کی نمی تو وہاں تک جائے گی لیکن کیا کریں کہ ن لیگ نہیں بلکہ شہباز لیگ کے کارکنوں کے سمندر کی موجوں کا سارا طلاطم مال روڈ پر بہتے بہتے دھرمپورہ پہنچ کر گھروں کو چلاگیا۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شہر میں کنٹینر بھی لگے، پولیس نے کارکنوں کو روکا بھی، بعض مقامات پر کارکنوں اور پولیس میں تصادم بھی ہوا لیکن لاہور ہمارا ''گڑھ'' ہے کی دعویدار ن لیگ چند ہزار سے زیادہ کارکن سڑکوں پر نہ لاسکی اور جسے تصادم کہا جا رہا ہے وہ بھی ہلکی پھلکی ''موسیقی'' سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ شہباز لیگ نے جتنے لوگ اکٹھے کیے، ان میں بڑی تعداد پنجاب کے دوسرے شہروں سے آنے والے کارکنوں اور لیڈروں پر مشتمل تھی۔
کئی لیڈروں نے ڈرامے بازی بھی کی تاکہ ان کے نمبر بن سکیں۔ کچھ تو گھروں میں ہی ''نظربند'' ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ نگران حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرکے ن لیگ کے شو کو چار چاند لگانے کی کوشش ضرور کی لیکن جب مدعی سست ہو تو چست گواہ کیا کرسکتا ہے۔
احتساب عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ سابق وزیراعظم پاکستان آئیں گے یا لندن میں قیام پذیر ہونا پسند کریں گے۔ نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی اہلیہ بے ہوش ہیں، انھیں وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا ہے، وہ جب تک ہوش میں نہیں آتیں وہ پاکستان نہیں جائیں گے۔ ان کے مخالفین نے یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ ن لیگ کے کارکنوں پر مایوسی چھانے لگی۔
اس دوران میاں صاحب نے اعلان کردیا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ 13 جولائی کو واپس آرہے ہیں۔ اس اعلان سے ن لیگ کے کارکنان میں نئی جان پڑگئی۔ نجی ایئرلائن کی پرواز کو شام سوا چھ بجے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ ابوظہبی میں تاخیر ہوئی اور فلائیٹ 9 بجے کے قریب لاہور ایئرپورٹ پر اتری۔ ادھر نواز شریف وطن واپسی کی تیاری کررہے تھے ادھر ن لیگ ان کے استقبال کی تیاریاں۔
دعویٰ کیا گیا کہ لاکھوں کارکن اپنے تاحیات قائد کا استقبال کریں گے۔ ن لیگی لیڈر یہ دعوے بھی کرتے رہے کہ وہ تمام رکاوٹیں توڑ کر ایئرپورٹ جائیں گے۔ شہباز شریف سب سے زیادہ متحرک نظر آرہے تھے۔ انھوں نے ایک دن پہلے پورے لاہور کا دورہ کیا۔ تیاریوں سے لگتا تھا لاہور میں ن لیگ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوگا اور سب رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔
میاں صاحب کو لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی بتا دیا گیا کہ ایئرپورٹ تک کوئی کارکن نہیں پہنچ سکا۔ جب انھیں یہ بتایا جارہا تھا تو مایوسی ان کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔ میاں صاحب کی گرفتاری کے بعد جب انھیں 18 سو سی سی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا اور تھوڑی دیر رن وے پر پیدل چلنے کے بعد اس میں بیٹھ گئے۔ سنا ہے کہ کسی اینکر نے کہا کہ میاں صاحب کو انتہائی چھوٹی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا گیا۔
میاں صاحب کے حساب سے تو یہ گاڑی یقیناً انتہائی چھوٹی ہی ہو گی پر اب اتنی بڑی کار کسی اینکر کے لیے بھی انتہائی چھوٹی ہے تو پھر حیرانی کی بات ہے۔ نواز شریف کا طیارہ جب لینڈ کر رہا تھا تو ہم ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ ن لیگ کے صدر شہباز شریف قافلے کو لیڈ کر رہے ہیں وہ کہاں تک پہنچا ہے۔ رپورٹر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ قافلہ ریگل چوک کے قریب پہنچا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ن لیگ کا کوئی سابق رکن اسمبلی، وزیر حتیٰ کہ سابق وزیراعظم تک کو گرفتار نہیں کیا گیا پھر بھی شو فلاپ ہو گیا۔
نواز شریف اور مریم کو اڈیالہ جیل بھی پہنچا دیا گیا لیکن ن لیگ کی ریلی خراماں خراماں چلتی رہی۔ یہ ریلی رات گئے دھرم پورہ میں پہنچی اور اپنی طرف سے تاحیات قائد کا استقبال کر کے اختتام پذیر ہو گئی۔ شہباز شریف صاحب نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے انتہائی مختصر خطاب کیا اور لوگ گھروں کو چلے گئے۔ گویا نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان نے ن لیگ میں زندگی کی جو روح پھونکی تھی وہ اس ریلی نے نکال دی۔
لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر ن لیگ میں اتنی جان نہیں تھی تو پھر نواز شریف نے وطن واپس آ کر جیل جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ایک مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ واقعی نظریاتی ہو چکے ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو پوری قوم کا بیانیہ بنانا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ انھیں امید تھی بہت بڑا استقبال ہو گا اور پھر انھیں سلاخوں کے پیچھے رکھنے والے خوف سے تھرتھر کانپنا شروع کر دیں گے۔ لوہے کی سلاخیں پگھل جائیں گی اور وہ باہر آ کر قوم کے سب سے بڑے لیڈر بن جائیں گے۔
میرے خیال میں میاں صاحب کی واپسی کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ وجہ ہے مریم نواز کو لیڈر بنانا۔ مریم اپنے والد کو قائل کر چکی ہیں کہ ان کی اصل اور واحد جانشین وہ ہیں۔ نواز شریف نے قربانی یقیناً دی ہے لیکن اس قربانی کا اصل مقصد مریم کو پارٹی کی قائد بنانا ہے۔ تاحیات قائد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے اپنا ووٹ بینک اپنی بیٹی کے حوالے کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مستقبل میں جب مریم پارٹی کی قیادت سنبھالیں گی تو کتنے ن لیگی ان کی اطاعت کریں گے۔ فی الوقت وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئی ہیں کہ نواز شریف کا ووٹ بینک ان کے چچا کو منتقل نہیں ہوا۔ ان کے کزن بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
الیکشن میں صرف 10 دن باقی ہیں۔ ہارون بلور اور سراج الدین رئیسانی سمیت بیسیوں افراد دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے مزید واقعات کا خدشہ موجود ہے۔ اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی شہادت اور اس کے بعد مستونگ میں دہشت گردی کی اتنی بڑی واردات سے پوری قوم سوگوار ہے۔ ایم ایم اے کے امیدوار اکرم درانی کے قافلے پر بھی حملہ ہوا لیکن خدا نے انھیں محفوظ رکھا۔ اس طرح کے کچھ اور واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کچھ قوتیں شاید نہیں چاہتیں کہ الیکشن وقت پر ہو جائیں۔ ہماری ریاست البتہ پرعزم ہے کہ الیکشن وقت پر کرائے جائیں گے۔
توقع ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ 25 جولائی کو الیکشن ہو گئے تو تحریک انصاف کی جیت یقینی لگتی ہے۔ ن لیگ کی کوشش ہو گی کہ وہ پنجاب میں ہی تیسری بار حکومت بنا سکے۔ بظاہر اس کے امکانات کم ہیں۔ کوشش ہر پارٹی کا حق ہے اور ن لیگ کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ پرفارمنس دھرمپورہ کے استقبال والی رہی تو پھر کامیابی مشکل ہو گی۔
یہ سب ہوگیا لیکن ن لیگ کے کارکنوں کے ''سمندر'' کی کوئی ایک موج ایئرپورٹ کے قریب بھی نہ پہنچ سکی حالانکہ مجھے امید تھی کہ چلو سمندر نہیں، اس کی کوئی موج نہیں تو کم ازکم پانی کی نمی تو وہاں تک جائے گی لیکن کیا کریں کہ ن لیگ نہیں بلکہ شہباز لیگ کے کارکنوں کے سمندر کی موجوں کا سارا طلاطم مال روڈ پر بہتے بہتے دھرمپورہ پہنچ کر گھروں کو چلاگیا۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شہر میں کنٹینر بھی لگے، پولیس نے کارکنوں کو روکا بھی، بعض مقامات پر کارکنوں اور پولیس میں تصادم بھی ہوا لیکن لاہور ہمارا ''گڑھ'' ہے کی دعویدار ن لیگ چند ہزار سے زیادہ کارکن سڑکوں پر نہ لاسکی اور جسے تصادم کہا جا رہا ہے وہ بھی ہلکی پھلکی ''موسیقی'' سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ شہباز لیگ نے جتنے لوگ اکٹھے کیے، ان میں بڑی تعداد پنجاب کے دوسرے شہروں سے آنے والے کارکنوں اور لیڈروں پر مشتمل تھی۔
کئی لیڈروں نے ڈرامے بازی بھی کی تاکہ ان کے نمبر بن سکیں۔ کچھ تو گھروں میں ہی ''نظربند'' ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ نگران حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرکے ن لیگ کے شو کو چار چاند لگانے کی کوشش ضرور کی لیکن جب مدعی سست ہو تو چست گواہ کیا کرسکتا ہے۔
احتساب عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کو ان کی عدم موجودگی میں سزا سنائی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ سابق وزیراعظم پاکستان آئیں گے یا لندن میں قیام پذیر ہونا پسند کریں گے۔ نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ان کی اہلیہ بے ہوش ہیں، انھیں وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا ہے، وہ جب تک ہوش میں نہیں آتیں وہ پاکستان نہیں جائیں گے۔ ان کے مخالفین نے یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا کہ وہ اب واپس نہیں آئیں گے۔ ن لیگ کے کارکنوں پر مایوسی چھانے لگی۔
اس دوران میاں صاحب نے اعلان کردیا کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ 13 جولائی کو واپس آرہے ہیں۔ اس اعلان سے ن لیگ کے کارکنان میں نئی جان پڑگئی۔ نجی ایئرلائن کی پرواز کو شام سوا چھ بجے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ ابوظہبی میں تاخیر ہوئی اور فلائیٹ 9 بجے کے قریب لاہور ایئرپورٹ پر اتری۔ ادھر نواز شریف وطن واپسی کی تیاری کررہے تھے ادھر ن لیگ ان کے استقبال کی تیاریاں۔
دعویٰ کیا گیا کہ لاکھوں کارکن اپنے تاحیات قائد کا استقبال کریں گے۔ ن لیگی لیڈر یہ دعوے بھی کرتے رہے کہ وہ تمام رکاوٹیں توڑ کر ایئرپورٹ جائیں گے۔ شہباز شریف سب سے زیادہ متحرک نظر آرہے تھے۔ انھوں نے ایک دن پہلے پورے لاہور کا دورہ کیا۔ تیاریوں سے لگتا تھا لاہور میں ن لیگ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوگا اور سب رکاوٹیں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔
میاں صاحب کو لاہور ایئرپورٹ پر اترتے ہی بتا دیا گیا کہ ایئرپورٹ تک کوئی کارکن نہیں پہنچ سکا۔ جب انھیں یہ بتایا جارہا تھا تو مایوسی ان کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔ میاں صاحب کی گرفتاری کے بعد جب انھیں 18 سو سی سی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا اور تھوڑی دیر رن وے پر پیدل چلنے کے بعد اس میں بیٹھ گئے۔ سنا ہے کہ کسی اینکر نے کہا کہ میاں صاحب کو انتہائی چھوٹی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا گیا۔
میاں صاحب کے حساب سے تو یہ گاڑی یقیناً انتہائی چھوٹی ہی ہو گی پر اب اتنی بڑی کار کسی اینکر کے لیے بھی انتہائی چھوٹی ہے تو پھر حیرانی کی بات ہے۔ نواز شریف کا طیارہ جب لینڈ کر رہا تھا تو ہم ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہے تھے کہ ن لیگ کے صدر شہباز شریف قافلے کو لیڈ کر رہے ہیں وہ کہاں تک پہنچا ہے۔ رپورٹر سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ قافلہ ریگل چوک کے قریب پہنچا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ن لیگ کا کوئی سابق رکن اسمبلی، وزیر حتیٰ کہ سابق وزیراعظم تک کو گرفتار نہیں کیا گیا پھر بھی شو فلاپ ہو گیا۔
نواز شریف اور مریم کو اڈیالہ جیل بھی پہنچا دیا گیا لیکن ن لیگ کی ریلی خراماں خراماں چلتی رہی۔ یہ ریلی رات گئے دھرم پورہ میں پہنچی اور اپنی طرف سے تاحیات قائد کا استقبال کر کے اختتام پذیر ہو گئی۔ شہباز شریف صاحب نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے انتہائی مختصر خطاب کیا اور لوگ گھروں کو چلے گئے۔ گویا نواز شریف کی وطن واپسی کے اعلان نے ن لیگ میں زندگی کی جو روح پھونکی تھی وہ اس ریلی نے نکال دی۔
لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اگر ن لیگ میں اتنی جان نہیں تھی تو پھر نواز شریف نے وطن واپس آ کر جیل جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ ایک مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ واقعی نظریاتی ہو چکے ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو پوری قوم کا بیانیہ بنانا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ انھیں امید تھی بہت بڑا استقبال ہو گا اور پھر انھیں سلاخوں کے پیچھے رکھنے والے خوف سے تھرتھر کانپنا شروع کر دیں گے۔ لوہے کی سلاخیں پگھل جائیں گی اور وہ باہر آ کر قوم کے سب سے بڑے لیڈر بن جائیں گے۔
میرے خیال میں میاں صاحب کی واپسی کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ وجہ ہے مریم نواز کو لیڈر بنانا۔ مریم اپنے والد کو قائل کر چکی ہیں کہ ان کی اصل اور واحد جانشین وہ ہیں۔ نواز شریف نے قربانی یقیناً دی ہے لیکن اس قربانی کا اصل مقصد مریم کو پارٹی کی قائد بنانا ہے۔ تاحیات قائد اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے اپنا ووٹ بینک اپنی بیٹی کے حوالے کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مستقبل میں جب مریم پارٹی کی قیادت سنبھالیں گی تو کتنے ن لیگی ان کی اطاعت کریں گے۔ فی الوقت وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئی ہیں کہ نواز شریف کا ووٹ بینک ان کے چچا کو منتقل نہیں ہوا۔ ان کے کزن بھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
الیکشن میں صرف 10 دن باقی ہیں۔ ہارون بلور اور سراج الدین رئیسانی سمیت بیسیوں افراد دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کے مزید واقعات کا خدشہ موجود ہے۔ اے این پی کے امیدوار ہارون بلور کی شہادت اور اس کے بعد مستونگ میں دہشت گردی کی اتنی بڑی واردات سے پوری قوم سوگوار ہے۔ ایم ایم اے کے امیدوار اکرم درانی کے قافلے پر بھی حملہ ہوا لیکن خدا نے انھیں محفوظ رکھا۔ اس طرح کے کچھ اور واقعات بھی ہوئے ہیں۔ کچھ قوتیں شاید نہیں چاہتیں کہ الیکشن وقت پر ہو جائیں۔ ہماری ریاست البتہ پرعزم ہے کہ الیکشن وقت پر کرائے جائیں گے۔
توقع ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ 25 جولائی کو الیکشن ہو گئے تو تحریک انصاف کی جیت یقینی لگتی ہے۔ ن لیگ کی کوشش ہو گی کہ وہ پنجاب میں ہی تیسری بار حکومت بنا سکے۔ بظاہر اس کے امکانات کم ہیں۔ کوشش ہر پارٹی کا حق ہے اور ن لیگ کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ پرفارمنس دھرمپورہ کے استقبال والی رہی تو پھر کامیابی مشکل ہو گی۔