میاں صاحب جیل میں

جیل کے درودیوار سے آشنائی سیاستدان اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔

Abdulqhasan@hotmail.com

تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر جیل پہنچا دیا گیا ہے ۔ میاں نواز شریف کو لندن سے وطن واپسی پر احتساب عدالت کے فیصلے کے تحت گرفتار کر کے اڈیالہ جیل اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا گیا۔

نوازشریف ان کی صاحبزادی کی غیر موجودگی میں احتساب عدالت نے فیصلہ سنایا جب کہ ان کے داماد کیپٹن صفدر جو پاکستان میں ہی موجود تھے ان کو عدالتی احکامات کے تحت پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ میاں صاحب کا سیاسی سفر جنرل جیلانی کی نگرانی میں شروع ہوا اور خوش قسمت نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے اور پاکستان پر حکمرانی کی ۔

احتساب عدالت کے فیصلے کے تحت گرفتار ہونے والے میاں نواز شریف نے اپنے رفقاء کار کے ساتھ مشورے کے بعد پاکستان لوٹنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ لندن میں ہی موجود رہے تو پاکستان میں ان کی پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور الیکشن کے عین وقت پر پارٹی اپنے قائد کی سرپرستی سے محروم ہونے کا مطلب وہ اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے ان کی پارٹی ان کی غیر موجودگی میں ایک الیکشن میں حصہ لے چکی ہے اور جو حال نواز لیگ کا 2002 کے الیکشن میں ہوا تھا اس سے بچنے کے لیے اور اپنے کارکنوں کو متحرک اور ان میں حوصلہ پیدا کرنے کے لیے نواز شریف نے پاکستان واپسی کا جرات مندانہ فیصلہ کیا۔

پاکستان کے موجودہ حالات کے تحت اگر وہ وطن واپس نہ بھی آتے تو ان کے پاس اس کا ایک معقول جواز اور کارکنوں کے لیے جواب موجود تھا کہ ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں زیر علاج ہیں اور ان کی صحت کچھ زیادہ بہتر نہیں اس لیے میاں نواز شریف اگر چاہتے تو لندن میں مزید رک سکتے تھے اور اپنے کارکنوں کو مطمئن کر سکتے تھے لیکن اپنی تین دہائیوں سے زائد پر محیط سیاسی زندگی میں میاں نواز شریف نے نہایت عقلمندانہ اور دلیرانہ فیصلہ کیا اور وطن واپس لوٹ آئے۔

کس دل سے وہ وطن لوٹے ہیں یہ وہی جانتے ہوں گے، عمر بھر کی رفیق کو نہایت تشویشناک حالت میں لندن کے اسپتال کے سفید بستر پر چھوڑ کر آنا واقعی دل گردے کا کام ہے جب کہ ان کی اہلیہ محترمہ ان کو خدا حافظ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں اس کی کمی ان کی والدہ محترمہ نے پوری کی اور لاہور ائر پورٹ پر اپنے بیٹے اور پوتی کو اپنی دعاؤں کے ساتھ جیل کے لیے رخصت کیا۔


میاں نواز شریف کا وطن واپسی کا یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی فیصلہ ہے جس کے نتائج بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں ان کے کارکنوں اور چاہنے والوں کو نگران حکومت نے ان کے استقبال سے زبردستی روک دیا اور میاں نواز شریف کو ائر پورٹ سے سیدھے اسلام آباد لے جا کر اڈیالہ جیل اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کر دیا۔ جیل کی مصیبت یا کوٹھری سے میاں صاحب بخوبی آشنا ہیں وہ اس سے پہلے بھی اٹک قلعہ میں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت میں قید کا کچھ عرصہ گزار چکے ہیں۔

پرویز مشرف نے ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان کے خلاف طیارہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنا دیا اور اگر بروقت سعودی دوست میاں صاحب کی مدد کو نہ آتے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ اس دفعہ صورتحال کچھ مختلف ہے میاں نواز شریف ان کی بیٹی اور داماد کو کرپشن کے مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے جس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لیکن معزز عدالت میں جذبات سے نہیں دماغ استعمال کر کے اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔

استغاثہ نے مقدمہ اتنا مضبوط بنایا کہ میاں نواز شریف کو پہلے تو وزیر اعظم کے عہدے سے الگ کر دیا گیا اور بعد میں کرپشن کرنے پر سزا سنا دی گئی جس کے بعد وہ اب جیل میں ہیں اور تادم تحریر وہ پہلی رات جیل میں گزار چکے ہیں نامعلوم کتنی اور جیل کی راتیں ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں۔

جیل کے درودیوار سے آشنائی سیاستدان اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں کسی سیاست دان کی سیاسی زندگی جیل کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتی اسی طرح میاں صاحب بھی دوسری دفعہ جیل پہنچا دیے گئے ۔ اس سے پہلے تو اٹک قلعہ کی قید سے وہ بہت جلد گھبرا گئے تھے اور اپنے قیدی ساتھیوں کو بتائے بغیر سعودی عرب روانہ ہو گئے ان کے ساتھیوں کو ان کی روانگی کا اس وقت معلوم ہوا جب طیارہ پاکستان کی فضائی حدود سے نکل چکا تھا اس بات کا گلہ وہ آج تک کرتے ہیں۔

قیدو بند کی صعوبتیں اپنی جگہ مگر ان مشکلات کو حوصلے سے برداشت کرنا کسی کسی کے بس میں ہوتا ہے اور میاں صاحب آج سے اٹھارہ برس قبل اس مشکل سے گزر چکے ہیں جب ان میں ہمت بھی تھی اورتب آتش بھی جواں تھا مگر اس کے باوجود وہ فوجی حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت جلا وطنی اختیار کر گئے اب حالات مختلف ہیں اس وقت ان کی منتخب حکومت پر ایک ڈکٹیٹر نے شب خون مارا تھا اور اس مرتبہ ان کو سزا کرپشن کے الزامات ثابت ہونے پر دی گئی ہے۔

میاں صاحب اب جیل میں ہیں اس سے پہلے جب تک وہ قید رہے جیل میں وہ چوہدری شجاعت فیملی کی میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے ۔اس مرتبہ ان کے اور میزبان بہت ہوں گے انھوں نے دوستیاں اور رشتہ داریاں بہت نبھائی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف وطن واپس آکر جیل بھگتنے کے اپنے اس سیاسی فیصلے پر کب تک ڈٹے رہتے ہیںاگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اس فیصلے سے ان کو پارٹی کو الیکشن میں سیاسی فائدہ ہو گا تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے، یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور بہت پہلے کر دیے جاتے ہیں اور یہ بات میاں نواز شریف سے زیادہ اچھی طرح کوئی اور نہیں جانتا۔
Load Next Story