انتخابات سر پر آگئے مگر کسی جماعت کی برتری واضح نہیں
فی الحال ن لیگ، تحریک انصاف آگے ہیں، پیپلزپارٹی بھی مقابلے سے باہر نہیں
KARACHI:
انتخابات میں چند روز ہی باقی ہیں مگر ابھی تک واضح نہیں کہ کونسی سیاسی جماعت جیتے گی اور شاید یہ پاکستانی تاریخ کے سب سے غیر متوقع انتخابات ہونگے۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف تاحال آگے ہیں مگر پیپلزپارٹی بھی مقابلے سے باہر نہیں ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ کونسی جماعت حکومت بنانے کیلیے 272 نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی، سیاسی تجربے، پختہ قیادت، پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی مطمئن دکھائی دیتی ہے کہ جعلی ووٹوں کے اخراج، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور مخالف ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی غیر متوقع نتائج دی سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور دیگر چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابات کے بعد انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا نئے پاکستان کا نعرہ اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کیخلاف موقف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کافی مقبول ہوا، تبدیلی رضاکار ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز پر لانے کیلیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر عمران خان کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کیخلاف سخت زبان کے استعمال کو پڑھا لکھا طبقہ پسند نہیں کررہا۔
یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقبولیت ملی مگر سندھ اور بلوچستان میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) 1984 سے پنجاب کی حکمران رہی ہے مگر اب اسے تحریک انصاف کی طرف سے سخت چیلنج کا سامنا ہے اور ان دونوں کے مقابلے کا فائدہ پیپلزپارٹی کو بھی پہنچ سکتا ہے۔ مگر ان حالات میں بھی ن لیگ پراعتماد ہے کہ وہ پنجاب سے 90 نشستیں نکال لے گی۔ ن لیگ سمجھ رہی ہے کہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دیگر مسائل سے تنگ ووٹرز ان کی طرف آئیں گے جبکہ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ یہ ووٹرز ان کی طرف آئیں گے۔ پیپلز پارٹی پرامید ہے کہ اسے 70 تک نشستیں مل سکتی ہیں۔ ان تمام عوامل کے باعث انتخابات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ انتخابات کا دن اور ٹرن آئوٹ بھی اہم ہوگا۔
انتخابات میں چند روز ہی باقی ہیں مگر ابھی تک واضح نہیں کہ کونسی سیاسی جماعت جیتے گی اور شاید یہ پاکستانی تاریخ کے سب سے غیر متوقع انتخابات ہونگے۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف تاحال آگے ہیں مگر پیپلزپارٹی بھی مقابلے سے باہر نہیں ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ کونسی جماعت حکومت بنانے کیلیے 272 نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی، سیاسی تجربے، پختہ قیادت، پاکستان تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا رہی ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی بھی مطمئن دکھائی دیتی ہے کہ جعلی ووٹوں کے اخراج، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور مخالف ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی غیر متوقع نتائج دی سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور دیگر چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابات کے بعد انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کا نئے پاکستان کا نعرہ اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کیخلاف موقف پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کافی مقبول ہوا، تبدیلی رضاکار ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز پر لانے کیلیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں مگر عمران خان کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کیخلاف سخت زبان کے استعمال کو پڑھا لکھا طبقہ پسند نہیں کررہا۔
یہ امر بھی باعث دلچسپی ہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقبولیت ملی مگر سندھ اور بلوچستان میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) 1984 سے پنجاب کی حکمران رہی ہے مگر اب اسے تحریک انصاف کی طرف سے سخت چیلنج کا سامنا ہے اور ان دونوں کے مقابلے کا فائدہ پیپلزپارٹی کو بھی پہنچ سکتا ہے۔ مگر ان حالات میں بھی ن لیگ پراعتماد ہے کہ وہ پنجاب سے 90 نشستیں نکال لے گی۔ ن لیگ سمجھ رہی ہے کہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دیگر مسائل سے تنگ ووٹرز ان کی طرف آئیں گے جبکہ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ یہ ووٹرز ان کی طرف آئیں گے۔ پیپلز پارٹی پرامید ہے کہ اسے 70 تک نشستیں مل سکتی ہیں۔ ان تمام عوامل کے باعث انتخابات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ انتخابات کا دن اور ٹرن آئوٹ بھی اہم ہوگا۔