الیکشن میں بائیں بازو کی سرگرمی
وقت گزرنے کے ساتھ بائیں بازو کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والا پروپیگنڈہ تو دم توڑ گیا۔
MANSEHRA:
موجودہ الیکشن سے قبل اپنا اپنا منشور لیے دو تین بڑی جماعتیں روایتی مسائل کے بجائے تازہ اختلافات اور الزامات کے ساتھ ہمارے سامنے آئی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو اس ملک کی ترقی اور تبدیلی میں حائل سب سے بڑی دیوار یعنی جاگیرداری کے خاتمے کی بات کرتی ہو۔
بائیں بازو کی پارٹیاں اور ان کے کارکن جو جاگیرداری اور سرمایہ داری کی پیچیدگیوں سے اچھی طرح واقف تھے، ستر سال سے مار کھاتے کھاتے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں نظریہ تو موجود ہے مگر اس کی آبیاری کرنے کے لیے نہ دھن دولت ہے، نہ ہی وہ اتحاد جو نئی صورت حال کا مقابلہ کرسکے اور نہ ہی وہ نوجوان جو بائیں بازو کی سوچ اور منشور کو مزید لوگوں تک پہنچا سکیں۔
جاگیرداری اور سرمایہ داری کا سہارا لے کر ہر مرتبہ اقتدار میں آنے والے سیاسی رہنماؤں سے بائیں بازو کے کارکنوں کا نظریاتی اختلاف بہت پرانا ہے اور اسی اختلاف کی وجہ سے غیر ملکی آقاؤں اور ان کے غلاموں نے مختلف ادوار میں مختلف الزامات لگا کر بائیں بازو کی پارٹیوں کو الیکشن سے دور رکھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ بائیں بازو کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والا پروپیگنڈہ تو دم توڑ گیا، مگر پچھلی آدھی صدی سے اپنے خلاف ہونے والی انتقامی کاروائیوں کی وجہ سے اس نظریے کے حامی نہ تو اپنے آپ کو متحد رکھ سکے اور نہ ہی نئی نسل کو اپنی جماعتوں میں اس طرح شامل کرنے میں کامیاب ہوئے جس طرح ستر کی دہائی یا اس سے قبل کے زمانے کی روایت تھی۔
طلبا تنظیموں پر لگنے والی پابندی اور ٹریڈ یونین کی ٹوٹ پھوٹ نے جہاں بائیں بازو کی پارٹیوں کو بہت نقصان پہنچایا وہاں تقسیم در تقسیم کا عمل بھی ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ ان پارٹیوں کے کارکن نہ تو جاگیردار تھے اور نہ ہی سرمایہ دار کہ اپنی پارٹیوں کو الیکشن کی اس دوڑ میں شامل کر سکتے، جس میں روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہانا اس ملک کی ثقافت بن چکا ہے۔
ہاں جاگیر داری کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کے لیے بہت سارے دوسرے رہنماؤں کی طرح معروف قانون دان، دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر عابد حسن منٹو نے نہ صرف قانونی جنگ لڑی بلکہ اس کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کرتے رہے، لیکن عدالتوں نے وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر جاگیرداری کے خلاف داخل کی جانے والی قانونی شکایات سننے کے بجائے اس سلسلے کو جوں کا توں رہنے دیا۔
معروف قانون دان اختر حسین ایڈووکیٹ نے ورکرز پارٹی کی طرف سے 2012 میں الیکشن ریفارمز کے لیے ایک پٹیشن داخل کی تھی جسے افتخار چوہدری کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھیج دیا تھا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ 2017 میں پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون پاس کیا جسے الیکشن ایکٹ 2017 کا نام دیا گیا، مگر یہ ایکٹ بناتے وقت 2012 کے فیصلے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
اس ایکٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران چالیس لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا ممبر بیس لاکھ روپے خرچ کرسکتا ہے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کے امیدوار کو کاغذات نامزدگی کی مد میں چار ہزار روپے فیس ادا کرنا پڑتی تھی جسے بڑھا کر تیس ہزار روپے کر دیا گیا اور صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی کی فیس دو ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار کر دی گئی۔
2012 میں داخل کی گئی پٹیشن میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا تھاکہ انتخاب کے دوران مالی اخراجات کم سے کم ہوں، انتخاب کا طریقہ کار سہل ہو تاکہ ووٹرز اور نمایندے اسے آسانی سے سمجھ سکیں اور ووٹرز کو اپنے نمایندے کی بھیجی ہوئی گاڑیوں کے بجائے اپنی مرضی سے پولنگ اسٹیشن پر پہنچنے کی آزادی ہو، تاکہ کوئی بھی نمایندہ ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
تمام تر انتظامی اور مالی مشکلات کے باوجود بائیں بازو کے اتحاد سے وجود میں آنے والی عوامی ورکرز پارٹی نے موجودہ الیکشن میں اپنے 19 امیدواروں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتارا ہے، جو اس پارٹی سے جڑے پورے ملک کے کارکنوں میں نئی امید اور ولولہ پیدا کر رہا ہے۔ یوں تو اس پارٹی کے زیادہ تر امیدوار خیبرپختونخوا کے مختلف انتخابی حلقوں سے ہی انتخابات لڑ رہے ہیں، مگر پنجاب اور سندھ میں بھی کچھ ایسے امیدوار پہلی دفعہ سامنے آئے ہیں جو مستقبل میں اس پارٹی کے سیاسی منشور کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سب جانتے ہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں جاگیرداری کا غلبہ ہے مگر سندھ کے جاگیردار گھرانوں نے یہاں کی سیاست پر طویل مدت سے مکمل غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔ اس غلبے کو ختم کرنے کے لیے اس دفعہ جہاں سندھ سے بہت سارے دوسرے امیدوار میدان میں اترے ہیں وہاں عوامی ورکرز پارٹی کے معروف رہنما حسن عسکری کو بھی میدان میں اتارا گیا ہے، جن کے سامنے بڑے بڑے بت موجود ہیں جو اس دفعہ مکمل طور پر ٹوٹ نہ بھی پائے تو ان میں دراڑیں ضرور پڑیں گی۔
یاد رہے کہ چند برس قبل بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تین جماعتوں کے اتحاد کے بعد عوامی ورکرز پارٹی وجود میں آئی تھی مگر اس پارٹی کے علاوہ بھی کئی سیاسی دھڑے اور پارٹیاں موجودہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ پچھلے الیکشن میں پاکستان نیشنل پارٹی نے صوبائی اور قومی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں حکومت بنائی تھی اور اس دفعہ بھی اس پارٹی کے 40 امیدوار ملک بھر سے الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اترے ہیں جن میں سے زیادہ تر بلوچستان اور اس کے بعد پنجاب سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جو بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں اور ووٹروں کے لیے نیک شگون ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ''مزدور کسان پارٹی'' بھی موجودہ الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اپنے تین امیدوار منتخب کر چکی ہے، جس سے ملکی سیاست میں ترقی پسند سوچ سے جڑے عوام کو مزید تقویت ملے گی۔
تقسیم کے بعد بائیں بازو کی سیاست کو کئی مشکلات درپیش تھیں۔ کئی کارکنوں کو زندگی کے قیمتی ماہ وسال روپوشی کی حالت میں گزارنا پڑے اور بہت ساروں کو تشدد کے بعد ہلاک بھی کر دیا گیا، جس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غیر ملکی طاقتوں کے کہنے پر انھیں غدار اور مذہب دشمن مشہور کردیا گیا تھا۔
اب حالات بالکل مختلف ہیں اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال میں ہمارا ملک ان ممالک کے زیادہ قریب آ چکا ہے جن کا ماضی میں نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود بائیں بازو کی پارٹیوں کو اب بھی بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جن میں مالی وسائل کی کمی، ٹریڈ یونین اور طلبا تنظیموں پر پابندی جیسے کئی مسائل شامل ہیں، مگر ان پارٹیوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہونا ایسا مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر منزل تک پہنچنا مزید دشوار ہوسکتا ہے۔
موجودہ الیکشن سے قبل اپنا اپنا منشور لیے دو تین بڑی جماعتیں روایتی مسائل کے بجائے تازہ اختلافات اور الزامات کے ساتھ ہمارے سامنے آئی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسی جماعت نہیں جو اس ملک کی ترقی اور تبدیلی میں حائل سب سے بڑی دیوار یعنی جاگیرداری کے خاتمے کی بات کرتی ہو۔
بائیں بازو کی پارٹیاں اور ان کے کارکن جو جاگیرداری اور سرمایہ داری کی پیچیدگیوں سے اچھی طرح واقف تھے، ستر سال سے مار کھاتے کھاتے اس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں نظریہ تو موجود ہے مگر اس کی آبیاری کرنے کے لیے نہ دھن دولت ہے، نہ ہی وہ اتحاد جو نئی صورت حال کا مقابلہ کرسکے اور نہ ہی وہ نوجوان جو بائیں بازو کی سوچ اور منشور کو مزید لوگوں تک پہنچا سکیں۔
جاگیرداری اور سرمایہ داری کا سہارا لے کر ہر مرتبہ اقتدار میں آنے والے سیاسی رہنماؤں سے بائیں بازو کے کارکنوں کا نظریاتی اختلاف بہت پرانا ہے اور اسی اختلاف کی وجہ سے غیر ملکی آقاؤں اور ان کے غلاموں نے مختلف ادوار میں مختلف الزامات لگا کر بائیں بازو کی پارٹیوں کو الیکشن سے دور رکھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ بائیں بازو کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والا پروپیگنڈہ تو دم توڑ گیا، مگر پچھلی آدھی صدی سے اپنے خلاف ہونے والی انتقامی کاروائیوں کی وجہ سے اس نظریے کے حامی نہ تو اپنے آپ کو متحد رکھ سکے اور نہ ہی نئی نسل کو اپنی جماعتوں میں اس طرح شامل کرنے میں کامیاب ہوئے جس طرح ستر کی دہائی یا اس سے قبل کے زمانے کی روایت تھی۔
طلبا تنظیموں پر لگنے والی پابندی اور ٹریڈ یونین کی ٹوٹ پھوٹ نے جہاں بائیں بازو کی پارٹیوں کو بہت نقصان پہنچایا وہاں تقسیم در تقسیم کا عمل بھی ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ ان پارٹیوں کے کارکن نہ تو جاگیردار تھے اور نہ ہی سرمایہ دار کہ اپنی پارٹیوں کو الیکشن کی اس دوڑ میں شامل کر سکتے، جس میں روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہانا اس ملک کی ثقافت بن چکا ہے۔
ہاں جاگیر داری کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کے لیے بہت سارے دوسرے رہنماؤں کی طرح معروف قانون دان، دانشور اور عوامی ورکرز پارٹی کے بانی صدر عابد حسن منٹو نے نہ صرف قانونی جنگ لڑی بلکہ اس کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کرتے رہے، لیکن عدالتوں نے وقت کی کمی کا بہانہ بنا کر جاگیرداری کے خلاف داخل کی جانے والی قانونی شکایات سننے کے بجائے اس سلسلے کو جوں کا توں رہنے دیا۔
معروف قانون دان اختر حسین ایڈووکیٹ نے ورکرز پارٹی کی طرف سے 2012 میں الیکشن ریفارمز کے لیے ایک پٹیشن داخل کی تھی جسے افتخار چوہدری کی سربراہی میں بننے والے بینچ نے منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھیج دیا تھا، مگر اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ 2017 میں پارلیمنٹ نے ایک نیا قانون پاس کیا جسے الیکشن ایکٹ 2017 کا نام دیا گیا، مگر یہ ایکٹ بناتے وقت 2012 کے فیصلے کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
اس ایکٹ کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران چالیس لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا ممبر بیس لاکھ روپے خرچ کرسکتا ہے۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کے امیدوار کو کاغذات نامزدگی کی مد میں چار ہزار روپے فیس ادا کرنا پڑتی تھی جسے بڑھا کر تیس ہزار روپے کر دیا گیا اور صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات نامزدگی کی فیس دو ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار کر دی گئی۔
2012 میں داخل کی گئی پٹیشن میں اس بات کو مدنظر رکھا گیا تھاکہ انتخاب کے دوران مالی اخراجات کم سے کم ہوں، انتخاب کا طریقہ کار سہل ہو تاکہ ووٹرز اور نمایندے اسے آسانی سے سمجھ سکیں اور ووٹرز کو اپنے نمایندے کی بھیجی ہوئی گاڑیوں کے بجائے اپنی مرضی سے پولنگ اسٹیشن پر پہنچنے کی آزادی ہو، تاکہ کوئی بھی نمایندہ ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
تمام تر انتظامی اور مالی مشکلات کے باوجود بائیں بازو کے اتحاد سے وجود میں آنے والی عوامی ورکرز پارٹی نے موجودہ الیکشن میں اپنے 19 امیدواروں کو صوبائی اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اتارا ہے، جو اس پارٹی سے جڑے پورے ملک کے کارکنوں میں نئی امید اور ولولہ پیدا کر رہا ہے۔ یوں تو اس پارٹی کے زیادہ تر امیدوار خیبرپختونخوا کے مختلف انتخابی حلقوں سے ہی انتخابات لڑ رہے ہیں، مگر پنجاب اور سندھ میں بھی کچھ ایسے امیدوار پہلی دفعہ سامنے آئے ہیں جو مستقبل میں اس پارٹی کے سیاسی منشور کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سب جانتے ہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں میں جاگیرداری کا غلبہ ہے مگر سندھ کے جاگیردار گھرانوں نے یہاں کی سیاست پر طویل مدت سے مکمل غلبہ حاصل کر رکھا ہے۔ اس غلبے کو ختم کرنے کے لیے اس دفعہ جہاں سندھ سے بہت سارے دوسرے امیدوار میدان میں اترے ہیں وہاں عوامی ورکرز پارٹی کے معروف رہنما حسن عسکری کو بھی میدان میں اتارا گیا ہے، جن کے سامنے بڑے بڑے بت موجود ہیں جو اس دفعہ مکمل طور پر ٹوٹ نہ بھی پائے تو ان میں دراڑیں ضرور پڑیں گی۔
یاد رہے کہ چند برس قبل بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تین جماعتوں کے اتحاد کے بعد عوامی ورکرز پارٹی وجود میں آئی تھی مگر اس پارٹی کے علاوہ بھی کئی سیاسی دھڑے اور پارٹیاں موجودہ الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ پچھلے الیکشن میں پاکستان نیشنل پارٹی نے صوبائی اور قومی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلوچستان میں حکومت بنائی تھی اور اس دفعہ بھی اس پارٹی کے 40 امیدوار ملک بھر سے الیکشن لڑنے کے لیے میدان میں اترے ہیں جن میں سے زیادہ تر بلوچستان اور اس کے بعد پنجاب سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جو بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں اور ووٹروں کے لیے نیک شگون ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ''مزدور کسان پارٹی'' بھی موجودہ الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اپنے تین امیدوار منتخب کر چکی ہے، جس سے ملکی سیاست میں ترقی پسند سوچ سے جڑے عوام کو مزید تقویت ملے گی۔
تقسیم کے بعد بائیں بازو کی سیاست کو کئی مشکلات درپیش تھیں۔ کئی کارکنوں کو زندگی کے قیمتی ماہ وسال روپوشی کی حالت میں گزارنا پڑے اور بہت ساروں کو تشدد کے بعد ہلاک بھی کر دیا گیا، جس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غیر ملکی طاقتوں کے کہنے پر انھیں غدار اور مذہب دشمن مشہور کردیا گیا تھا۔
اب حالات بالکل مختلف ہیں اور بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورت حال میں ہمارا ملک ان ممالک کے زیادہ قریب آ چکا ہے جن کا ماضی میں نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود بائیں بازو کی پارٹیوں کو اب بھی بہت سارے مسائل کا سامنا ہے جن میں مالی وسائل کی کمی، ٹریڈ یونین اور طلبا تنظیموں پر پابندی جیسے کئی مسائل شامل ہیں، مگر ان پارٹیوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہونا ایسا مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر منزل تک پہنچنا مزید دشوار ہوسکتا ہے۔