احتساب مگر سب کا
یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت طاقتور طبقات کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے۔
پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے کمزور اور متنازعہ رہا ہے۔ احتساب کے نام پر ہمیں سمجھوتوں کی سیاست کا غلبہ نظر آیا ہے۔ اگر کسی نے احتساب کا عمل شروع بھی کیا تو اس میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقام کا عمل زیادہ غالب نظر آیا۔ جب حکمران طبقہ اداروں کی خود مختاری اوربالادستی کو چیلنج کرکے اسے اپنے ذاتی مفادات کے تحت یرغمال بنالیں تو عملا احتساب کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔چہارم مجموعی طور پر ہماری سیاسی اور فوجی حکمرانی نے جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے نام پر احتساب کو بطور''ہتھیار'' استعمال کرکے نقصان پہنچایا ہے۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں احتساب کی بحث شدت سے جاری ہے۔ ہمیں اس احتساب کی حمایت و مخالفت کے دونوں نکتہ نظر سننے کو مل رہے ہیں۔اب بھی ایک مضبوط دلیل یہ دی جارہی ہے کہ احتساب کا عمل شفاف نہیں بلکہ اس کو بطور ہتھیار ہی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں کو موجودہ احتساب کے عمل پر شدید تحفظات ہیں۔ قومی احتساب بیورو یعنی نیب پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کا عمل شفافیت پر مبنی نہیں۔یہ الزام بھی سننے کو مل رہا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ گٹھ جوڑ نے احتساب کے نام پر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا ہے اوراس کے پیچھے جمہوریت مخالفت قوت ہے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان اس وقت نیب کے مختلف مقدمات سے گزر رہا ہے۔ ایون فیلڈ فلیٹس کے مقدمہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، داماد کیپٹن صفدر کو اپنی آمدن سے زیادہ اثاثوں کے مقدمہ میں سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ لوگ اب جیل میں ہیں۔ نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف دیگر مقدمات بھی جاری ہیں اور ان کی کارروائی اب اڈیالہ جیل ہی میںہوگی۔ نواز شریف اور ان کے حامی اس سزا کو انتقامی عمل جب کہ مخالفین قانو ن کی حکمرانی سے جوڑ رہے ہیں۔ اس ساری بحث میں قانونی پہلووں کو کمزور کرکے سیاسی مباحث کو زیادہ شدت دی جا رہی ہے۔پہلے ہی پاکستان میں سیاسی تقسیم اور اس میں شدت ہمیں کافی گہری نظر آتی ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلے نے یہ تقسیم کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔
اگرچہ نیب کی جانب سے جاری مقدمات کا تعلق محض شریف خاندان سے نہیں ہے دیگر سیاسی جماعتوں سمیت مختلف فریقین کے خلاف بھی مقدمات کا عمل چل رہا ہے۔ لیکن نواز شریف اوران کے حمایتی طبقہ اس نکتہ پر زور دیتا ہے کہ یہاں احتساب کا عمل یک طرفہ ہے اوراس کا محض ٹارگٹ نواز شریف اور اس کا خاندان ہے۔جب کہ دیگر لوگوں کو جان بوجھ کر احتساب کے عمل سے دور رکھا جارہا ہے۔ ایک عجیب و غریب منطق یہ دی جاتی ہے کہ اگر میں کرپٹ ہوں تو وہ دوسرا بھی تو کرپٹ ہے اس کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا اور صرف مجھے ہی کیوں۔ایک تنقیدی نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کیونکر احتساب کے پیچھے کھڑی ہوکر اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ اداروں کو خود آزادی اورخود مختاری سے کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔
یہ جو نیب پر تنقید ہے، ممکن ہے اس میں کافی وزن بھی ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو پچھلے دس برسوں سے پانچ پانچ برس اقتدار میں رہیں۔ دونوں میں مختلف امور پر مفاہمت بھی تھی۔ یہ دونوں جماعتیں واقعی اگر احتساب کے عمل میں سنجیدہ تھیں تو وہ کیونکر نیب کو ختم کرکے ایک آزدانہ اورمنصفانہ احتساب ادارے کی تشکیل نہیں کرسکیں۔کیونکر دونوں جماعتوں نے سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دے کر لوٹ مار کی سیاست کی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوٹ مار کی سیاست محض سیاستدانوں تک محدود نہیں اور یقینی طور پر ان پر زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔ دیگر فریقین جن میں بیوروکریسی، عدلیہ، فوج،کاروباری طبقہ، میڈیا سمیت مختلف فریقین میں بھی کرپشن موجود ہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب خود حکمران طبقہ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کرے گا تو دیگر طبقات جن کا ان کو احتساب کرنا تھا وہ کیونکر ممکن ہوگا۔
یہاں ایک احتساب کے عمل میں ایک فکری مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے اس وقت احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا تو اس سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہونگے۔ کئی سنجیدہ طرز فکر کے حامی افراد بھی اس بحث میں الجھ کر عملی طور پر کرپشن پر مبنی سیاست کو تحفظ ہی دیتے ہیں۔ یہ بھی دنیا میں صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہوگا کہ سیاستدان یہ مطالبہ کریں کے انتخابات سے قبل کسی کا احتساب نہ ہو اورنہ ہی کسی کو گرفتار کیا جائے، اس پر نیب کا گرفتاری نہ کرنے کا فیصلہ بھی لوگوں کے لیے حیران کن اورکمزور ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے۔
مسئلہ کسی جمہوریت اور سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جمہوریت اور سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی کرپشن کو چھپانے کے لیے ان کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانامہ کا مقدمہ حکومت یا مسلم لیگ ن پر نہیں تھا۔ یہ مقدمہ براہ راست شریف خاندان پر تھا۔ شریف خاندان کو اس مقدمہ میں اپنی صفائی کو پیش کرنا تھا، مگر اس خاندان نے پوری طاقت سے اپنے حق میں حکومتی مشینری اور سیاسی جماعت کو استعمال کرکے اپنی ڈھال بنا کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔ اسی طرح الزامات آصف علی زرداری پر ہیں جب کہ پیپلز پارٹی بطور جماعت ایک خاندان کے تحفظ میں کھڑی ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت طاقتور طبقات کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ ابھی ابتدائی عمل ہے اور اس میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے وگرنہ یہاں تو کمزور لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ طاقتور لوگ اپنی حکمرانی اور دولت سمیت اختیارات کی بنیاد پر بچ جاتے ہیں۔ یہ جو نکتہ ہے کہ اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا اس کا آڈٹ ہونا ہر طبقہ کی سطح پر ضروری ہے۔ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ میں ایسے لوگوں کی تعداد تسلسل کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جو اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں اور ان کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس شفاف شواہد موجود نہیں۔
یہ سب جانتے ہیں یہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اداروں کو کمزور اور یرغمال رکھا گیا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ان موجودہ اداروں سے ان کی حیثیت کے مطابق شفاف احتساب کا یقین نہیں رکھتا۔ جب تک ہمارے ریاستی ادارے خود آگے بڑھ کر ان اداروں پر اپنی نگرانی نہیں رکھیں گے احتساب ممکن نہیں ۔ اب جو اداروں کی سطح پر خلا ہے اس میں چیف جسٹس اور عدلیہ کا کردار نمایاں ہے، اس کو مزید طاقت ملنی چاہیے۔لیکن یہ جو مخالفین کی بحث ہے کہ احتساب کا عمل یکطرفہ ہے یا ایک خاندان کے خلاف ہے اس کو ہر سطح پر نمٹا جائے اور اس کا واحد طریقہ یہ ہی ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل منصفانہ، شفاف اور بلاتفریق ہواوریہ تاثر قائم نہ ہو کہ کچھ لوگوں کو سیاسی مفادکے تحت احتساب کے دائرہ کار سے باہر رکھا جاتا ہے۔
یہ جوجمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت سیاسی نظام کی بالادستی کی جنگ ہے اس کا ایک بنیادی نکتہ منصفانہ، شفاف اور جوابدہی یعنی احتساب کا نظام ہے۔احتساب کو طاقت دیے بغیر نہ تو جمہوریت قائم رہ سکے گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کا نظام اپنی افادیت قائم رکھ سکے گا۔
اس وقت بھی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں احتساب کی بحث شدت سے جاری ہے۔ ہمیں اس احتساب کی حمایت و مخالفت کے دونوں نکتہ نظر سننے کو مل رہے ہیں۔اب بھی ایک مضبوط دلیل یہ دی جارہی ہے کہ احتساب کا عمل شفاف نہیں بلکہ اس کو بطور ہتھیار ہی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سمیت بہت سی سیاسی جماعتوں کو موجودہ احتساب کے عمل پر شدید تحفظات ہیں۔ قومی احتساب بیورو یعنی نیب پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ اس کا عمل شفافیت پر مبنی نہیں۔یہ الزام بھی سننے کو مل رہا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ گٹھ جوڑ نے احتساب کے نام پر جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا ہے اوراس کے پیچھے جمہوریت مخالفت قوت ہے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان اس وقت نیب کے مختلف مقدمات سے گزر رہا ہے۔ ایون فیلڈ فلیٹس کے مقدمہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، داماد کیپٹن صفدر کو اپنی آمدن سے زیادہ اثاثوں کے مقدمہ میں سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ لوگ اب جیل میں ہیں۔ نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔ نواز شریف کے خلاف دیگر مقدمات بھی جاری ہیں اور ان کی کارروائی اب اڈیالہ جیل ہی میںہوگی۔ نواز شریف اور ان کے حامی اس سزا کو انتقامی عمل جب کہ مخالفین قانو ن کی حکمرانی سے جوڑ رہے ہیں۔ اس ساری بحث میں قانونی پہلووں کو کمزور کرکے سیاسی مباحث کو زیادہ شدت دی جا رہی ہے۔پہلے ہی پاکستان میں سیاسی تقسیم اور اس میں شدت ہمیں کافی گہری نظر آتی ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلے نے یہ تقسیم کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے۔
اگرچہ نیب کی جانب سے جاری مقدمات کا تعلق محض شریف خاندان سے نہیں ہے دیگر سیاسی جماعتوں سمیت مختلف فریقین کے خلاف بھی مقدمات کا عمل چل رہا ہے۔ لیکن نواز شریف اوران کے حمایتی طبقہ اس نکتہ پر زور دیتا ہے کہ یہاں احتساب کا عمل یک طرفہ ہے اوراس کا محض ٹارگٹ نواز شریف اور اس کا خاندان ہے۔جب کہ دیگر لوگوں کو جان بوجھ کر احتساب کے عمل سے دور رکھا جارہا ہے۔ ایک عجیب و غریب منطق یہ دی جاتی ہے کہ اگر میں کرپٹ ہوں تو وہ دوسرا بھی تو کرپٹ ہے اس کو کیوں نشانہ نہیں بنایا جاتا اور صرف مجھے ہی کیوں۔ایک تنقیدی نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کیونکر احتساب کے پیچھے کھڑی ہوکر اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ اداروں کو خود آزادی اورخود مختاری سے کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا۔
یہ جو نیب پر تنقید ہے، ممکن ہے اس میں کافی وزن بھی ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو پچھلے دس برسوں سے پانچ پانچ برس اقتدار میں رہیں۔ دونوں میں مختلف امور پر مفاہمت بھی تھی۔ یہ دونوں جماعتیں واقعی اگر احتساب کے عمل میں سنجیدہ تھیں تو وہ کیونکر نیب کو ختم کرکے ایک آزدانہ اورمنصفانہ احتساب ادارے کی تشکیل نہیں کرسکیں۔کیونکر دونوں جماعتوں نے سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دے کر لوٹ مار کی سیاست کی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوٹ مار کی سیاست محض سیاستدانوں تک محدود نہیں اور یقینی طور پر ان پر زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔ دیگر فریقین جن میں بیوروکریسی، عدلیہ، فوج،کاروباری طبقہ، میڈیا سمیت مختلف فریقین میں بھی کرپشن موجود ہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب خود حکمران طبقہ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کرے گا تو دیگر طبقات جن کا ان کو احتساب کرنا تھا وہ کیونکر ممکن ہوگا۔
یہاں ایک احتساب کے عمل میں ایک فکری مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ اگر ہم نے اس وقت احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا تو اس سے جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہونگے۔ کئی سنجیدہ طرز فکر کے حامی افراد بھی اس بحث میں الجھ کر عملی طور پر کرپشن پر مبنی سیاست کو تحفظ ہی دیتے ہیں۔ یہ بھی دنیا میں صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہوگا کہ سیاستدان یہ مطالبہ کریں کے انتخابات سے قبل کسی کا احتساب نہ ہو اورنہ ہی کسی کو گرفتار کیا جائے، اس پر نیب کا گرفتاری نہ کرنے کا فیصلہ بھی لوگوں کے لیے حیران کن اورکمزور ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے۔
مسئلہ کسی جمہوریت اور سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت جمہوریت اور سیاسی جماعت کو اپنی ذاتی کرپشن کو چھپانے کے لیے ان کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانامہ کا مقدمہ حکومت یا مسلم لیگ ن پر نہیں تھا۔ یہ مقدمہ براہ راست شریف خاندان پر تھا۔ شریف خاندان کو اس مقدمہ میں اپنی صفائی کو پیش کرنا تھا، مگر اس خاندان نے پوری طاقت سے اپنے حق میں حکومتی مشینری اور سیاسی جماعت کو استعمال کرکے اپنی ڈھال بنا کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔ اسی طرح الزامات آصف علی زرداری پر ہیں جب کہ پیپلز پارٹی بطور جماعت ایک خاندان کے تحفظ میں کھڑی ہے۔
یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں اس وقت طاقتور طبقات کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ ابھی ابتدائی عمل ہے اور اس میں بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ احتساب کا عمل اوپر سے شروع ہوا ہے وگرنہ یہاں تو کمزور لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ طاقتور لوگ اپنی حکمرانی اور دولت سمیت اختیارات کی بنیاد پر بچ جاتے ہیں۔ یہ جو نکتہ ہے کہ اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کا اس کا آڈٹ ہونا ہر طبقہ کی سطح پر ضروری ہے۔ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ میں ایسے لوگوں کی تعداد تسلسل کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جو اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے رکھتے ہیں اور ان کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس شفاف شواہد موجود نہیں۔
یہ سب جانتے ہیں یہاں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اداروں کو کمزور اور یرغمال رکھا گیا ہے۔ اس لیے کوئی بھی ان موجودہ اداروں سے ان کی حیثیت کے مطابق شفاف احتساب کا یقین نہیں رکھتا۔ جب تک ہمارے ریاستی ادارے خود آگے بڑھ کر ان اداروں پر اپنی نگرانی نہیں رکھیں گے احتساب ممکن نہیں ۔ اب جو اداروں کی سطح پر خلا ہے اس میں چیف جسٹس اور عدلیہ کا کردار نمایاں ہے، اس کو مزید طاقت ملنی چاہیے۔لیکن یہ جو مخالفین کی بحث ہے کہ احتساب کا عمل یکطرفہ ہے یا ایک خاندان کے خلاف ہے اس کو ہر سطح پر نمٹا جائے اور اس کا واحد طریقہ یہ ہی ہے کہ ملک میں احتساب کا عمل منصفانہ، شفاف اور بلاتفریق ہواوریہ تاثر قائم نہ ہو کہ کچھ لوگوں کو سیاسی مفادکے تحت احتساب کے دائرہ کار سے باہر رکھا جاتا ہے۔
یہ جوجمہوریت اور قانون کی حکمرانی سمیت سیاسی نظام کی بالادستی کی جنگ ہے اس کا ایک بنیادی نکتہ منصفانہ، شفاف اور جوابدہی یعنی احتساب کا نظام ہے۔احتساب کو طاقت دیے بغیر نہ تو جمہوریت قائم رہ سکے گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی کا نظام اپنی افادیت قائم رکھ سکے گا۔