پاک فوج کے ہاتھوں لاکھوں بنگالیوں کا قتل بھارتی جھوٹ ہے مصنف ڈاکٹر جنید
’بنگلہ دیش کی تخلیق، افسانے اور حقائق‘ کی کراچی میں تقریب رونمائی سے مصنف ڈاکٹر جنید کا خطاب
مصنف ڈاکٹر جنید نے کتاب 'بنگلہ دیش کی تخلیق، افسانے اور حقائق' کی رونمائی کے موقع پر کہا ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا جھوٹ کہ پاکستانی فوج نے30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا۔
سقوط ڈھاکا کے پس منظر میں بھارتی سازشوں کے چشم کشا حقائق، بھارت کی جانب سے پاکستان کو دولخت کرنے کے سازشوں کے بنے گئے جال اور مشرقی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے جیسی صورت حال کے اصل کردار بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے پر مبنی ڈاکٹر جنید احمد کی کتاب 'بنگلہ دیش کی تخلیق، افسانے اور حقائق' کی تقریب رونمائی کراچی میں منعقد کی گئی۔
کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں افواج پاکستان سے سبکدوش ہونے والے افسران، ریڈرز کلب کے نمائندوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے، خطبہ استقبالیہ ریڈرز کلب کی سبوحہ خان نے دیا جبکہ کتاب پر جنرل (رٹائرڈ ) سکندر حیات نے بھی تبصرہ کیا۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر جنید احمد کا کہناتھاکہ بھارت نے جب 1967 میں اپنی خفیہ ایجنسی 'را' کی بنیاد رکھی تو اس کا ایک ہی مقصد تھاکہ اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں انارکی اور غیرمستحکم صورتحال پید اکرے، ابتدا میں انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کے اردو میں ترجمے کا مقصد ہی یہی تھاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ بنگلہ دیش میں ہوا کیا تھا۔
ڈاکٹر جنید کے مطابق گذشتہ45برسوںکے دوران بھارتی سقوط ڈھاکہ پر لگ بھگ 50 کتابیں لکھ چکے ہیں جس کے مصنف وہاں کے سول وعسکری افراد اور جرنلسٹ ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری جانب سے بجائے ان باتوں کا جواب دینے کے بھٹو، ضیا الحق، پرویزمشرف، نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے وہاں جاکر ہمیشہ معافیاں مانگنے کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ بھارت ہمیشہ سے یہ ہرزہ سرائی کرتا چلا آرہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی93 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے مگر وہاں پاکستان کی صرف3 ڈویژن فوج تھی جو لگ بھگ45 ہزار بنتی ہے جس میں 12ہزار ڈرائیور ،کک اور ڈاکٹرز تھے جبکہ باقی سارے گرفتار افراد غیر فوجی تھے، بھارت کا ایک اور سب سے بڑا جھوٹ کہ پاکستانی فوج نے30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا محض دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ پاکستانی فوج کا وہاں62 دن قیام رہا تو کیا وہ روز 11500 بنگالیوں کو پکڑکر ماررہے تھے؟ ان کا کہناتھاکہ اس کتاب کا عنوان انھوں نے ابتدا میں بنگلہ دیش ہندوستان کی حرام کی پیداوار رکھا تھا تاہم بعدازاں کچھ دوستوں کے مشورے پر انھوں نے نام تبدیل کردیا۔
ڈاکٹر جنید کے مطابق لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد مسلم لیگ اتنے حصوں میں بٹ گئی جتنے اردو کے حروف تہجی ہیں، بنگالیوں کے ساتھ مغربی پاکستان نے کوئی بہت اچھا سلوک نہیں کیا، دیگر معاملات کے علاوہ تمام ترسرکاری اعلیٰ عہدوں پرتعیناتیاں مغربی پاکستان سے ہوتی تھیں اور وہاں کے لوگ منہ تکتے رہ جاتے تھے اور اس قسم کے رویے اس حد تک بڑھ گئے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں محرومیوں نے سراٹھانا شروع کردیا، مشرقی پاکستان میں ڈھائی ہزار فیکٹریاں لگائی گئیں، مگر وہاں بھی اہم عہدوں پرمغربی پاکستان کے لوگ ہی تعینات ہوئے جبکہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے حصے میں صرف بطور لیبر کام کرنا رہ گیا، ہماری بیوروکریسی نے مشرقی پاکستان کو سرے سے عزت ہی نہیں دی ،حتیٰ کہ انھیں بھوکے بنگالی کے القابات سے بھی نوازاگیا۔
1971 میں پاکستان دولخت ہونے کے بعد بھارتی فوجیوں نے اگلے 6ماہ تک جو لوٹ مار کا بازار گرم کیا اس کی بھی دنیامیں کوئی مثال نہیں ہے، بھارتی فوجی بنگالیوںکے گھروں کے برتن اور پنکھے تک اتار کرلے گئے، مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ بھارت روز اول سے پاکستان کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تو کیا پھر مجھے مزید بدنامی کا انتظار کرناچاہیے تھا، اگلے چند برسوں میں وہ اس موضوع پر مزید5کتابیں لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں انھیں بحریہ یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جبکہ آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کی معاونت حاصل رہے گی۔
تقریب سے خطاب میں جنرل (رٹائرڈ ) سکندر حیات کا کہناتھا کہ ہماری قوم اتنی معصوم ہے کہ انھیں کوئی بھی بہکا سکتاہے، مشرقی پاکستان میں دراصل اس قسم کی لڑائی تھی ہی نہیں جو 2ملکوں کی فوجوں کے درمیان لڑی جاتی ہے کیونکہ طاقت کے توازن میں ایک کے مقابلے میں50کا فرق تھا، مگر اس کے باوجود بھارت کے3 جرنیلوں نے پاکستانی فوج کی تعریف کی جس میں جرنل مانک شا سرفہرست ہیں، مغرب کے بعد پاکستانی فوجیوں کو حکمت عملی کے تحت باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی مگر اس کے باوجود لاکھوں عورتوں کی آبروریزی کے من گھڑت قصے منسوب کیے گئے۔
جنرل سکندر حیات کا کہناتھاکہ بنگالی ہمارے بھائی تھے یہ سلو ک تو غالبا دشمن سے بھی نہیں کیا جاتا، بھارت نے ایک لاکھ تربیت یافتہ لوگ مشرقی پاکستان میں داخل کیے جن کو مشرقی پاکستان کے مقامی غنڈوں مکتی باہنی کی مددحاصل تھی۔
سقوط ڈھاکا کے پس منظر میں بھارتی سازشوں کے چشم کشا حقائق، بھارت کی جانب سے پاکستان کو دولخت کرنے کے سازشوں کے بنے گئے جال اور مشرقی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے جیسی صورت حال کے اصل کردار بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کرنے پر مبنی ڈاکٹر جنید احمد کی کتاب 'بنگلہ دیش کی تخلیق، افسانے اور حقائق' کی تقریب رونمائی کراچی میں منعقد کی گئی۔
کتاب کی تقریب رونمائی پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں افواج پاکستان سے سبکدوش ہونے والے افسران، ریڈرز کلب کے نمائندوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے، خطبہ استقبالیہ ریڈرز کلب کی سبوحہ خان نے دیا جبکہ کتاب پر جنرل (رٹائرڈ ) سکندر حیات نے بھی تبصرہ کیا۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر جنید احمد کا کہناتھاکہ بھارت نے جب 1967 میں اپنی خفیہ ایجنسی 'را' کی بنیاد رکھی تو اس کا ایک ہی مقصد تھاکہ اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں انارکی اور غیرمستحکم صورتحال پید اکرے، ابتدا میں انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کے اردو میں ترجمے کا مقصد ہی یہی تھاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ بنگلہ دیش میں ہوا کیا تھا۔
ڈاکٹر جنید کے مطابق گذشتہ45برسوںکے دوران بھارتی سقوط ڈھاکہ پر لگ بھگ 50 کتابیں لکھ چکے ہیں جس کے مصنف وہاں کے سول وعسکری افراد اور جرنلسٹ ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری جانب سے بجائے ان باتوں کا جواب دینے کے بھٹو، ضیا الحق، پرویزمشرف، نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے وہاں جاکر ہمیشہ معافیاں مانگنے کوشش کی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ بھارت ہمیشہ سے یہ ہرزہ سرائی کرتا چلا آرہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی93 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے مگر وہاں پاکستان کی صرف3 ڈویژن فوج تھی جو لگ بھگ45 ہزار بنتی ہے جس میں 12ہزار ڈرائیور ،کک اور ڈاکٹرز تھے جبکہ باقی سارے گرفتار افراد غیر فوجی تھے، بھارت کا ایک اور سب سے بڑا جھوٹ کہ پاکستانی فوج نے30 لاکھ بنگالیوں کا قتل عام کیا محض دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ پاکستانی فوج کا وہاں62 دن قیام رہا تو کیا وہ روز 11500 بنگالیوں کو پکڑکر ماررہے تھے؟ ان کا کہناتھاکہ اس کتاب کا عنوان انھوں نے ابتدا میں بنگلہ دیش ہندوستان کی حرام کی پیداوار رکھا تھا تاہم بعدازاں کچھ دوستوں کے مشورے پر انھوں نے نام تبدیل کردیا۔
ڈاکٹر جنید کے مطابق لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد مسلم لیگ اتنے حصوں میں بٹ گئی جتنے اردو کے حروف تہجی ہیں، بنگالیوں کے ساتھ مغربی پاکستان نے کوئی بہت اچھا سلوک نہیں کیا، دیگر معاملات کے علاوہ تمام ترسرکاری اعلیٰ عہدوں پرتعیناتیاں مغربی پاکستان سے ہوتی تھیں اور وہاں کے لوگ منہ تکتے رہ جاتے تھے اور اس قسم کے رویے اس حد تک بڑھ گئے جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں محرومیوں نے سراٹھانا شروع کردیا، مشرقی پاکستان میں ڈھائی ہزار فیکٹریاں لگائی گئیں، مگر وہاں بھی اہم عہدوں پرمغربی پاکستان کے لوگ ہی تعینات ہوئے جبکہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے حصے میں صرف بطور لیبر کام کرنا رہ گیا، ہماری بیوروکریسی نے مشرقی پاکستان کو سرے سے عزت ہی نہیں دی ،حتیٰ کہ انھیں بھوکے بنگالی کے القابات سے بھی نوازاگیا۔
1971 میں پاکستان دولخت ہونے کے بعد بھارتی فوجیوں نے اگلے 6ماہ تک جو لوٹ مار کا بازار گرم کیا اس کی بھی دنیامیں کوئی مثال نہیں ہے، بھارتی فوجی بنگالیوںکے گھروں کے برتن اور پنکھے تک اتار کرلے گئے، مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ بھارت روز اول سے پاکستان کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تو کیا پھر مجھے مزید بدنامی کا انتظار کرناچاہیے تھا، اگلے چند برسوں میں وہ اس موضوع پر مزید5کتابیں لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں انھیں بحریہ یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جبکہ آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کی معاونت حاصل رہے گی۔
تقریب سے خطاب میں جنرل (رٹائرڈ ) سکندر حیات کا کہناتھا کہ ہماری قوم اتنی معصوم ہے کہ انھیں کوئی بھی بہکا سکتاہے، مشرقی پاکستان میں دراصل اس قسم کی لڑائی تھی ہی نہیں جو 2ملکوں کی فوجوں کے درمیان لڑی جاتی ہے کیونکہ طاقت کے توازن میں ایک کے مقابلے میں50کا فرق تھا، مگر اس کے باوجود بھارت کے3 جرنیلوں نے پاکستانی فوج کی تعریف کی جس میں جرنل مانک شا سرفہرست ہیں، مغرب کے بعد پاکستانی فوجیوں کو حکمت عملی کے تحت باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی مگر اس کے باوجود لاکھوں عورتوں کی آبروریزی کے من گھڑت قصے منسوب کیے گئے۔
جنرل سکندر حیات کا کہناتھاکہ بنگالی ہمارے بھائی تھے یہ سلو ک تو غالبا دشمن سے بھی نہیں کیا جاتا، بھارت نے ایک لاکھ تربیت یافتہ لوگ مشرقی پاکستان میں داخل کیے جن کو مشرقی پاکستان کے مقامی غنڈوں مکتی باہنی کی مددحاصل تھی۔