کیا اس منہگائی میں بچت ممکن ہے
جہاں ضروری اخراجات کرنا ہی پورے کرنا مشکل ہو، وہاں بچت کیسے ہوسکتی ہے؟
''اُف اتنی منہگائی، خرچہ پورا کرنا مشکل ہے تو پھر بچت کیسے ہو؟''
''مہینے کی آخری تاریخوں میں گھر کا خرچ چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔''
عموماً خواتین کی اکثریت اپنی گفت گو کے دوران اکثر ایسے ہی جملے ادا کرتی ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بسنے والوں میں اکثریت متوسط طبقے کے سفید پوش گھرانوں پر مشتمل ہے جہاں محدود تن خواہ میں پورے مہینے کا خرچ، گھر کا سودا سلف، بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات بہ مشکل پورے ہوتے ہیں۔ جہاں ضروری اخراجات کرنا ہی پورے کرنا مشکل ہو، وہاں بچت کیسے ہوسکتی ہے؟ لیکن پھر بھی عید کا موقع ہو یا کوئی تہوار، خاندان کی کسی شادی میں تحفے تحائف دینے ہوں یا مہمان داری کرنی ہو، ان سب حالات میں سلیقہ مند اور سگھڑ خواتین اس طرح اہتمام کرتی ہیں کہ کوئی ان کی کم زور معاشی حالت کا اندازہ نہیں لگاسکتا۔ خواتین کس طرح اپنے گھر کا خرچ مہارت اور سلیقے سے چلاتی ہیں، یہ جاننے کے لیے ہم نے چند خواتین سے کچھ سوال کیے اور ان سے جواب بھی مانگے تاکہ ہماری قارئین بھی اس سے استفادہ کریں اور اپنے گھر کا خرچ بہ حسن و خوبی چلاسکیں اور محدود تن خواہ میں منہگائی کا رونا رونے کے بجائے سلیقے مندی سے بہ خوشی زندگی گزارسکیں۔
٭فرزانہ:
فرزانہ ایک خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوالوں کے جواب میں بتایا:
گھر کا خرچ میں چلاتی ہوں، بجٹ کا زیادہ حصہ جہاں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہاں خرچ ہوتا ہے۔ اپنی آمدنی اور خرچ کا متوازن بجٹ بناتی ہوں، پہلے بجلی اور گیس کا بل، پھر مکان کا کرایہ، راشن، کمیٹی بھی ڈالی ہوئی ہے تو اس کے پیسے بھی نکالتی ہوں۔ اس کے بعد پوتے کی اسکول کی فیس، مہمانوں کی خاطر مدارات، تقریبات میں جانے کے اخراجات وغیرہ نکال کر آخر میں کچھ رقم کی بچت کرلی جو بہ وقت ضرورت استعمال کی جاسکے۔ مثلاً اچانک گھر میں کوئی بیمار ہوگیا یا کوئی تقریب کرلی، قریبی رشتے داروں کی شادی میں بھی رقم کی ضرورت پڑجاتی ہے اور اگر کسی مہینے بچت کے پیسے خرچ نہیں ہوئے تو بہ وقت ضرورت کسی ضرورت مند کو قرض دے دیتی ہوں۔ بس اس طرح چلتا ہے یہ سب سلسلہ۔۔۔۔
٭ثناء ذیشان:
ثناء پیشے کے اعتبار سے ایک بیوٹیشن ہیں اور خاتون خانہ ہونے کے ساتھ سلائی کا کام بھی کرتی ہیں۔ ثناء نے ہمارے سوالوں کے جواب میں ہمیں بتایا کہ گھر کا خرچ میرے شوہر چلاتے ہیں، میں نہیں چلاتی۔ بجٹ کا زیادہ حصہ راشن وغیرہ اور جو روزمرہ کے اخراجات ہوتے ہیں، ان ہی میں خرچ ہوتا ہے۔ میرے گھر کا شروع سے اصول ہے کہ ہم ماہانہ سامان لینے کے بجائے ہفتہ وار سامان خریدتے ہیں، اس طرح ہمارا بجٹ بہت آرام سے چلتا ہے اور اگر ہم مہینے کے شروع میں ہی سب چیزیں لے لیں گے تو پھر اتنی بچت نہیں ہوتی، اس میں ہم فالتو چیزیں بھی لے لیتے ہیں، اس لیے میں ہفتہ وار خرچہ کرتی ہوں تو اس میں یہ سہولت ہو جاتی ہے کہ خدا نہ کرے اگر کوئی پریشانی ہو، گھر میں یا باہر کوئی مشکل آپڑے تو ہمارے پاس اتنے پیسے موجود ہوں کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ویسے بچت تو نہیں ہوتی، کیوں کہ ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو جو بچت ہوتی ہے، وہ کرائے میں لگ جاتی ہے۔ بچت تو بہت مشکل ہے، البتہ چوں کہ میں بیوٹیشن ہوں، گھر پر ہی کام کرتی ہوں تو کام کم ملتا ہے، فارغ وقت میں سلائی کرتی ہوں جو میری بچت ہوتی ہے۔ اس سے میں اپنے کپڑے، بچوں کے کپڑے، جو بچوں کی روزمرہ کی ضروریات ہیں جو شوہر کی تن خواہ میں پورے نہیں ہوپاتے تو میں وہ بچت وہاں خرچ کرتی ہوں اور اگر کوئی تہوار آرہا ہو، اس موقع پر کچھ تحفے تحائف کا انتظام کرنا ہو تو میں اپنی بچت کو وہاں خرچ کرتی ہوں۔ ویسے بھی دیکھیں کہ عزت تو دونوں میاں بیوی کی سانجھی ہوتی ہے۔ میں نے خرچ کیا یا میرے شوہر نے کیا، ایک ہی بات ہے۔ اب اگر ان کی تن خواہ میں اتنا نہیں ہو پارہا تو جو میری بچت ہوتی ہے، وہ میں اس طرح سے کردیتی ہوں۔ البتہ باہر جو فالتو خرچے ہوتے ہیں، لوگوں کو دینا دلانا، اس میں اتنا زیادہ نہیں کرتی۔ ہماری حیثیت سب کے سامنے ہے، ہم یہ نہیں کرتے کہ دوسروں کے لیے دکھاوے کے چکر میں اپنے گھر کا بجٹ خراب کرلیں اور بچت نہ کریں۔ اس میں صرف میرا ہی نہیں میرے شوہر کا بھی بھرپور ساتھ شامل ہوتا ہے۔ یہ بچت ہی تھی کہ میں کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے عمرے کی سعادت حاصل کرسکی۔
٭سکینہ یعقوب:
سکینہ یعقوب سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ خاتون خانہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پینتالیس سال گھر پر ٹیوشن پڑھائی، اسی لیے زندگی کا وسیع تجربہ ہے چناں چہ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ دوسروں کی راہ نمائی کروں۔ میرے بچے شادی شدہ ہیں۔ میں ان سے مقررہ رقم لیتی ہوں جو گھر کے کھانے پینے یا دیگر انتظامات کے لیے درکار ہوتی ہے۔ بقیہ ان کا علاج معالجہ، سیر و تفریح، ہوٹل میں کھانا کھانا، ملبوسات کی خریداری سب ان کی ذمے داری ہے، البتہ جب گھر میں باہر سے کھانا یا کچھ منگوانا ہو تو میں پیسے اپنے پاس سے دیتی ہوں۔ اسی طرح بچت ہوتی ہے۔ سب اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں۔ میرے بجٹ کا زیادہ حصہ کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ ہوتا ہے۔ گھر کا بجٹ بنانے کے لیے ایک دفعہ لکھ لیں کہ ایک مہینے میں کون سی چیز کتنی استعمال ہوتی ہے۔ تین وقت کے کھانے میں کتنا خرچ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ لکھ لیںگی تو ہر ماہ اسی حساب سے بجٹ بناسکتی ہیں، البتہ چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اخراجات بھی ساتھ ساتھ بڑھ جاتے ہیں۔ اب پٹرول کی قیمت بڑھی تو ماسی نے کہا کہ کرایہ بڑھ گیا ہے،آپ لوگ ہمارے پیسے بھی بڑھادیں۔ بچت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ضائع نہ کریں۔ مثلاً چاول بچ گئے ہیں تو دوسرے دن تیل میں لہسن اور ہری مرچ کا بگھار لگاکر تھوڑا پانی ڈال کر وہ چاول ڈال دیں، عمدہ ڈش تیار ہوگی اور اس کا بہترین ذائقہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو بچت کرو، اس سے کچھ سرٹیفکیٹ وغیرہ خرید لو یا سونا یا گھر خرید لو یا پھر پلاٹ خرید کر اس کی قسطیں ادا کرو، فضول خرچی نہ کرو کہ عید آئی تو پرانی آرائشی اشیاء نکال کر نئی خرید لو۔ یہ زیاں ہے میں تو قمیص پھٹ جاتی ہے تو دوپٹے کی قمیص بناکر اس کے ساتھ کوئی دوپٹہ لے کر گھر میں پہن لیتی ہوں، غرض لوگوں کو شعور دینے کی بات ہے کہ صفائی رکھیں، بچت کریں، اچھی منصوبہ بندی کریں اور بات بھی ایسی کریں جو دوسروں کے کام آئے۔
٭وجیہہ:
وجیہا خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ شوہر پیسے دے دیتے ہیں اور خرچہ سب میں کرتی ہوں۔ اشیائے خور و نوش کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ گھر کا بجٹ ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنتا ہے۔ بچت کرنے کے لیے کمیٹی ڈالتی ہوں۔ بچت کو گھر کی آرائش کے کام پر خرچ کرتی ہوں اور بچاکر رکھتی ہوں۔
٭آیت فاطمہ:
آیت فاطمہ خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ میں خود خرچہ چلاتی ہوں۔ بچی کی چیزوں پر اور روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء پر زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اپنے بجٹ کے لیے میں ایک فہرست بنالیتی ہوں۔ اس حساب سے چیزیں لیتی ہوں۔ خاص طور پر بیٹی کی کچھ چیزیں بڑے پیک میں لے لیتی ہوں تو اگلے مہینے مجھے وہ چیزیں نہیں لینی پڑتیں۔ اس طرح اگلے مہینے اس چیز کے پیسے الگ کرکے بچالیتی ہوں۔ جو خرچ ملتا ہے اس میں سے کم از کم ایک ہزار الگ کرلیتی ہوں کہ یہ مجھے استعمال نہیں کرنا اور بچت ہوجاتی ہے۔ بچت کو سردی، گرمی کی خریداری، گھریلو اشیاء یا پھر جس چیز کی ضرورت ہو، اس پر استعمال کرتی ہوں۔
''مہینے کی آخری تاریخوں میں گھر کا خرچ چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔''
عموماً خواتین کی اکثریت اپنی گفت گو کے دوران اکثر ایسے ہی جملے ادا کرتی ہے، کیوں کہ ہمارے معاشرے میں بسنے والوں میں اکثریت متوسط طبقے کے سفید پوش گھرانوں پر مشتمل ہے جہاں محدود تن خواہ میں پورے مہینے کا خرچ، گھر کا سودا سلف، بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات بہ مشکل پورے ہوتے ہیں۔ جہاں ضروری اخراجات کرنا ہی پورے کرنا مشکل ہو، وہاں بچت کیسے ہوسکتی ہے؟ لیکن پھر بھی عید کا موقع ہو یا کوئی تہوار، خاندان کی کسی شادی میں تحفے تحائف دینے ہوں یا مہمان داری کرنی ہو، ان سب حالات میں سلیقہ مند اور سگھڑ خواتین اس طرح اہتمام کرتی ہیں کہ کوئی ان کی کم زور معاشی حالت کا اندازہ نہیں لگاسکتا۔ خواتین کس طرح اپنے گھر کا خرچ مہارت اور سلیقے سے چلاتی ہیں، یہ جاننے کے لیے ہم نے چند خواتین سے کچھ سوال کیے اور ان سے جواب بھی مانگے تاکہ ہماری قارئین بھی اس سے استفادہ کریں اور اپنے گھر کا خرچ بہ حسن و خوبی چلاسکیں اور محدود تن خواہ میں منہگائی کا رونا رونے کے بجائے سلیقے مندی سے بہ خوشی زندگی گزارسکیں۔
٭فرزانہ:
فرزانہ ایک خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوالوں کے جواب میں بتایا:
گھر کا خرچ میں چلاتی ہوں، بجٹ کا زیادہ حصہ جہاں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہاں خرچ ہوتا ہے۔ اپنی آمدنی اور خرچ کا متوازن بجٹ بناتی ہوں، پہلے بجلی اور گیس کا بل، پھر مکان کا کرایہ، راشن، کمیٹی بھی ڈالی ہوئی ہے تو اس کے پیسے بھی نکالتی ہوں۔ اس کے بعد پوتے کی اسکول کی فیس، مہمانوں کی خاطر مدارات، تقریبات میں جانے کے اخراجات وغیرہ نکال کر آخر میں کچھ رقم کی بچت کرلی جو بہ وقت ضرورت استعمال کی جاسکے۔ مثلاً اچانک گھر میں کوئی بیمار ہوگیا یا کوئی تقریب کرلی، قریبی رشتے داروں کی شادی میں بھی رقم کی ضرورت پڑجاتی ہے اور اگر کسی مہینے بچت کے پیسے خرچ نہیں ہوئے تو بہ وقت ضرورت کسی ضرورت مند کو قرض دے دیتی ہوں۔ بس اس طرح چلتا ہے یہ سب سلسلہ۔۔۔۔
٭ثناء ذیشان:
ثناء پیشے کے اعتبار سے ایک بیوٹیشن ہیں اور خاتون خانہ ہونے کے ساتھ سلائی کا کام بھی کرتی ہیں۔ ثناء نے ہمارے سوالوں کے جواب میں ہمیں بتایا کہ گھر کا خرچ میرے شوہر چلاتے ہیں، میں نہیں چلاتی۔ بجٹ کا زیادہ حصہ راشن وغیرہ اور جو روزمرہ کے اخراجات ہوتے ہیں، ان ہی میں خرچ ہوتا ہے۔ میرے گھر کا شروع سے اصول ہے کہ ہم ماہانہ سامان لینے کے بجائے ہفتہ وار سامان خریدتے ہیں، اس طرح ہمارا بجٹ بہت آرام سے چلتا ہے اور اگر ہم مہینے کے شروع میں ہی سب چیزیں لے لیں گے تو پھر اتنی بچت نہیں ہوتی، اس میں ہم فالتو چیزیں بھی لے لیتے ہیں، اس لیے میں ہفتہ وار خرچہ کرتی ہوں تو اس میں یہ سہولت ہو جاتی ہے کہ خدا نہ کرے اگر کوئی پریشانی ہو، گھر میں یا باہر کوئی مشکل آپڑے تو ہمارے پاس اتنے پیسے موجود ہوں کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ ویسے بچت تو نہیں ہوتی، کیوں کہ ہم کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو جو بچت ہوتی ہے، وہ کرائے میں لگ جاتی ہے۔ بچت تو بہت مشکل ہے، البتہ چوں کہ میں بیوٹیشن ہوں، گھر پر ہی کام کرتی ہوں تو کام کم ملتا ہے، فارغ وقت میں سلائی کرتی ہوں جو میری بچت ہوتی ہے۔ اس سے میں اپنے کپڑے، بچوں کے کپڑے، جو بچوں کی روزمرہ کی ضروریات ہیں جو شوہر کی تن خواہ میں پورے نہیں ہوپاتے تو میں وہ بچت وہاں خرچ کرتی ہوں اور اگر کوئی تہوار آرہا ہو، اس موقع پر کچھ تحفے تحائف کا انتظام کرنا ہو تو میں اپنی بچت کو وہاں خرچ کرتی ہوں۔ ویسے بھی دیکھیں کہ عزت تو دونوں میاں بیوی کی سانجھی ہوتی ہے۔ میں نے خرچ کیا یا میرے شوہر نے کیا، ایک ہی بات ہے۔ اب اگر ان کی تن خواہ میں اتنا نہیں ہو پارہا تو جو میری بچت ہوتی ہے، وہ میں اس طرح سے کردیتی ہوں۔ البتہ باہر جو فالتو خرچے ہوتے ہیں، لوگوں کو دینا دلانا، اس میں اتنا زیادہ نہیں کرتی۔ ہماری حیثیت سب کے سامنے ہے، ہم یہ نہیں کرتے کہ دوسروں کے لیے دکھاوے کے چکر میں اپنے گھر کا بجٹ خراب کرلیں اور بچت نہ کریں۔ اس میں صرف میرا ہی نہیں میرے شوہر کا بھی بھرپور ساتھ شامل ہوتا ہے۔ یہ بچت ہی تھی کہ میں کرائے کے گھر میں رہتے ہوئے عمرے کی سعادت حاصل کرسکی۔
٭سکینہ یعقوب:
سکینہ یعقوب سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ خاتون خانہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پینتالیس سال گھر پر ٹیوشن پڑھائی، اسی لیے زندگی کا وسیع تجربہ ہے چناں چہ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ دوسروں کی راہ نمائی کروں۔ میرے بچے شادی شدہ ہیں۔ میں ان سے مقررہ رقم لیتی ہوں جو گھر کے کھانے پینے یا دیگر انتظامات کے لیے درکار ہوتی ہے۔ بقیہ ان کا علاج معالجہ، سیر و تفریح، ہوٹل میں کھانا کھانا، ملبوسات کی خریداری سب ان کی ذمے داری ہے، البتہ جب گھر میں باہر سے کھانا یا کچھ منگوانا ہو تو میں پیسے اپنے پاس سے دیتی ہوں۔ اسی طرح بچت ہوتی ہے۔ سب اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہیں۔ میرے بجٹ کا زیادہ حصہ کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ ہوتا ہے۔ گھر کا بجٹ بنانے کے لیے ایک دفعہ لکھ لیں کہ ایک مہینے میں کون سی چیز کتنی استعمال ہوتی ہے۔ تین وقت کے کھانے میں کتنا خرچ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ لکھ لیںگی تو ہر ماہ اسی حساب سے بجٹ بناسکتی ہیں، البتہ چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اخراجات بھی ساتھ ساتھ بڑھ جاتے ہیں۔ اب پٹرول کی قیمت بڑھی تو ماسی نے کہا کہ کرایہ بڑھ گیا ہے،آپ لوگ ہمارے پیسے بھی بڑھادیں۔ بچت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ضائع نہ کریں۔ مثلاً چاول بچ گئے ہیں تو دوسرے دن تیل میں لہسن اور ہری مرچ کا بگھار لگاکر تھوڑا پانی ڈال کر وہ چاول ڈال دیں، عمدہ ڈش تیار ہوگی اور اس کا بہترین ذائقہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جو بچت کرو، اس سے کچھ سرٹیفکیٹ وغیرہ خرید لو یا سونا یا گھر خرید لو یا پھر پلاٹ خرید کر اس کی قسطیں ادا کرو، فضول خرچی نہ کرو کہ عید آئی تو پرانی آرائشی اشیاء نکال کر نئی خرید لو۔ یہ زیاں ہے میں تو قمیص پھٹ جاتی ہے تو دوپٹے کی قمیص بناکر اس کے ساتھ کوئی دوپٹہ لے کر گھر میں پہن لیتی ہوں، غرض لوگوں کو شعور دینے کی بات ہے کہ صفائی رکھیں، بچت کریں، اچھی منصوبہ بندی کریں اور بات بھی ایسی کریں جو دوسروں کے کام آئے۔
٭وجیہہ:
وجیہا خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ شوہر پیسے دے دیتے ہیں اور خرچہ سب میں کرتی ہوں۔ اشیائے خور و نوش کا خرچہ زیادہ ہوتا ہے۔ گھر کا بجٹ ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنتا ہے۔ بچت کرنے کے لیے کمیٹی ڈالتی ہوں۔ بچت کو گھر کی آرائش کے کام پر خرچ کرتی ہوں اور بچاکر رکھتی ہوں۔
٭آیت فاطمہ:
آیت فاطمہ خاتون خانہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ میں خود خرچہ چلاتی ہوں۔ بچی کی چیزوں پر اور روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء پر زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اپنے بجٹ کے لیے میں ایک فہرست بنالیتی ہوں۔ اس حساب سے چیزیں لیتی ہوں۔ خاص طور پر بیٹی کی کچھ چیزیں بڑے پیک میں لے لیتی ہوں تو اگلے مہینے مجھے وہ چیزیں نہیں لینی پڑتیں۔ اس طرح اگلے مہینے اس چیز کے پیسے الگ کرکے بچالیتی ہوں۔ جو خرچ ملتا ہے اس میں سے کم از کم ایک ہزار الگ کرلیتی ہوں کہ یہ مجھے استعمال نہیں کرنا اور بچت ہوجاتی ہے۔ بچت کو سردی، گرمی کی خریداری، گھریلو اشیاء یا پھر جس چیز کی ضرورت ہو، اس پر استعمال کرتی ہوں۔