عمران خان کی صحت یابی کے لیے قوم دعاگو

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لفٹر سے گر کر زخمی ہونے کی اطلاع نے عوامی اور سیاسی حلقوں کوغم واندوہ کی نذرکردیا۔

بادی النظر میں اس واقعے کو کسی سازش تھیوری سے جوڑنا مناسب نہیں ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لفٹر سے گر کر زخمی ہونے کی اطلاع نے عوامی اور سیاسی حلقوں کو غم و اندوہ کی نذر کردیا ۔

یہ الم ناک حادثاتی واقعہ پیر کی شام لاہور میں غالب مارکیٹ کے علاقے میں پیش آیا جہاں عمران خان جلسہ عام سے خطاب کے لیے لفٹر سے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے اپنے 3 محافظوں سمیت گر کر شدید زخمی ہوگئے ، عمران خان کے سر پر شدید چوٹیں آئیں اور وہ بیہوش ہو گئے،عمران خان کو ان کے محافظوں نے فوری طور پر پرائیویٹ گاڑی میں لبرٹی میں مقامی اسپتال پہنچایا جہاں طبی امداد کے بعد انھیں سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کے لیے شوکت خانم اسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ الیکشن کو چند دن رہ گئے ہیں ، یہ واقعہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا نقصان ثابت ہوسکتا تھا تاہم ایک چیلنج بدستور ہے۔

ہر سیاست دان دکھی ہے۔ بادی النظر میں اس واقعے کو کسی سازش تھیوری سے جوڑنا مناسب نہیں ہوگا چونکہ جس وقت یہ اندوہ ناک واقعہ ہوا وہ ساعت جاریہ دہشت گردی کی ہولناکی اور اس سے پیدا شدہ خوف وہراس سے الگ نہیں تھی جس سے پورے ملک کی انتخابی مہم اس وقت دوچار ہے۔ عمران خان جب لفٹر سے گرے تو بلیک ٹی شرٹ میں اوپر کھڑا شخص زخمی نہیں ہوا جب کہ عمران خان کے تینوں گارڈ ریاض، شفیق اور ایوب کو پولیس نے شامل تفتیش کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں پہلی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ انتخابی جلسے طے شدہ پروگرام اور ٹائمنگ کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے اس میں ہر چیز پہلے سے طے ہوتی ہے ، جلد بازی اور افراتفری سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عمران کے جلسے میں بھی ان انتظامی کوتاہیوں پر نظر ڈالنی چاہیے جو لفٹر ڈرائیور سے لے کر سیکیورٹی گارڈز کے ہمراہ اتنی اونچائی پر ملک کی ایک اہم سیاسی شخصیت کو لے جانے سے متعلق ہے جب کہ اخباری رپورٹس کے مطابق عمران نے کہا تھا کہ '' لگتا ہے میں گرنے والا ہوں'' اور وہ گر گئے۔

فوٹیج سے بھی صاف ظاہر تھا کہ لفٹر ہل رہا تھا چنانچہ کوئی اپنا توازن برقرارنہ رکھ سکا۔اصولاً اتنے اونچے اسٹیج کے لیے سیڑھی مناسب چوائس تھی، دوسرا مسئلہ زخمی عمران کو جلدی سے پرائیویٹ گاڑی میں ڈال کر اسپتال لے جانا تھا ،تحریک انصاف کے اکابرین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک میں دہشت گرد نیٹ ورک الرٹ ہے وہ تاک میں ہے کہ کس سیاسی رہنما کو کس وقت نشانہ بنایا جائے،اس لیے عجلت کے بجائے ایمبولینس کو فوری مشاورت سے ٹائٹ سیکیورٹی میں اسپتال لے جانا احسن تھا۔


جہاں تک جلسہ گاہ میں کسی ایمبولینس کی عدم موجودگی کا معاملہ ہے تو اس پر سوائے اظہار افسوس کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک عمومی تاثر تھا کہ دہشت گرد مخصوص سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کررہے ہیں اور عمران خان کو اس ہٹ لسٹ میں شامل نہیں سمجھا جارہا ہے تاہم اس سانحے کے فوری بعد سیاسی فہم وفراست ، یکجہتی اور جمہوری قدروں پر جس روادارنہ انداز میں عمل کیا گیا وہ تحمل وبرداشت کا قابل تقلید نمونہ تھا ، مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے عمران خان کے زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار اور ان کی صحتیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے اپنی تمام انتخابی سرگرمیاں منسوخ کر دیں ، مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہباز شریف نے اسپتال جا کر تحریک انصاف کے چیئرمین کی عیادت کی، صدر آصف علی زرداری، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو سمیت ملک کی مذہبی و سیاسی قیادت نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اﷲ انھیں جلد صحت یاب کرے۔ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے بھی جلسوں سے خطاب منسوخ کر دیا ۔

نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے شوکت خانم اسپتال جا کر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی عیادت کی اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، ملالہ یوسفزئی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہاکہ عمران خان کے زخمی ہونے پر انھیں دلی صدمہ ہوا، عمران خان کی سابق بیوی جمائما خان نے عمران خان کی جلد صحت یابی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ منگل کو اپنے ٹوئیٹر پیغام میں جمائما نے لاہور میں انتخابی جلسے کے موقعے پر عمران خان کے لفٹر سے گرنے اور سر میں چوٹیں لگنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ۔ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے بھی پی ٹی آئی کے سربرا ہ عمران خان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے ۔انھوں نے اس موقعے پر عمران خان کے لیے جلد صحتیابی کی خواہش کا بھی اظہار کیا ۔

عالمی ذرایع ابلاغ پر عمران خان کے زخمی ہونے کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی گئی۔عمران کے زخمی ہونے کی اطلاع سنتے ہی ایک دوسرے سے سخت سیاسی اختلاف رکھنے والے بعض سیاسی رہنماؤں نے انتظامی اور تکنیکی حوالوں سے اس سانحے کے مختلف پہلوؤں پر سوچ وبچار کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ جلسہ گاہ میں اونچے اسٹیج کی تیاری اور رہنماؤں کی اس تک رسائی کے لیے لفٹر کا استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ادھر عمران کے معالجین ڈاکٹر فیصل سلطان و دیگر کا کہنا ہے کہ عمران خان اب مزید انتخابی مہم نہیں چلائیں گے، انھیں دو ہفتے کا بیڈ ریسٹ تجویز کیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر شوکت خانم اسپتال ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے عمران خان بالکل خیریت سے ہیں اور تمام افراد کو پہچان رہے ہیں، ان کا سی ٹی اسکین ہو گیا ہے، ان کے فریکچر ضرور ہیں لیکن پریشانی کی بات نہیں، وہ بات چیت کر سکتے ہیں لیکن اٹھ نہیں سکتے، عمران کے ایکسرے لے لیے گئے ہیں وہ رات اسپتال میں ہی رہیں گے،عمران خان کو ایمبولینس موجود نہ ہونے کیوجہ سے تقریباً 20منٹ بعداسپتال منتقل کیا جا سکا جب کہ کارکن سیکیورٹی انتظامات نہ ہونے کیوجہ سے پولیس کے خلاف نعرے بازی اور غم وغصے کا اظہار کرتے رہے۔

عمران خان کے اسٹیج سے گرنے کی خبر پر سوشل میڈیا ایک دم جاگ اٹھا، جہاں دعاؤں اور تمناؤں کی ٹویٹس تھیں وہیں لوگ ان کی صحت اور سلامتی کے پیغامات لکھ رہے تھے۔ علاوہ ازیں عمران خان کے زخمی ہونے کی خبر سنتے ہی اندرون اور بیرون ممالک موجود کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملکی انتخابات میں عمران فیکٹر نے بڑی دلچسپی پیدا کی ہے، ان کی مہم نکتہ عروج پر تھی کہ یہ سانحہ ہوگیا،تاہم ان کی فائٹنگ اسپرٹ بدستور کام کرتی رہی چنانچہ اپنی اسپورٹس مین شپ کی روایت کے تحت انھوں نے پارٹی رہنماؤں اور امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابی مہم کو معمول کے مطابق جاری رکھیں اور ان کے زخمی ہونے کی وجہ سے انتخابی سرگرمیوں میں کسی قسم کا تعطل نہ آنے دیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف سمیت تمام انتخابی امیدوار اور ووٹرز اپنی توجہ 11 مئی پرمرکوز رکھیں تاکہ ملکی سالمیت، جمہوریت کے تسلسل اور دہشت گردی سے نمٹنے کا مشن مکمل ہو۔

بلاشبہ یہ واقعہ بظاہر دہشت گردی یا کسی سازش کا شاخسانہ نہیں بتایا جارہا اور خداکرے ایسا کسی نے سوچا بھی نہ ہو تاہم اس دردانگیز اور غیر متوقع واقعے کا ہر پہلو سے جائزہ لینا چاہیے۔سیاسی جلسوں کی پر جوش اور ہنگامی طریقے سے تیاری اوراس ضمن میں کیے گئے عبوری اور عجلت آمیزانتظامات کے وسیع تر تناظر میں امکانی خطرات کے خاتمے کی بابت احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ایسے واقعات پھر نہ ہوں ۔
Load Next Story