خود اعتمادی سے بھرے ہوئے
بارہا یہ ارادہ کیا ہے کہ اب سیاست کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا۔ یہ نچلے درجے کی ایک ایسی مشق ہے کہ ...
بارہا یہ ارادہ کیا ہے کہ اب سیاست کے بکھیڑوں میں نہیں پڑنا۔ یہ نچلے درجے کی ایک ایسی مشق ہے کہ جس پر ماہرانہ گفتگو سبھی کر لیتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جن کی ڈگریاں جمشید دستی بھی چیک کرے تو جعلی قرار دے دے۔ لیکن اب کی بار پھر یہ ارادہ ہوا ہو گیا۔ ''سحر کے وقت استخارہ کر کے توبہ کا عزم کیا۔ مگر توبہ توڑنے والی بہار آ گئی تو کیا کرتا۔''
بعزم توبہ سحر گفتم استخارہ کنم
بہار توبہ شکن می رسد چہ چارہ کنم
چند گھنٹے باقی ہیں پھر اس کے بعد عوام کے کانوں اور رہنماؤں کے گلوں کو آرام مل جائے گا۔ اس کے بعد پیر، فقیر، بابے اور درویش ایکشن میں آ جائیں گے۔ نجومیوں، پتہ پھینکنے والوں اور ہندسے جوڑنے والوں کی موج ہو جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ میں بھی آپ کو کسی بزرگ، کسی درویش کے پاس لے چلوں، لیکن ذرا ٹھہریئے ۔۔۔۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایک دم سے ہمارے لیڈر مولاجٹ کیوں بن گئے ہیں۔ وہ دو منٹ میں ایک دوسرے کی چٹنی بنا ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ ہمالیہ پہ جا بیٹھی ہے اور نیچے اترنے سے انکاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی خود اعتمادی ہم کچھ عرصہ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں تب کینیڈا سے آئے ہوئے قادری صاحب نے جس طرح فرمان جاری کیے تھے اور کنٹینر کے اندر سے نعرہ زن ہوئے تھے اس سے نہ صرف اقتدار کے در و دیوار لرز اٹھے تھے بلکہ میرا دل بھی دہل گیا تھا۔ پھر جانے کیوں انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اور میرے جیسے پرستاروں کو روتا بلکتا چھوڑ کے غائب ہو گئے۔ اب دوبارہ تشریف لائے ہیں تو خود اعتمادی ماشاء اللہ پہلے سے بھی بلند دکھائی دے رہی ہے۔ آپ دیکھیے گا انھوں نے دھرنوں کے ذریعے اس قوم کو پھینٹی لگائے بغیر چھوڑنا نہیں ہے۔
اسی طرح خود اعتمادی سے ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ایک اور صاحب بھی گزشتہ دنوں باہر سے تشریف لائے تھے۔ آنے کے بعد الیکشن کا بائیکاٹ تو انھوں نے بھی کیا ہے لیکن وہ واپس نہیں جا سکے۔ دبوچ لیے گئے۔ اب ان پر کچھ لوگ ترس کھا رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں کہ انھیں ہاتھ لگایا تو آسمان گر پڑے گا۔ زلزلوں کے جھٹکے بھی اسی وجہ سے آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی اب بس اتنی ہی اہمیت ہے کہ میں آج یاد نہ دلاتا تو آپ نے بھول ہی جانا تھا۔ موصوف جب یہاں اقتدار میں لہکتے تھے یا باہر بیٹھے ٹی وی پر جھومتے تھے تو نواز شریف کی سمجھ بوجھ کا بڑی حقارت سے ذکر کرتے تھے۔
اسی نواز شریف نے گزشتہ پانچ برس میں سیاسی کھیل اتنے سلیقے سے کھیلا ہے کہ آج ان کی پارٹی کو ملک کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا جاتا ہے۔ باقی جو بھی ہے وہ اس مقبولیت کے اندر راستے بنانے کی کوشش میں ہے۔
عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کے اندر راستہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ محنت کی ہے۔ اس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگیوں کی غیر ضروری خود اعتمادی ہے۔ وہ ایک عرصے سے اپنے تئیں خود کو ایک جیتی ہوئی جماعت سمجھ رہے تھے اور اقتدار انھیں اپنے سامنے طشتری میں رکھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن عمران خان نے دو ہفتوں کے اندر انھیں تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ اب وہ اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ ان کے خلاف منفی اشتہاری مہم کا بھونچال بھی آیا ہوا ہے۔
اس میں پورا سچ نہیں بولا جا رہا۔ زمان و مکان اور سیاق و سباق سے ہٹ کر کی جانے والی بات محض پروپیگنڈا ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی نرالی ہے کہ اس نے اپنے سارے اسباب اس منفی پبلسٹی میں جھونک دیے ہیں اور اب تحریک انصاف نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات میرے لیے انتہائی خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک خود کو اس منفی سرگرمی سے دور رکھا ہے حالانکہ اس کے پاس پی پی پی اور کپتان کے بارے اس قسم کا اتنا میٹریل موجود ہے کہ دکھا دے تو دماغ پھٹ جائے۔
جہاں تک عمران خان کی خود اعتمادی کی بات ہے تو اس کا عجب عالم ہے۔ پہلے وہ بلا اٹھا کے دوسروں کی پھینٹی لگا رہے تھے اب انھوں نے پھینٹا لگانا شروع کر دیا ہے۔ بلا شرکت غیرے حکومت ہاتھ نہ آئی تو جانے کیسے صدمے سے دوچار ہو جائیں۔ لہٰذا ووٹروں سے درجہ بدرجہ التماس ہے کہ حسب توفیق انھیں ووٹ دے کر رد بلا کا اہتمام کریں۔ شکریہ۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا اطمینان اور سکون ناقابل یقین ہے۔ وہ بڑے مزے مزے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ یوں جیسے ''بھٹے'' بھوننے کے لیے پنکھا جھل رہے ہوں مگر نیچے آگ جلانا بھول گئے ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ کوئی گہری قسم کی حکمت عملی ہو جو فی الحال ہمارے پلے نہیں پڑ رہی لیکن یہ گیارہ مئی کے دن سب کو حیران کر دے گی۔ ایسا ہو گیا تو ٹھیک ورنہ اس خود اعتمادی کا بھانڈا یوں پھوٹے گا کہ جنھیں ہم سیاست میں پی ایچ ڈی سمجھتے تھے ان کی ڈگری چیک کروانی پڑے گی۔
میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ انتخابی مہم ختم ہونے پر اب نجومیوں، بابوں اور درویشوں کے ایکشن کا وقت آئے گا۔ ان سے اچھے اچھے کام کرواتے رہنا چاہیے اور ان کی اچھی اچھی باتیں سنتے رہنا چاہیے۔ آئیے! میں بھی آخر میں آپ کو حسب وعدہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں لیکن مہربانی فرما کر اسے کسی سیاسی رہنما پر فٹ کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں: ''میں نے تین لوگوں سے زیادہ بدنصیب کسی کو نہیں پایا۔ ایک وہ جو پرانا کپڑا پہنے، باوجود اس کے کہ اس کے پاس نیا کپڑا تھا، دوسرا وہ جو بھوکا رہے باوجود اس کے کہ اس کے پاس کھانا ہو۔''
پھر وہ بزرگ چپ ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔کسی نے پوچھا ''تیسرا کون ہے حضرت؟''
بزرگ رونے لگ گئے، خوب روئے، ہچکیاں آنے لگیں اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ بہت دیر کے بعد ہوش آیا اور طبیعت کچھ سنبھلی تو فرمایا ''تیسرا وہ ہے جو صحت اور پیسہ ہونے کے باوجود صرف ایک بیوی پر گزارہ کرے۔''
بعزم توبہ سحر گفتم استخارہ کنم
بہار توبہ شکن می رسد چہ چارہ کنم
چند گھنٹے باقی ہیں پھر اس کے بعد عوام کے کانوں اور رہنماؤں کے گلوں کو آرام مل جائے گا۔ اس کے بعد پیر، فقیر، بابے اور درویش ایکشن میں آ جائیں گے۔ نجومیوں، پتہ پھینکنے والوں اور ہندسے جوڑنے والوں کی موج ہو جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ میں بھی آپ کو کسی بزرگ، کسی درویش کے پاس لے چلوں، لیکن ذرا ٹھہریئے ۔۔۔۔ پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ایک دم سے ہمارے لیڈر مولاجٹ کیوں بن گئے ہیں۔ وہ دو منٹ میں ایک دوسرے کی چٹنی بنا ڈالنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ ہمالیہ پہ جا بیٹھی ہے اور نیچے اترنے سے انکاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی خود اعتمادی ہم کچھ عرصہ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں تب کینیڈا سے آئے ہوئے قادری صاحب نے جس طرح فرمان جاری کیے تھے اور کنٹینر کے اندر سے نعرہ زن ہوئے تھے اس سے نہ صرف اقتدار کے در و دیوار لرز اٹھے تھے بلکہ میرا دل بھی دہل گیا تھا۔ پھر جانے کیوں انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اور میرے جیسے پرستاروں کو روتا بلکتا چھوڑ کے غائب ہو گئے۔ اب دوبارہ تشریف لائے ہیں تو خود اعتمادی ماشاء اللہ پہلے سے بھی بلند دکھائی دے رہی ہے۔ آپ دیکھیے گا انھوں نے دھرنوں کے ذریعے اس قوم کو پھینٹی لگائے بغیر چھوڑنا نہیں ہے۔
اسی طرح خود اعتمادی سے ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے ایک اور صاحب بھی گزشتہ دنوں باہر سے تشریف لائے تھے۔ آنے کے بعد الیکشن کا بائیکاٹ تو انھوں نے بھی کیا ہے لیکن وہ واپس نہیں جا سکے۔ دبوچ لیے گئے۔ اب ان پر کچھ لوگ ترس کھا رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں کہ انھیں ہاتھ لگایا تو آسمان گر پڑے گا۔ زلزلوں کے جھٹکے بھی اسی وجہ سے آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کی اب بس اتنی ہی اہمیت ہے کہ میں آج یاد نہ دلاتا تو آپ نے بھول ہی جانا تھا۔ موصوف جب یہاں اقتدار میں لہکتے تھے یا باہر بیٹھے ٹی وی پر جھومتے تھے تو نواز شریف کی سمجھ بوجھ کا بڑی حقارت سے ذکر کرتے تھے۔
اسی نواز شریف نے گزشتہ پانچ برس میں سیاسی کھیل اتنے سلیقے سے کھیلا ہے کہ آج ان کی پارٹی کو ملک کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا جاتا ہے۔ باقی جو بھی ہے وہ اس مقبولیت کے اندر راستے بنانے کی کوشش میں ہے۔
عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کے اندر راستہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ محنت کی ہے۔ اس میں انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ مسلم لیگیوں کی غیر ضروری خود اعتمادی ہے۔ وہ ایک عرصے سے اپنے تئیں خود کو ایک جیتی ہوئی جماعت سمجھ رہے تھے اور اقتدار انھیں اپنے سامنے طشتری میں رکھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن عمران خان نے دو ہفتوں کے اندر انھیں تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔ اب وہ اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ ان کے خلاف منفی اشتہاری مہم کا بھونچال بھی آیا ہوا ہے۔
اس میں پورا سچ نہیں بولا جا رہا۔ زمان و مکان اور سیاق و سباق سے ہٹ کر کی جانے والی بات محض پروپیگنڈا ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی نرالی ہے کہ اس نے اپنے سارے اسباب اس منفی پبلسٹی میں جھونک دیے ہیں اور اب تحریک انصاف نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات میرے لیے انتہائی خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک خود کو اس منفی سرگرمی سے دور رکھا ہے حالانکہ اس کے پاس پی پی پی اور کپتان کے بارے اس قسم کا اتنا میٹریل موجود ہے کہ دکھا دے تو دماغ پھٹ جائے۔
جہاں تک عمران خان کی خود اعتمادی کی بات ہے تو اس کا عجب عالم ہے۔ پہلے وہ بلا اٹھا کے دوسروں کی پھینٹی لگا رہے تھے اب انھوں نے پھینٹا لگانا شروع کر دیا ہے۔ بلا شرکت غیرے حکومت ہاتھ نہ آئی تو جانے کیسے صدمے سے دوچار ہو جائیں۔ لہٰذا ووٹروں سے درجہ بدرجہ التماس ہے کہ حسب توفیق انھیں ووٹ دے کر رد بلا کا اہتمام کریں۔ شکریہ۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا اطمینان اور سکون ناقابل یقین ہے۔ وہ بڑے مزے مزے سے اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ یوں جیسے ''بھٹے'' بھوننے کے لیے پنکھا جھل رہے ہوں مگر نیچے آگ جلانا بھول گئے ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ کوئی گہری قسم کی حکمت عملی ہو جو فی الحال ہمارے پلے نہیں پڑ رہی لیکن یہ گیارہ مئی کے دن سب کو حیران کر دے گی۔ ایسا ہو گیا تو ٹھیک ورنہ اس خود اعتمادی کا بھانڈا یوں پھوٹے گا کہ جنھیں ہم سیاست میں پی ایچ ڈی سمجھتے تھے ان کی ڈگری چیک کروانی پڑے گی۔
میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ انتخابی مہم ختم ہونے پر اب نجومیوں، بابوں اور درویشوں کے ایکشن کا وقت آئے گا۔ ان سے اچھے اچھے کام کرواتے رہنا چاہیے اور ان کی اچھی اچھی باتیں سنتے رہنا چاہیے۔ آئیے! میں بھی آخر میں آپ کو حسب وعدہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں لیکن مہربانی فرما کر اسے کسی سیاسی رہنما پر فٹ کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں: ''میں نے تین لوگوں سے زیادہ بدنصیب کسی کو نہیں پایا۔ ایک وہ جو پرانا کپڑا پہنے، باوجود اس کے کہ اس کے پاس نیا کپڑا تھا، دوسرا وہ جو بھوکا رہے باوجود اس کے کہ اس کے پاس کھانا ہو۔''
پھر وہ بزرگ چپ ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔کسی نے پوچھا ''تیسرا کون ہے حضرت؟''
بزرگ رونے لگ گئے، خوب روئے، ہچکیاں آنے لگیں اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ بہت دیر کے بعد ہوش آیا اور طبیعت کچھ سنبھلی تو فرمایا ''تیسرا وہ ہے جو صحت اور پیسہ ہونے کے باوجود صرف ایک بیوی پر گزارہ کرے۔''